پاکستان کو گھر بنانے والے افغان جو اب ملک بدری کے خوف سے ’چُھپ رہے ہیں‘

اردو نیوز  |  Apr 29, 2024

نصف صدی قبل ہمسایہ ملک افغانستان سے پاکستان منتقل ہونے والے والدین کے ہاں پیدا ہونے اور پرورش پانے والے ایک 18 سالہ نوجوان نے خود کو کراچی میں پولیس کے رحم و کرم پر پایا جس نے اس کی نقدی، فون اور موٹرسائیکل چھین کر اسے ڈی پورٹیشن سینٹر بھیج دیا۔

یہ نوجوان خوفزدہ اور پریشان تھا جس نے افغانستان واپس بھیجے جانے سے قبل تین دن وہاں گزارے جہاں وہ کبھی نہیں گیا تھا، اس کے پاس کپڑوں کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔

امریکی خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق یہ نوجوان ان 17 لاکھ افغانوں میں سے ایک ہے جنہوں نے پاکستان کو اپنا گھر بنایا کیونکہ ان کے ملک میں دہائیوں سے جنگ تھی۔ یہ پناہ گزین بغیر قانونی اجازت کے مقیم ہیں اور اب وہ تارکین وطن کے خلاف سخت کریک ڈاؤن کا نشانہ ہیں جن کے بارے میں پاکستان کا کہنا ہے کہ ان کو چلے جانا چاہیے۔

گزشتہ اکتوبر میں جب کریک ڈاؤن شروع ہوا تھا تو تقریباً چھ لاکھ افغان وطن واپس جا چکے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ کم از کم ایک ملین پاکستان میں چھپے ہوئے ہیں۔ وہ نظروں سے اوجھل ہو گئے ہیں، ملازمتیں چھوڑ دی ہیں اور بہت ہی کم اپنے علاقوں سے نکلتے ہیں کیونکہ ان کو ملک بدری کا خوف ہے۔

ان کے لیے پیسے کمانا، کرایے پر مکان لینا، کھانا خریدنا یا طبی امداد حاصل کرنا مشکل ہے کیونکہ ان کو پولیس کے ہاتھوں پکڑے جانے یا پاکستانیوں کی جانب سے حکام کو رپورٹ کیے جانے کا خدشہ ہے۔

یہ نوجوان جو 15 سال کی عمر سے آٹو شاپ میں مکینک کے طور پر کام کر رہا ہے، نے گرفتاری اور ملک بدری کے خوف سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی۔

نوجوان نے ان ہی قانونی اسناد کے لیے درخواست دی ہے جو اس کے خاندان کے پاس ہے لیکن یہ اب نہیں ملیں گے۔ پاکستان افغان پناہ گزینوں یا ان کے بچوں کے لیے قانونی اسناد جاری نہیں کر رہا ہے۔

نوجوان نے اُس وقت ملک میں پناہ گزینوں کے مخالف چھاپوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’میری زندگی یہاں ہے۔ افغانستان میں میرا کوئی دوست یا خاندان نہیں ہے، کچھ بھی نہیں۔ میں جلد واپس (پاکستان) آنا چاہتا تھا لیکن سب سے پہلے صورتحال کو پرسکون ہونا چاہیے تھا۔‘

جب وہ نئی زندگی شروع کرنے کے لیے افغانستان میں داخل ہوا تو طالبان حکام نے اسے ڈھائی ہزار افغانی (34 ڈالر) دیے۔ انہوں نے اس نوجوان کو شمال مشرقی صوبہ تخار بھیج دیا جہاں وہ مساجد اور مدارس میں سوتا تھا کیونکہ وہ وہاں کسی کو نہیں جانتا تھا۔ اس نے وہاں کرکٹ اور فٹ بال کھیل کر اپنا وقت گزارا اور اپنے گھر والوں سے رابطے کے لیے لوگوں کا فون استعمال کیا۔

سینکڑوں افغان پناہ گزین اپنے خاندانوں سمیت افغانستان واپس جا چکے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)چھ ہفتے بعد نوجوان نے تخار سے افغان دارالحکومت کابل اور پھر مشرقی صوبہ ننگرہار کا سفر کیا۔ پاکستان میں اپنے بھائی کی مدد سے انسانی سمگلروں سے ملنے سے قبل وہ گھنٹوں اندھیرے میں چلتا رہا۔ ان کا کام اسے 70 ڈالر کے عوض پشاور پہنچانا تھا۔

وہ اپنے خاندان سے دوبارہ ملنے پر سکون محسوس کر رہا ہے لیکن وہ کمزور ہے۔

پولیس نے اس کے علاقے میں گھروں پر نمبر لگا دیے ہیں تاکہ یہ ظاہر کیا جا سکے کہ وہاں کتنے لوگ رہتے ہیں اور کتنوں کے پاس دستاویزات ہیں۔ آپریشن شروع ہونے کے بعد سے سینکڑوں افغان خاندان علاقے سے نقل مکانی کر چکے ہیں۔ کچھ ہی لوگ چھپے ہوئے ہیں۔

