والدین ہوشیار باش! سوشل نیٹ ورکس بچوں اور نوعمر لڑکیوں کے لیے زیادہ پُرخطر کیسے ثابت ہو رہے ہیں؟

بی بی سی اردو  |  Jun 03, 2023

Getty Images

کچھ لوگ تو اس صورتحال کو پبلک ہیلتھایمرجنسی قرار دیتےہیں۔ امریکہ میں ایسی نوعمر لڑکیوں کی بڑھتی تعداد جو اب ذہنی دباؤ، اداسی اور ہیجانی کیفیت سے دوچار ہو رہی ہیں۔

سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن یعنی سی ڈی سی کی ایک تحقیق کے مطابق سنہ 2021 کے اعداد و شمار اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پانچ میں سے تقریباً تین نوعمر لڑکیوں نے مسلسل اداسی یا مایوسی کی کیفیت کی شکایت کی، جو کہ سنہ 2011 کے مقابلے میں اس تعداد میں تقریباً 60 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

لڑکوں میں بھی اس طرح کے مسائل سامنے آئے ہیں مگر لڑکیوں کے مقابلے میں یہ تعداد بہت کم بنتی ہے۔ امریکہ میں منفی احساسات کے بارے میں بتانےوالے لڑکوں کی تعداد اسی عرصے میں 21 فیصد سے بڑھکر 29 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔

اس تحقیق کا ایک اور تشویشناک پہلو ان نوعمر لڑکیوں کی تعداد میں اضافہ ہے جنھوں نے خود کشی پر سنجیدگی سے غور شروع کر دیا ہے یعنی اب امریکہ میں تین میں سے ایک لڑکی ایسی سوچ کی حامل ہے، جو کہ 2011 کے مقابلے میں تقریباً 60 فیصد تعداد زیادہ بنتی ہے۔

محکمہ صحت کے حکام خودکشی کے رجحانات کے پیچھے جہاں ذہنی دباؤ، منشیات کے استعمال کے ساتھ کچھدیگرمسائل کی طرف توجہ دلاتے ہیں وہیں وہ ان نوعمر نوجوانوں بالخصوص لڑکیوں کی زندگی میں اس مسئلے کا ذمہ دار سوشل نیٹ ورکس کے کردار کو بھی قرار دیتے ہیں۔

ان ماہرین میں نیورو سائنس، امیونولوجی اور ایموشن (جذبات) میں مہارت رکھنے والی مصنفہ ڈونا جیکسن ناکازوا بھی ہیں، جنھوں نے سنہ 2022 کے آخر میں کتاب ’گرلز آن دی برنک‘ شائع کی، جس میں وہ اس صورتحال کا جائزہ لیتی ہیں۔

بی بی سی منڈو کے ساتھ اس گفتگو میں انھوں نے امریکہ میں ڈپریشن اور اضطراب کے مسائل میں مبتلا نوعمر لڑکیوں کی تعداد میں حیران کن اضافے کے پیچھے حیاتیاتی، سماجی اور ثقافتی وجوہات کی وضاحت کی ہے اور اگرچہ وہ تسلیم کرتی ہیں کہ ایسی کیفیات کی وجہ متعدد عواملہیں، مگر ان کا ماننا ہے کہ ’سوشل نیٹ ورکس بنیادی ’مجرم‘ ہیں اور لڑکیوں کے لیے بہت زیادہ زہریلے ہیں۔‘

اس کے علاوہ، یہ بتاتی ہیں کہ لڑکیاں لڑکوں سے زیادہ کیوں متاثر ہوتی ہیں۔ وہ والدین کو اپنے بچوں کی مدد کرنے کے لیے کچھ عملی تجاویز دیتی ہیں۔

امریکہ کے سرجن جنرل، ملک کے اعلیٰ ترین ہیلتھ اتھارٹی نے سوشل میڈیا کے نوجوانوں کی ذہنی صحت پر پڑنے والے منفی اثرات کے بارے میں الرٹ جاری کیا ہے۔

سوال: آپ نے اپنی کتاب ’گرلز آن دی برنک‘ میں نشاندہی کی ہے کہ لڑکیوں کے لیے صورتحال بہت زیادہ خراب ہے۔ ایسا کیوں ہے؟

جواب: ذہنی تناؤ تمام نوجوانوں کے لیے بہت مشکل ہے۔ جب بہت زیادہ تناؤ ہوتا ہے تو دماغ کے ان حصوں میں تبدیلیاں آنا شروع ہو جاتی ہیں جیسے ’پریفرنٹل کورٹیکس اور ’ہپپوکیمپس‘، جہاں ہم اپنی یادیں محفوظ رکھتے ہیں۔

