گندم کی بہترین فصل کے باوجود کسان پریشان: حکومت کسانوں سے گندم کیوں نہیں خرید رہی؟

بی بی سی اردو  |  May 02, 2024

Getty Images

’میرا نہیں خیال کہ میں آئندہ سیزن میں اپنی زمین پر گندم کاشت کروں گا۔ صرف اپنی ضرورت کے لیے تھوڑی بہت گندم کاشت کریں گے اور باقی رقبے پر آلو یا کوئی اور سبزی لگا دیں گے۔ رواں سال سخت محنت اور پیسہ خرچ کرنے کے بعد میری گندم کی فصل اچھی تو ہوئی ہے لیکن مجھے اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ستر فیصد گندم ابھی بھی پڑی ہے، اس کو اونے پونے داموں آڑتھیوں کو فروخت کرنے کا سوچ رہے ہیں۔‘

یہ کہنا ہے پنجاب کے ضلع وہاڑی کے کسان کلیم مشتاق کا۔ وہ بتاتے ہیں کہ گذشتہ سیزن میں انھوں نے چھ ایکٹر رقبے پر گندم کاشت کی تھی اور ان کیفی ایکٹر اوسط پیدوار 55 من کے قریب رہی ہے۔

’خیال تھا کہ فصل حکومت خرید لے گی تو اچھا فائدہ ہو گا۔ سوچا تھا کہ گندم کی کٹائی کے بعد تھوڑے اور پیسے خرچ کر کے زمین پر کپاس کاشت کریں گے اور آئندہ سیزن میں دوبارہ گندم۔ مگر اب صورتحال یہ ہے کہ گندم پڑی ہوئی ہے اور حکومت اسے خریدنے کو تیار نہیں ہے۔ دوسری جانب آڑھتی ہیں جو گندم کی قیمت انتہائی کم لگا رہے ہیں۔‘

کلیم کا کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال میں وہ گندم کا ذخیرہ زیادہ عرصے تک اپنے پاس نہیں رکھ سکتے۔ ’ہمارے علاقے میں اس وقت آڑھتی اس وقت 2900 سے لے کر3000 روپے فی من پر خریداری کر رہے ہیں جبکہ حکومت کا ریٹ 3900 روپے فی من ہے۔‘

کلیم کہتے ہیں کہ انھیں 25 سے 30 ہزار روپے فی ایکٹر نقصان سامنے نظر آ رہا ہے جو اُن کی ’کمر توڑ‘ کر رکھ دے گا۔

’یہ ایسی صورتحال ہے جس کا میں نے اور ہمارے علاقے کے کسانوں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا کہ فصل تو شاندار ہو مگر اس سے نہ تو منافع ہوتا نظر آ رہا ہو اور نہ ہی کوئی اس کا خریدار نظر آ رہا ہے۔‘

حکومت گندم کیوں نہیں خرید رہی؟Getty Images

صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے کسان گذشتہ کئی روز سے حکومت کی جانب سے گندم نہ خریدے جانے کے معاملے پر سراپہ احتجاج ہیں۔

’کسان اتحاد‘ کے رہنما ملک ذوالفقار نے بتایا کہ حکومت کسانوں کو باردانہ فراہم نہیں کر رہی۔ انھوں نے الزام عائد کیا کہ ’آڑھتیوں کو دھڑا دھڑ بار دانہ مل رہا ہے اور وہ کسانوں کو یہ بار دانہ دے کر 2900 روپے فی من سے لے کر 3000 روپے فی من تک کا نرخ دے رہے ہیں۔‘

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’چھوٹے رقبے پر کاشت کرنے والے کسان دھڑا دھڑ اپنی فصل آڑھتیوں کو فروخت کر رہے ہیں اُن کے پاس گندم کو لمبے عرصے تک ذخیرہ کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔‘

انھوں نے مزید دعویٰ کیا کہ حکومت کی جانب سے کسانوں کے نمائندوں کو بتایا جا رہا ہے کہ چونکہ درآمدی گندم بڑی مقدار میں پہلے ہی موجود ہے چنانچہ ’ہمارے پاس نہ تو پیسے ہیں کہ زائد گندم خریدیں اورنہ ہی زائد گندم کو ذخیرہ کرنے کا کوئی انتظام ہے۔‘

ملک ذوالفقار کا کہنا تھا کہ نگراں حکومت نے بھاری مقدار میں گندم کو ضرورت کے بغیر درآمد کیا تھا اس سے قطع نظر کہ یہ شنید پہلے ہی تھی کہ رواں برس پاکستان میں گندم کی فصل شاندار ہو گی۔

