’اپنا باس خود بننے کی خواہش یا آمدن کے محدود مواقع‘ جنریشن زی نوکری کیوں نہیں کرنا چاہتی؟

بی بی سی اردو  |  Apr 27, 2024

Getty Images

نوکری کو ٹھکرا کر یا نوکری کو چھوڑ کر اپنا کاروبار شروع کرنے کا فیصلہ شاید ماضی میں کبھی اتنا عام نہیں تھا جتنا اب ہے۔

جنریشن زی یعنی وہ لوگ جن کی پیدائش 1996 کے بعد ہوئی ہے وہ تبدیلی کے اس رجحان کو لیڈ کر رہے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ دُنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی یہ رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے؟

خاص طور پر اکثر نوجوان ان دنوں بس یہ چاہتے ہیں کہ کوئی انھیں یہ نہ کہے کہ میاں آفس آنے میں اتنی دیر کیوں کی یا جو کام آپ کے ذمے لگایا تھا وہ کیوں نہیں ہوا۔ اب تو نوجوان ملازمت سے دور بھاگنے کی کوشش میں ہیں اور بس ایک لیپ ٹاپ اور اچھے انٹرنیٹ کی مدد سے دُنیا کو ایکسپلور کرنا چاہتے ہیں۔

وہ چاہتے ہیں کہ کام ہو تو بس اپنا یعنی اپنی کمپنی ہو جس کے وہ باس ہوں اور جب چاہیں کام کریں اور جب چاہیں بریک لیں، انھیں یہ چیلنجنگ دُنیا پسند ہے۔

برطانیہ کے ایک بڑے مالیاتی ادارے لائڈز بینک کے ایک وسیع سروے میں سامنے آیا ہے کہ جنریشن زی کے نوجوانوں میں سے 60 فیصد کا کہنا تھا کہ وہ نوکری چھوڑ کر خود اپنا کوئی کام شروع کرنا چاہیں گے۔

تاہم 80 فیصد نے کہا کہ کسی اور ’باس‘ کے نیچے کام کرنے کے بجائے وہ اپنا ’باس‘ خود بننا چاہیں گے۔

19 فیصد کا کہنا تھا کہ نوکری میں وہ سکون نہیں، جو وہ چاہتے ہیں تو کام اپنا اور سکون بھی اپنا خود تلاش کریں گے۔

اسی طرح امریکہ میں بھی ایک ریسرچ میں سامنے آیا کہ 50 فیصد نوجوان نوکری کے بجائے خود اپنا کاروبار کرنا چاہتے ہیں۔

اس قسم کی تبدیلی پاکستان اور انڈیا میں بھی آپ نے اپنے ارد گرد محسوس ضرور کی ہوگی۔

عائشہ اعوان کی ہی مثال لے لیں جنھوں نے اپنی تعلیم کے دوران ہی طے کر لیا تھا کہ انھیں نوکری نہیں کچھ اور کرنا ہے۔

وہ ایک سٹارٹ اپ ’سوشل بو‘ کی شریک بانی ہیں۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ ہمیشہ سے کسی کے لیے کام کرنے کے خیال سے متفق نہیں تھیں اور انھوں نے دوران تعلیم ہی طے کر لیا تھا کہ انھیں نوکری نہیں بلکہ اپنا کام شروع کرنا ہے۔

عائشہ کہتی ہیں ’میرے لیے تخلیق، سوچ اور اظہار کی آزادی بہت اہم ہیں، اسی لیے جب مجھے پہلا موقع ملا تو میں نے اپنا سٹارٹ اپ شروعکر دیا۔‘

عائشہ اعوان کہتی ہیں:’یہ پُرخطر ہے، بہت تناؤ رہتا ہے۔ ٹیم سے کام کروانا بہت مشکل ہوتا ہے لیکن اس میں جو مزا اور اپنا کام کرنے کی خوشی ہے وہ سب سے الگ ہے۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ سب سے پہلا اعتراض خاندان کی جانب سے تھا تاہم ان کا ماننا ہے کہ اب کاروبار کرنا بہت آسان ہو گیا ہے، بس ایک لیپ ٹاپ اور وائی فائی ہونا چاہیے اور آپ پوری دنیا کے لوگوں سے جڑ سکتے ہیں۔

Getty Images

زیادہ تر معاشروں میں نوکری کو بہتر ایک آپشن تصور کیا جاتا رہا ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ ایسی تبدیلیاں اچانک نہیں آتیں۔ پاکستان جیسے ملکوں میں بھی آہستہ آہستہ صورت حال تبدیل ہو رہی ہے۔

پاکستانی کمپنی گرے میٹر گلوبل کے چیف ایگزیکٹو سلمان شاہد نے بی بی سی کو بتایا کہ پاکستان میں اب بھی نوجوانوں کی اکثر اپنا کام کے بجائے نوکری کے متلاشی ہیں۔ سلمان شاہد کی کمپنی ‘گرے میٹر گلوبل‘ یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم طلبا کو ان کو کیریئر کے چناؤ میں مدد فراہم کرتی ہے۔

سلمان شاہد کا کہنا ہے کہ پاکستان کے معاشی حالات نوجوان کو مجبور کر رہے ہیں کہ وہ آمدن کے متبادل ذرائع کو تلاش کریں۔

انھوں نے بتایا کہ پاکستان کی یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم 78 فیصد طلبا اب بھی چاہتے ہیں کہ انھیں کسی طریقے سے نوکری مل جائے۔

