وہ ملک جو نمک سے چلنے والی بیٹریاں استعمال کر کے الیکٹرک بائیکس کی دنیا پر راج کرنا چاہتا ہے

بی بی سی اردو  |  Jun 03, 2025

چین کے مشرقی شہر ہانگژو کے ایک شاپنگ مال کے باہر درجنوں چمچماتی الیکٹرک موپیڈز (موٹر سائیکل) قطار میں کھڑی ہیں جو یہاں موجود راہگیروں کو اپنی جانب متوجہ کر رہی ہیں۔ راہگیر اِن الیکٹرک بائیکس کی ٹیسٹ ڈرائیو لے سکتے ہیں یعنی انھیں چلا کر دیکھ سکتے ہیں۔

لیکن یہ الیکٹرک موٹر بائیکس دوسرے سکوٹروں سے اس لحاظ سے مختلف ہیں کہ ان میں استعمال ہونے والی لیڈ ایسڈ یا لیتھیم آئن بیٹریوں سے نہیں چل رہیں بلکہ ان کی بیٹریاں سوڈیم سے بنی ہیں۔ اور یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ سوڈیم وافر مقدار میں دستیاب ایک ایسا عنصر ہے جو سمندری نمک سے باآسانی حاصل کیا جا سکتا ہے۔

اِن سکوٹرز کی قیمتیں 400 امریکی ڈالر سے 660 امریکی ڈالر کے درمیان ہے۔

سکوٹرز کے ساتھ ہی کچھ تیز چارجنگ کرنے والے سٹیشنز بھی نصب ہیں۔ چین کی ایک بڑی کمپنی ’یاڈیا‘ کا کہنا ہے کہ اُن کے فاسٹ چارچنگ سسٹم سے صفر فیصد پر موجود بیٹری کو 80 فیصد تک چارج کرنے میں صرف 15 منٹ لگتے ہیں۔

یاڈیا کمپنی جنوری 2025 سے اپنی نئی موپیڈز (سکوٹرز) اور چارجنگ سسٹم کے لیے یہ تشہیری تقریب منعقد کر رہی ہے۔ وہاں ایک بیٹری تبدیل کرنے کا سٹیشن بھی موجود ہے، جہاں استعمال شدہ بیٹری دے کر نئیبیٹری لی جا سکتی ہے۔

یاڈیا ان کئی چینی کمپنیوں میں سے ایک ہے جو متبادل بیٹری ٹیکنالوجی میں برتری حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ یہ رجحان اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ چین کی صاف توانائی (کلین انرجی) کی صنعت کتنی تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔

اگرچہ باقی دنیا اب بھی سستی، محفوظ اور مؤثر لیتھیم آئن بیٹریوں کی دوڑ میں چین کے برابر آنے کی کوشش کر رہی ہے، مگر دوسری جانب چینی کمپنیاں پہلے ہی سوڈیم آئن بیٹریوں کی بڑے پیمانے پر پیداوار کی جانب قدم بڑھا چکی ہیں۔ یہ ایک ایسا متبادل ہے جو اس صنعت کو قیمتی خام معدنیات پر انحصار کم کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔

Getty Images

چین کی کار بنانے والی کمپنیاں دنیا میں سب سے پہلے سوڈیم سے چلنے والی کاریں متعارف کروانے والوں میں شامل ہیں۔ تاہم یہ تمام ماڈلز بہت چھوٹے اور کم فاصلے تک چلنے والے تھے، اس لیے ان کا اثر اب تک محدود رہا ہے۔

لیکن پھر اپریل 2025 میں دنیا کی سب سے بڑی بیٹری بنانے والی چینی کمپنی ’سی اے ٹی ایل‘ (کیٹل) نے اعلان کیا کہ وہ رواں سال سے اپنے نئے برانڈ ’نیکسٹرا‘ کے تحت ہیوی ڈیوٹی ٹرکوں اور بڑی کاروں کے لیے سوڈیم آئن بیٹریوں کی بڑے پیمانے پر تیاری شروع کرے گی۔

چین کے گرڈ آپریٹرز نے بھی سوڈیم آئن بیٹریوں سے بنے توانائی ذخیرہ کرنے کے سٹیشنز بنانے شروع کر دیے ہیں تاکہ تجدید پذیر توانائی کو گرڈ میں شامل کیا جا سکے۔

بی بی سی سے بات کرنے والے کئی محققین نے کہا ہے کہ یہ وہ شعبہ ہے جہاں یہ اُبھرتی ہوئی ٹیکنالوجی سب سے زیادہ استعمال کی جا سکتی ہے۔

