بلراج ساہنی کبھی ہجرت کا غم نہ بھلا سکے، راولپنڈی اور لاہور ان کی یادوں میں بسے رہے

اردو نیوز  |  May 01, 2024

وہ اس وقت ممبئی کے علاقے جوہو کے ایک دفتر میں موجود تھے جب انہیں ایک ایسا کردار ادا کرنے کی پیشکش کی گئی جس نے انہیں ہندوستانی سینما کے عظیم ترین اداکاروں کی صف میں لا کھڑا کیا۔ یہ کردار انہیں حادثاتی طور پر ملا۔

’میں جب بمل رائے کے کیبن میں داخل ہوا تو وہ کچھ لکھ رہے تھے۔ انہوں نے لکھنا چھوڑا اور میری جانب دیکھا۔ وہ خاموشی سے میری جانب دیکھ رہے تھے۔ کچھ لمحوں بعد انہوں نے دفتر میں موجود لوگوں کی جانب رُخ کیا اور کہا، کیا آپ کے ذہن میں یہ شخص تھا؟ آپ میرے ساتھ کیا مذاق کر رہے ہیں؟‘

وہ مزید لکھتے ہیں، ’وہ بظاہر انجان تھے کہ میں بنگالی زبان سے ناواقف ہوں۔ انہوں نے مجھے نشست پر بیٹھنے کی پیشکش بھی نہیں کی اور کہا، ’میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ آپ اس کردار کے لیے ناموزوں ہیں جو میں اپنی فلم میں ادا کروانا چاہتا ہوں۔‘

انڈیا کے بے مثل اداکار بلراج ساہنی نے یہ مکالمہ اپنی خودنوشت سوانح عمری ’میری فلمی اتم کتھا‘ میں بیاں کیا ہے۔

بلراج ساہنی یہ سُن کر ٹوٹ سے گئے۔ انہوں نے بمل رائے سے ہچکچاتے ہوئے پوچھا کہ یہ کس قسم کا کردار ہے؟

بمل رائے نے جواب دیا، ’یہ ایک گنوار دیہاتی کا کردار ہے۔‘

بلراج ساہنی نے جب یہ کہا کہ وہ خواجہ احمد عباس کی فلم ’دھرتی کے لال‘ میں پہلے بھی ایسا کردار ادا کر چکے ہیں تو بمل رائے کو اپنا فیصلہ تبدیل کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگی بلکہ وہ ان سے اس قدر متاثر ہو گئے کہ انہوں نے بلراج ساہنی کو اپنی فلم ’دو بیگھا زمین‘ میں شمبھو مہتا' کا مرکزی کردار ادا کرنے کی پیشکش کی۔ یہ کردار بلراج ساہنی کی زندگی میں ایک اہم موڑ ثابت ہوا۔ش

منظر تبدیل ہوتا ہے۔

یہ سنہ 1946 کا ذکر ہے۔ ماسکو میں فلم بین جوق در جوق فلم دیکھنے آ رہے ہیں۔ یہ ہندی زبان کی فلم ’دھرتی کے لال‘ ہے جس نے سماجی حقیقت نگاری کا ایک نیا آہنگ پیش کیا۔

اطالوی ہدایت کار وٹوریو ڈی سیکا کی کلاسیکی فلم ’بائی سائیکل تھیوز‘ کے ریلیز ہونے میں دو سال رہتے ہیں۔ یہ فلم سال 1943 میں بنگال میں آنے والے قحط کی کہانی بیان کرتی ہے جس میں لاکھوں لوگ جان سے گئے تھے۔

اس فلم میں ایک خوبرو نوجوان نے اہم کردار ادا کیا جسے دنیا بلراج ساہنی کے نام سے جانتی ہے جن کا سفر ’دھرتی کے لال‘ جیسی کلاسیکی فلم سے شروع ہوا اور یہ ’گرم ہوا‘ ایسی بہترین فلم پر ختم ہوا۔

اس فلم کی ہدایات خواجہ احمد عباس نے دی تھی جو آنے والے برسوں میں متوازی سنیما کا ایک معتبر حوالہ قرار پائے۔ انہوں نے اس فلم کے مکالمے بھی لکھے جبکہ بیجون بھٹاچاریہ کے ساتھ مل کر سکرین پلے لکھا۔

