’گوچی بیگ دیکھ کر لوگ جال میں پھنستے ہیں‘، راتوں رات امیر ہونے کے خواب دکھانے والی جعلی سکیم

بی بی سی اردو  |  Jan 27, 2023

انڈیا میں مالی جرائم کے ادارے نے 'کیو نیٹ‘ نامی ایک ڈائریکٹ سیلنگ کمپنی (ایسی کمپنی جو براہ راست صارفین کو اشیا فروخت کرتی ہو) پر ’معصوم سرمایہ کاروں کی ایک بڑی تعداد‘ سے جعلسازی کرنے کا الزام لگایا ہے۔

بی بی سی نے اس سکیم کے متاثرین اور سماجی کارکنان سے بات کی ہے جن کا کہنا ہے کہ کیو نیٹ کے ایجنٹ ان سے جھوٹے وعدے اور راتوں رات امیر ہونے کا جھانسہ دے کر انھیں آگے بیچنے کے لیے اپنی پروڈکٹس بیچتے رہے۔

انڈیا کے حکومتی ادارے انفورسمینٹ ڈائریکٹوریٹ نے گذشتہ ہفتے کی پریس ریلیز میں بتایا کہ اس سکیم کا حصہ بن کر بظاہر اپنا خود کا کاروبار شروع کرنے کے لیے سرمایہ دینے والوں کو یہ نہیں بتایا جاتا تھا کہ ان کا پیسہ شیل کمپنیوں (ایسی کمپنیاں جو صرف کاغذ پر موجود ہوں) میں ڈالا جا رہا ہے۔

ادارے کا کہنا ہے کہ تحقیقات کی تکمیل تک کیو نیٹ کے 36 بینک اکاؤنٹ منجمد کیے گئے ہیں۔

ملٹی لیول مارکیٹنگ سکیمز (ایم ایل ایمز) میں لوگوں کو سٹاک (ڈائٹ سپلیمنٹس سے لے کر صفائی کے سامان تک ہر قسم کی اشیا) خرید کر پیسے کمانے کی پیشکش کی جاتی ہے۔ لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ وہ بڑے پیمانے پر خریداری کر کے یہ اشیا آگے بیچ سکتے ہیں۔

تاہم کچھ سکیموں میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس کام میں الجھا کر کمپنیاں پیسے بنا لیتی ہیں اور صارفین کے لیے خود پیسے بنانا مشکل ہوجاتا ہے کیونکہ ان اشیا کا کوئی خریدار نہیں ہوتا۔

ایسی صورت میں منافع صرف اسی وقت ممکن ہوتا ہے جب مزید نئے لوگوں کو سکیم بیچی جائے۔ اوپر کی سطح پر تو لوگ پیسے بنا لیتے ہیں مگر نچلی سطح پر تمام تر یقین دہانیوں کے باوجود لوگ نقصان میں رہتے ہیں۔

انڈیا میں ایسے ایم ایل ایمز کے خلاف قوانین موجود ہیں مگر ان پر عملدرآمد مشکل ثابت ہوتا ہے۔

اس طرح کی ’پیرامِڈ‘ سکیم میں نچلی سطح پر کام کرنے والے ایجنٹوں کے پاس بس یہی طریقہ بچتا ہے کہ وہ مزید لوگوں کو اس سکیم میں شامل کر کے منافع کمائیں۔ اور ایسے میں یہ ایجنٹ ہر حد پار کر جانے کو تیار ہوجاتے ہیں۔

’آپ کی زندگی میں یہ کیسے ہو رہا ہے؟‘Getty Images

جنوبی انڈیا کے شہر حیدرآباد کی ریا بھی اس تجربے سے گزری ہیں۔

2019 میں والد کی جوتوں کی دکان بند ہونے کے بعد انھیں اپنے خاندان کی کفالت کرنا تھی۔ پھر انھیں فیس بک پر پیغام موصول ہوا جس میں ایک شخص نے خود کو ان کی سکول کی ایک بااعتماد سہیلی کا دوست بتایا اور کاروباری مواقع کی پیشکش کی۔