بیجنگ میں قائم کنسلٹینسی ’ٹریویئم چائنا‘ میں اہم معدنیات اور سپلائی چینز پر تحقیق کرنے والے کوری کومبس کے مطابق سوڈیم آئن بیٹریوں کی سمت میں چین کی کثیر جہتی حکمت عملی اسے ممکنہ عالمی دوڑ میں سب سے آگے رکھے گی۔ ان کے مطابق، یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ سوڈیم آئن بیٹریاں واقعی عام ہوتی ہیں یا نہیں۔

تاہم ایک شعبہ جو سوڈیم آئن بیٹریوں پر بڑا داؤ لگا رہا ہے، وہ ٹو وہیلرز گاڑیوں کا شعبہ ہے جو چین میں تیزی سے بڑھتی ہوئی مارکیٹ ہے۔

’یاڈیا‘ نے اب تک سوڈیم سے چلنے والے تین ماڈلز مارکیٹ میں متعارف کروائے ہیں اور اس کا مزید ماڈلز لانچ کرنے کا منصوبہ ہے۔ اس نے ہانگژو ہوایو نیو انرجی ریسرچ انسٹیٹیوٹ بھی قائم کیا ہے، جو نئی بیٹری کی کیمیائی ترتیب پر تحقیق کرے گا، خاص طور پر سوڈیم آئن پر۔

کمپنی کے سینیئر نائب صدر ژو چاؤ نے جنوری میں چین کے سینٹرل ٹیلی ویژن کے ایک ٹاک شو کے دوران کہا: ’ہم چاہتے ہیں کہ لیبارٹری سے ٹیکنالوجی تیزی سے صارفین تک پہنچائی جائے۔‘

Getty Imagesچین میں ٹووہیلرز یعنی موٹر یا الیکٹرک بائیکس بہت مقبول ہیں’چھوٹے برقی گدھے‘ سے ہم آہنگی

موٹر سائیکل یا بائیکس یعنی دو پہیوں پر چلنے والی گاڑیاں بہت سے ایشیائی ممالک میں نقل و حمل کا انتہائی مقبول ذریعہ ہیں۔ چین میں یہ ہر جگہ دیکھی جاتی ہیں اور عوام کی بڑی تعداد انھیں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لیے استعمال کرتی ہے۔اپنی عملی افادیت اور متنوع نوعیت کی وجہ سے چینی عوام نے انھیں ’چھوٹے برقی گدھے‘ کا نام دیا ہے۔

چین کی شیان جیاؤ ٹونگ لیورپول یونیورسٹی میں توانائی ذخیرہ کرنے والے مواد اور آلات پر تحقیق کرنے والے چن شی کا کہنا ہے کہ ’دو پہیوں پر چلنے والی گاڑیاں (بائیکس) عموماً مختصر فاصلے اور کم رفتار پر چلتی ہیں، اس لیے ان میں توانائی اور بجلی کی کھپت کم ہوتی ہے۔‘

اُن کا کہنا ہے کہ سوڈیم آئن بیٹریاں اسی سائز کی لیتھیم آئن بیٹریوں کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم توانائی کی حامل ہوتی ہیں یعنی ان کی توانائی کی کثافت کم ہے۔

ان گاڑیوں کے لیے سوڈیم آئن بیٹریوں کا اصل مقابلہ لیڈ ایسڈ بیٹریوں سے ہے، جن کی توانائی کی کثافت اور دوبارہ چارجنگ کا سرکل دونوں ہی سوڈیم بیٹریوں سے کم ہیں۔ چن شی کہتے ہیں کہ ان کا واحد فائدہ یہ ہے کہ وہ اس وقت سوڈیم اور لیتھیم دونوں آئن بیٹریوں سے سستی ہیں۔

ایشیا میں بائیکس کی بہت زیادہ مانگ ہے اور بڑے پیمانے پر ان کی پیداوار اس قسم کی بیٹری سے چلنے والی گاڑیوں کے لیے ایک امید افزا راستہ فراہم کرتی ہے۔ شنگھائی میں قائم کنسلٹینسی ’آئی ریسرچ‘ کے مطابق صرف چین میں 2023 میں تقریباً 5.5 کروڑ الیکٹرک بائیکس فروخت ہوئیں، جو کہ اسی مدت میں ملک میں فروخت ہونے والی تمام مکمل، ہائبرڈ اور فیول سیل الیکٹرک کاروں کی مجموعی تعداد سے تقریباً چھ گنا زیادہ تھیں۔

