Reuters
خطے کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان اور انڈیا کے اعلی عسکری حکام بھی سنگاپور میں شنگریلا ڈائیلاگ کا حصہ بنے اور دونوں نے گذشتہ ماہ کی لڑائی سمیت متعدد امور پر اظہار خیال کیا۔
شنگریلا ڈائیلاگ ایک اہم سکیورٹی کانفرنس ہے جس میں خطے کے کئی وزرائے دفاع اور اعلیٰ فوجی حکام جمع ہوتے ہیں اور وہ اپنے اپنے ملک کا موقف بھی پیش کرتے ہیں۔ ان سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ خطے کو تنازعات سے باہر نکالنے کے لیے اپنی اپنی سفارشات دیں۔
اس بار اس کانفرنس کے دوران بلومبرگ اور روئٹرز کو دیے انٹرویوز میں انڈین چیف آف ڈیفنس سٹاف انیل چوہان کا طیارے گرائے جانے سے متعلق بیان انڈیا اور پاکستان میں بحث کا موضوع بنا ہے۔ جبکہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا بھی اس تقریب کا حصہ بنے ہیں جس دوران انھوں نے دونوں ممالک کے بیچ ’کرائسس مینجمنٹ‘ پر زور دیا ہے۔
دریں اثنا دونوں ملکوں کے عسکری حکام نے اس حوالے سے بھی تبصرہ کیا ہے کہ اس چار روزہ لڑائی سے کیا سیکھا گیا اور آیا مستقبل میں دونوں ممالک کے درمیان تنازع کسی بڑی جنگ کی جانب بڑھ سکتا ہے۔
جنرل انیل چوہان اور جنرل ساحر شمشاد مرزا نے کیا کہا؟
انڈیا کے لیفٹیننٹ جنرل انیل چوہان کے روئٹرز کو دیے انٹرویو پر نظر دوڑائی جائے تو وہ پرامید نظر آتے ہیں کہ دونوں ممالک کی عسکری قیادت میں خاص طور پر یہ سمجھداری پائی جاتی ہے کہ وہ روایتی جنگ سے آگے کسی تنازع کو نہ لے جائیں۔
اگرچہ انھوں نے تسلیم کیا کہ انڈیا کو فضائی نقصانات ہوئے تاہم ان کا کہنا تھا کہ انڈیا کے پاکستان میں فضائی حملے مہارت کے ساتھ کیے گئے۔
جنرل انیل چوہان نے کہا کہ انڈین حکومت نے یہ واضح کیا ہے کہ ’اگر پاکستان سے دہشتگردی ہو گی تو پھر انڈیا اس کا جواب دے گا۔‘
تاہم انیل چوہان نے کہا کہ ’آپریشن سندور‘ شروع ہونے کے بعد سے ’دونوں فریقین (پاکستان اور انڈیا) کی جانب سے دانشمندی کا مظاہرہ دیکھنے میں آیا۔‘
انھوں نے یہ موقف دیا کہ ایٹمی تصادم کی حد عبور ہونے سے قبل روایتی آپریشنز کی کافی گنجائش پیدا ہوئی ہے جو کہ ’نئی روایت ہے۔‘
جنرل چوہان نے روئٹرز کو اپنی ذاتی رائے دیتے ہوئے کہا کہ ’جب لڑائی ہوتی ہے تو سب سے زیادہ سمجھ بوجھ باوردی لوگوں میں ہوتی ہے۔
’اس آپریشن کے دوران دونوں فریقین نے اپنی سوچ اور اقدامات میں سمجھداری کا مظاہرہ کیا۔ ہم کیوں یہ فرض کر لیں کہ ایٹمی ڈومین میں کسی دوسرے کی طرف سے کم عقلی دکھائی جائے گی۔‘
Getty Images
دوسری طرف پاکستان کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ساحرشمشاد مرزا نے کانفرنس کے دوران روئٹرز کو دیے انٹرویو میں بتایا کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان تناؤ کم کرنے کے لیے کوئی بیک چینل بات چیت نہیں ہو رہی۔