Getty Images

دماغ کے اس حصے میں بھی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں، جسے ہم ’ڈیفالٹ نیورل نیٹ ورک‘ کہتے ہیں، جو ہمارے اس احساس سے وابستہ ہے کہ ہم دنیا میں کون ہیں۔ کیا ہم اچھے انسان ہیں؟ کیا ہمارے پاس مواقع ہیں؟

ہم اپنے بارے میں اس داستان کو کیسے سنبھالیں گے؟ کیا ہم اپنے آپ پر یقین رکھتے ہیں؟ کیا ہم ناامید یا اداس محسوس کرتے ہیں؟

اس کے علاوہ ہم ’امیگڈالا‘ والے حصے میں بھی تبدیلیاں دیکھتے ہیں۔ یہ دماغ کے اوپری حصے میں بادام کی شکل کا ہوتا ہے۔ یہ ایک خطرے کی گھنٹی کی طرح ہے اور یہ لڑکیوں اور لڑکوں میں مختلف ہوتا ہے۔ ذہن میں رکھیں کہ یہ مسلسل دباؤ کو قابو میں رکھنے سے متعلق ہے۔

لڑکیوں کے دماغ میں یہ ’امیگڈالا‘ بڑا ہوتا ہے اور ہم اسے بار بار ایک ہی طرح کے خیالات میں کھو جانے جیسی کیفیت کا مشاہدہ کرتے ہیں۔

یہ فرق ہمیشہ دماغ کے ان حصوں میں دیکھنے میں آتا ہے جو کوئی کام کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ ایک پرانی کہاوت ہے کہ جب لڑکیاں تناؤ سے مغلوب ہوتی ہیں، تو وہ اپنے آپ کو ہی اس صورتحال کا ذمہ رارقرار دیتی ہیں: جیسے وہ اپنے بارے میں آرا قائم کر لیتی ہیں، ناامیدی اور شرمندگی جیسا احساس طاری کر لیتی ہیں۔ اس کے برعکس لڑکے بدتمیزی کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ اور ہم دماغ میں دیکھ سکتے ہیں کہ کبھی کبھی یہ سب کیسے حقیقت کے قریب ہوتا ہے۔

اب سوشل میڈیا کو ہی لے لیں۔ سوشل میڈیا پر لڑکیاں لڑکوں سے زیادہ ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ یہاں تک کہ اگر وہ مردوں کی طرح آن لائن وقت گزارتی ہیں، تب بھی ان کے افسردہ، فکر مند، ناامید، اور مسلسل اداس ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

کسی حد تک اس کی بیرونی وجوہات ہیں۔ اور یہ کہ لڑکیوں کو سوشل نیٹ ورک پر جو کچھ دیکھنے کو ملتا ہے وہ مواد زیادہ تر جنس پرستی سے متعلق ہوتا ہے۔ یہ ان کے جسموں، ان کے چہروں، ان کی جلد، ان کے کپڑوں کے بارے میں معلومات سے متعلق ہوتا ہے۔ وہ اس سوچ میں بھی کھو جاتی ہیں کہ کیسے وہ مردوں کو دلکش اورپرکشش لگیں۔

Getty Images

لڑکیوں کو دہری مشکل کا سامنا رہتا ہے۔ ملک بھر سے ہزاروں لڑکیوں نے میرے ساتھ کچھ اس طرح کے تاثرات شیئر کیے ہیں: ’اگر میں شہرت چاہتیہوں تو پھر اس کے لیے مجھے ’سیکسی‘ یعنی پرکشش ہونا پڑےگا۔ چاہے میری عمر 11 سے 13 برس کی ہے مگر پھر بھی میں ایسا تاثر دوں گی کہ میں اب بالغ بھی ہوں۔

لیکن جب میں ایسا کرتی ہوں، تو پھر ایسے بدتمیز اور شرم سے عاری اور حوس کے مارے لڑکے میرے پیچھے پڑ جاتے ہیں کہ جیسے میں واقعی بالغ ہوں۔‘

ان کے مطابق ان لڑکیوں کو پھر آن لائن ہراسگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انھیں تبصرے سننے اور پڑھنے کو ملتے ہیں۔ میں نے بہت سے نوجوانوں سے بات کی ہے۔ وہ اس طرح آن لائن نہیں رہنا چاہتے جیسی صورتحال سے انھیں اس وقت واسطہ ہے۔ وہ سوشل نیٹ ورکس سے دور رہنے کے لیے کسی سمجھدار اور بالغ کی مدد چاہتے ہیں۔

