Getty Images
’ہمارے گاؤں میں زیادہ تر نوجوان خواتین اور بچے رات بھر روتے رہے، وہ بہت زیادہ سہم گئے تھے۔ ظاہر ہے اُن کی زندگیوں میں ایسی شدید گولہ باری پہلی بار ہوئی تھی۔ آخری مرتبہ 1999 میں اتنی شدید گولہ باری ہوئی تھی کہ گھروں کو پہنچنے والے نقصان کے باعث ہمیں نقل مکانی بھی کرنی پڑی تھی۔‘
یہ کہنا ہے لائن آف کنٹرول پر واقع پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے گاؤں چکوٹھی کے رہائشی کفایت حسین کا۔ پاکستان اور انڈیا کے بیچ کشیدگی کے دوران 6 مئی کی رات انھوں نے اپنے اہلخانہ کے ہمراہ ایک زیرِ تعمیر کنکریٹ کے چھوٹے سے غسل خانے میں گزاری تھی۔
پاکستانی فوج کے ترجمان کے مطابق چھ مئی کی رات انڈیا نے پاکستان اور اس کے زیرِ انتظام کشمیر میں چھ مقامات پر مختلف اسلحہ استعمال کرتے ہوئے مجموعی طور پر 24 حملے کیے تھے۔ پاکستانی فوج کے ترجمان کے مطابق ان حملوں میں کم از کم 31 افراد ہلاک ہوئے جبکہ 57 زخمی ہوئے تھے۔ ان کے مطابق ہلاک ہونے والے تمام عام شہری تھے جن میں خواتین اور بچوں بھی شامل تھے۔
کفایت حسین بتاتے ہیں کہ ’ہم 20 لوگ تھے۔ خواتین اور بچوں کو اندر کی جانب رکھ کر ہم مرد دروازے کے پاس کھڑے تھے۔ سب نے رات کھڑے رہ کر گزاری۔‘
چکوٹھی سمیت کشمیر کے زیادہ تر علاقوں میں سنہ 2005 کے زلزلے کے بعد زیادہ تر رہائشی مکانات کا بڑا حصہ ٹین کی چادروں سے بنا ہے اور گولہ باری کی صورت میں یہ محفوظ پناہ نہیں ہے کیونکہ گولی یا شیل باآسانی رہائشی مکانوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔
کفایت حسین بتاتے ہیں ’جونہی گولہ باری ہوئی تو گھر میں موجود برتن اور چیزیں گرنے لگیں اور ساتھ ہی بچوں نے زور زور سے رونا شروع کر دیا۔ خواتین کا بھی رو رو کر برا حال تھا، پھر ہم نے انھیں تسلی دی کہ ہم سب ساتھ ہیں کچھ نہیں ہو گا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’انھیں (بچوں کو) کو ایسی صورتحال میں حوصلہ کرنا سکھانا پڑے گا ورنہ تو یہ مستقبل میں علاقہ چھوڑنے کا سوچنے لگیں گے۔'
یہ کہنا کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے اطراف میں رہنے والے شہریوں کی زندگی مسلسل ٹراما اور غیریقینی صورتحال کی منہ بولتی تصویر بنی ہوئی، غلط نہ ہو گا۔
وہ بتاتے ہیں کہ چکوٹھی میں کشیدگی تو 11 بجے سے شروع ہو گئی تھی اور ہلکی گولہ باری جاری تھی۔ ’ہم تو گیارہ بجے محفوظ جگہ جمع ہو گئے تھے۔ پھر رات ایک بجے کے بعد مظفر آباد سے خیریت پوچھنے کے لیے فون آئے تو پتا چلا وہاں بھی میزائل حملہ ہوا ہے۔ کچھ دیر میں چکوٹھی میں بھی گولہ باری شروع ہو گئی۔‘
گولہ باری میں وقفہ آتے ہی نقل مکانیGetty Imagesلائن آف کنٹرول پر کشیدگی کے بعد کئی علاقوں میں لوگوں کو پیدل محفوظ جگہوں تک جانا پڑا(فائل فوٹو)
