اوڈیشہ ٹرین حادثہ: حکومت کے ’زیرو ایکسیڈنٹ‘ کے دعوے کے باوجود تین ٹرینوں میں تصادم کیسے ہوا؟

بی بی سی اردو  |  Jun 04, 2023

AFP

انڈیا کی مشرقی ریاست اوڈیشہ (اڑیسہ) میں تین ٹرینوں میں تصادم سے کم از کم 288 افراد ہلاک اور سینکڑوں لوگ زخمی ہو گئے ہیں جن میں سے بہت سوں کی حالت تشویش ناک بتائی گئی ہے۔

انڈیا میں اس صدی کے بدترین ٹرین حادثے کی وجہ تاحال واضح نہیں۔ ریلوے کے وزیر اشونی وشنو نے کہا ہے کہ اس کی تحقیقات کے لیے ’اعلیٰ سطحی کمیٹی‘ تشکیل دی جائے گی جبکہ وزیر اعظم مودی نے زمہ داران کو ’سخت سزا‘ دینے کا کہا ہے۔

تاہم وزیر تعلیم دھرمیندر پردھان نے دعویٰ کیا کہ حادثہ ’تکنیکی وجوہات‘ سے ہوا ہے۔ انھوں نے اس پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔‘

ایک سرکاری افسر نے کہا ہے کہ تحقیقات کی سربراہی جنوب مشرق سرکل میں ریلوے کی سیفٹی کے کمشنر کریں گے۔ وہ بالاسور کے اس خطے کی نگرانی بھی کرتے ہیں جہاں یہ حادثہ ہوا۔

حادثے کی مکمل تفصیل دستیاب نہیں تاہم وزارت ریلوے کے مطابق ٹرینوں میں تصادم جمعے کی شام چھ بج کر 55 منٹ پر باہانگا بازار سٹیشن کے قریب ہوا جو کہ کلکتہ کے جنوب میں 270 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔

حادثے میں تین ٹرینیں شامل تھیں:

کورومنڈل ایکسپریس: اس نے ریاست مغربی بنگال کے شالیمار سٹیشن سے کچھ گھنٹے قبل سفر کا آغاز کیا تھا اور اس کی منزل جنوبی شہر چینئی تھی۔ ہاوڑہ سپر فاسٹ ایکسپریس: اس کے سفر کا آغاز بنگلور کے یشونت پور سٹیشن سے ہوا تھا اور اسے ہاوڑہ پہنچنا تھا۔سٹیشنری مال گاڑی جو باہانگا بازار سٹیشن پر کھڑی تھی۔

عینی شاہدین اور متاثرین نے ٹرینوں میں تصادم کی متعدد روداد سنائی ہیں۔ تاہم ریلوے کے ترجمان امیتابھ شرما نے کہا کہ کورومنڈل ایکسپریس سب سے پہلے پٹڑی سے اتری تھی۔

ریلوے کی وزارت کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ باہانگا بازار سٹیشن پر چار ٹریکس ہیں۔

BBC

ان کا کہنا ہے کہ ’پہلی اور چوتھی پٹریوں پر مال گاڑیاں کھڑی تھیں۔ مسافر گاڑیوں کو ایک ہی وقت میں دوسری اور تیسری پٹریوں سے گزرنا تھا۔ اس پر تحقیقات ہونی چاہیے کہ کیوں اور کیسے کورومنڈل ایکسپریس پٹڑی سے اتری اور مال گاڑیوں سے ٹکرا گئی۔‘

ان کے مطابق پٹری سے اترنے والی ٹرین کی بوگیاں ہاوڑہ سپر فاسٹ ایکسپریس کی پچھلے دو بوگیوں پر جا گریں اور انھیں بھی پٹری سے اتار دیا۔

اوڈیشہ حکومت کی پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ دو ٹرینوں کی کل 17 بوگیاں پٹڑی سے اتریں اور اس سے بہت زیادہ نقصان ہوا۔ قریبی گاؤں کے لوگوں اور عینی شاہدین نے بھی تین ٹرینوں میں تصادم کے بارے میں بات کی ہے۔

گرجا شنکر راتھ اس سٹیشن کے قریب ہی رہتے ہیں اور جائے وقوعہ پر سب سے پہلے پہنچنے والوں میں سے تھے۔ انھوں نے بی بی سی ہندی کو بتایا کہ کورومنڈل ایکسپریس پہلے پٹری سے اتری اور اس نے قریب کھڑی مال گاڑی کو پیچھے سے ٹکر ماری۔

وہ کہتے ہیں کہ ’وہاں افراتفری کا عالم تھا اور ہرجگہ سے دھواں اُٹھ رہا تھا۔ پھر ہم نے دیکھا کہ شالیمار ایکسپریس آئی اور کورومنڈل ایکسپریس کے ملبے سے ٹکرا گئی اور اس کی بھی دو بوگیاں الٹ گئیں۔‘

BBC

ایک دوسرے عینی شاہد ٹوٹو بسواس نے کہا کہ وہ ٹکرانے کی زوردار آواز سننے کے بعد وہاں پہنچے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ کورومنڈل ایکسپریس کی کچھ بوگیاں مال گاڑی کے اوپر چڑھ گئیں۔ وہاں بہت سی لاشیں اور زخمی تھے۔ میں نے وہاں ایک چھوٹا بچہ دیکھا جس کے والدین اس حادثے میں ہلاک ہو گئے تھے اور وہ رو رہا تھا اور پھر وہ بھی روتے روتے مر گیا۔‘