انھوں نے بتایا کہ ان کا سنگاپور میں شنگریلا ڈائیلاگ کے دوران جنرل انیل چوہان سے ملاقات کا کوئی منصوبہ نہیں۔
جنرل ساحر شمشاد نے جنوبی ایشیا میں ایٹمی تصادم کے خطرے سے خبردار کرتے ہوئے روئٹرز کو بتایا تھا کہ یہاں ’ایسے تنازعات موجود ہیں جو کسی بھی وقت بے قابو ہو سکتے ہیں۔‘
اس کے بعد شنگریلا ڈائیلاگ سے اپنے خطاب میں جنرل ساحر شمشاد نے کہا کہ پہلگام حملے کے بعد پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشیدگی خطے کی ترقی کو خطرے میں ڈال رہی ہے اور ایسے اقدامات کی ضرورت ہے جو کشیدگی کے خطرات میں کسی بھی ابہام کو ختم کر سکیں۔
Getty Images
جنرل ساحر شمشاد مرزا نے سٹریٹیجک سمجھ بوجھ بڑھانے پر زور دیا اور کہا کہ ’پائیدار کرائسس مینجمنٹ کے لیے باہمی برداشت، ریڈ لائن کی پاسداری اور مساوات کی ضرورت ہوتی ہے، عدم اعتماد کی فضا میں کوئی میکنزم کام نہیں کرتا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’ایڈہاک رسپانسز ناکافی ہیں، ہمیں ادارہ جاتی پروٹوکول اور ہاٹ لائنز کی ضرورت ہے، کشیدگی میں کمی کے طے شدہ طریقہ کار اور مشترکہ کرائسس مینجمنٹ مشقوں کی ضرورت ہے۔‘
’اختلافات کے پُرامن حل ہونے چاہییں، سٹریٹجک کمیونیکیشن اہم ہے۔ غلط فہمیاں، غلط معلومات کشیدگی کو ہوا دیتی ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ پاکستان انڈیا کے ساتھ برابری کی سطح پر تمام مسائل کے حل کے لیے بات چیت کرنے کو تیار ہیں۔
دونوں ملکوں میں عسکری قیادت کیا سوچ رہی ہے؟
سنگاپور میں جنرل انیل چوہان اور جنرل ساحر شمشاد مرزا کے بیانات انڈیا اور پاکستان میں توجہ حاصل کر رہے ہیں اور انھیں مستقبل میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان تعلقات کے تناظر میں اہم سمجھا جا رہا ہے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاعی پیداوار کے سابق چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم خان نے بی بی سی کو بتایا کہ پاکستان کا موقف یہی ہے کہ جنگوں سے کچھ حاصل نہیں ہوتا، مذاکرات کی طرف آئیں اور فوج کے درمیان ہی نہیں بلکہ وزارت خارجہ میں بھی ہاٹ لائن قائم کی جانی چاہیے۔
اگرچہ انڈین چیف آف ڈیفنس سٹاف (سی ڈی ایس) جنرل انیل چوہان نے ایٹمی تصادم کے خطرے کے امکان کو مسترد کیا تاہم پاکستان میں اس حوالے سے تحفظات پائے جاتے ہیں۔
ڈیفنس کمیٹی کے سابق رکن لیفٹیننٹ جنرل عبدالقیوم کے مطابق حریف کی دو چیزوں پر نظر رکھی جاتی ہے: صلاحیت اور ارادے۔
ان کے مطابق تنازع کا تعلق سیاسی فیصلوں پر ہوتا ہے جبکہ اس وقت انڈیا میں وزیراعظم مودی ایک ایسے حکمران ہیں کہ جن کے ’آپریشن سندور‘ کے بعد بھی دیے گئے بیانات، عزائم اور ارادے بالکل واضح ہیں اور اسی وجہ سے جنرل ساحر شمشاد مرز نے شنگریلا میں ایٹمی تصادم کے خطرے کی گھنٹی بجائی ہے۔