بلراج ساہنی کا سفر ’دھرتی کے لال‘ جیسی کلاسیکی فلم سے شروع ہوا اور ’گرم ہوا‘ ایسی بہترین فلم پر ختم ہوا  (فوٹو: سنہری یادیں ورڈ پریس)

مشرقی پنجاب کے شہر امرتسر سے تعلق رکھنے والے خواجہ احمد عباس نامور ہدایت کار، سکرین رائٹر، ناول نگار، افسانہ نگار اور صحافی تھے اور اردو، ہندی اور انگریزی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ 

اس فلم کی کہانی اُردو زبان کے نامور افسانہ نگار کرشن چندر کے افسانے ’ان داتا‘ سے ماحوذ تھی۔ فلم کی موسیقی اس وقت نوجوان پنڈٹ روی شنکر نے دی تھی اور شاعروں میں علی سردار جعفری بھی شامل تھے۔

یوں کہہ لیجیے اس فلم سے اپنے اپنے شعبوں کے بڑے نام جڑے تھے۔ اس فلم میں اداکارہ زہرہ سہگل بھی پہلی بار بڑے پردے پر دکھائی دی تھیں۔

اس فلم کا آغاز دراصل اس وقت ہی ہو گیا تھا جب سال 1943 میں انڈین پیپلز تھیٹر ایسوسی ایشن (آئی پی ٹی اے) کی بنیاد رکھی گئی اور اس نے ملک کے مختلف حصوں میں بنگال میں قحط سے متاثرہ لوگوں کی مدد کے لیے چندہ جمع کرنا شروع کیا اور فلم ’دھرتی کے لال‘ میں بھی آئی پی ٹی اے سے جڑے لوگ ہی شامل تھے۔

فلم میں ایک ایسے خاندان کی کہانی کو بیان کیا گیا تھا جو قحط کا سامنا کر رہا ہے۔ اس فلم کی کہانی بقا کی جنگ میں انسانی اقدار کے روبہ زوال ہونے کے گرد گھومتی ہے۔

اولڈ راوین چیتن آنند کی فلم ’نیچا نگر‘ اور ’دو بیگھا زمین‘ اسی سماجی حقیقت نگاری سے متاثر تھیں جسے ’دھرتی کے لال‘ میں فلمایا گیا تھا۔

بلراج ساہنی بھی اولڈ راوین ہی تھے۔ ان کے اساتذہ میں سے ایک احمد شاہ پطرس بخاری بھی تھے۔ صحافی اور محقق محمود الحسن اُردو نیوز کے لیے ہی لکھے گئے اپنے ایک مضمون میں کچھ یوں رقمطراز ہیں:

’وہ ایک روز کچھ اُداس تھے تو پطرس بخاری نے انہیں دیکھ کر کہا، کیا بات ہے ساہنی، آج کچھ کھوئے کھوئے نظر آ رہے ہو؟ جانتے ہو جب کوئی نوجوان اداس ہو تو اس کی اداسی کی دو وجہیں ہوتی ہیں؛ یا وہ عشق فرمانے کی حماقت کر رہا ہے یا اس کا بٹوہ خالی ہے۔‘

وہ اس روز اداس تھے یا نہیں مگر ان کی شخصیت میں موجود اداسی ان کی فلموں میں ضرور نظر آتی ہے۔

بلراج ساہنی آج ہی کے دن یکم مئی 1913 کو مغربی پنجاب کے شہر بھیرہ کے ایک ہندو کھتری خاندان میں پیدا ہوئے۔ وہ چار برس کے تھے تو ان کا خاندان راولپنڈی کے علاقے پرندوں والی سڑک منتقل ہو گیا۔

بلراج ساہنی 30 کی دہائی میں اپنی بیوی دمایانتی ساہنی کے ساتھ رابندر ناتھ ٹیگور کے بنائے ادارے شانتی نکیتن چلے گئے اور بعدازاں مہاتما گاندھی کے آشرم سے بھی منسلک رہے۔ اس دوران وہ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی میں ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب رہے اور اس کی ہندی سروس سے بطور انائونسر منسلک ہو گئے اور برطانیہ چلے گئے، لندن میں نوبیل انعام یافتہ مصنف جارج آرویل ان کے ساتھیوں میں سے ایک تھے۔