یاڈیا کا مقصد بھی بڑے پیمانے پر پیداوار کا ہے۔ مسٹر ژو نے ٹاک شو میں کہا کہ کمپنی چاہتی ہے کہ سوڈیم بیٹریوں کو کروڑوں عام مسافروں تک پہنچایا جائے۔ انھوں نے کہ ناصرف ان بیٹریوں کو بائیکس میں لگا کر بلکہ ایسا چارجنگ نظام بھی تیار کر کے عوام تک پہنچایا جائے جو ان گاڑیوں کے استعمال کو آسان اور سسٹم کو باآسانی دستیاب بنائے۔

Getty Imagesگاڑی کی بیٹریوں کی چارجنگ کے لیے شہر در شہر ایک پورا نظام تیار کیا جا رہا ہے

سنہ 2024 میں حالات کا جائزہ لینے کے لیے یاڈیا نے شینزن میں ایک پائلٹ پروگرام شروع کیا۔ شینزن جنوبی چین کا ایک بڑا شہر ہے جس کی آبادی 1.78 کروڑ ہے۔ شینزن نیوز کے مطابق اس پائلٹ پروگرام میں 150,000 فوڈ ڈیلیوری کورئیرز شامل کیے گئے۔

یاڈیا کا مقصد یہ تھا کہ کورئیرز اپنی خالی سوڈیم آئن بیٹریاں یاڈیا کے پارٹنر بیٹری سویپنگ سٹیشنز پر جمع کروائیں اور صرف 30 سیکنڈ کے اندر مکمل چارج شدہ بیٹری حاصل کر لیں۔

یاڈیا اور ڈوڈو ہوانڈین جیسی بیٹری تبدیل کرنے والی دیگر کمپنیاں شینزن میں تیزی سے ترقی کر رہی ہیں۔ اب یہ شہر خود کو ایک ’بیٹری سویپنگ سٹی‘ بنانا چاہتا ہے۔

شینزن الیکٹرک بائیسیکل انڈسٹری ایسوسی ایشن کے مطابق شہر کا منصوبہ ہے کہ وہ 2025 تک مختلف اقسام کی الیکٹرک سکوٹرز کے لیے 20,000 چارجنگ یا بیٹری بدلنے والے پوڈز نصب کرے اور سنہ2027 تک یہ تعداد 50,000 تک پہنچا دی جائے۔

یہ تجارتی ادارہ شینزن کی حکومت کے ساتھ مل کر بیٹری سویپنگ کو فروغ دے رہا ہے۔ شہر میں پہلے ہی ایک ’بیٹری-سویپنگ پارک‘ موجود ہے۔ اور ایسوسی ایشن کے مطابق، مستقبل میں ایسا نیٹ ورک قائم کیا جائے گا کہ ہر پانچ منٹ کے فاصلے پر ایک بیٹری-سویپنگ اسٹیشن دستیاب ہو۔

عروج و زوال

سوڈیم آئن اور لیتھیم آئن بیٹریوں کی ساخت ایک جیسی ہوتی ہے۔ بنیادی فرق یہ ہے کہ ان بیٹریوں میں مختلف قسم کے آئنز کا استعمال کیا جاتا ہے۔ آئن وہ ذرات ہیں جو بیٹری کے پازیٹو اور نیگیٹو سروں کے درمیان حرکت کر کے توانائی کو ذخیرہ اور خارج کرتے ہیں۔

سوڈیم سمندر اور زمین کے اندر وسیع مقدار میں پایا جاتا ہے جو کہ لیتھیئم کے مقابلے میں تقریباً 400 گنا زیادہ دستیاب ہے۔ اس لیے سوڈیم آئن بیٹریاں نسبتاً زیادہ قابل رسائی اور بڑے پیمانے پر سستی بنائی جا سکتی ہیں۔ یہ موجودہ سپلائی چین کے مسائل سے بیٹری انڈسٹری کو نجات دلانے میں بھی مدد دے سکتی ہیں۔

اس وقت لیتھیئم کی کان کنی زیادہ تر آسٹریلیا، چین اور چلی میں کی جاتی ہے لیکن اس کی پراسیسنگ کا تقریباً 60 فیصد چین میں ہوتا ہے جو دنیا بھر میں لیتھیئم ریفائننگ کا سب سے بڑا مرکز ہے۔