انھوں نے قرض لے کر خود کو کیو نیٹ کی سکیم میں بھرتی کر لیا مگر یہ واضح ہوگیا کہ اشیا کی فروخت کاروبار کا حتمی مقصد نہیں۔ انھیں مزید لوگ لانے کا کہا گیا، پہلے خاندان سے، پھر دوست اور یہاں تک کہ سوشل میڈیا اور ڈیٹنگ ایپس پر سے۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’وہ چاہتے تھے کہ میں اپنی کونٹیکٹ لسٹ میں سے ہر کسی کا نام لکھ دوں۔ میں نے پوچھا کیوں تو انھوں نے فوراً کہا کہ اگر آپ کو اشیا بیچنی ہے تو پہلے اپنا نیٹ ورک بنانا ہوگا۔‘

پھر انھیں یاد آیا کہ شاید وہ بھی اپنے سکول کی سہیلی کی فرنٹ لسٹ میں ہوں گی، جس کی وجہ سے انھیں یہ پیشکش کی گئی۔ ’انھوں نے کہا کہ آپ کو مردوں کو اپنی طرف متوجہ کرنا ہوگا۔ میرے لیے یہ ریڈ فلیگ (تنبیہ) تھی۔ میں نے اس پر سوال پوچھنا شروع کر دیے۔ میں نے پوچھا میں بمبل اور ٹِنڈر پر یہ پیغام کیوں پھیلاؤں؟‘

ریا کہتی ہیں کہ انھیں اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس میں تبدیلیاں لانے کا کہا گیا تھا۔ جیسے ادھار پر لی گئی لگژری اشیا کے ساتھ فوٹو شوٹ لگانا جسے وہ اصل زندگی میں تو نہیں خرید سکتی تھیں مگر اس سے وہ سوشل میڈیا پر مالی طور پر مستحکم ہونے کا ڈرامہ رچا سکتی تھیں۔

’جب آپ گوچی کا بیگ پہننا شروع کر دیں تو لوگ پوچھنے لگتے ہیں ’آپ کی زندگی میں یہ کیسے ہو رہا ہے؟‘ پھر آپ ان سے گفتگو شروع کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ میں نے ایک کاروبار جوائن کیا ہے جس میں بڑا منافع ملتا ہے۔‘

’شرمندہ تھا اس لیے کسی سے بات نہیں کر پاتا تھا‘

راگ ایک آئی ٹی ورکر ہیں اور وہ بھی اس طرح کی جعلسازی میں پھنس چکے ہیں۔ جب وہ کیو نیٹ میں شامل ہوئے تو انھیں بھی اسی طرح کے جھوٹ بولنے کی تربیت دی گئی۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’ایک شخص کے پاس ٹیگ ہویر (گھڑیوں کا لگژری سوئس برانڈ) یا ایسی کوئی مہنگی گھڑی تھی۔ انھوں نے مجھ سے کہا کہ اپنی کلائی پر یہ گھڑی لگا کر تصویر بنوائیں۔ اب لوگوں کو لگتا ہے کہ میرے پاس ٹیگ ہویر یا رولیکس کی گھڑی ہے۔‘

انھوں نے اسی طرح کے مناظر انسٹاگرام پر اپنے ایک دوست کے اکاؤنٹ پر دیکھا تھا جو انھیں اس کمپنی میں لائے تھے۔ راگ کو شرمندگی ہوئی کہ ان سے جعلسازی کی گئی جس سے انھوں نے اپنے بچائے ہوئے پیسے کھو دیے۔

مایوسی میں وہ صحیح سے کھا نہیں پاتے تھے اور اپنے والدین، بہن بھائیوں اور دوستوں سے بات نہیں کر پاتے تھے۔ ’میں اپنے کیے پر شرمندہ تھا اس لیے کسی سے بات نہیں کر پاتا تھا۔‘

راگ کہتے ہیں کہ وہ اس نہج پر پہنچ گئے تھے کہ انھوں نے خودکشی کرنے کے بارے میں بھی سوچا۔

یہ بھی پڑھیے

’وہ قرض دہندگان کو ڈراتے دھمکاتے ہیں‘: پاکستان میں عام افراد کیسے ڈیجیٹل قرضوں کے پھندے میں پھنستے ہیں؟