بلراج ساہنی اداکار کے علاوہ مصنف بھی تھے جنہوں نے ہندی اور پنجابی نثر میں کام کیا (فوٹو: فلم فیئر ڈاٹ کام)

یہ یاد رہے کہ اداکار کی بیوی دمایانتی ساہنی نے بھی فلم ’دھرتی کے لال‘ میں بلراج ساہنی کے ساتھ کام کیا تھا جو فلم کی ریلیز کے کچھ عرصے بعد ہی وفات پا گئیں۔ بلراج ساہنی کے چھوٹے بھائی بھیشم ساہنی بھی مصنف اور اداکار تھے جنہوں نے تقسیم پر ناول ’تمس‘ لکھا جس پر گووند نہلانی نے فلم بنائی تھی۔

منظر تبدیل ہوتا ہے۔

’گرم ہوا‘ ایک ایسی فلم تھی جو تقسیم پر بننے والی بہترین فلموں میں سے ایک ہے۔ اس فلم کے ہدایت کار ایم ایس ستھیو تھے۔ اس فلم کی کہانی معروف افسانہ نگار عصمت چغتائی کی کہانی سے ماحوذ تھی جو دراصل ان کی اپنی کہانی تھی کیونکہ ان کے دادا کے خاندان کے علاوہ ان کے تقریباً سارے رشتے دار تقسیم کے وقت پاکستان آ گئے تھے۔ اس فلم کی کہانی کیفی اعظمی اور شمع زیدی نے لکھی تھی۔ 

شمع زیدی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر بشیر حسین زیدی اور قدسیہ زیدی کی صاحب زادی تھیں۔

بات فلم ’گرم ہوا‘ کی ہو رہی تھی تو اس فلم کی موسیقی کلاسیکی موسیقار استاد بہادر خان نے دی تھی جبکہ فلم کے گیت نگار کیفی اعظمی تھے۔ یہ فلم کبھی نہ بن پاتی اگر آئی پی ٹی اے کے ارکان کسی مقصد کے بغیر زندگی گزار رہے ہوتے۔

وہ سب کمیونسٹ تھے جن میں بلراج ساہنی بھی شامل تھے اور انہوں نے فلم میں سلیم مرزا کا مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ اس فلم میں بلراج ساہنی کے بیٹے سکندر مرزا کا کردار معروف اداکار مرحوم فاروق شیخ نے ادا کیا تھا۔

انہوں نے اس فلم کے حوالے سے انڈین ٹیلی ویژن چینل آر ایس ٹی وی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’ایم ایس ستھیو صاحب ایک فلم شروع کرنے جا رہے تھے گرم ہوا۔ اُن کے پاس پیسے تو تھے نہیں اور ان کو ایسے لوگ چاہیے تھے جو کام بھی کرلیں اور پیسے بھی نہ مانگیں اور بہت ساری ڈیٹس بھی دے دیں۔ انہوں نے ظاہر ہے یہ ذمہ داری اپنے دوستوں پر ہی ڈالی اور ہم سب نے مل کر یہ طے کر لیا کہ کچھ نہ کچھ اس میں کر ہی لیں۔‘

انہوں نے اس انٹرویو میں مزید کہا، ’اتفاق سے فلم کی بڑی تعریف ہوئی۔ ستھیو صاحب نے ایک بہت ہی شاہانہ کنٹریکٹ میرے ساتھ کیا تھا جو ساڑھے سات سو روپے کا تھا اور وہ انہوں نے مجھے 20 سال میں چکائے۔‘

 ’گرم ہوا‘ میں جب سلیم مرزا کے تمام رشتہ دار انڈیا کی تقسیم کے بعد ہندوستان واپس چلے جاتے ہیں اور ان کے لیے زندگی مشکل بنا دی جاتی ہے تو وہ اپنے ایک مکالمے میں کہتے ہیں، ’مجھے جاسوس کہتے ہیں، بھلا یہ بھی کوئی زندگی ہے، برداشت کی بھی حد ہوتی ہے۔ بہت برداشت کیا۔‘