انھوں نے کہا کہ پنجاب اور سندھ میں حکومتی اہلکار کسانوں کی یہ کہہ کر حوصلہ افزائی کرتے رہے کہ گندم کاشت کریں، حکومت خریدے گی مگر اب کوئی بھی نہیں خرید رہا ہے۔

پنجاب حکومت کےوزیر خوراک بلال یاسین نے اس معاملے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ پنجاب حکومت ہر سال تقریباً 40 لاکھ ٹن گندم کے حصول کو ممکن بناتی ہے مگر اس سال ابھی تک گندم حصولی کا ٹارگٹ صرف 20 لاکھ ٹن ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ نگران حکومت کے دور میں گندم کو برآمد کرنا تھا جو اب حکومتی سٹاک میں موجود ہے۔

دوسری جانب وزیر اعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے حالیہ اعلامیے کے مطابق وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نےاس صورتحال کا نوٹس لیتے ہوئے جسٹس (ر) میاں مشتاق کی سربراہی میںتحقیقاتی کمیٹی قائمکرنے کا اعلان کیا ہے۔

کتنی گندم درآمد کی گئی تھی؟Getty Images

سرکاری دستاوزات کے مطابق سابقہ نگران حکومت نے 3,587,000 ٹن گندم پاکستان درآمد کرنے کی نجی شعبے کو اجازت دی تھی۔

جولائی 2023 میں کابینہ کی اکنامک کوآرڈینیشن کمیٹی (ای سی سی) نے وزارت نیشنل فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ کی سفارش پر سٹیٹ بینک آف پاکستان کو کو ہدایت کی تھی کہ وہ گندم درآمد کے لیے نجی شعبے کو سہولت فراہم کرنے کی غرض سے امپورٹ لیڑ آف کریڈٹ (ایل سی) کھولیں۔

حکام کے مطابق اُس وقت کی حکومت نے گندم درآمد کرنے کا یہ فیصلہ سنہ 2022 کے دوران ملک میں گندم کی تقریباً 2.5 میٹرک ٹن قلت کے باعث کیا تھا۔

نیشنل فوڈ اینڈ سکیورٹی کے مطابق پاکستان کو ہر سال اوسطاً 31 ملین میٹرک ٹن گندم کی ضرورت ہوتی ہے۔

ملک ذوالفقار کا کہنا تھا کہ ہر سال حکومت پنجاب 40 میٹرک ٹن گندم خریدتی ہے جبکہ وفاق کا ادارہ تقریباً 20 ملین ٹن گندم خریدتا ہے۔ ’اب چونکہ حکومت پہلے ہی گندم درآمد کر چکی ہے تو رواں برس ہمارے اندازوں کے مطابق50 میٹرک ٹن گندم ضرورت سے زائد پڑی ہوئی ہے۔‘

انھوں نے تجویز دی کہ ’حکومت کو چاہیے کہ وہ یہ گندم خریدے کیونکہ آنے والے سیزن میں تو نقصان کے باعث بہت کم کسان گندم لگائیں گے۔ اب خریداری کی صورت میں حکومت کے پاس آئندہ سیزن کے لیے گندم موجود ہو گی۔‘

پاکستان میں اضافی گندم کی موجودگی کے باعث کیا آٹا، روٹی سستے ہوں گے؟Getty Images

’کسان اتحاد‘ کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر محمد حسن چیمہ کہتے ہیں کہ بڑے کسانوں نے گندم کی بمپر فصل مہنگی کھاد اور بجلی استعمال کر کے حاصل کی ہے۔ ’جو کسان مہنگی کھاد اور بجلی نہیں استعمال کر سکے ان کی فصل اچھی نہیں ہوئی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ایسے کسان پچاس فیصد ہیں جن کی فصل اچھی نہیں ہوئی۔ میں نے آٹھ ایکٹر پر گندم کاشت کی تھی جس سے فی ایکٹر پیدوار 25 من رہیجو کہ بہت کم ہے۔‘

اُن کا کہنا تھا کہ ’میں مہنگائی اور عدم دستیابی کے سبب اپنی فصل کو کھاد نہیں ڈال سکا۔ یہ کھاد گذشتہ سال کے مقابلے میں رواں برس 30 فیصد مزید مہنگی ہو چکی تھی۔ گذشتہ سال کھاد کی جو بوری تقریباً آٹھ ہزار کی تھی وہ اب 14 ہزار کی ہے۔‘

