صدف احسان یا صدف یاسمین: جے یو آئی میں دو ہم نام خواتین کا معاملہ کیا ہے؟

اردو نیوز  |  Apr 30, 2024

قومی اسمبلی کی مخصوص نشست پر دو خواتین دعوے دار سامنے آ گئی ہیں۔ یہ دلچسپ صورت حال پیدا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہ دونوں خواتین ہم نام ہیں۔

کامیاب خاتون رکن قومی اسمبلی صدف احسان یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ ان کو پارٹی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے خود ٹکٹ جاری کیا جبکہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کا کہنا ہے کہ انہوں نے غلط طور پر یہ نشست حاصل کی ہے اور یہ معاملہ اب سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) نے 17 اپریل کو سپریم کورٹ میں دائر کی گئی درخواست میں موقف اختیار کیا ہے کہ ایک ایسی خاتون امیدوار مبینہ طور پر شناخت چرا کر انتخاب جیتنے میں کامیاب ہوئی ہیں جنہیں جماعت نے انتخابی میدان میں سرے سے اتارا ہی نہیں تھا، جبکہ 19 اپریل کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں مبینہ طور پر جے یو آئی کی طرف سے صدف احسان نے حلف اٹھایا لیکن پارٹی ان کی رکنیت سے انکار کرتی ہے۔

سوشل میڈیا پر پارٹی کارکن بھی اس حوالے سے احتجاج ریکارڈ کروا رہے ہیں۔ سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

جے یو آئی (ف) کے وکیل کامران مرتضیٰ نے اس موقعے پر اپنے دلائل میں یہ استدلال پیش کیا کہ جے یو آئی (ف) کی طرف سے مخصوص نشست پر امیدوار صدف احسان نہیں بلکہ صدف یاسمین تھیں۔

سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن، اٹارنی جنرل اور صدف احسان کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی تھی۔ الیکشن کمیشن نے بھی صدف احسان کا نوٹیفیکیشن معطل کر دیا تھا۔

پارٹی نے صدف احسان پر شناخت چرانے اور خیبرپختونخوا سے خواتین کی مخصوص نشست پر جے یو آئی (ف) کی طرف سے کھڑی کی گئی دوسری امیدوار کی شناخت اختیار کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ 

صدف احسان کی کامیابی کے نوٹیفکیشن کے معاملے پر الیکشن کمیشن نے بھی نوٹس لیا تھا اور متعلقہ ریٹرننگ افسر کو معطل کرتے ہوئے معاملے کی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔

ترجمان الیکشن کمیشن کے مطابق جے یو آئی (ف) کی جانب سے جمع کروائی گئی لسٹ میں صدف یاسمین کا نام شامل تھا تاہم کاغذات نامزدگی جمع کرانے والی خاتون کا نام صدف احسان ہے۔

الیکشن کمیشن خیبر پختونخوا کے ترجمان سہیل احمد نے اس حوالے سے اُردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اس وقت یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت ہے، اس لیے اس حوالے سے الیکشن کمیشن خیبر پختونخوا کوئی بیان جاری نہیں کر سکتا۔

سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن، اٹارنی جنرل اور صدف احسان کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی تھی۔ (فوٹو اے ایف پی)ان کے بقول ’یہ کیس سپریم کورٹ میں زیرسماعت ہے۔ صدف احسان کا نوٹیفیکیشن معطل ہو چکا ہے اور اس لیے کچھ بھی کہنا سردست مناسب نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے ایک بار نام نوٹیفائی ہوگیا تھا اب اس کے بعد کیا ہوا یا کیا ہو گا؟ یہ سپریم کورٹ طے کرے گا۔‘

ان کے مطابق متعلقہ ریٹرننگ آفیسر نے جانچ پڑتال کے بعد کاغذات منظور کیے تھے۔ ’کوائف سے متعلق اعتراضات کے لیے بھی وقت دیا جاتا ہے اور ایک ٹریبیونل مقرر کیا جاتا ہے، اس کیس میں بھی تمام مراحل طے کیے گئے ہیں۔‘

جمعیت علمائے اسلام (ف) میں پارٹی سطح پر اس حوالے سے چہ میگوئیاں ہوتی رہی ہیں اور کارکنان بھی نالاں نظر آتے ہیں تاہم سوشل میڈیا پر صدف احسان کے والد احسان اللہ خان بھی متحرک ہیں۔