انٹرنیٹ پر مقبول ہونے کے اس طریقے میں منفی پہلوؤں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اب سب سے مشہور سوشل نیٹ ورکس، جیسے ٹک ٹاک اور انسٹاگرام، ویڈیوز اور تصاویر پوسٹ کرتے ہیں۔ اور تصویریں دماغ پر الفاظ سے کہیں زیادہ تیزی سے اثر انداز ہوتی ہیں۔

اس پر بہت زیادہ تحقیق کی گئی ہے جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ آپ جتنا زیادہ انٹرنیٹ پر مقبول کسی چیز کو دیکھتے ہیں، آپ اتنے ہی زیادہ غیر حساس ہوتے جاتے ہیں۔

اور یہ دماغ کے روک تھام کے فلٹر کو بند کر دیتا ہے جو نوجوانوں کو بتاتا ہے کہ کچھ بُرا بھی کیا جا سکتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں، جیسا کہ سرجن جنرل نے کہا، جب نوجوان کسی کو آن لائن خود کو نقصان پہنچاتے ہوئے دیکھتے ہیں، تو ان میں اس رویے کی نقل کرنے اور دوبارہ خود ایسا کرنے کا زیادہ امکان زیادہ ہو جاتا ہے۔

لڑکیوں کے دماغ پر اس کے اور کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟

آئیے واپس چلتے ہیں جو میں نے افواہوں کے بارے میں کہا تھا۔ لڑکیوں کے دماغ اس عمل میں پھنس جانے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔ جب آپ ایک بالغ کے طور پر دباؤ میں ہوتے ہیں، تو آپ کے جسم میں ایسی تبدیلیاں آتی ہیں جو ایک قسم کی سوزش کا باعث بنتی ہیں۔

دماغ اور جسم زیادہ تناؤ والے کیمیکلز اور ہارمونز کو پمپ کرتے ہیں۔ اور وقت گزرنے کے ساتھ جب وہ بلند رہتے ہیں تو وہ تبدیلیاں پیدا کرنا شروع کر دیتے ہیں، جو ہم دماغی سکینوں پر دیکھ سکتے ہیں: اہم شعبوں میں دماغی رابطے میں تبدیلیاں جن کا میں نے ذکر کیا ہے،،، ہم اسے نہیں دیکھنا چاہتے۔

جب آپ کسی واقعہ پر افواہیں پھیلاتے ہیں۔۔۔ آن لائن ’بلیئنگ‘ سے لے کر، آپ کے جسم کے بارے میں تبصرے ہوتے ہیں تو ایسی باتوں کو اپنے دماغ میں دہراتے ہیں، تو اثر ایسا ہوتا ہے جیسے یہ ابھی بھی ہو رہا ہے: آپ کا جسم اور آپ کا دماغاس پر ایسے متوجہ ہوتا ہے جیسے یہ اسی وقت میں ایسا ہو رہا ہے۔

’سوشل تھریٹس‘ خاص طور پر نوعمر دماغ کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں کیونکہ بحیثیت انسان ہمارے زیادہ تر ارتقائی وقت کے لیے ہمیں اپنے بچوں کی بہتر پرورش اور انھیں محفوظ طریقے سے آگے بڑھانے کے لیے بہت زیادہ تعاون اور رابطے کی ضرورت ہوتی ہے۔

اپنی تذلیل یا عدم توجہی کے احساسات کے جسم پر بھی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوتا کہ آپ کو اپنے قبیلے سے دور ہونے کا بھی خدشہ یا امکان رہتا ہے۔ جب معاشرتی طور پر آپ اپنے خاندان سے جڑے ہوئے نہیں ہوتے تو ہیں پھر ایسے میں پھر بری نظر اور بری نیت رکھنے والوں کے دام میںپھنس جائیں۔ ایسے میں اس طرح کے لوگوں کے ساتھ روابط آپ کے مدافعتی نظام کو ایک نیم پاگل پن جیسی کیفیت میں بدل دیتے ہیں۔

لہٰذا ہمارے مدافعتی نظام نے سماجی اور جذباتی خطرے کی پہلی علامت پیدا کر لی ہے۔ ہارمونز اور کیمیکلز کی یہ ’جھڑپ‘ جس کے بارے میں میں نے بات کی تھی وہ مدافعتی نظام کو بحال کرتی ہے تا کہ وہ ان سماجی دوری یا بغاوت کی پہلی علامت پر جسم اور دماغ کو نقصان پہنچاتے ہیں۔