کفایت حسین کے مطابق اُن کا خاندن اس سے پہلے سنہ 1999 میں ہونے والی شدید گولہ باری میں ہوئے جانی نقصان کے بعد نقل مکانی کر چکا ہے۔ تب سیز فائر کے بعد بھی بہت سے علاقہ مکینوں کو واپس اپنے گھروں میں آباد ہونے میں ایک سے دو سال لگ گئے تھے۔ جس کی وجہ مکانات کی تباہی اور ان کے دلوں میں موجود خوف تھا۔
چھ مئی کو رات بھر چھوٹی سی جگہ میں خوف کے عالم میں کھڑے رہ کر کفایت اور ان کے اہلخانہ سبھی نڈھال تھے۔
کفایت حسین بتاتے ہیں کہ ’فجر کے وقت گولہ باری تھمی تو ہم نے ناشتہ بنانا شروع کیا۔ ابھی کچھ دیر گزری تھی کہ پھر سے گولہ باری شروع ہو گئی۔ ہم برتن لے کر دوبارہ کنکریٹ کے غسل خانے کی طرف بھاگے۔ صبح جب قدرے امن ہوا تو ارد گرد کے بیشتر خاندان محفوظ مقامات کی طرف نقل مکانی کر گئے۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’لوگوں نے مرکزی سڑک کے بجائے پہاڑ سے اترنے کے لیے متبادل پگڈنڈیوں والے راستےیا پانی کی گزرگاہوں کا استعمال کیا۔ زیادہ مسئلہ معذور بچوں کو لے جانے میں ہوا۔ ہمارے دو گھرانوں میں ایک 15 اور ایک چھ سال کی بچی نہ بول سکتی ہیں نہ چل پھر سکتی ہیں۔ انھیں رشتے دار اٹھاکر لے گئے۔‘
لیکن اب بھی کئی لوگ ہیں جو لائن آف کنٹرل کے ان علاقوں میں مقیم ہیں جہاں کشیدگی کے دوران وقفے وقفے سے گولہ باری اور شیلنگ ہوتی ہے
لائن آف کنٹرول پر موجود آبادی نے محفوظ رہنے کے لیے ماضی قریب میں بنکرز بنائے ہیں۔ لیکن زیادہ تر بنکرز یا تو خستہ حال ہیں یا مکمل ہی نہیں ہوئے۔ ان سب کی وجہ معاشی تنگ دستی اور مردوں کا علاقے میں نہ ہونا ہے۔
انڈیا کی جانب سے مظفر آباد، مرید کے، بہاولپور سمیت مختلف علاقوں میں حملوں کے بعد اب یہ صرف لائن آف کنٹرول کا مسئلہ نہیں رہا۔ اس لیے ہم نے جاننے کی کوشش کی ہے کہ بنکروں کی عدم موجودگی یا اچانک افتاد کی صورت میں شہری گولہ باری سے کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں۔
گولہ باری کے خدشے والے علاقے میں محفوظ رہنے کے لیے کیا کریں؟Getty Images
بی بی سی نے ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے اداروں اور ماہرین سے اس ضمن میں بات کی ہے۔ ان کے مطابق:
اگر ایسی اطلاعات ہوں کہ آپ کے علاقے میں گولہ باری ہو سکتی ہے تواپنے گھر اور گاؤں میں محفوظ مقامات تلاش کریں۔ جیسا کہ بنکرز، تہہ خانے، مضبوط دیواریں، پہاڑ یا چٹان وغیرہ۔جانوروں کے لیے ذخیرہ شدہ چارے کو گھر کی چھتوں پر نہ رکھیں۔ یہ گھر سے فاصلے پر محفوظ جگہ پر رکھیں تا کہ آگ لگنے کی صورت میں اس سے مزید آگ نہ پھیلے۔ممکن ہو تو جنگی صورتحال سے پہلے ہی گھر میں یا قریب ہی بنکرز بنا لیں تاکہ ضرورت پڑنے پر اس میں بناہ لی جا سکے۔اگر گولہ باری شروع ہو جائے تو کیا کریں؟اگر آپ لائن آف کنٹرول کے ایسے علاقے میں ہی جہاں کسی بھی وقت کشیدگی کا خطرہ ہے یا نسبتاً محفوظ علاقے میں ہیں اور اچانک وہاں بھیں صورتحال خراب ہو جاتی ہے تو:فائرنگ یا گولہ باری کی صورت میں دروازوں اور کھڑکیوں سے دور ہو جائیں۔ زمین پر لیٹیں اور رینگ کر کسی مفوظ جگہ تک جائیں۔اگر آپ گاڑی میں ہیں تو گاڑی سے نکل کر اس سے دور محفوظ جگہ جانے کی کوشش کریں۔اگر آپ کُھلی جگہ پر ہیں تو فورا پیٹ کے بل زمین پر لیٹ جائیں اور بازوؤں کا حصار بنا کر سر کو ڈھانپ لیں، یہ اندازہ لگائیں کہ گولہ باری کس طرف سے ہو رہی ہے پھر اس کے بعد محفوظ جگہ منتقل ہونے کی کوشش کریں۔ گولہ باری کی نوعیت کے حساب سے کسی مضبوط دیوار، درخت یا چٹان کے پیچھے چھپنے کی کوشش کریں۔بڑے دھماکوں کی صورت میں لیٹ جائیں، سر کے ارد گرد بازوؤں کا حصار بنالیں اور ٹانگوں کو پیٹ کی طرف موڑ کر پیٹ اور سینے کی گرد حصار کریں تاکہ اہم اندرونی اعضا کو بچایا جا سکے۔گولہ باری تھم جانے کے بعد کیا کریں؟علاقے کے رضا کار آپس میں رابطے میں رہیں اور زخمیوں کو طبی مراکز تک پہنچانے کے لیے محفوظ اورپہلے سے طے شدہ راستوں کا انتخاب کریں۔سکول اور تعلیمی ادارے کھلے ہونے کی صورت میں فائرنگ بند ہونے کے بعد سے بچوں کو سکول سے رخصت کریں اور بھگدڑ مچنے سے بچائیں۔ ممکن ہو تووالدین کو بلا کر بچے ان کے حوالے کر دیں۔فائرنگ رک جانے کے بعد گولہ بارود کی باقیات اور مشکوک اشیا کو چُھونے یا ان کا معائنہ کرنے سے گریز کریں، کیونکہ ان میں کوئی ان پھٹا بارودی مواد ہو سکتا ہے جو پھٹ سکتا ہے اور اموات یا معذوری کا سبب بن سکتا ہے۔Getty Imagesمظفرآباد میں نہ صرف ارد گرد کے لوگ حملے کے مقام کو دیکھنے جانے لگے بلکہ مقامی لوگوں کو نقل مکانی کرنے کو کہا گیاشہری علاقوں میں ممکنہ خطرات اور ان سے بچاؤ
انڈیا اور پاکستان کی کشیدگی میں چونکہ اس بار شہری علاقوں کو بھی نشانہ بنائے جانے کی اطلاعات ہیں، اس لیے شہری آبادیوں میں رہنے والے بھی اس حوالے سے کافی پریشان ہیں۔ سوشل میڈیا پر شیئر ہونے والی ویڈیوز اور علاقے سے ملنے والے اطلاعات کے مطابق لوگ بڑی تعداد میں لوگ حملوں کے مقام کی طرف گئے تاکہ دیکھا جا سکے کہ وہاں کیا ہوا ہے؟
مظفر آباد میں محکمہ سول ڈیفنس کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر نوید الحسن بخاری کا کہنا ہے کہ ایسا کرنا قطعی درست نہیں۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ جنگی صورتحال میں شہروں میں کیا خطرات ہو سکتے ہیں اور ان سے کیسے بچا جائے:
اگر میزائل یا مارٹر حملے کا نشانہ کوئی عمارت ہے تو قریبی لوگ سب سے پہلے اپنے اعصاب قابو میں رکھیں۔ بوکھلاہٹ کا شکار نہ ہوں، اپنی اور اپنے خاندان کی حفاظت یقینی بنائیں۔ بھگدڑ اور افراتفری اضافی خطرات کی وجہ بن سکتی ہے۔بڑے دھماکوں کی صورت میں اکثر پہلے سے الرٹ بھی ہوتا ہے تو کوشش کریں کہ دروازوں اور کھڑکیوں سے دور رہیں۔ شیشوں پر ٹیپ یا چپکنے والی کوئی چیز لگائیں تاکہ کرچیاں بکھرنے سے زخمی ہونے کا خدشہ کم سے کم ہو۔