جنرل انیل چوہان کے انٹرویو پر انڈیا میں ردِعمل: ’بلومبرگ ٹی وی پر نقصانات کا اعتراف کر سکتے ہیں تو اپنے ملک میں خاموشی کیوں؟‘پاکستان میں میزائل حملے کے بعد کولمبیا کا تعزیتی بیان جس پر انڈین وفد نے مایوسی ظاہر کی’ایک بھی پروجیکٹ وقت پر پورا نہیں ہوا‘: ففتھ جنریشن فائٹر جیٹس کی خواہاں انڈین فضائیہ کو دفاعی منصوبوں میں تاخیر پر تشویش کیوں؟انڈیا کا ’سٹیلتھ‘ جنگی طیارے بنانے کا منصوبہ کیا ہے اور اس کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
مستقبل میں کیا کوئی تنازع بڑی جنگ کی صورت اختیار کر سکتا ہے، اس سوال پر ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل عبدالقیوم نے کہا کہ اس کا انحصار ’انڈین جارحیت پر ہے۔‘
وہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اگر انڈیا نے پاکستان کے کچھ حصے پر قبضے کی کوشش کی یا سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس کے حصے کا پانی لینے کی کوشش کی تو پھر یہ خطے کے لیے بہت خطرے کی بات ہوگی۔‘
ان کی رائے ہے کہ صرف ڈی جی ایم اوز کے بیچ ہاٹ لائن رابطے سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ ’انڈیا کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ امن کا راستہ جنگ نہیں بلکہ مذاکرات کا راستہ ہے۔‘
سی ڈی ایس جنرل انیل چوہان کے انٹرویوز پر جہاں انڈیا میں غم و غصہ پایا جاتا ہے اور انڈیا کی اپوزیشن جماعت کانگریس نے فوجی تیاریوں پر نظرثانی کا بھی مطالبہ کیا ہے وہیں بعض حلقوں میں انھیں حمایت بھی حاصل ہوئی ہے۔
دفاعی ماہر سی ادے بھاسکر نے بی بی سی ہندی کو بتایا کہ سی ڈی ایس نے ٹھیک جواب دیے ہیں کیونکہ انڈیا کے لیے ’یہ نقصان سے زیادہ سٹریٹجک نقصان تھا۔۔۔ ہم نے (اس لڑائی میں) ان غلطیوں اور کوتاہیوں پر قابو پایا جس کی وجہ سے نقصان ہوا تھا۔‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’سی ڈی ایس نے اسے صحیح تناظر میں رکھا ہے۔ یہ اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ وہ یہ بات سنگاپور میں کہہ رہے ہیں۔ شنگریلا ڈائیلاگ ایک بہت اہم کانفرنس ہے جس میں خطے کے تمام وزرائے دفاع اور اعلیٰ فوجی حکام کو اکٹھا کیا گیا ہے۔‘
ایکس پر ایک پیغام میں امریکہ میں سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی نے کہا کہ جنرل انیل چوہان نے ’ایک فوجی کی حیثیت سے‘ نقصان کو قبول کیا۔
حسین حقانی کی اس پوسٹ پر ردعمل دیتے ہوئے انڈیا کے سابق سیکریٹری خارجہ کنول سبل نے کہا کہ عالمی میڈیا اور خارجہ پالیسی برادری پاکستانی مزاحمت اور کامیابی کا بیانیہ بنانے میں مصروف ہے۔
کنول سبل نے لکھا کہ ’کیا پاکستان نے اپنے ایئربیسز پر انڈین فضائیہ کے نقصانات کو قبول کیا، جس کے انڈیا نے ثبوت بھی فراہم کیے؟ کیا پاکستان کے فیلڈ مارشل فوجی نہیں ہیں؟ کیا انھیں بطور فوجی نقصانات کو قبول نہیں کرنا چاہیے؟‘
