پاکستان میں کورونا وائرس سے بھی خطرناک بیماری داخل ہوگئی، اب تک کتنے کیسز سامنے آگئے؟ جانیں

ہماری ویب  |  Jul 09, 2020

تفصیلات کے مطابق نے ایک نجی چینل نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ کورونا سے بھی زیادہ خطرناک بیماری پاکستان میں داخل ہو گئی ہے، جس کا نام کاواساکی ہے اور اس نے بچوں کو متاثر کرنا شروع کر دیا ہے، ملک کے چار بڑے شہروں کے اسپتالوں میں اس مرض میں مبتلا بچے زیر علاج ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ مذکورہ بیماری پانچ سال سے 19 سال کے بچوں میں پیدا ہوتی ہے یہ” پوسٹ کووڈ ڈیزیز “ہے، وہ بچے جو کورونا سے صحت یاب ہو جاتے ہیں ان کو دو سے چھ ہفتوں کے دوران علامات ظاہر ہوتی ہیں جس میں جسم پر ریشز، آنکھوں میں سرخی، بخار اور گلینڈز پھول جاتے ہیں۔ اور اس کا تشخیصی ٹیسٹ اینٹی باڈیز کا ٹیسٹ ہوتا ہے۔ جبکہ اینٹی باڈیز کے ٹیسٹ سے معلوم ہوا ہے کہ یہ بچہ کووڈ انیس سے صحتیاب یوگیا ہے ۔

اس بیماری سے متعلق نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر شاہد ملک کا کہنا تھا کہ یہ ایک بیماری ہے، ایک کمپلیکشنز ہے، اس میں مبتلا بچے کی زبان دس دن کے اندر موٹی ہو جاتی ہے، یہ بہت ہی کم پائی جانے والی بیماری ہے، اگر کسی بچے کو ہو جائے تو اس کی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہو جاتے ہیں اور انتقال بھی ہو سکتا ہے ۔

بچوں کے خصوصی ڈاکٹر ہارون حامد کا کہنا تھا کہ فی الحال پاکستان میں اس کے کیسز کم ہیں، لاک ڈاون کے باعث بچوں کا ایکسپوژر کم ہوا ہے۔ چلڈرن اسپتال لاہور میں بھی کچھ مریض داخل ہوئے ہیں اور میو ہسپتال میں بھی ایک دو بچے داخل ہوئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس کے بعد یہ بیماری ضرور ہوتی ہے لیکن یہ بات سمجھنے کی ہے کہ ہر مرتبہ بچوں کے اندر کورونا انفیکشن کی علامات نہیں آتیں، بہت بار ایسا ہوتا ہے کہ بچوں کو کورونا وائرس کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں لیکن اس کے اہلخانہ میں سے کچھ لوگوں کو ہوتا ہے اور پھر اس کے دو سے تین ہفتے کے بعد اس کو کاواساکی ڈیزیز سے ملتی جلتی علامات آنا شروع ہو جاتی ہیں یا” ملٹی سسٹمز انفلیمیٹری سنڈروم“ کی آنی شروع ہوجاتی ہیں۔

کاواساکی بیماری کے اندر بخار کے علاوہ بچوں کی آنکھیں سرخ ہوجاتی ہیں، زبان کی سرخی، ہاتھوں سے سکن اترنے لگ جاتی ہے اور اس کے ساتھ کبھی کبھار جوڑوں کا درد بھی ہوسکتا ہے۔ جیسے کہا گیا کہ یہ بہت ریئر ہے 8فیصد سے بھی کم بچوں میں ایسا ہوتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ شرح موت ہونے کے چانس بہت زیادہ ہیں، اس لیے اس پر نظر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More