وہ ڈاکٹر جنھوں نے مریضوں کا پاخانہ کھا کر ثابت کیا کہ اُن کی بیماری کی وجہ جراثیم نہیں

بی بی سی اردو  |  Jan 31, 2023

BBC

آج ہم سب غذائیت کے بارے میں نہایت فکرمند رہتے ہیں مگر ایک طویل عرصے تک طبی سائنس کی اس جانب کوئی توجہ ہی نہیں تھی۔

یہ حیران کن بات ہے مگر سچ یہی ہے کہ غذا اور صحت کے درمیان تعلق پر تحقیق انتہائی سست تھی اور زیادہ تر معلومات ان ڈاکٹرز کی بدولت حاصل ہوتیں جو اپنی جان خطرے میں ڈال کر خود پر تجربات کیا کرتے تھے۔ 

نیویارک کے ایک یہودی ڈاکٹر جوزف گولڈبرگر بھی اُن میں شامل ہیں جو سنہ 1914 میں امریکہ کی ایک انتہائی جنوبی ریاست میں آ بسے۔ 

وہاں پر ڈاکٹر جوزف گولڈبرگر نے اپنی ذہانت سے ایک ایسی طبی پہیلی حل کی جس کے باعث ہزاروں جانیں بچ پائیں اور پہلی مرتبہ حکومتوں کو لوگوں کی غذاؤں میں مداخلت کرنے پر مجبور کیا۔ 

اُنھیں امریکہ کے سرجن جنرل نے ملک کی جنوبی ریاستوں میں پھیلی ایک وبا کے متعلق تحقیقات کے لیے بھیجا تھا۔ 

’پیلاگرا‘ ایک نہایت خوفناک بیماری ہے۔ شروعات میں یہ ہاتھوں کی پشت پر دھوپ سے جھلسنے جیسے نشانات پیدا کرتی ہے۔ اس کے بعد چہرے پر تتلی کی شکل کا ایک زخم سا پیدا ہونے لگتا ہے۔ اس کے بعد ڈپریشن، کنفیوژن اور یادداشت میں کمزوری سامنے آنے لگتی ہے۔ اور 40 فیصد کیسز میں مریض کی موت ہو جاتی ہے۔ 

اس کی وجہ سے ہر سال ہزاروں امریکی ہلاک ہو رہے تھے اور دسیوں ہزار مزید بیمار ہو رہے تھے۔ 

گولڈبرگر کا مشن اس بیماری کی وجہ تلاش کرنا تھا۔ 

ایک اہم باریکی 

یہ بیماری کہیں باہر سے نہیں آئی تھی اور جن گھروں میں ایک شخص کو یہ بیماری تھی وہاں دوسرے فرد کو یہ بیماری لاحق ہونے کا امکان 80 فیصد تک تھا۔ 

اسے انتہائی تیزی سے پھیلنے والی بیماری تصور کیا جاتا تھا اور اس کے شکار لوگوں کے ساتھ جذام کے مرض میں مبتلا مریضوں جیسا سلوک کیا جاتا تھا۔ 

گولڈبرگر کی پشت پر سرجن جنرل تھے مگر تارکینِ وطن کے بیٹے کے طور پر اُنھوں نے خود کو ہمیشہ باہر سے آنے والے ایک نئے شخص کی طرح ہی تصور کیا تھا۔

کتاب ’گولڈبرگرز وار‘ کے مصنف ڈاکٹر ایلن کراٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اپنی پوری زندگی میں جوزف گولڈبرگر امریکی مغرب اور مغربی افراد سے نہایت متاثر رہے۔ اور ان کا زیادہ تر طبی تحقیقی کام اور اس وبا کے خلاف ان کی جنگ دراصل ایک مہم جُو بننے کی اُن کی خواہش کا ایک اور روپ تھا جو کچھ قابلِ قدر حاصل کرنا چاہتی تھی۔‘

گولڈبرگر کے نواسے ڈاکٹر ڈان شارپ نے بتایا کہ ’وہ کچھ حد تک خود کو ایک تنہا شکاری کے طور پر دیکھتے جس کے پاس صرف سائنسی گولیاں تھیں۔‘