ان کی بیوی جمیلہ (شوکت اعظمی، وہ کیفی اعظمی کی بیوی تھیں) کہتی ہیں، ’میں تو پہلے ہی جانتی تھی ایک نہ ایک دن یہاں ایسی باتیں ضرور ہوں گی۔‘

’خیر اب یہ معلوم ہو گیا کہ اس ملک میں رہنا ناممکن ہے۔‘ سلیم مرزا کہتے ہیں۔

سکندر مرزا (فاروق شیخ) اس موقع پر کہتے ہیں، ’ابو میاں ہمیں ہندوستان سے بھاگنا نہیں بلکہ ہندوستان میں رہ کر، عام آدمی کے کاندھے سے کاندھا ملا کر اپنی مانگوں کے لیے لڑنا چاہیے ہمیں۔‘

بلراج ساہنی اداکار کے علاوہ مصنف بھی تھے۔ انہوں نے ہندی اور پنجابی نثر میں کام کیا۔ ان کا پاکستان کے دورے کے بعد لکھا گیا سفر نامہ پنجابی زبان میں ہی ہے۔ ان کو انڈین حکومت کی جانب سے پدما شری ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔

اس دلچسپ اتفاق پر بھی بات کر لی جائے کہ ’گرم ہوا‘ کی ریلیز سے قبل ہی محض 59 برس کی عمر میں بڑے پردے پر اداسیوں کو خوبصورتی سے پیش کرنے والا یہ فنکار چل بسا تھا۔ یوں یہ ان کی آخری فلم تھی جبکہ بالی وڈ کے متوازی سینما کے ایک معروف اداکار فاروق شیخ کی یہ پہلی فلم تھی۔

فلم ’گرم ہوا‘ کی ریلیز سے قبل ہی 59 برس کی عمر میں بلراج ساہنی چل بسے (فوٹو: انڈین ٹائمز)

منظر تبدیل ہوتا ہے۔

’دو بیگھا زمین‘ میں شمبھو مہتا کے کردار کے لیے بلراج ساہنی کا انتخاب ہوا تو انہوں نے کلکتہ کے رکشہ ڈرائیوروں کے ساتھ وقت گزارنا شروع کر دیا اور وہ قریب سے ان کی حرکات و سکنات کا مشاہدہ کیا کرتے اور اپنا کردار یوں ادا کیا گویا ہمیشہ رکشہ ہی چلاتے رہے ہوں۔

وہ انڈیا کے ان معدودے چند اداکاروں میں سے ایک تھے جو اپنے کردار کی تمام جزیات پر تحقیق کرتے اور چہرے کے تاثرات سے اپنا مافی الضمیر بیان کرنے میں ثانی نہیں رکھتے تھے۔ وہ ایک نیچرل اداکار تھے اور اپنے ہم عصروں دلیپ کمار، راج کپور، راج کمار اور دیو آنند سے یکسر مختلف۔

بات 'دو بیگھا زمین' کی ہو رہی تھی تو بمل رائے نے یہ فلم وٹوریو ڈی سیکا کی فلم ’بائی سائیکل تھیوز‘ کو دیکھ کر بنانے کا فیصلہ کیا تھا جس نے انڈیا میں نیو ریلئسٹک سنیما کی بنیاد رکھی اور یہ کینز فلم فیسٹیول میں 'نیچا نگر' کے بعد 'پام ڈی اور' حاصل کرنے والی دوسری ہندی فلم تھی۔

اس فلم میں شمبھو کی وہ جدوجہد فلمائی گئی ہے جو وہ اپنی ’دو بیگھا زمین‘ بچانے کے لیے کرتا ہے۔ یہ فلم ہندی سنیما کی تاریخ کی ایک اہم فلم مانی جاتی ہے جس نے بلراج ساہنی کے کیریئر کو ایک نئی جہت دی۔

اس فلم کی کہانی لیجنڈ بنگالی شاعر و ادیب رابندر ناتھ ٹیگور کی ایک نظم سے ماحوذ تھی۔

1961 میں فلم ’کابلی والا‘ جو رابندر ناتھ ٹیگور کے ایک افسانے پر مبنی تھی، میں ایک افغان پھل فروش کی کہانی بیان کی گئی ہے جو کلکتہ میں ایک بچی منی سے اپنائیت محسوس کرنے لگتا ہے کیونکہ اسے دیکھ کر اسے افغانستان میں مقیم اپنی بیٹی یاد آتی ہے۔

