ٹیریئن وائٹ کیس میں عمران خان کا جواب: ’عوامی عہدہ چھوڑنے کے بعد ایسی درخواست دائر نہیں ہوسکتی‘

بی بی سی اردو  |  Feb 01, 2023

Getty Images

سابق وزیر اعظم عمران خان نے اپنی مبینہ بیٹی ٹیریئن وائٹ کو کاغذات نامزدگی میں ظاہر نہ کرنے پر ان کی نااہلیسے متعلق دائر درخواست پر اپنا عبوری جواب اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کروایا ہے۔

بدھ کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کروائے گئے جواب میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ ٹیریئن سے متعلق ڈیکلریشن کے جائزے کا آئینی دائرہ اختیار نہیں رکھتی اور اس نوعیت کا معاملہ متعلقہ فورم پر قابل سماعت ہو سکتا ہے۔

عمران خان کی طرف سے جمع کروائے گئے اس جواب میں کہا گیا ہے کہ ماضی میں بھی جب اس قسم کی درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی گئی تھی تو اس وقت کے چیف جسٹس اطہر من اللہ اور موجودہ چیف جسٹس عامر فاروق اس نوعیت کا کیس سننے سے انکار کر چکے ہیں۔

اس جواب میں کہا گیا ہے کہ یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ اگر ایک بار جج کیس سننے سے انکار کر دے تو دوبارہ کسی جج کا یہ کیس سننا غیر مناسب ہے۔

سابق وزیر اعطم کی طرف سے جمع کروائے گئے جواب میں کہا گیا ہے کہ ’چونکہ اب وہ رکن قومی اسمبلی نہیں رہے اس لیے یہ درخواست قابل سماعت نہیں ہے لہذا عدالت اس درخواست کو مسترد کرے۔‘

اس جواب میں عمران خان نے سابق رکن قومی اسمبلی فیصل واووڈا کی طرف سے دہری شہریت چھپانے کے معاملے پر سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’جب کوئی شخص عوامی عہدہ رکھتا ہو تو اس وقت ہی اس کے خلاف کوئی درخواست دائر کی جاسکتی ہے اور اگر کوئی شخص عوامی عہدہ چھوڑ دے تو اس کے خلاف اس قسم کی درخواست دائر نہیں کی جاسکتی۔‘

واضح رہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان نے بطور رکن قومی اسمبلی اپنے عہدے سے استعفی دے دیا تھا تاہم ضمنی انتخابات میں انھوں نے قومی اسمبلی کے سات حلقوں سے کامیابی حاصل کی تھی اور الیکشن کمیشن ان کی کامیابی کا نوٹیفکیشن بھی جاری کرچکی ہے۔

عمران خان نے اپنے جواب میں اسلام آباد ہائی کورٹ کی طرف سے 21 جنوری 2019 میں ایک درخواست گزار حافظ احتشام کی طرف سے دائر کی گئی درخواست پر آنے والے فیصلے کا بھی حوالہ دیا جس میں کہا گیا تھا کہ درخواست گزار چاہتا ہے کہ عمران خان کی نجی زندگی کے معاملات کی تحقیقات کروائی جائیں اور اگر عمران خان اپنی مبینہ بیٹی کے والد قرار پائیں تو انھیں حقائق چھپانے کا الزام ثابت ہونے پر نااہل کیا جائے۔

اس فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’اگر عدالت اس معاملے میں جاتی ہے تو اس سے نہ صرف اس لڑکی کے حقوق متاثر ہوں گے بلکہ عمران خان جس حلقے سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے ہیں ان کے ووٹرز کے حقوق بھی متاثر ہوں گے۔‘

عمران خان کی نااہلی سے متعلق دائر کی جانے والی درخواست کی اب تک سات سے زیادہ سماعتیں ہوچکی ہیں تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کرسکی کہ یہ درخواست قابل سماعت ہے بھی یا نہیں۔

کیا یہ کیس عمران خان کے لیے مشکلات کھڑی کر سکتا ہے؟

عدالتی سماعتوں کے بیچ یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال اور عمران خان کی حکومت مخالف مہم کے عروج پر اس معاملے کو ازسر نو کیوں اٹھایا جا رہا ہے؟

سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل عابد ساقی کا کہنا ہے کہ اس کیس میں بظاہر قانونی پچیدگیاں کم اور سیاسی پچیدگیاں زیادہ ہیں۔ انھوں نے الزام عائد کیا کہ ’بدقسمتی سے سیاسی مقاصدقانون کی آڑ میں حاصل کیے جانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔‘

عابد ساقی کا کہنا تھا کہ عمومی طور پر ایسی باتیں عدالتوں میں نہیں آنی چاہییں اور نہ ہی عدالتوں کو ذاتی معاملات میں پڑنا چاہیے کیونکہ اس قسم کی درخواستوں کو سماعت کے لیے مقرر کرنا خود عدالتوں کے لیے بھی نیک نامی نہیں لے کر آتا۔

صحافی اور تجزیہ نگار مظہر عباس کا کہنا ہے کہ ’ملک میں جاری سیاسی تناؤ میں ہو سکتا ہے کہ عمران خان اس معاملے میں نااہل ہو جائیں لیکن انھیں سیاسی طور پر کسی طور ختم نہیں کیا جا سکتا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’انتظامی اور عدالتی فیصلوں سے تو ہو سکتا ہے کہ اس کا کوئی سیاسی فائدہ اٹھایا جائے لیکن عمران خان کے حمایتی اس فیصلے کو کبھی تسلیم نہیں کریں گے۔‘

مظہر عباس کا کہنا تھا کہ ’جس طرح سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو نااہل کیا گیا لیکن اس فیصلے کو پاکستان مسلم لیگ نواز کے حمایتیوں نے آج تک تسلیم نہیں کیا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’سنہ 50 کی دہائی میں بھی سیاست دانوں کو نااہل قرار دیا گیا لیکن ایسے سیاست دانوں کو عوام کے دلوں سے نہیں نکلا جا سکا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’پاکستان میں عدلیہ کا کردار بھی متنازع رہا ہے اور اب یہ تمام تر ذمہ داری پارلیمنٹ پر ہے کہ وہ اس بارے میں قانون سازی کرے یا کوئی ایسا طریقہ کار وضح کرے جس پر عمل درآمد کرتے ہوئے سیاست دان ایک دوسرے کی مخالفت اور سیاسی مفاد حاصل کرنے کے لیے عدالتوں یا کسی ادارے کی طرف نہ دیکھیں۔‘

EPA’لوگوں کو بخوبی علم ہے کہ ایسی درخواستیں کہاں سے آتی ہیں‘

میانوالی سے پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی امجد خان کا کہنا ہے کہ ’کچھ لوگ محض سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لیے ذاتی معاملات کو عدالتوں میں لے کر جا رہے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’رجیم چینج یعنی عمران خان کو ان کے عہدے سے ہٹانے کے بعد جس طرح کے حربے استعمال کیے جارہے ہیں، اس سے ایسے حربے استعمال کرنے والے عوام کے سامنے ایکسپوز ہو گئے ہیں۔‘

امجد علی خان کا کہنا ہے کہ ’لوگ سیاسی طور پر باشعور ہو چکے ہیں اور لوگوں کو بخوبی علم ہے کہ ایسی درخواستیں کہاں سے آتی ہیں اور ایسے معاملات میں درخواست گزار کون ہوتے ہیں۔‘

درخواست گزار کون ہیں اور ان کا ’گمنامی‘ میں رہنا کیس پر کیسے اثرانداز ہو گا؟

سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف درخواست دینے والے ساجد محمود ابھی تک اس درخواست پر جتنی بھی سماعتیں ہو چکی ہیں اس میں پیش نہیں ہوئے۔

جب اُن کے وکیل سے اس بارے میں پوچھا گیا تو اُن کا کہنا تھا کہ چونکہ وہ درخواست گزار کی نمائندگی کر رہے ہیں، اس لیے درخواست گزار کا کمرہ عدالت میں حاضر ہونا ضروری نہیں ہے۔

ایک سوال کے جواب میں ان کے وکیل کا کہنا تھا کہ وہ پہلی مرتبہ اس کیس میں پیش ہوئے ہیں اس لیے وہ درخواست گزار کے حوالے سے زیادہ نہیں بتا پائیں گے۔

انھوں نے کہا کہ جب عدالت درخواست گزار کو طلب کرے گی تو وہ عدالت میں پیش ہو جائیں گے۔