البتہ حالیہ دنوں میں نوجوانوں کے رویوں میں تبدیلی آئی ہے اور اس کی بڑی وجہ سوشل میڈیا ہے جہاں انفلویئنسر نوجوانوں کو متبادل ذرائع آمدن کی راہ دکھا رہے ہیں۔

نوجوان ناصرف آمدن کے متبادل ذرائع کو تلاش کرنےکی تگ و دو میں ہیں بلکہ وہ ایک متبادل لائف سٹائل چاہتے ہیں۔

کورونا کی وبا بھی نوجوانوں کے رویوں میں تبدیلیوں کی ایک وجہ بنی ہے۔

سلمان شاہد کہتے ہیں کہ ’اپنا باس خود‘ بننے کی بات تو ایک مذاق سے شروع ہوئی تھی، لیکن وہ اب حقیقت کا روپ دھار رہی ہے۔ اب نوجوان انٹرنشپ اور فری لانسنگ کو اس لیے ترجیح دیتے ہیں کہ اس کام کے اوقات میں لچک ہے اور گھر سے کام کرنے کی وجہ سے ان کا سفر پر اٹھنے والا خرچ بھی کم ہو رہا ہے اور اپنے کام کا معاوضہ بھی اچھا مل رہا ہے۔

سلمان شاہد سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں ملازمت کے حالات اتنے خراب ہیں کہ چار برسوں تک یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان (جس نے اپنی تعلیم پر 15-20 لاکھ خرچ کیے ہیں) اگر 35-40ہزار کی ماہانہ تنخواہ والی نوکری (وہ بھی کسی کی مہربانی سے) لے کر خوش ہو رہا ہے تو یہ اس نوجوانوں کے ساتھ انتہائی زیادتی ہے جو ہمارا معاشرہ اپنے نوجوانوں کے ساتھ کر رہا ہے۔

Getty Images

مکمل گارنٹی کے ساتھ یہ کہنا مشکل ہے کہ نوکری کرنا مشکل ہے یا کاروبار، کیونکہ اس سب کا انحصار انسان کی شخصیت، اس کے حالات اور اردگرد سپورٹ سسٹم پر بھی ہوتا ہے اور ہر انسان کے حوالے سے دونوں کے اپنے اپنے فائدے اور نقصانات ہیں۔

نوکری کا فائدہ یہ ہے کہ اس سے ہر مہینے آپ کے ہاتھ میں ایک تنخواہ آتی ہے، آپ کو یہ فکر نہیں ہوتی کہ کمپنی کو کیسے چلانا ہے، پیسے کہاں سے آئیں گے اور طے شدہ اوقات میں کام کرنے سے آپ گھر والوں کو بھی وقت دے پاتے ہیں مگر آمدن محدود ہوتی ہے اور بڑھنے کے مواقع بھی بہت محدود ہوتے ہیں۔

اس کے علاوہ کوئی آئیڈیا منظور کروانے میں بھی ہفتوں لگ جاتے ہیں، فوری فیصلے کا کم اختیار کوفت کا باعث بنتا ہے۔

دوسری جانب کاروبار میں آمدن کی کوئی حد مقرر نہیں کی جا سکتی، فیصلوں اور وقت کے حوالے سے لچک موجود ہوتی ہے، ورک لائف بیلنس بہتر ہوتا ہے مگر پیسے کا رسک بھی ہوتا ہے اور کاروبار نہ چلے تو سارے پیسے ڈوب بھی سکتے ہیں اور کئی کئی گھنٹے کام بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔

اور ایسے فیصلے کرنے سے زیادہ مشکل ان پر ڈٹے رہنا اور انھیں کامیاب انجام تک پہنچانا ہوتا ہے۔

بلایی وائز کے بانی حمزہ احسن کہتے ہیں کہ جب انھوں نے پہلا سٹارٹ اپ شروع کیا تو بہت زیادہ مشکلات تھیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ ابتدا میں اندازہ نہیں تھا کہ کن لوگوں سے ملیں، کن سے بات کریں، نہ کوئی تجربہ تھا نہ کوئی مددگار ’بس ایک جذبہ تھا کہ کچھ کرنا ہے اور پیچھے نہیں ہٹنا‘ اسی باعث انھیں کامیابی بھی ملی۔

وہ کہتے ہیں کہ ’لوگ تو باتیں سنائیں گے مگر آپ نے خود پر بھروسہ کرنا ہے، رکنا نہیں ہے اور کام کرتے رہنا ہے۔‘

تو اگر آپ کے حالات ساتھ دیں تو اس سے بہتر کیا ہو سکتا ہے کہ آپ اپنے دل کی سنیں اور وہ کریں جس میں آپ کا دل لگے، مگر سمجھداری اسی میں ہے کوئی بھی قدم اچھے یا برے اثرات کا جائزہ لیے بغیر نہ اٹھائیں۔

اسی بارے میں’ایف‘ گریڈ اور نمبرز ختم۔۔۔ پاکستان میں میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے رزلٹ کا نیا نظام کیسے کام کرے گا؟خرچ پر کنٹرول، بچت، سرمایہ کاری: ’فِنفلوئنسر‘ کون ہوتے ہیں اور کیا اُن کے مشوروں پر عمل کرنا چاہیے؟’لوگوں نے کہا میں بُنائی کرتا ہوں تو میں مرد نہیں، اب وہی لوگ کاروبار کو سراہتے ہیں‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More