ڈاکٹر محمد حسن چیمہ کا کہنا تھا کہ گندم کی فصل کو پانچ پانی لگتے ہیں۔

’پچھلے سال گندم کی لاگت تقریباً 2500 روپے فی ایکٹر آتی تھی جو رواں برس اندازوں کے مطابق 5000 کے لگ بھگ رہی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ فصل صرف امیر زمینداروںاور ان کسانوں کی اچھی ہوئی ہے جن کی زمینوں کو نہری پانی وغیرہ کی سہولت دستیاب تھی، باقی کسان تو کھاد اور بجلی کا خرچہ ہی پورا نہیں کر سکتے ہیں۔‘

ڈاکٹر محمد حسن چیمہ کا کہنا تھا کہ ’اب اگر روٹی اور آٹے کو سستا کرنا ہے تو پھر حکومت کو چاہیے کہ وہ فصل پر آنے والی لاگت کو کم کرے۔ گندم کاشت کرنے کی لاگت کو پانچ برس پہلے والے ریٹ پر لے جایا جائے تو شاید آٹے روٹی کی قیمت کم ہو سکے۔ اب لاگت اتنی ہو گئی ہے کہ اپنی سرمایہ کاری بھی پوری نہیں ہوتی اور حکومت کے لیے یہ ممکن نہیں ہو گا کہ پیداواری لاگت سے کم پر گندم خریدے اور اس کی بنیاد پر آٹے اور روٹی کو سستا کرے۔‘

ملک ذوالفقار کہتے ہیں کہ ’اگر بمپر فصل کی بنیاد پر یہ سمجھا جا رہا ہے کہ کسانوں کو اس سے منافع ہو گا تو یہ بات غلط ہے کیونکہ لاگت بہت حد تک بڑھ چکی ہے جبکہ نرخ وہ نہیں ہیں جو ہونے چاہییں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ روٹی اور آٹے کی قیمت اس بنیاد پر کم نہیں ہو سکتیں کہ فصل شاندار ہوئی ہے بلکہ اس کا دارومدار عوام اور کسان دوست پالیسی کے سبب ممکن ہے۔

’اس وقت صورتحال یہ ہے کہ نہ تو کسانوں اور نہ ہی حکومت کے پاس وافر گندم کو سٹاک کرنے کے لیے مناسب جگہ موجود ہے جبکہ نجی شعبے کے پاس یہ سہولت دستیاب ہے۔ وہ دھڑا دھڑ گندم خرید کر سٹاک کر رہے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’نجی خریدار مئی، جون میں اپنی گندم کو مارکیٹ میں نہیں لائیں گے۔ اور جب یہ سیزن ختم ہو گا اور کسان بھی اپنی فصل سے فارغ ہو جائیں گے تو پھر نجی شعبہ ہر سال کی طرح آہستہ آہستہ سٹاک شدہ گندم مارکیٹ میں لائے گا اور اسے مہنگے داموں فروخت کرے گا۔ اس صورتحال میں کسی چیز کی قیمت کم نہیں ہو سکتی اور عوام کو آٹا، گندم یا روٹی اسی ریٹ پر دستیاب ہو گی۔‘

یاد رہے کہ پنجاب کابینہ کے اجلاس میں موجودہ بحران سے نمٹنے کے لیے کسانوں کو سبسڈی دینے کا جائزہ لیا گیا اور کسان کارڈ کے اجرا کی منظوری دی گئی ہے جس کے تحت حکومت جن کسانوں سے خریداری نہیں کر رہی اُن کو چار سو سے چھ سو روپے فی من پر سبسڈی دینے کا جائزہ لیا جائے گا۔

اجلاس میں وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے کہا ہے کہ پنجاب حکومت کسانوں کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے تمام وسائل بروائے کار لائے گی اور آڑتھیوں اور مڈل مین کو کسانوں کا استحصال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

پنجاب میں 16 روپے کی روٹی: نئے نرخ کس بنیاد پر مقرر ہوئے اور اس فیصلے پر عملدرآمد کروانا کتنا مشکل ہو گا؟پاکستان میں گندم کی کم پیداوار، کیا درآمدی گندم سے آٹے کی قیمت بڑھ جائے گی؟پاکستان میں گندم بحران: جب 25 سے زیادہ افراد کو دعوت پر بلانا ممنوع قرار دیا گیاپاکستان میں گندم کی ’شاندار فصل‘ کے بعد کیا عوام کو سستا آٹا بھی ملے گا؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More