سوشل نیٹ ورک کیا ہیں؟ ان ممکنہ سماجی باغی رجحانات کا اعادہ ہر وقت ہوتا رہتا ہے۔

نیٹ ورکس کے الگورتھم ایسے جذبات کے ساتھ دماغ کو جوڑنے کے لیے بنائے گئے ہیں، تاکہ آپ دور نہ نکل جائیں اور آپ کو معاشرے کے اہم فرد کا احساس رہے۔

لیکن آپ بار بار اپنے آپ سے تعلق نہ رکھنے، پرواہ نہ کرنے، غصے اور حقارت کے جذبات میں مبتلا رہتے ہیں۔ اور چونکہ لڑکیاں ان پلیٹ فارمز پر زیادہ وقت گزارتی ہیں، وہ ایسے میں سی ڈی سی کی رپورٹ کے مطابق 57 فیصد لڑکیوں نے مسلسل اداسی اور مایوسی کے احساسات کے بارے میں بات کی ہے۔

Getty Images

اس صورت حال کا پچھلے اعداد و شمار سے موازنہ کیسے کیا جا سکتا ہے اور کون سا دوسرا عنصر لڑکیوں کے لیے حالات کو اتنا خراب کر سکتا ہے؟

سنہ 2019 میں ایک اور رپورٹ سامنے آئی جس میں بتایا گیا کہ تقریباً ایک تہائی لڑکیوں کو مسلسل ناامیدی اور اداسیجیسی کیفیت کا سامنا ہے۔ غور کیا جائے تو چار برس کے اندر یہ بہت زیادہ اضافہ ہے۔

بلوغت میں جانے کے بعد ہمیشہ ایک فرق رہا ہے جس میں لڑکوں کے مقابلے لڑکیوں میں ڈپریشن کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا سے پہلے بھی ایسا ہوتا رہا ہے۔ اس کی جزوی وجہ یہ ہے کہ بلوغت کے وقت ہارمونز کا آغاز ہوتا ہے، اور ’ایسٹروجن‘ تناؤ کے ردعمل کو اس طرح بڑھاتا ہے جیسا کہ ’ٹیسٹوسٹیرون‘ نہیں کرتا۔

بہت سے مطالعات سے پتا چلتا ہے کہ خواتین تناؤ کے خلاف زیادہ ردعمل پیدا کرتی ہیں۔ ان کا ویکسینیشن کے لیے زیادہ ردعمل ہوتا ہے اور مردوں کے مقابلے میں خود کار قوت مدافعت کی بیماریاں پیدا ہونے کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ اور اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ بلوغت کے وقت خواتین کے تناؤ کا ردعمل ایسٹروجن سے بڑھ جاتا ہے۔۔۔ اس کا ایک حفاظتی اثر بھی ہے، تا کہ ایک دن وہ اپنے اندر ایک اور انسانی جان کو بھی پروان چڑھا سکیں۔

آپ نے لڑکیوں کو متاثر کرنے والے منفی پہلوؤں کا ذکر کیا لیکن میں نے پڑھا کہ آپ نے کہا کہ نوعمر لڑکیوں کا دماغ بھی سپر پاور بن سکتا ہے۔

جس نے بھی ایک نوعمر لڑکی کی پرورش کی ہے وہ جانتا ہے کہ ان کی چھٹی حس غیرمعمولی ہوتی ہے۔ یہ وہ لڑکیاں ہیں جو مکڑی جیسی حس کے ساتھ کمرے کے ارد گرد دیکھ سکتی ہیں اور جان سکتی ہیں کہ کیا ہو رہا ہے۔ اور ہم جانتے ہیں کہ نوعمر خواتین کے دماغ میں، وہ ’کارپس کیلوسم‘ جو دماغ کے دونوں اطراف کو جوڑتا ہے، واقعی موٹا اور بھرپور ہوتا ہے۔ خواتین کا دماغ مرد کے مقابلے میں تھوڑا پہلے تیار ہوتا ہے۔

واقعی اچھی بات یہ ہے کہ جب ہم اپنے بچوں پر دباؤ ڈالنے والی کچھ چیزوں کو ہٹاتے ہیں اور ان کی جگہ نفسیاتی حفاظت کرتے ہیں، تو اس عمر میں دماغ بہت زیادہ لچک والا ہوتا ہے یعنی مثبت انداز سے وہ ہر طرح کے امکانات کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہے، سخت ردعمل کے بعد دوبارہ معمول پر آ جاتا ہے۔