احسان اللہ خان اپنی بیٹی سے متعلق سوشل میڈیا پر بیانات بھی جاری کر رہے ہیں اور انہوں نے مولانا فضل الرحمان کے ساتھ مختلف مواقع کی ویڈیوز بھی اپ لوڈ کی ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے مقامی سطح پر پارٹی کے لیے اپنی ذاتی سرگرمیوں کی ویڈیوز بھی شیئر کی ہیں۔

اپنے فیس بُک اکاؤنٹ پر انہوں نے اپنی بیٹی کے حوالے سے ایک طویل پوسٹ بھی لگائی جس میں انہوں نے اپنی بیٹی کی طرف سے لکھا کہ ’میرے بابا حاجی ٹھیکیدار احسان اللّٰہ خان مروت گذشتہ کئی برسوں سے جمعیت علمائے اسلام (ف) اور پارٹی قائد مولانا فضل الرحمان کے وفادار ہیں اور میں نے پارٹی کی جانب سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر کاغذات نامزدگی جمع کروائے تھے۔ میرے پاس وہ رسیدیں بھی موجود ہیں۔‘

صدف احسان کے مطابق مولانا فضل الرحمٰن کے پرسنل اسسٹنٹ نے ان کا نام قومی اسمبلی کے لیے ترجیحی لسٹ میں صدف یاسمین لکھا تھا۔ (فوٹو اے ایف پی)اُردو نیوز کے رابطہ کرنے پر صدف احسان نے کہا کہ’صدف احسان اور صدف یاسمین ایک ہی خاتون ہے۔ میری والدہ کا نام یاسمین بی بی ہے جبکہ میرے والد کا نام احسان ہے۔ اس وجہ سے مولانا فضل الرحمان کے پرسنل اسسٹنٹ نے میرا نام قومی اسمبلی کے لیے ترجیحی لسٹ میں صدف یاسمین لکھا تھا اور صوبائی ترجیحی لسٹ میں ہاتھ سے صدف احسان لکھا تھا۔‘

جمعیت علمائے اسلام کی جانب سے الیکشن کمیشن خیبر پختونخوا کو خواتین کی مخصوص نشستوں کے لیے جو فہرست فراہم کی گئی تھی اُس میں شاہدہ اختر علی، نعیمہ کشور، حنا بی بی اور صدف یاسمین کے نام بالترتیب لکھے گئے تھے۔

اس حوالے سے صدف احسان نے اُردو نیوز کو بتایا کہ ’پارٹی کی جانب سے جو فہرست فراہم کی گئی تھی اُس میں حنا بی بی کے علاوہ باقی تمام ناموں میں مسائل تھے تو میرے نام میں ایک معمولی سی غلطی کو کیوں اتنا بڑا مسئلہ بنایا جا رہا ہے؟ ہم نے خود یہ نکتہ عدالت کے سامنے رکھا کہ باقی نام بھی درست نہیں ہیں۔ نام میں سب سے اہم پہلا حصہ ہوتا ہے اور وہ درست ہے۔ اب سپریم کورٹ نے نوٹس بھیجا ہے اور ہم اپنے کیس کا بھرپور دفاع کریں گے۔‘

پارٹی کی جانب سے فراہم کی گئی ترجیحی فہرست میں پہلے دو ناموں کو منتخب کیا گیا تاہم اس کے بعد حنا بی بی اور صدف یاسمین کا نام آرہا تھا جن میں سے حنا بی بی کو اس لیے منتخب نہیں کیا گیا کہ اُنہوں نے قومی اسمبلی کی نشست کے لیے کاغذات جمع نہیں کرائے تھے۔

اس حوالے سے صدف احسان کا کہنا تھا کہ ’حنا بی بی نے صوبائی اسمبلی کی نشست کے لیے کاغذات جمع کرائے تھے تاہم سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو ان کا نام شامل کر کے آخر میں رکھنے کی تاکید کی جس کی وجہ سے تیسرا نام میرا منتخب ہوا کیوں کہ جے یو آئی کو خیبر پختونخوا سے تین مخصوص نشستیں ملی ہیں۔‘

اسلم غوری  نے صوبائی الیکشن کمیشن پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے پارٹی ٹکٹ صدف یاسمین کو جاری کیا ہے۔‘ (فوٹو اے ایف پی)دوسری جانب الیکشن کمیشن میں جے یو آئی (ف) کی جانب سے دی گئی درخواست میں موقف اپنایا گیا ہے کہ امیدوار کا نام صدف یاسمین ہے جب کہ صدف یاسمین نے الیکشن کمیشن میں کوئی کاغذات نامزدگی جمع نہیں کرائے۔