Getty Imagesتوانائی ذخیرہ کرنے والے سٹیشنوں کو ابھرتی ہوئی سوڈیم آئن ٹیکنالوجی کے لیے اہم مانا جا رہا ہے

سوڈیم آئن بیٹری کوئی نئی ایجاد نہیں۔ ان کی ترقی کا سفر لیتھیم آئن بیٹریوں کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ دونوں اقسام کی تحقیق کا آغاز تقریباً نصف صدی قبل جاپان میں ہوا تھا۔ لیکن جب جاپانی الیکٹرانکس کمپنی سونی نے سنہ 1991 میں دنیا کی پہلی لیتھیم آئن بیٹری متعارف کروائی تو اس کی تجارتی کامیابی نے سوڈیم آئن ٹیکنالوجی کی ترقی کو روک دیا۔ اس دہائی کے آغاز تک صورت حال ویسی ہی رہی۔ لیکن پھر چین حکومتی صنعتی کوششوں کے باعث دنیا کی سب سے بڑی بیٹری طاقت بن گیا۔

سنہ 2021 سوڈیم آئن بیٹریوں کے لیے ایک اہم موڑ ثابت ہوا۔ الیکٹرک گاڑیوں (ای وی) کی مانگ اور کووڈ 19 وبا کی وجہ سے لیتھیئم کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں اور ایک سال میں چار گنا سے زیادہ بڑھ گئیں۔ نتیجتاً بیٹری اور ای وی بنانے والی کمپنیوں نے متبادل تلاش کرنا شروع کر دیا۔

شنگھائی میں قائم ای وی نیوز آؤٹ لیٹ ’سی این ای وی پوسٹ‘ کے بانی فیٹ ژانگ کے مطابق رواں سال جولائی میں سی اے ٹی ایل نے اپنی پہلی سوڈیم آئن بیٹری لانچ کی، جس نے ’صنعتی سطح پر بھرپور دلچسپی کو جنم دیا۔‘ سنہ 2022 میں لیتھیئم کی قیمتیں مزید بڑھ گئیں اور اس چیز نے چینی کمپنیوں کو سوڈیم کی طرف مائل کیا۔

واشنگٹن ڈی سی میں ایشیا سوسائٹی پالیسی انسٹیٹیوٹ کی ڈائریکٹر کیٹ لوگان، جو چین کی ماحولیاتی اور توانائی پالیسیوں پر کام کرتی ہیں، کہتی ہیں: ’سوڈیم کی وافر دستیابی اور چین کی ایک مضبوط بیٹری سپلائی چین میں دلچسپی تحقیق و ترقی کی کوششوں کا مرکزی عنصر رہی ہے۔‘

اس دوران، چین اپنی ضرورت کا تقریباً 80 فیصد لیتھیم آسٹریلیا اور برازیل سے درآمد کر رہا تھا۔

لیکن 2022 کے آخر میں لیتھیم کی قیمتوں میں تیزی سے کمی آنا شروع ہوئی اور اب یہ اپنی بلند ترین سطح کے مقابلے میں کافی کم ہے۔ ژانگ کے مطابق، اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ سی اے ٹی ایل اور گوٹیئن جیسی چینی کمپنیوں نے اپنی لیتھیم پراسیسنگ کی صلاحیت میں اضافہ کر دیا ہے۔ چین نے مقامی لیتھیم کے ذخائر تلاش کرنے اور ترقی دینے کی کوششیں بھی تیز کی ہے۔

نتیجتاً، پچھلے چند برسوں میں جو ’جنون‘ سوڈیم آئن بیٹریوں کے گرد دیکھا گیا تھا، وہ اب ’کم ہو چکا ہے۔‘ کومبز کے مطابق ’چین میں لیتھیم کی ایک بار پھر مضبوطی کے ساتھ قائدانہ کردار میں واپسی ہوئی ہے۔‘

Getty Imagesلیتھیم کے مقابلے میں سوڈیم آئن سے تیار بیٹریاں بہت زیادہ سستی بتائی جا رہی ہیںحفاظت پر توجہ

لیکن بہت سے افراد کے لیے سوڈیم آئن بیٹریوں کو اپنانے کی ایک اور اہم وجہ ان کی ’سیفٹی‘ ہے۔

سنہ 2024 میں چین میں بیٹریوں میں آگ لگنے کے متعدد واقعات نے سب کو چونکا دیا۔ آگ لگنے کی زیادہ تر وجہ بائیکس میں لیتھیئم آئن بیٹریوں کی خود بخود آگ پکڑنا تھی۔

