مذاکرات کے معاملے پر تحریک انصاف ’کنفیوزڈ‘ ہے یا کرنا چاہتی ہے؟

اردو نیوز  |  May 02, 2024

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے مرکزی رہنما شہریار آفریدی نے گذشتہ ہفتے اس وقت ملکی سیاست میں ارتعاش پیدا کر دیا جب انہوں نے ایک ٹاک شو میں کہا کہ ان کی جماعت صرف آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے سربراہ سے بات چیت کرے گی اور موجودہ حکومت سے کوئی مذاکرات نہیں کرے گی کیونکہ اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ فوجی قیادت سے یہ مذاکرات جلد ہوں گے۔

شہریار آفریدی کے اس بیان کے بعد پی ٹی آئی کے تقریباً ہر رہنما نے مذاکرات کے معاملے پر ایک مختلف لائن لی ہے اور ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ اس بارے میں تحریک انصاف کی حقیقی پالیسی ہے کیا۔

شہریار آفریدی کی باتوں کے ردعمل میں ان کی جماعت کے سیکریٹری اطلاعات روف حسن نے اسے اُن کی ذاتی رائے اور معلومات قرار دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’شہریار خان آفریدی کا بیان پارٹی پالیسی نہیں، اسٹیبلشمنٹ سے صرف آئینی کردار سے متعلق بات ہو گی۔‘

روف حسن کے مطابق ’ہم سیاسی جماعتوں سے بات چیت کے مخالف نہیں ہیں۔ عمران خان کی واضح ہدایت ہے کہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور ایم کیو ایم سے بات نہیں ہو گی کیونکہ انہوں نے تحریک انصاف کا مینڈیٹ چرایا ہے۔‘

سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شبلی فراز جنہیں عمران خان نے مذاکرات کے لیے قائم کی گئی سہہ رکنی کمیٹی میں عمر ایوب اور علی امین گنڈاپور کے ساتھ نامزد کیا ہے، نے کہا کہ وہ پاکستان کی خاطر کسی سے بھی بات کرنے کو تیار ہیں۔ تاہم انہوں نے اس کو مذاکرات کے لیے ماحول بنانے سے مشروط کیا اور کہا کہ بات چیت کے لئے ضروری ہے کہ سیاسی مقدمات ختم کیے جائیں، سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے، پی ٹی آئی کو سیاسی سرگرمیوں کی اجازت دی جائے اور پی ٹی آئی کے ساتھ ہونے والے سلوک پر جوڈیشل کمیشن قائم کیا جائے۔

پی ٹی آئی کے ایک اور سینیئر رہنما علی محمد خان نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ان کی جماعت حکومت سے گفتگو کرنے کے لیے تیار ہے، اگر وہ اپنے کارڈز شو کرے اور سپریم کورٹ دونوں فریقین میں ثالثی کی حامی بھرے۔

اس کے اگلے ہی روز پی ٹی آئی کے موجودہ چیئرمین بیرسٹر گوہر خان نے اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات کے بعد کہا کہ ان کی جماعت کے نہ تو کسی سے مذاکرات ہو رہے ہیں اور نہ ہی کوئی بیک ڈور رابطے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے علاوہ سب سے بات کرے گی۔

اس بارے میں جب اڈیالہ جیل میں صحافیوں نے عمران خان سے سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ عمر ایوب، علی امین گنڈاپور اور شبلی فراز کے علاوہ کسی کو مذاکرات کا اختیار نہیں دیا۔

اس تین رکنی کمیٹی کے اہم رکن علی امین گنڈاپور نے اس بارے میں میڈیا سے گفتگو میں موقف اختیار کیا کہ اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات ہوئے تو وہ خفیہ نہیں بلکہ کھلے عام ہوں گے۔

ایک ہی جماعت کے اتنے رہنماؤں کی جانب سے ایک ہی موضوع پر کئی مختلف بیانیے اختیار کرنے کے عمل کو سیاسی تجزیہ کار غیرمنظم سٹرکچر اور موثر قیادت کا فقدان قرار دیتے ہیں۔