 گولڈبرگر نے امریکہ کی جنوبی ریاستوں کا دورہ کیا اور جیلوں، یتیم خانوں اور نرسنگ ہومز میں جا جا کر اس بیماری کے بارے میں معلومات حاصل کرتے رہے۔ 

اور وہاں اُنھوں نے ایک حیران کُن بات دیکھی کہ پیلاگرا سے قیدی تو متاثر ہو رہے تھے مگر جیل کا سٹاف نہیں۔ 

چنانچہ جہاں ان کے زیادہ تر ساتھیوں کی رائے یہ تھی کہ یہ ایک متعدی بیماری ہے، وہیں اُنھیں یہ احساس ہوا کہ ایسا نہیں ہے بلکہ معاملہ کچھ اور ہے۔ 

جلد ہی وہ اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ خوراک میں کوئی چیز ایسی ہے جو پیلاگرا کی وجہ بن رہی ہے۔ 

مگر گولڈبرگر جانتے تھے کہ شمالی خطے سے تعلق رکھنے والے شخص کے طور پر اگر اُنھوں نے جنوبی ریاستوں کی خوراک پر تنقید کی تو کوئی ان کی بات نہیں سُنے گا۔ 

ڈاکٹر ایلن کراٹ کہتے ہیں کہ ’اُنھیں ثبوتوں کی ضرورت تھی تاکہ سائنسدان ان کے اس نتیجے کی حمایت کریں کہ پیلاگرا درحقیقت بیماری نہیں بلکہ خوراک سے متعلقہ کوئی بیماری ہے۔‘ 

چنانچہ اُنھوں نے ایک انتہائی متنازع تجربہ کرنے کا سوچا۔ 

BBC

اُنھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ 12 مکمل طور پر صحتمند مردوں کو پیلاگرا لگائیں گے۔ 

اور یہ ’رضاکار‘ ریاست مِسیسیپی کی ایک جیل کے قیدی تھے۔ 

تب زیادہ تر لوگ بالخصوص غریب افراد صرف ایک ہی چیز کھاتے تھے جسے جنوبی سوغات سمجھا جاتا تھا۔ لارڈو یا فیٹ بیک کہلانے والی یہ غذا سور کی چربی، اجناس اور مولیسز یعنی شیرے سے بنتی ہے۔ 

ڈاکٹر ڈان شارپ نے بتایا کہ ’قیدیوں کو بس تازہ گوشت، انڈوں اور سبزیوں کے بجائے بس یہی کچھ کھانا تھا۔‘ 

’شروع میں تو ان لوگوں کو لگا کہ یہ بہت ہی زبردست ہے مگر چھ ماہ بعد تمام قیدیوں میں پیلاگرا کی علامات ظاہر ہونی شروع ہو گئیں، سو گولڈبرگر نے یہ تجربہ ختم کر دیا۔ 

اب وہ پوری طرح اس بات پر قائل تھے کہ نامناسب خوراک ہی پیلاگرا کی وجہ ہے۔ 

مگر سائنسی برادری اب بھی اُن سے متفق نہیں تھی۔ 

 ڈاکٹر ایلن کراٹ نے کہا کہ ’اُنھوں نے ان کے طریقہ کار اور نتائج پر تنقید کی اور کہا کہ گولڈبرگر نے جو دکھایا ہے، وہ درحقیقت جراثیم سے پھیلنے والی ہی بیماری ہے مگر اُنھیں جراثیم نہیں ملے ہیں۔‘ 

گولڈبرگر سیخ پا ہو گئے۔ اُنھوں نے اپنے ناقدین کو خاموش کروانے اور اپنی بات کو شکوک و شبہات سے بالاتر ثابت کرنے کے لیے ایک ایسی چیز کرنے کا فیصلہ کیا جو اس سے بھی زیادہ متنازع تھی، یعنی خود پر تجربہ کرنا۔ 

اُنھوں نے لکھا: ’میں نے کسی قسم کی پابندی نہیں لگائیں۔ ’قدرتی انفیکشن‘ کو روکنے کے لیے کوئی کوشش نہیں کی گئی تھی۔‘ 

سب سے پہلے تو وہ ایک مقامی پیلاگرا ہسپتال گئے اور وہاں اُنھوں نے ایک سویب لے کر مریضوں کی ناکوں سے نزلہ اکٹھا کر کے اپنی ناک میں ڈال لیا۔ 

