خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ کی وادی بشام شنگ میں ایک ایسا منظر دیکھنے کو ملا جو بیک وقت جذباتی بھی تھا اور قابلِ تقلید بھی۔ یہاں 90 سالہ مولانا سیف اللہ نے اپنی دوسری شادی کرکے یہ ثابت کر دیا کہ محبت، ہمسفری اور رفاقت کسی عمر کی قید میں نہیں آتیں۔
مولانا سیف اللہ، جن کی پہلی زوجہ کچھ عرصہ قبل انتقال کر گئی تھیں، طویل تنہائی سے نبرد آزما تھے۔ انہوں نے عمرِ رسیدگی کے باوجود دوبارہ شادی کی خواہش ظاہر کی، اور حیران کن طور پر ان کے چاروں بیٹوں — شریف اللہ، شفیع اللہ، رفیع اللہ اور عبداللہ — نے نہ صرف اس خواہش کو سنا بلکہ پورے خلوص سے اس کی تکمیل کی ٹھانی۔
یہ چاروں بیٹے اس وقت سعودی عرب میں مقیم ہیں، مگر باپ کی خوشی کے لیے انہوں نے ایک موزوں رشتہ تلاش کیا اور بعوض ایک تولہ سونا حقِ مہر مقرر کر کے والد کی شادی کا انتظام مکمل کیا۔ نکاح کی تقریب نہایت خوشگوار ماحول میں منعقد ہوئی، جس میں اہلِ علاقہ، اقربا، پوتے، پڑپوتے اور ان کے بچے تک شریک ہوئے۔ ناچتے گاتے قافلے کی صورت میں ’دولہا‘ کو دلہن کے گھر لے جایا گیا جہاں ایجاب و قبول کی رسم ادا ہوئی۔
اس موقع پر شریف اللہ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا:
"ہم نے اپنے والد کو ہمیشہ ایک دیندار، نیک سیرت اور قربانی دینے والی شخصیت کے طور پر دیکھا۔ والدہ کے انتقال کے بعد ان کی تنہائی نے ہمیں بے حد پریشان کر دیا تھا۔ اُن کی ایک تمنا تھی جسے پورا کرنا ہمارا فرض تھا۔ آج ہم فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے ان کی دیرینہ خواہش کو حقیقت میں بدلا۔"
محلے داروں اور سماجی حلقوں نے بھی اس واقعے کو نہایت مثبت انداز میں سراہا۔ ان کا کہنا ہے کہ مولانا سیف اللہ اور ان کے بیٹوں نے ایک معاشرتی پیغام دیا ہے کہ والدین کی خوشی اور جذبات کو عمر یا رواج کی قید میں نہیں باندھنا چاہیے۔
یہ داستان نہ صرف ایک شخص کی ازدواجی زندگی کی تجدید ہے بلکہ باپ اور بیٹوں کے اس رشتے کی معراج بھی، جہاں محبت، عزت اور قربانی ہر دور کے رواجوں سے بالا ہوکر سامنے آتی ہے۔
مولانا سیف اللہ کی شادی کی ویڈیو بھی منظر عام پر آئی ہے جس میں ان کے اہلِ خانہ ان سے ایجاب و قبول کروا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اس ویڈیو کو سراہا جا رہا ہے اور لوگ اسے "محبت کا عمر سے ماورا سفر" قرار دے رہے ہیں۔