لہٰذا وہی عوامل جو نوعمر خواتین کے دماغ کو منفی تبدیلیوں کا شکار بنا سکتے ہیں وہی ہیں جو صحت مند طریقوں سے جڑنے اور فعال ہونے کے بہت سے امکانات پیدا کرتے ہیں۔

ایسا کرنے کے لیے، جیسے جیسے یہ نفسیاتی تناؤ بڑھتا جاتا ہے، ہمیں مزید نفسیاتی تحفظ پیدا کرنا ہوگا اور سماجی تعلق کو گہرا بنانا ہوگا۔ ہزاروں لڑکیوں سے بات کرنے کے بعد میں آپ کو یہ بتا سکتی ہوں کہ: ایک اچھی پسند کی جانے والی لڑکی کے لیے بھی، اگر وہ اپنا وقت آن لائن دنیا میں گزارے گی تو وقت کے ساتھ ساتھ اس کا احساس کم ہو جائے گا کہ وہ کون ہیں۔

Getty Images

ہم کیسے جانتے ہیں کہ نوعمر لڑکیوں میں بڑھتی ہوئی بے چینی، اداسی اور خودکشی کے خطرے کا تعلق سوشل میڈیا کے استعمال سے ہے نہ کہ دیگر عوامل سے؟

مجھے نہیں لگتا کہ ہم کسی ایک عنصر کو الگ تھلگ کر سکتے ہیں۔ میں پورے ملک میں لڑکیوں سے بات کرتی ہوں اور وہ بہت سے طریقوں سے خود کو محفوظ محسوس نہیں کرتی ہیں۔ وہ سیاسی اختلاف والے دور اور سکول میں فائرنگ جیسے واقعات کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔

امریکہ میں 60 فیصد نوجوانوں کا کہنا ہے کہ انھیں خوف ہے کہ اگلا ہدف ان کا سکول ہوگا۔ وہ موسمیاتی تبدیلی کے دور میں جی رہے ہیں۔ اور انٹرنیٹ پر آن لائن دنیا وہ تناؤ کا سامنا کر رہے ہیں، جس کا تجربہ کسی دوسری نسل نے نہیں کیا ہے۔

لڑکیاں مجھے بتاتی ہیں کہ ان کی برداشت جواب دے گئی ہے۔ وہ مشکلات کا سامنا کر کر کے تھک چھکی ہیں۔ جبکہ تعلیمی لحاظ سے چیزیں بہت بدل چکی ہیں: ہمارے پاس کم عمری میں حاصل کرنے کے لیے اعلیٰ اور مشکل اہداف ہیں۔ وہ تناؤ کا شکار ہیں اور نوجوان یہ محسوس نہیں کرتے کہ بالغ لوگ سمجھتے ہیں کہ آج بڑا ہونا کتنا مشکل ہے۔

ان تمام چیزوں کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کا مطلب یہ ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب یہ ماحول سے متاثر ہونے کا بہت زیادہ خطرہ ہے، نوعمر دماغ ان منفی تناؤ کے ساتھ کام کر رہا ہے اس سے پہلے کہ اسے واقعی ترقی کرنے کا موقع ملے اور اس تناؤ کو سنبھالنا سیکھ جائے۔

نوجوان مجھے کہتے ہیں: ’میں یہ بھی نہیں جانتا کہ کیا ہو رہا ہے اس کا اظہار کیسے کروں۔ میں بہت دباؤ میں ہوں۔ مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ مدد کیسے مانگوں۔‘

جوانی ہمیشہ ایک مشکل وقت رہا ہے۔ والدین کو یہ معلوم کرنے کے لیے کن علامات کی تلاش کرنی چاہیے کہ آیا ان کی بیٹی غیر معمولی مشکل سے گزر رہی ہے؟

یہ بہت اہم سوال ہے۔ 90 فیصد والدین کا کہنا ہے کہ انھیں معلوم ہوگا کہ آیا ان کی بیٹی ایسی صورتحال سے نبردآزما ہونے کی کوشش کر رہی ہے۔ لیکن وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ وہ واقعی اس فرق کو نہیں جانتے کہ بیٹا یا بیٹی میں رویے کے اتار چڑھاؤ میں کتنا فرق ہوتا ہے۔

درحقیقت والدین کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ان کے بچوں میں خودکشی کے خیالات کب آتے ہیں۔ ایک سب سے اہم چیز جو ہم جانتے ہیں وہ یہ ہے کہ جب ہمارا بیٹا یا بیٹی ہم سے کسی بھی چیز کے بارے میں بات کر سکتے ہیں، چاہے وہ کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہو تو یہ ان کے عقلمند ہونے کا ضامن بن جاتا ہے۔