انھوں نے کہا کہ ’عالمی میڈیا اور خارجہ پالیسی کی کمیونٹی صرف انڈیا کو ہونے والے نقصانات پر ہی کیوں توجہ مرکوز کر رہی ہے؟ سارا معاملہ انڈیا کی کامیابی کی حد کو کم کرنے اور پاکستانی مزاحمت اور کامیابی کا بیانیہ بنانے کا ہے۔‘
تجزیہ کار سوشانت سنگھ نے ایکس پر لکھا کہ ’پہلی رات انڈین ایئر فورس کے طیارے گِرنا مسئلہ نہیں تھا۔ فضائیہ نے اس کے بعد خود کو ڈھال لیا تھا، جیسا کہ سی ڈی ایس نے وضاحت کی۔۔۔ اصل مسئلہ لڑائی میں نقصانات کو سیاسی کوور دینا ہے۔‘
’دانشمندی کا مظاہرہ جنگ شروع ہونے سے پہلے کرنا ہوگا‘
پاکستان کے قومی سلامتی کے سابق مشیر لیفٹیننٹ جنرل ناصر جنجوعہ نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ دونوں ممالک میں جب تک تنازعات حل نہیں کیے جاتے تو اس وقت تک پرامن مستقبل کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی ہے۔
شنگریلا ڈائیلاگ میں انڈیا اور پاکستان کے عسکری حکام کے مؤقف کا تجزیہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ جو دانشمندی ہے اس کا مظاہرہ جنگ شروع کرنے سے پہلے کرنا ہوتا ہے اور دوران جنگ یہ سب غیریقینی ہوجاتا ہے اور اس کی بھی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’جب پاکستان ایٹمی طاقت بنا تو ہم نے یہ کہا کہ اب جنگ نہیں ہو سکتی مگر انڈیا نے کہا کہ نہیں ہم 'لمیٹڈ وار' کر سکتے ہیں اور پھر مختلف تھریشولڈ کی تھیوریز سامنے آئیں کہ اتنے رقبے پر قبضہ اور اتنے معاشی نقصان کی صورت میں محدود جنگ ہوگی۔‘
ان کی رائے میں دونوں ممالک میں حالیہ تنازع میں ’اگر انڈیا پیچھے نہ ہٹتا تو پھر یہ صورتحال قابو سے باہر نکل سکتی تھی کیونکہ پاکستان سمجھتا ہے کہ جارحیت کے جواب میں کوئی تھریشولڈ نہیں ہوتا۔‘
تاہم ان کے مطابق دونوں ممالک ایٹمی طاقت ہیں اور ان کے درمیان تنازع بڑھنے کا مطلب ایک تباہ کن 'نیوکلیئر ہولوکاسٹ' کی صورت میں سامنے آئے گا جو نہ خطے اور نہ دنیا کے لیے اچھا ہے۔
جنرل انیل چوہان کے انٹرویو پر انڈیا میں ردِعمل: ’بلومبرگ ٹی وی پر نقصانات کا اعتراف کر سکتے ہیں تو اپنے ملک میں خاموشی کیوں؟‘پاکستان میں میزائل حملے کے بعد کولمبیا کا تعزیتی بیان جس پر انڈین وفد نے مایوسی ظاہر کیانڈیا کا ’سٹیلتھ‘ جنگی طیارے بنانے کا منصوبہ کیا ہے اور اس کی ضرورت کیوں پیش آئی؟’ایک بھی پروجیکٹ وقت پر پورا نہیں ہوا‘: ففتھ جنریشن فائٹر جیٹس کی خواہاں انڈین فضائیہ کو دفاعی منصوبوں میں تاخیر پر تشویش کیوں؟’ایسا پہلے کبھینہیں ہوا‘: ’کشمیر کا مطالبہ‘ اور انڈین آرمی چیف کی وہ تصویر جس نے ہنگامہ برپا کر دیاانڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں حفاظتی مشقوں کے اعلان پر خوف: ’رات کو طیارے اُڑے تو لگا جھڑپیں شروع ہو گئیں‘