تحریک انصاف کے رہنما امجد علی خان کا اس معاملے پر کہنا تھا کہ انھیں یا ان کی پارٹی کو یہ جاننے کی ضرورت نہیں ہے کہ درخواست گزار کون ہے اور نہ ہی وہ درخواست گزار کے حوالے سے کوئی دلچسپی رکھتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس نوعیت کی درخواستیں عموماً ’دلوائی‘ جاتی ہیں اور دینے والے کم ہی سامنے آتے ہیں اور یہ امر اس چیز کا واضح اظہار ہے کہ اس کیس کا واحد مقصد ’کیچڑ اچھالنا‘ ہے۔

انہوں نے کہا کہ پہلے بھی اس قسم کی درخواستیں خود اسلام آباد ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن مسترد کر چکا ہے۔ ’توشہ خانہ میں بھی ایسے ہی کسی سے درخواست دلوائی گئی تھی، جس (درخواست گزار) کا آج تک نہیں پتہ چل سکا۔

انھوں نے کہا کہ عمران خان خود کہہ چکے ہیں کہ انھیں نااہل کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

ٹیریئن وائٹ: عمران خان کے خلاف پرانا کیس اور گمنام درخواست گزار

توشہ خانہ ریفرنس میں نااہلی: کیا عمران خان اب الیکشن میں حصہ لے سکیں گے؟

کیا سابق وزیر اعظم عمران خان پر قاتلانہ حملے کی تفتیش بھی سیاست کی نذر ہو رہی ہے؟

’اس طرح کے معاملات کو عدالت میں نہیں جانا چاہیے‘

حکمراں اتحاد میں شامل سب سے بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کے رکن چوہدری بشیر ورک کا کہنا ہے کہ ’یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ عمران خان ٹیریئن کو اپنی بیٹی تسلیم نہیں کر رہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’جب کوئی عوامی عہدہ رکھتا ہے تو اس کے بارے میں معلومات حاصل کرنا اور کسی بھی رکن پارلیمان کی ساکھ کو کوئی بھی شہری چیلنج کر سکتا ہے۔‘

بشیر ورک کا کہنا تھا کہ ’اس طرح کے معاملات کو عدالتوں میں نہیں جانا چاہیے اور اس وقت ملکی سیاست جس نہج پر پہنچ چکی ہے اس میں ایک دوسرے کے خلاف زیادہ سے زیادہ کیچڑ اچھالنے کو سیاسی کامیابی قرار دیا جاتا ہے۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے دور میں اٹارنی جنرل کے عہدے پر رہنے والے سلمان اسلم بٹ درخواست گزار کی طرف سے پیش ہو رہے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ’بطور وکیل کسی پر پابندی تو نہیں لگائی جا سکتی کہ فلاں بندے کی وکالت کر سکتے ہیں اور فلاں کی طرف سے پیش نہیں ہو سکتے۔‘

Getty Imagesجنوری 1997 میں امریکی ریاست لاس اینجلس میں عمران خان کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کے بعد سیتا وائٹ نے ایک پریس کانفرنس کے دوران اپنی بیٹی ٹیریئن کی تصاویر تھامی ہوئی تھیںسیتا وائٹ کون تھیں؟

2004 میں امریکہ میں مقیم 43 سالہ برطانوی سیتا وائٹ کی موت ہوئی تو برطابوی اخبار دی مرر اور امریکی اخبار دی نیو یارک پوسٹ نے لکھا کہ وہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان ’عمران خان کی گرل فرینڈ تھیں‘۔ رپورٹ کے مطابق سیتا کے ہاں بیٹی (ٹیریئن وائٹ) پیدا ہوئیں جن کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا وہ عمران خان کی بیٹی ہیں۔

اخباری رپورٹس کے مطابق سیتا وائٹ کی موت کیلیفورنیا میں سانتا مونیکا کی یوگا کلاس کے دوران ہوئی تھی جو بیورلے ہلز میں ان کے شاندار مکان کے قریب واقع تھا۔

اخباری رپورٹس کے مطابق ان کی موت سے صرف چند ہفتے پہلے ہی انھیں آٹھ سال کی قانونی لڑائی کے بعد اپنے مرحوم باپ کی جائیداد سے ایک تصفیہ کے ذریعے تین ملین ڈالر کی رقم ملی تھی۔

سیتا وائٹ ایک یوگا سٹوڈیو میں قدیم ورزشوں اور روحانی مشقوں کی تعلیم دیا کرتی تھیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More