کراچی کے ایسے علاقوں میں نکاسی آب کا نظام، صحت یا تعلیم کی سہولیات نہیں۔ سڑکوں پر بہت کم خواتین نظر آتی ہیں جنہوں نے نیلے رنگ کا برقعہ پہنا ہوتا ہے۔

وکیل منیزہ کاکڑ جو کراچی میں افغانوں کے لیے بڑے پیمانے پر کام کرتی ہیں، نے کہا کہ ایسے خاندانوں کی نسلیں ہیں جن کے پاس اسناد نہیں، وہ سکول یا ہسپتال جیسی بنیادی خدمات تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے۔

کریک ڈاؤن سے پہلے ہی افغان ریڈار کی زد میں آ گئے تھے، اور ایسی افواہیں بہت زیادہ ہیں کہ پاکستان تمام افغانوں کو نکالنا چاہتا ہے، یہاں تک کہ ان کو بھی جن کے پاس دستاویزات موجود ہیں تاہم پاکستان کا کہنا ہے کہ ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔

کراچی کے ایک اور علاقے میں جہاں زیادہ تر افغان آبادی ہے، پولیس کے پہنچنے پر لوگ ادھر ادھر ہو غائب ہو جاتے ہیں۔ مخبروں کا ایک نیٹ ورک ان کو پولیس کے بارے میں اطلاع دیتا ہے۔

منیزہ کاکڑ پاکستان میں رہنے والے افغانوں کی حالت زار پر مایوس ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’بعض اوقات ان کے پاس کھانا نہیں ہوتا اس لیے ہم اقوام متحدہ سے ان کی مدد کے لیے اپیل کرتے ہیں۔ پیسہ کمانے یا طبی امداد حاصل کرنے کے لیے وہ پہلے ایسے علاقوں سے کراچی کے مرکز کا سفر کرتے تھے لیکن اب وہ یہ برداشت نہیں کر سکتے۔ ان کی گرفتاری کا بھی امکان ہوتا ہے۔‘

کچھ لوگ منیزہ کاکڑ کو فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے دور کے شناختی کارڈ دکھاتے ہیں ’وہ حیران ہیں کہ 40 سال بعد ان کے پاس شہریت کیوں نہیں ہے۔ وہ اپنے مقام کو شیئر نہیں کرتے۔ وہ باہر نہیں جاتے۔ وہ کسی اور کے نام پر کرائے کے مکان میں رہتے ہیں۔‘

منیزہ کاکڑ نے مزید کہا کہ ’ایسے بچے ہیں جو پاکستان میں پیدا ہوئے جو بڑے ہو گئے اور اب ان کے اپنے بچے ہیں۔ ان بچوں کے پاس کوئی شناختی اسناد نہیں۔ ان سب کا مستقبل غیریقینی ہے۔‘

کراچی میں پولیس افغان پناہ گزینوں کا ریکارڈ چیک کر رہی ہے۔ (فوٹو: اے پی)سید حبیب الرحمان کراچی میں افغان قونصل خانے میں میڈیا کوآرڈینیٹر کے طور پر کام کرتے ہیں وہ ان کمیونٹیز میں بہت زیادہ وقت گزارتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’یہاں خالی گھر اور خالی دکانیں ہیں۔ مارکیٹیں خالی ہیں۔ جن پاکستانیوں کو ہم جانتے ہیں وہ اس صورتحال سے متفق نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے ہمارے ساتھ اچھی زندگی گزاری ہے۔ ان کا کاروبار ختم ہو گیا ہے کیونکہ بہت سے افغان خاندان چلے گئے ہیں۔‘

اے پی کی طرف سے انٹرویو کیے گئے افغانوں نے پاکستان میں اپنی حیثیت قانونی بنانے کے بارے میں کہا کہ وہ بیرون ملک کام کر رہے ہیں۔ کسی نے کہا کہ ان کے پاس وقت نہیں تھا۔ کسی نے کہا کہ سوچا بھی نہیں تھا کہ پاکستان انہیں باہر نکال دے گا۔

32 برس کے محمد خان مغل کراچی میں پیدا ہوئے اور ان کے تین بچے ہیں۔ کریک ڈاؤن شروع ہونے سے قبل وہ تندور کا کاروبار کرتے تھے۔ پولیس نے ان کو کاروبار بند کرنے کا کہا۔

انہوں نے کہا کہ ’میرے کسٹمرز نے شکایت کرنا شروع کر دی کیونکہ وہ مجھ سے روٹی نہیں خرید سکتے تھے۔‘ وہ اور ان کا خاندان چھاپوں سے بچنے کے لیے کوئٹہ گئے۔

وہ کچھ دنوں بعد کراچی واپس آیا اور اب جانے کا کوئی ارادہ نہیں۔ ’یہ میرا گھر ہے اور میرا شہر ہے۔‘ اس نے فخر اور اداسی کے ساتھ کہا۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More