بلراج ساہنی سیاسی طور پر بھی متحرک رہے۔ وہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے رکن رہے اور انہوں نے جیل بھی کاٹی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب ان کی فلم ’ہلچل‘ ریلیز ہوئی تو اداکار پابند سلاسل تھے مگر فلم میں ان کا کردار جیلر کا تھا۔

بلراج ساہنی نے اگرچہ بہت سی فلموں میں کام کیا مگر ’دھرتی کے لال‘، ’دو بھیگا زمین‘، ’چھوٹی بہن‘، ’کابلی والا‘ اور ’گرم ہوا‘ ان کی نمایاں فلموں میں شامل ہیں۔

بلراج ساہنی نے تقسیم کے دنوں میں ہجرت کا زخم سہا تھا مگر ان کے اندر کا پنجابی کبھی نہیں مر سکا (فوٹو: بی ڈی سی ٹی وی)

انہوں نے تقسیم کے دنوں میں ہجرت کا زخم سہا تھا مگر ان کے اندر کا پنجابی کبھی نہیں مر سکا۔ انہوں نے ایک پنجابی فلم ’ستلج کے کنڈھے‘ (ستلج کے کنارے) میں بھی کام کیا جسے بہترین پنجابی فلم کے نیشنل ایوارڈ سے نوازا گیا۔

منظر تبدیل ہوتا ہے۔

بلراج ساہنی اپنی بیٹی شبنم کی ناکام شادی اور دماغ کی شریان پھٹنے سے موت کے بعد اُداس رہنے لگے تھے۔ ان کے لیے یہ غم بھلانا آسان نہ تھا اور تب ہی انہوں نے فلم ’گرم ہوا‘ میں کام کیا جس میں ان کی بیٹی آمنہ (گیتا سدھارتھ) بار بار ٹھکرائے جانے کے بعد خودکشی کر لیتی ہے۔

یہ ایک ایسا منظر تھا جس نے پہلے سے ہی دل شکستہ بلراج ساہنی کو مزید ڈپریشن کا شکار کر دیا اور وہ 13 اپریل 1973 کو فلم کی ریلیز سے قبل ہی چل بسے۔

مگر وہ اپنی زندگی کے آخری ایام میں بھی اپنے کام کو بہتر سے بہتر بنانے کی جستجو کرتے رہے جیسا کہ وہ ایک جملے کی ڈبنگ سے مطمئن نہیں تھے جس کی ان کے کہنے پر دوبارہ ڈبنگ کی گئی۔

بالی وڈ کے متوازی سنیما کے معروف اداکار کے کے مینن نے آر ایس ٹی وی کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا ’دنیا کی ہر چیز ختم ہو جاتی ہے۔ زندگی ختم ہوجاتی ہے۔ پیسہ ختم ہو جاتا ہے مگر جو فن ہے، وہ ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔‘

یہ بات بلراج ساہنی کے فنی سفر پر صادق آتی ہے جن کی فلموں کا تذکرہ آج ان کے ہم عصروں کی فلموں سے زیادہ ہوتا ہے۔ 

بلراج ساہنی مگر کبھی ہجرت کا غم نہ بھلا سکے۔ راولپنڈی اور لاہور ان کی یادوں میں بسے رہے۔ اکتوبر 1962 میں بلراج ساہنی گورنمنٹ کالج کی صد سالہ تقریبات میں شرکت کے لیے کالج کے پرنسپل ڈاکٹر نذیر احمد کی دعوت پر لاہور آئے تو ہم جماعتوں اور پڑوسیوں امتیاز علی تاج، احمد راہی اور عبداللہ ملک سے ملاقاتیں کیں۔

بلراج ساہنی ایک بے مثل اداکار تھے۔ وہ گرم ہوا کے تھپیڑے کھاتے کھاتے اندر سے ٹوٹ چکے تھے مگر ان کا فن دہائیاں گزر جانے کے باوجود اب بھی زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا۔

مزید خبریں

تازہ ترین خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More