اُنھوں نے لکھا: ’نمونے اکٹھے کرنے اور انھیں اپنے اندر ڈالنے کے درمیان دو گھنٹے سے بھی کم کا وقفہ تھا۔ ویسے شاید یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ناک میں ڈالا گیا کچھ نزلہ بالآخر نگلا بھی گیا ہو گا۔‘ 

اس کے بعد اُنھوں نے پیشاب، جلد کے نمونے، اور پاخانہ اکٹھا کیا۔ 

اُنھوں نے لکھا: ’جس مریض نے مجھے پاخانہ فراہم کیا اسے سخت دورے پڑ رہے تھے اور وہ دن میں چار مرتبہ پانی جیسا پاخانہ کیا کرتا۔‘ 

ڈاکٹر گولڈبرگر نے یہ تمام اجزا گندم کے آٹے کے ساتھ ملا کر ایک گولی بنائی اور نگل گئے۔ 

ڈاکٹر ایلن کراٹ کہتے ہیں کہ ’کسی کی جلد اور پاخانہ نگلنے کا سوچ کر ہی طبعیت خراب ہونے لگتی ہے۔‘ 

یہ بھی پڑھیے

دنیا کے چار پُراسرار اور دلچسپ مقامات جہاں داخلے پر مستقل پابندی ہے

موت کا شعوری تجربہ کرنے والے لوگ جنھیں ’جسم میں واپس لوٹنے کا احساس ہوا‘

میری کیوری: نوبیل انعام یافتہ خاتون سائنسدان جن کی نوٹ بکس کو آئندہ ڈیڑھ صدی تک بغیر حفاظتی اقدامات کے نہیں چھوا جا سکتا

ڈاکٹر شارپ کہتے ہیں: ’ہم خاندان کے لوگ اسے ہمیشہ ناقابلِ یقین سمجھتے ہیں کہ کیسے وہ خود کو اس طرح خطرے میں ڈال سکتے تھے۔ اکثر جب ہم اس بارے میں اپنے خاندان اور دوستوں کے ساتھ بات کرتے ہیں تو ہم ہکے بکے رہ جاتے ہیں۔‘ 

گولڈبرگر نے اپنے ساتھیوں کو بھی ان تجربات میں شامل ہونے کے لیے کہا جنھیں وہ ’گندگی کی پارٹیاں‘ کہا کرتے تھے۔

اور اگر پاخانہ اور پیشاب کافی نہیں تھا تو ڈاکٹر گولڈبرگر کے پاس ان کے لیے ایک آخری سرپرائز بھی تھا: خون۔ 

اُنھوں نے ایک مریض سے کچھ خون اکٹھا کیا اور اپنے تمام رضاکاروں بشمول اپنی اہلیہ میری کو لگا دیا۔ 

ڈاکٹر شارپ کہتے ہیں: ’مجھے لگتا ہے کہ میری نانی کچھ بھی کر کے ان ناقدین کو چپ کروانا چاہتی تھیں۔‘ 

میری کہتی ہیں: ’مردوں نے مجھے یہ گولیاں نگلنے کی اجازت نہیں دی مگر اُنھوں نے مجھے پیلاگرا سے مرتی ہوئی ایک خاتون کے خون کا انجیکشن پیٹ میں لگا دیا۔‘ 

اس سوئی کے ذریعے کسی بھی طرح کے جراثیم ان کے جسم میں داخل ہو سکتے تھے۔ 

میری نے کہا: ’یہ بھروسہ تھا، مجھے بہادری کی ضرورت نہیں تھی۔‘ 

میری کا بھروسہ رنگ لایا اور کوئی بھی رضاکار بیمار نہیں پڑا۔ 

ڈاکٹر شارپ نے کہا: ’میرے نانا بہت پُرجوش اور بہت خوش تھے کہ گندگی کی پارٹیوں میں شامل ہونے والا کوئی بھی شخص معمولی ڈائریا کے علاوہ کسی بیماری کا شکار نہیں ہوا تھا۔‘ 