عالمی سطح پر انرجی سٹوریج سٹیشنز میں آگ لگنے کے خطرات پر تشویش ظاہر کی جانے لگی۔ ایک حالیہ واقعے میں جنوری 2025 میں کیلیفورنیا میں ایک بڑے بیٹری پلانٹ کے اندر آگ بھڑک اٹھی۔

اس انڈسٹری کے بعض ماہرین کا ماننا ہے کہ سوڈیم آئن بیٹریاں زیادہ محفوظ ہیں۔ کچھ تحقیقات کے مطابق سوڈیم کی کیمیائی خصوصیات زیادہ مستحکم ہونے کی وجہ سے ان بیٹریوں کے حد سے زیادہ گرم یا آتش گیر ہونے کا کم رجحان ملتا ہے۔ تاہم، دیگر ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ ان کی سیفٹی سے متعلق حتمی طور پر کچھ کہنا قبل از وقت ہے، کیونکہ اس حوالے سے مزید تحقیق درکار ہے۔

سرد موسم بھی بیٹریوں کی کارکردگی پر اثر ڈالتا ہے۔ صفر درجۂ حرارت سے نیچے درجہ حرارت میں لیتھیم آئن بیٹری کی توانائی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت اور چارجنگ سائیکل کی تعداد کم ہو جاتی ہے۔ جبکہ سوڈیم آئن بیٹریاں سخت موسمی حالات سے کم متاثر ہوتی ہیں۔

چین کی شیان جیاٹونگ یونیورسٹی میں کیمیکل انجینیئرنگ کے پروفیسر تانگ ویی کہتے ہیں کہ ’لیتھیم آئنز کے مقابلے میں سوڈیم آئنز بیٹری کے اندر موجود مائع میں زیادہ آسانی سے حرکت کرتے ہیں۔ اس سے ان کی برقی ترسیل بہتر ہوتی ہے اور انھیں اپنے اردگرد کے مائع سے آزاد ہونے کے لیے کم توانائی درکار ہوتی ہے۔‘

تانگ ویی اور ان کی ٹیم نے ایک نیا بیٹری مائع تیار کیا ہے، جو ان کے مطابق سوڈیم آئن بیٹریوں کو منفی 40 ڈگری سیلسیس(−40F) پر بھی 80 فیصد سے زیادہ صلاحیت پر کام کرنے کے قابل بناتا ہے۔ وہ چین کی بیٹری کمپنیوں کے ساتھ مل کر اس ٹیکنالوجی کو ملک کے سرد علاقوں میں گاڑیوں اور توانائی ذخیرہ کرنے والے سٹیشنوں پر لاگو کر رہے ہیں۔

Getty Imagesلیتھیم دنیا بھر میں کم ہی جگہ دستیاب ہیں

سوڈیم آئن بیٹریوں سے وہ ماحولیاتی اثرات بھی کم ہونے کی توقع ہے جو لیتھیئم آئن بیٹریوں میں استعمال ہونے والی دھاتوں، خاص طور پر کوبالٹ اور نکل، کی تیاری سے پیدا ہوتے ہیں۔ یہ بھاری دھاتیں انسانوں اور ماحول دونوں کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہیں۔

سنہ 2024 کی ایک تحقیق میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ سوڈیم آئن بیٹریاں دنیا کو ضرورت سے زیادہ کان کنی اور قیمتی خام مال کی ممکنہ قلت سے بچا سکتی ہیں، تاہم ان کے پیداواری عمل سے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کی مقدار لیتھیم آئن بیٹریوں جتنی ہی ہے۔

اس تحقیق کے مرکزی مصنف اور سویڈن کے شہر گوٹنبرگ کی چالمرز یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کے محقق ژانگ شان کہتے ہیں: ’چونکہ یہ بیٹریاں ابھی بھی ڈیولپ کی جا رہی ہیں، اس لیے ان کی پیداوار، عرصہ استعمال اور توانائی کی کثافت میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔ اور مستقبل میں ان کا ماحولیاتی اثر لیتھیم آئن بیٹریوں کے مقابلے میں کم ہو سکتا ہے۔‘

چار پہیوں کی گاڑیوں کو توانائی فراہم کرنا

دسمبر 2023 میں سوڈیم بیٹریوں سے چلنے والی ابتدائی الیکٹرک کاریں فیکٹریوں سے تیار ہو کر نکلنا شروع ہوئیں۔ اب تک دستیاب تمام ماڈلز مائیکرو کاریں تھیں، جنھیں چین میں A00 کی درجہ بندی دی گئی ہے۔