گھروں میں کم از کم ایک محفوظ کمرہ ضروری بنائیں یا مرکز میں موجود کسی کمرے کی نشاندہی کریں۔ حملے کی صورت میں سر اور اہم اعضا کو کسی چیز سے ڈھانپ لیں۔محفوظ مقامات میں صاف پانی اور خشک خوراک کا ذخیرہ ضرور رکھیں جو کم از کم دو دن کے لیے کافی ہو۔جو لوگ سڑکوں یا کھلی جگہ پر ہوں، وہ کسی محفوظ مقام کی اوٹ لیں۔ کوشش کریں سائن بورڈ یا کسی ایسے سٹرکچر سے دور ہٹ جائیں جس کے ٹوٹ کر گرنے کا خدشہ ہو۔آگ لگنے یا شارٹ سرکٹ سے آتشزدگی کے خطرے سے نمٹنے کے لیے گھروں میں آگ بجھانے کے آلے ضرور رکھیں۔ اگر شہر میں گیس کی پائپ لائن کو نقصان پہنچا ہو تو وہاں سے دور ہو جائیں۔Getty Imagesمظفر آباد میں محکمہ شہری دفاع شہریوں اور طلبا کو تربیت دیتے ہوئے شہری کیسے مدد گار ہو سکتے ہیں؟
کفایت حسین بتاتے ہیں کہ کہ لائن آف کنٹرول پر رہنے والے اکثر ایسے حالات کا سامنا کرنے کے بعد ذہنی طور پر کافی تجربہ کار ہو چکے ہیں۔
وہ کہتے ہیں ’ہم نے تجربات سے فوری فرسٹ ایڈ دینا سیکھ لیا ہے۔ لوگ گھروں پر مرہم پٹی کا سامان رکھتے ہیں اور فوری امداد دے لیتے ہیں۔‘
لیکن مسلسل گولہ باری یا اچانک حملوں کی صورت میں کن باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے اس بارے میںنوید الحسن کا بی بی سی سی بات کرتے ہوئے کہنا تھا۔
’مظفرآباد پر انڈیا کے حملے کے بعد مساجد میں اعلانات ہوئے کہ لوگ علاقہ سے نکل جائیں لیکن ایسا ہرگز نہ کریں۔ خوش قسمتی سے سول ڈیفنس کے رضا کاروں نے فوراً جا کر صورتحال سنبھال لی تھی۔‘
انھوں نے وضاحت کی کہ ’ایسا کرنا زلزلے یا قدرتی آفت کی صورت میں تو مددگار ہو سکتا ہے لیکن جنگی صورتحال میں نہیں۔ ان حالات میں محفوظ پناہ گار میں رہنا ہی بہتر ہوتا ہے۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ کسی بھی قسم کے دھماکوں یا گولہ باری کی آواز قریب سے آنے کی صورت میں سب سے پہلے تو محفوظ گھروں سے باہر نکل کر حالات دیکھنے کی کوشش نہ کریں۔ ممکن ہے ایسا کرنے سے آپ کسی گولی، شیل یا باردوی مواد کا نشانہ بن جائیں۔
انھوں نے کہا کہ محکمہ شہری دفاع عام لوگوں کو اپنی تربیتی سیشنز میں جان بچانے کے بنیادی طریقے، ایمرجنسی میں ریسکیو کے طریقے، کسی عمارت میں پھنس جانے کی صورت میں باہر نکلنے کے طریقے اور زخمیوں کو ابتدائی طبی امداد دینا سکھاتا ہے۔
مظفر آباد میں محکمہ سول ڈیفنس کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر نوید الحسن بخاری نے تسلیم کیا کہ ’پاکستان میں عمومی طور پر لوگ سیفٹی کانشیئس نہیں ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے خیال میں اداروں کو اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے پاس افرادی قوت کی بھی کمی ہے۔ تاہم ہمارا کام کرنے کا نظام کافی مددگار ثابت ہوتا ہے۔‘