نظم و ضبط کا فقدان اور اعلٰی قیادت کا کنٹرول نہ ہوناقائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے پولیٹیکل سائنس اور بین الااقوامی تعلقات کے پروفیسر ڈاکٹر فرحان صدیقی نے اس بارے میں اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف کے رہنماؤں کے بیانات میں تضاد کی بڑی وجوہات پارٹی کے اندر تنظیم اور اعلٰی قیادت کے جیل میں ہونے کی وجہ سے براہ راست کنٹرول نہ ہونا ہے۔

’یہی وجہ ہے کہ شیر افضل مروت اور روف حسن جیسے رہنما آئے روز ایک دوسرے پر الزامات لگاتے رہتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ نظم و ضبط کا فقدان پی ٹی آئی کا تقریباً مستقل حصہ ہے اور اسی وجہ سے جماعت کے اندر ’کنفیوژن‘ پیدا ہوتی ہے۔

ڈاکٹر فرحان صدیقی سمجھتے ہیں کہ ’اس وقت تحریک انصاف دو بڑے دھڑوں میں منقسم ہے جن میں سے ایک سمجھتا ہے کہ اقتدار کی طرف واپسی محض اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات معمول پر لانے سے ہو گی، جبکہ دوسرے دھڑے کا خیال ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنا ان کو اس عوامی حمایت سے دور کر دے گا جو انہوں نے گذشتہ دو برسوں میں مقتدرہ کے خلاف بیانیہ بنا کر حاصل کی ہے۔‘

پی ٹی آئی کے بیک وقت کئی قائدسیاسی تجزیہ کار احمد اعجاز پی ٹی آئی کی اس کنفیوژن کی وجہ بہت سارے رہنماؤں کو بیانات دینے کی کُھلی آزادی اور مرکزی قیادت کی عدم موجودگی قرار دیتے ہیں۔

’پی ٹی آئی کے بیک وقت کئی قائد ہیں۔ شیر افضل مروت اپنی جگہ قائد ہیں، لطیف کھوسہ اور بیرسٹر گوہر خان اپنی جگہ پر قائد ہیں۔ ہر آدمی جو عمران خان سے ملاقات کر کے نکلتا ہے وہ پالیسی بیان جاری کر دیتا ہے۔‘

ان کے مطابق ان تمام ’قائدین‘ کے ذاتی اختلافات بھی ہیں اور وہ ایک دوسرے کی رائے کو غیرموثر کرنے کے لیے سیاسی جماعتوں یا مقتدرہ سے مذاکرات کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں۔

احمد اعجاز کا کہنا تھا کہ ’اس روش کا پی ٹی آئی کو جلد بڑا نقصان ہو گا۔ یہ تقسیم آنے والے وقت میں پی ٹی آئی کو بڑا نقصان پہنچائے گی۔ اگر عمران خان جیل سے باہر نہیں آتے اور ان کی قید کا دورانیہ بڑھ جاتا ہے تو یہ تقسیم بھی بڑھ جائے گی جو پارٹی کے مفادات کو نقصان پہنچائے گی۔‘

کارکنوں کے اندیشےتحریک انصاف کے کارکن بھی اسی نوع کے اندیشوں کا شکار ہیں۔

پارٹی کے ایک سرگرم ورکر جن کی عمران خان اور دوسری سینیئر قیادت تک براہ راست رسائی رہی ہے، نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت نہیں چاہتی کہ عمران خان کو رہائی ملے۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ اسی لیے ایک دوسرے کی جڑیں کاٹ رہے ہیں کیونکہ ان کی خواہش ہے کہ عمران خان جیل میں رہیں اور ان کی عدم موجودگی میں یہ پارٹی کو اپنی گرفت میں لے لیں، اور اس گرفت کو ممکن بنانے کے لیے وہ ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کرتے ہیں۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More