جانز ہاپکنز کی ایک تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ جب نوجوان اپنے والدین سے کسی بھی چیز کے بارے میں بات کر سکتے ہیں تو ان کے پھلنے پھولنے کے امکانات 12 گنا زیادہ ہوتے ہیں۔

لیکن نوجوان مجھے بتاتے ہیں کہ انھیں اپنے والدین سے ان تناؤ کے بارے میں بات کرنے میں دشواری ہوتی ہے۔ وہ فکر مند ہیں کہ ان کے والدین ان کی پریشانی کو نہیں سنبھال سکتے کیونکہ وہ پہلے ہی بہت دباؤ میں ہیں۔ لہٰذا سب سے اہم چیزوں میں سے ایک یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں سے ان چیزوں کے بارے میں اس طریقے سے بات کرنے کے اقدامات سیکھیں جسے میں ’نیورو پروٹیکٹو‘ کہتی ہوں۔

آپ نے مجھ سے پہلے پوچھا تھا کہ کیا نوعمر خواتین کا دماغ ایک سپر پاور ہے۔ بلکل. لیکن، اس کی نشوونما کے لیے، یہ ضروری ہے کہ بالغ افراد مناسب ماحول بنانے میں مدد کریں، جس میں نوجوان اس سب کے بارے میں اپنے جذبات کا اظہار کرنا سیکھیں۔

اور نیورو پروٹیکٹو سننے کے مراحل تبدیل ہوتے ہیں کیونکہ وہ ہمارے بچوں کو یہ بتانے کی اجازت دیتے ہیں کہ وہ سوشل میڈیا سمیت اس انتہائی زہریلی دنیا میں کیا تجربہ کر رہے ہیں۔ زیادہ تر نوجوان یہ محسوس نہیں کرتے کہ وہ اپنے والدین سے اس بارے میں بات کر سکتے ہیں کہ وہ سوشل میڈیا پر کیا تجربہ کر رہے ہیں اور وہ کس قدر تناؤ محسوس کر رہے ہیں۔

Getty Imagesکیا آپ وضاحت کر سکتے ہیں کہ نیورو پروٹیکٹو سننے کا طریقہ کیسے انجام دیا جائے؟

نیورو پروٹیکٹو سننا بہت آسان ہے۔ میں اسے مراحل میں تقسیم کرتی ہوں۔

سب سے پہلے اس حقیقت کو قبول کرنا ہے کہ کچھ موضوعات پر بات کرنا واقعی مشکل ہے۔ ’ارے، بالغ ہونے کے ناطے بھی میرے لیے اس موضوع پر بات کرنا مشکل ہے۔‘

دوسرا بات چیت میں کودنا نہیں ہے۔ بات شروع کرنے سے پہلے اپنے بچے کو بتائیں کہ میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں ایک اچھا سننے والا بنوں گا اور سوال نہیں کروں گا۔ مطالعات سے پتا چلتا ہے کہ جب ہم اس سے ایک بھی سوال نہیں پوچھیں گے تو وہ زیادہ اور رضاکارانہ طور پر بات کرے گا۔

تیسرا یہ ہے کہ آپ جو سنتے ہیں اس سے بدلنے کے لیے تیار رہیں۔ یہ مت سمجھو کہ آپ جانتے ہیں کہ آپ کی بیٹی کیسا محسوس کر رہی ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ وہ کیا محسوس کر رہی ہے۔ وہ شاید نہیں جانتی کہ وہ کیا محسوس کرتے ہیں۔

چوتھی توثیق پیش کرنا ہے: ’آپ کے احساسات حقیقی ہیں، وہ اہم ہیں، وہ قابل فہم ہیں، کوئی بھی ایسا محسوس کرے گا۔‘

پانچواں پس منظر میں رہنا ہے اگر نوجوان آپ کی رائے جاننا چاہتا ہے کیونکہ وہ اب بھی اپنی رائے بنا رہا ہے۔ صرف اتنا کہیے، ’میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں آپ کو اپنی رائے بتاؤں گا، لیکن پہلے میں جاننا چاہتا ہوں کہ آپ اس وقت کیا سوچتے ہیں اور کیا محسوس کرتے ہیں، کیونکہ یہ میرے خیال سے کہیں زیادہ اہم ہے۔‘

چھٹا یہ ہے کہ کوئی بھی مشاہدہ کرنے سے پہلے اجازت طلب کی جائے۔ ’ارے، کیا آپ کو کوئی اعتراض ہے اگر میں آپ سے کچھ سوال پوچھوں؟ میں بہتر سمجھنا چاہوں گا۔‘