محفوظ سرمایہ کاری: پاکستان میں ’ڈبل شاہ‘ جیسی پونزی سکیموں سے کیسے بچا جائے؟

ذہنی صحت: اگر کوئی کہے ’میں خودکشی کرنا چاہتا ہوں‘ تو آپ کو کیا کرنا چاہیے؟

’آپ کسی چیز کے قابل نہیں، جائیں مر جائیں‘

ماہرین کا کہنا ہے کہ ایم ایل ایمز جیسی سکیمز کو چلانے والے ایسی سوچ کو فروغ دیتے ہیں جو کسی کلٹ یا ایک خاص عقیدے یا شخص کے لیے وفاداری رکھنے والے گروہ کی ہوتی ہے۔ اس میں بڑی میٹنگز ہوتی ہیں، لوگ نعرے لگاتے ہیں اور زیادہ لوگ جمع کر کے اپنی کارکردگی کا جشن مناتے ہیں۔

اس میں شامل لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ اپنے خاندان اور دوستوں سے زیادہ سکیم کے ایجنٹ سے وفاداری نبھائیں۔ اگر وہ اس پر سوال اٹھاتے ہیں یا اسے چھوڑنے کی بات کرتے ہیں تو ان کے ساتھ سخت رویہ اپنایا جاتا ہے۔

ریا بتاتی ہیں کہ واٹس ایپ گروپس میں سینکڑوں لوگ جمع ہوتے تھے اور اگر کوئی کسی چیز پر سوال اٹھاتا تھا تو سینیئر ایجنٹ مل کر اسے بے عزت کرتے تھے۔ ’وہ آپ کا نام لے کر کہتے تھے کہ آپ کسی چیز کے قابل نہیں، جائیں مر جائیں۔‘

ان حالات میں وہ ذہنی اذیت میں مبتلا رہیں اور ڈر کے مارے کام پر توجہ نہیں دے پاتی تھیں۔ اس ڈپریشن سے باہر نکلنے میں انھیں ایک سال تک کا عرصہ لگا۔

انڈین حکام نے کیو نیٹ کو ’پونزی سکیم‘ قرار دیا ہے اور اس کے خلاف مقدمات درج کر کے کارروائی کی کوشش کی ہے تاہم یہ کیسز اب تک اپنے منتقی انجام کو نہیں پہنچ پائے ہیں۔

کمپنی نے ماضی میں ان الزامات کی تردید کی ہے۔ منی لانڈرنگ اور ایجنٹس کے رویے سے متعلق سوالات پر کمپنی نے کوئی جواب نہیں دیا ہے۔

حیدر آباد کے پولیس افسر وی سی ساجنار کے مطابق ایم ایل ایمز جیسی جعلی سکیمز میں کچھ نیا نہیں لیکن عالمی وبا کے دوران انھوں نے لوگوں کی زندگیوں کو بڑی تیزی سے نقصان پہنچایا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اس سے پہلے بھی وہ میٹنگز کرایا کرتے تھے مگر کووڈ کی وجہ سے سب آن لائن ہوگیا۔ ہمیں اب یہ بھی نہیں معلوم ہوتا کہ میٹنگ کہاں ہو رہی ہے۔ ان کے گروپس خفیہ انداز میں کام کرتے ہیں۔‘

ریا نے بتایا کہ وہ واٹس ایپ اور زوم کے ذریعے کیو نیٹ کے ایجنٹوں کے ساتھ رابطے میں رہتی تھیں لہذا ان کے لیے سکیم کی اصلیت جاننا مزید مشکل ہوگیا تھا۔ اپنے مالی حالات کی وجہ سے ان کے لیے اس سکیم پر اعتماد کرنا آسان اور اس اس پر عمل تیز ہو گیا تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’وہ ایسے لوگوں کو ہدف بناتے ہیں جو کمزور اور ضرورت مند ہیں، جو کہ پہلے ہی مشکل میں ہیں۔‘

’اگر آپ اچھی زندگی گزار رہے ہیں، اچھے پیسے بنا رہے ہیں اور اپنے حالات سے مطمئن ہیں تو کوئی بھی آپ سے اس طرح کے کام کے لیے رابطہ نہیں کرتا۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More