استعفی کا مطالبہ

حادثے کے بعد انڈین ریلوے کے سیکورٹی نظام پر سنگین سوالات اٹھ رہے ہیں اور اس کے ساتھ ہی ریلوے کے وزیر اشونی وشنو پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں اور ان کے استعفے کی مانگ کی جا رہی ہے۔

مغربی بنگال میں برسراقتدار جماعت ترنمول کانگریس کے رہنما ابھیشیک بنرجی نے حادثے کے بعد حکومت پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا: 'مرکزی حکومت اپوزیشن لیڈروں کی جاسوسی پر کروڑوں روپے خرچ کر رہی ہے، لیکن اس طرح کے حادثات کو روکنے کے لیے ٹرینوں کی ٹکر کو روکنے کے لیے آلات لگانے کی ضرورت کو نظر انداز کر رہی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’حکومت سیاسی حمایت حاصل کرنے کے لیے وندے بھارت ایکسپریس اور نئے بنائے جانے والے ریلوے سٹیشنوں کی تعریف کر رہی ہے، لیکن حفاظتی اقدامات کو نظر انداز کر رہی ہے۔ وزیر ریلوے کو مستعفی ہو جانا چاہیے۔‘

ان کے علاوہ کانگریس لیڈر ادھیرنجن چودھری نے بھی حکومت پر سوال اٹھائے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’مسافروں کو محفوظ طریقے سے منزل تک پہنچانے کے لیے جو بنیادی ڈھانچہ موجود ہے، نچلی سطح پر جو ضروریات ہیں ان پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ انڈین ریل سے روزانہ اوسطاً 25 لاکھ لوگ سفر کرتے ہیں۔ حکومت بلٹ ٹرین، وندے بھارت ایکسپریس میں سرمایہ کاری کر رہی ہے۔ ریلوے مسافروں کی حفاظت پر کم توجہ دے رہی ہے۔‘

ان کے علاوہ کانگریس صدر ملکارجن کھرگے نے کہا کہ ہمارے پاس وزیر اعظم اور ریلوے کے وزیر سے پوچھنے کے لیے بہت سے سوالات ہیں لیکن ابھی ریسکیو اور امدادی کاموں کا وقت ہے۔

حکومت کا 'کاوچ' یعنی حفاظتی ڈھال کے نظام کا دعویٰ کیا ہے؟

ہر حادثے کے بعد عام طور پر وزیر ریلوے سے لے کر ریلوے افسران تک اکثر حادثات کے حوالے سے زیرو ٹالرنس کی بات کرتے ہیں۔ گذشتہ دو دہائیوں سے ریلوے میں حادثات کو روکنے کے لیے بہت سی تکنیکوں پر غور کیا جا رہا ہے لیکن آج بھی ایسی تکنیک کا انتظار ہے جو ریلوے کے نظامکی تصویر بدل سکے۔

ریلوے کے وزیر اشونی وشنو نے مارچ سنہ 2022 میں حیدرآباد کے جڑواں شہر سکندرآباد کے قریب ٹرینوں کو حادثات سے محفوظ رکھنے کے لیے متعارف کرائے جانے والے نظام ’کاوچ‘ یعنی حفاظتی ڈھال کے ٹرائل میں خود حصہ لیا تھا۔ اس وقت یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ کاوچ انڈین ریلوے میں حادثات کو روکنے کے لیے ایک سستی اور بہتر تکنیک ہے۔

ٹرین کے انجن میں سوار ہو کر اس کی آزمائش کی ویڈیو وزیر ریلوے نے خود بنوائی تھی۔

https://twitter.com/AshwiniVaishnaw/status/1499647049620668421

’کاوچ‘ ایک مقامی سطح پر تیار کی جانے والی ٹیکنالوجی ہے اور اس کے متعلق حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ ٹیکنالوجی ہندوستانی ریلوے کے تمام مصروف روٹس پر لگائی جائے گی، تاکہ ٹرین حادثات کو روکا جا سکے۔

لیکن ان تمام دعوؤں کے بعد بھی ریل حادثات کو روکا نہیں جا رہا ہے۔ یہی نہیں وزیر ریلوے کے دعوے کے باوجود انڈین ریلوے کی تاریخ کا سب سے بڑا حادثہ جمعہ کی شام اوڈیشہ میں پیش آیا۔

سب سے بڑی بات یہ ہے کہ جس طرح کے حادثے کو روکنے کے لیے 'کاوچ' تیار کیا گیا تھا جمعے کو ہونے والا حاڈثہ بالکل ویسا ہی حادثہ تھا جو اڑیسہ کے بالاسور میں ہوا ہے۔

یہ انڈین ریلویز کی تاریخ کے پانچ بدترین حادثوں میں سے ایک ہے۔

نیشنل ڈیزاسٹر رسپانس فورس کے سربراہ اتل کروال نے کہا کہ تصادم سے کئی بوگیاں کچلی گئیں اور امدادی ٹیموں کو مسافروں تک پہنچنے کے لیے ملبے کو کاٹنا پڑا ہے۔18 گھنٹوں تک لاشیں اور زخمی مسافروں کو نکالنے کے لیے سینکڑوں ایمبولینسیں، ڈاکٹر، نرسیں اور رضاکاروں کو جائے وقوعہ بھیجا گیا۔

انڈیا میں دنیا کے سب سے بڑے ریلوے نیٹ ورکس میں سے ایک ہے جہاں روزانہ 12 ہزار سے زیادہ لوگ سفر کرتے ہیں۔ ان ٹرینوں کی بدولت لاکھوں مسافروں ملک میں سفر کرتے ہیں تاہم اس کے انفراسٹرکچر کو بہتری درکار ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More