ساتویں مثبت رویوں اور خوبیوں کو اجاگر کرنا ہے۔ ’آپ واقعی اس انتہائی پیچیدہ اور الجھا دینے والی صورتحال کو بہت اچھی طرح سے سنبھال رہے ہیں۔‘

آٹھواں صرف یہ یاد رکھنا ہے کہ اگر آپ غلطی کرتے ہیں تو ٹھیک ہے۔ بلاشبہ جتنی جلدی آپ معافی مانگیں گے یا صورتحال کو ٹھیک کریں گے، اتنا ہی زیادہ امکان ہے کہ آپ کا بچہ آپ سے بات کرتا رہے گا۔ آپ کہہ سکتے ہیں، ’ارے، جب میں نے کہا کہ میں نے ایکس وائی زیڈ کو غلط سمجھا۔ مجھے بہت افسوس ہے کہ میں مددگار نہیں تھا۔ میں مددگار بننا چاہتا ہوں۔ اب آپ کو کیا چاہیے؟‘

نواں یہ ہے کہ آپ سے بات کرنے پر اپنے بچے کا شکریہ ادا کریں۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ ان کے لیے اچھا تجربہ ہو۔ اسے بتائیں کہ آپ کتنے خوش ہیں کہ وہ آپ سے اس بارے میں بات کر سکا۔

یہ بھی پڑھیے

کیا آپ سوشل میڈیا کے نشے کا شکار ہیں؟

بچوں کو سوشل میڈیا پر نقصان دہ مواد سے کیسے بچایا جا سکتا ہے؟

سوشل میڈیا پر معلومات کی افراتفری کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے؟

والدین اپنی بیٹیوں کو ان تناؤ سے نمٹنے کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟

میں کتاب میں 15 حکمت عملیوں کی وضاحت کر چکی ہوں، لیکن میں آپ کو اپنے پسندیدہ میں سے کچھ کے بارے میں ضرور بتانا چاہتی ہوں۔

ہم اپنے بچوں کی افواہوں کو روکنے میں مدد کرنا چاہتے ہیں، لہٰذا ہم اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ ان کے پاس ایسا کرنے کی مہارت ہو۔ جب میں اپنی کانفرنسوں میں لڑکیوں سے بات کرتی ہوں تو میں ہمیشہ ان سے کہتی ہوں، ’آپ کو اپنے آپ سے پوچھنا ہوگا، آپ کے جسم کا کیا مطلب ہے؟ آپ کے دماغ کو کیا ضرورت ہے؟‘

ہم واقعی اپنی بیٹیوں کی سوچ کو بہتر بنانے کے لیے ان کی صلاحیتوں کو بڑھانا چاہتے ہیں۔

ذہن سازی (مکمل توجہ)، ان کے جسم کو حرکت دینا، ان کے اعصابی نظام کا جائزہ لینا، کانفرنسوں میں، ہر کوئی چاہتا ہے کہ میں رزیلیئنس یعنی برداشت کے بارے میں بات کروں۔ ٹھیک ہے، رزیلیئنس واقعی اس حالت سے آگاہ ہونا ہے جس میں آپ کا جسم ہے۔ میرا اعصابی نظام کیسا ہے؟ کیا میں واقعی دباؤ کا شکار ہوں؟

اس طرح کی صورتحال کا جائزہ لے کر صحت مند زندگی کی طرف واپس آنے کے طریقے تلاش کریں۔

اور ہم وہ ٹولز بنانا چاہتے ہیں جن میں کسی بالغ یا سرپرست سے بات کرنے، یوگا کرنے، مراقبہ کرنے، دوڑ کے لیے جانے، فطرت میں چلنے، گہرے سانس لینے تک کچھ بھی شامل ہو سکتا ہے۔

ہم اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ ان کے پاس وہ مہارتیں ہیں جو اپنے اعصابی نظام کا جائزہ لیں، یہ معلوم کریں کہ وہ کیا چاہتے ہیں اور انھیں صحت مند حالت میں واپس جانے کے لیے کیا ضرورت ہے۔

انھیں ہماری ضرورت ہے کیونکہ وہ ہماری تناؤ کا بھی اثر لیتے ہیں۔ وہ ہماری نیورو بائیولوجی کا اثر لیتے ہیں۔ نوجوانوں کے دل کی دھڑکن ان کے ارد گرد کے بالغوں کے دل کی دھڑکن کے مطابق ہوتی ہے۔ وہ پرسکون ہونے لگتے ہیں، جب ہم پرسکون ہوتے ہیں، لیکن ہمیں انھیں یہ سکھانے کی بھی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ خود ان صلاحیتوں کو کیسے حاصل کریں۔