جے یو آئی (ف) کے ترجمان اسلم غوری نے اس حوالے سے اُردو نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’صدف یاسمین نے کاغذات نامزدگی جمع نہیں کروائے کیونکہ وہ کراچی میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہائش پذیر ہیں اور انہوں نے انتخابات میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔‘

انہوں نے صوبائی الیکشن کمیشن پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے پارٹی ٹکٹ صدف یاسمین کو جاری کیا ہے لیکن بدقسمتی سے صدف یاسمین اپنے کاغذات جمع نہ کروا سکیں۔ اس لیے صوبائی الیکشن کمیشن کی ملی بھگت کے ساتھ صدف احسان کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا۔‘

جے یو آئی (ف) کے ترجمان کا صدف یاسمین سے متعلق کہنا تھا کہ ’ان کا تعلق چترال سے ہے۔ صدف یاسمین چترال کے ضلعی جنرل سیکریٹری انعام اللہ کی اہلیہ ہیں۔ انعام اللہ کا نصف خاندان کراچی میں رہائش پذیر ہے اس لیے صدف یاسمین کبھی چترال ہوتی ہیں تو کبھی کراچی۔ وہ گذشتہ دنوں عید کے موقع پر کراچی میں قیام پذیر تھیں۔‘

ان کے مطابق پارٹی نے سپریم کورٹ میں درخواست دی ہے لیکن صدف احسان نے ہائی کورٹ سے فیصلہ لے کر نوٹیفکیشن حاصل کیا اور حلف اٹھا لیا۔

انہوں نے اس حوالے سے بتایا کہ ’ہماری ایک ایم این اے نے اسمبلی فلور پر اس بارے میں بتایا بھی کہ سپریم کورٹ نے ان کا نوٹیفکیشن معطل کر دیا ہے تو اب یہ کیسے یہاں اسمبلی میں موجود ہیں؟‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ جاننا اہم ہے کہ اس معاملے پر صوبائی یا قومی سطح پر کہاں ملی بھگت ہوئی ہے لیکن نام وہی لکھا جائے گا جو شناختی کارڈ پر درج ہو۔‘

صدف احسان نے کہا کہ ’اس معاملے میں ہم نے کسی بھی طاقتور حلقے سے مدد نہیں لی۔‘ (فوٹو اردو نیوز)جے یو آئی (ف) کے ترجمان سے اُردو نیوز نے جب یہ سوال کیا کہ کیا اس معاملے میں کسی اور طاقت کا اثر و رسوخ استعمال ہوا ہے؟ اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’جتنی تیزی سے ان کا سارا کام ہو رہا ہے۔ ہائی کورٹ سے فیصلہ آتا ہے اور پھر نیا نوٹیفکیشن جاری ہوتا ہے تو شبہات کا پیدا ہونا فطری ہے۔‘

صدف احسان نے ان خدشات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ ’اس معاملے میں ہم نے کسی بھی طاقتور حلقے سے مدد نہیں لی بلکہ سب کچھ میری قسمت میں تھا اور میرے ساتھ میرے علاقے کے بے شمار غریبوں کی دعائیں ہیں۔ مولانا فضل الرحمان نے خود مجھے یہ نشست دی ہے لیکن میں فی الحال یہ نہیں جانتی کہ کون میرے خلاف سازش کر رہا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ وہ کسی بھی صورت میں مستعفی نہیں ہو رہیں اور اپنا کیس لڑیں گی۔ ’میں پیچھے نہیں ہٹوں گی۔ یہ کبھی کہتے ہیں صدف یاسمین چترال سے ہیں تو کبھی کہتے ہیں ان کا تعلق کراچی سے ہے۔ یہ اگر ایک ہی موقف اختیار کرتے تو پھر بھی بات ہوسکتی تھی۔ اُمید ہے کہ یہ اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے کیس واپس لے لیں گے۔‘

ان کے مطابق ’چار نام فہرست میں شامل ہیں اور ان میں سے تین کو منتخب کیا گیا ہے جبکہ حنا بی بی نے کاغذات نامزدگی ہی جمع نہیں کروائے۔ اس لیے اگر یہ نشست مجھے نہ ملتی تو کسی اور کو بھی نہیں مل سکتی تھی۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More