اور پیلاگرا تو کسی کو بھی نہیں ہوا تھا۔ 

BBC

گولڈبرگر کو لگا کہ اُنھوں نے یہ کر دکھایا ہے۔ ان کے پاس یہ ثابت کرنے کے لیے تمام ثبوت تھے کہ پیلاگرا متعدی بیماری نہیں تھی۔ یہ جنوبی خطے کی خوراک میں کسی اہم عنصر کی کمی کی وجہ سے ہو رہی تھی۔ 

ان کا کیس بالکل بلٹ پروف بن چکا تھا اور اب عوام میں جانے اور داد سمیٹنے کا وقت تھا۔ 

مگر اُنھیں جنوبی عوام کی جانب سے سخت اور پر تشدد تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

ڈاکٹر ڈان شارپ کہتے ہیں کہ ’ہم کبھی نہیں جان پائیں گے کہ کیا یہ اس وجہ سے تھا کہ وہ یہودی تھے، نیو یارک کے تھے، یا ایک وفاقی ملازم تھے، یا صرف ان کی باتوں کی وجہ سے تھا۔‘ 

گولڈبرگر کو احساس ہو گیا کہ وہ تب تک ڈاکٹروں کو یقین نہیں دلا سکیں گے کہ پیلاگرا خوراک میں کسی چیز کی کمی کی وجہ سے ہو رہا ہے جب تک کہ وہ ایک سستا اور سادہ علاج نہیں تلاش کر لیتے۔ 

سنہ 1923 میں گولڈبرگر کو بالآخر وہ چیز مل گئی جس کی اُنھیں تلاش تھی۔ اور یہ دریافت بھی ایک دلچسپ انداز میں ہوئی۔ 

وہ کتوں کو جنوبی خوراک کھلا کر اُنھیں پیلاگرا سے متاثر کرنے کا تجربہ کر رہے تھے مگر مسئلہ یہ تھا کہ کتے وہ کھانا نہیں کھانا چاہتے تھے۔ 

چنانچہ اُنھوں نے ان کی خوراک میں ایسی چیز شامل کی جسے اُنھوں نے ’بھوک لگانے والی‘ قرار دیا۔ 

کئی ماہ گزر گئے مگر کتے اب بھی صحتمند تھے۔ گولڈبرگر نے بالآخر جانا کہ یہ بھوک لگانے والی چیز اُنھیں محفوظ رکھے ہوئے تھی۔ شاید یہی وہ چیز تھی جس کی اُنھیں برسوں سے تلاش تھی۔ 

اور یہ ہے وہ چیز۔ یہ کوئی گوشت، کوئی سبزی، کوئی منرل نہیں ہے بلکہ صرف خمیر ہے۔ 

Getty Images

سنہ 1927 میں گولڈبرگر کا وقت بالآخر آ ہی گیا۔ سیلابوں کے بعد پیلاگرا مزید پھیلنے لگا۔ گولڈبرگر نے پناہ گزینوں کو خمیر فراہم کیا۔ 

حیران کن بات تھی کہ روزانہ چند چائے کے چمچ کھا کر ہی لوگ ٹھیک ہونے لگے۔ 

آخرِ کار گولڈبرگر کو ہیرو مان لیا گیا۔ 

برسوں بعد ایک کیمسٹ نے خمیر سے وہ چیز نکالی جو پیلاگرا کو روکنے میں مدد دیتی ہے۔ یہ نیاسین نامی ایک وٹامن ہے۔ 

BBC

امریکی حکومت نے آٹا چکیوں کو حکم دیا کہ وہ آٹے میں نیاسین شامل کریں۔ دیگر ممالک نے بھی اس کی پیروی کی اور پیلاگرا جلد ہی ایک ماضی کی بیماری بن گئی۔ 

اب ہم جانتے ہیں کہ نیاسین صحتمند جلد، نظامِ انہضام اور اعصابی نظام کے لیے ضروری ہے۔ 

گولڈبرگر نے خوراک اور صحت کے درمیان ایک قریبی تعلق ثابت کر دیا تھا۔ ہماری خوراک اور طرزِ زندگی کا ہماری بیماریوں سے براہِ راست تعلق ہے اور ڈاکٹر جوزف گولڈبرگر دنیا کو یہی سمجھانا چاہتے تھے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More