لڑکیوں کو یہ سکھانے کی ضرورت ہے کہ جنس تبصروں کا جواب کیسے دیا جائے کیونکہ یہ ایک تناؤ ہے جس کا انھیں سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہ آن لائن زیادہ ہوتا ہے۔

کالجوں اور ہائی سکولوں میں ایسے مطالعات ہیں جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ جب لڑکیاں جواب دینا سیکھتی ہیں --تو پھر وہ کم مایوسی یا اداسی کی کیفیت میں سے دوچار ہوتی ہیں۔

ٹاک تھراپی سے بھی مدد ملتی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ آپ کے والدین کے علاوہ دو قابل اعتماد بالغ افراد، جو آپ پر یقین رکھتے ہیں، اہم محسوس کرتے ہیں ان سے بات کریں۔

انٹرنیٹ سے منقطع ہونا بھی اہمیت رکھتا ہے۔ نوجوان لوگ بھی چاہتے ہیں کہ بالغ ہمارے فون بند کر دیں۔ لڑکیاں مجھے ہر وقت یہی بتاتی ہیں۔

سوشل میڈیا کی خواندگی کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ سب سے اہم اور کارآمد چیز جو ہم ان کو منقطع کرنے میں مدد کر سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ وہ تنقیدی طور پر سوچیں: ’ارے، کون اس سے پیسہ کما رہا ہے؟ کیوں؟ یہ الگورتھم بڑے برے احساسات کے طور پر کیسے بڑھتے ہیں؟‘ یہ ٹک ٹاک پوسٹس کیوں بناتی ہیں لڑکیوں کا ان کے جسم کے لیے مذاق؟ ایسے اکاؤنٹس کیوں مقبول ہیں، جہاں لڑکیاں خود کو جنسی طور پر استعمال کرتی ہیں؟

اس میں کیا حرج ہے؟ وہ جنسی تعلقات کے بعد کیسا محسوس کرتی ہیں؟ کیا آپ ایپس کا استعمال کرتے رہے ہیں؟

کیا آپ اپنے بارے میں بہتر محسوس کرتے ہیں؟ کیا آپ زیادہ خوف محسوس کرتے ہیں؟ کیا آپ زیادہ اکیلے محسوس کرتے ہیں؟ کیا آپ کو شرم آتی ہے؟ کیا آپ کو مجرم محسوس ہوتا ہے؟

سوشل نیٹ ورکس جذبات ابھارنے کے لیے ہوتے ہیں۔ یہ منفی یا مثبت ہو سکتے ہیں۔ پہلی صورت میں، ایسا لگتا ہے کہ سب کچھ بہت اچھا ہے: ’دیکھو میں کتنا خوبصورت ہوں، میری دنیا شاندار ہے۔‘ دوسری صورت میں، ’وہ منفی، تقسیم، شرم، لوگوں کی منسوخی پر توجہ مرکوز کرتے ہیں.‘

اور زندگی واقعی ’گرے زون‘ میں زیادہ رہتی ہے، لیکن انٹرنیٹ پر ہماری لڑکیاں اس بلیک اینڈ وائٹ سوچ میں پھنسی ہوئی ہیں۔ لہٰذا جب وہ آن لائن ہوں، تو ان کی یہ اچھی طرح سمجھنے میں مدد کریں کہ وہ جو کچھ دیکھتے ہیں اس کے جواب میں وہ کیسا محسوس کرتے ہیں۔

کیا ان لوگوں کی زندگی ہمیشہ اتنی مثبت رہتی ہے؟ یہ آپ کو اپنے بارے میں کیسا محسوس کرتا ہے؟ کیا آپ کو لگتا ہے کہ یہ سچ ہے؟ ان کے اعصابی نظام کا اندازہ لگانے میں ان کی مدد کریں کیونکہ اگر آپ کو مایوسی محسوس ہوتی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ آپ اس پر پورا نہیں اترتے، اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ خوش شکل نہیں ہیں، کافی اچھے نہیں ہیں، یا سماجی دوری کا شکا ہیں، تو یہ آپ کے مدافعتی نظام کو بحال کرے گا۔

آخر میں، فون سونے کے کمرے سے باہر نکالیں۔ ایک جوتے کا باکس رکھیں جس میں والدین سمیت تمام فونز ہر رات اس میں رکھے ہوں۔ ہمیں ٹیکنالوجی سے ہٹ کر عام خاندانی زندگی کو واپس لانا ہوگا۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More