چینی آٹو انڈسٹری کے آزاد تجزیہ کار سنگ لی کے مطابق سنہ 2024 میں چین میں فروخت ہونے والی کروڑوں ای وی گاڑیوں کے مقابلے میں ان کی فروخت نہایت معمولی رہی (ایک رپورٹ کے مطابق صرف 204 گاڑیاں فروخت ہوئیں)۔

سوڈیم آئن بیٹریوں کی ایک بڑی خرابی ان کی کم توانائی کی کثافت ہے۔ سنہ 2020 کی ایک تحقیق کے مطابق ان کی کثافت لیتھیئم آئن بیٹریوں کے مقابلے میں کم از کم 30 فیصد کم ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایسی گاڑیاں ایک چارج پر زیادہ فاصلہ طے نہیں کر سکتیں۔

ژانگ کہتے ہیں کہ ’اور جب لوگ ای وی گاڑیاں خریدتے ہیں تو ان کے لیے گاڑی کا رینج ایک بہت بڑا اور فیصلہ کن عنصر ہوتا ہے۔‘

شنگھائی میں قائم ناروے کی کنسلٹینسی فرم رِسٹاد انرجی سے وابستہ بیٹری مارکیٹ کے تجزیہ کار چن شان کے مطابق: ’سوڈیم آئن بیٹریوں کی بڑے پیمانے پر پیداوار ابھی تک شروع نہیں ہوئی ہے اور فی الحال وہ قیمت یا کارکردگی میں چار پہیوں والی گاڑیوں میں لیتھیم آئن بیٹریوں کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ اگلے دو یا تین سالوں میں ان کا بڑے پیمانے پر استعمال مشکل ہے۔‘

چین بھر میں سوڈیم سے چلنے والے سکوٹروں کا استعمال آہستہ آہستہ لیکن حوصلہ افزا انداز میں بڑھ رہا ہے۔ یاڈیا نے 2024 میں دنیا بھر میں 1.3 کروڑ سے زائد الیکٹرک بائیکس اور موپیڈز فروخت کیے۔

یاڈیا کے ایک ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ 2025 کی پہلی سہ ماہی میں ان کے سوڈیم دو پہیوں والی گاڑیوں کی فروخت تقریباً 1,000 یونٹس تک پہنچ گئی۔ ژو نے ایک ٹاک شو میں بتایا: ’کمپنی کا منصوبہ ہے کہ وہ ہانگژو میں رواں سال سوڈیم آئن بیٹریوں کے لیے مخصوص تقریباً 1,000 فاسٹ چارجنگ پِلرز بنائے گی، تاکہ مسافروں کو ہر 2 کلومیٹر پر ایک چارجنگ سٹیشن دستیاب ہو۔‘

یاڈیا سوڈیم بیٹریوں کو فروغ دینے والی واحد کمپنی نہیں ہے۔ چین کی ایک اورسکوٹر ساز کمپنی ٹیلگ ہے جو سنہ 2023 سے سوڈیم بیسڈ ماڈلز فروخت کر رہی ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق الیکٹرک گاڑیوں کی بڑی کمپنی بی وائی ڈی کے بیٹری ونگ فن ڈریمز (FinDreams) نے مشرقی چین کے شہر شوژو میں سوڈیم بیٹریوں کی تیاری کے لیے ہوائیہائی گروپ (Huaihai Group) کے ساتھ ایک پلانٹ تعمیر کرنا شروع کر دیا ہے جو دو اور تین پہیوں والی گاڑیوں کا کارخانہ ہے۔

اگرچہ لیڈ ایسڈ بیٹریاں اس صنعت میں بدستور غلبہ رکھیں گی لیکن اگلے پانچ برسوں میں سوڈیم آئن بیٹریوں کا مارکیٹ شیئر تیزی سے بڑھنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ شینزن میں قائم سٹارٹنگ پوائنٹ ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی ایک تجزیاتی رپورٹ کے مطابق سنہ 2030 تک چین کی 15 فیصد الیکٹرک سکوٹرز سوڈیم بیٹریوں سے چلیں گی، جبکہ 2023 میں یہ شرح محض 0.04 فیصد تھی۔

Getty Imagesبیٹریوں کا استعمال بڑھتا ہے تو اس سے کاربن اخراج میں بہت زیادہ کمی واقع ہوگیگرڈ کو سبز بنانا

دراصل سوڈیم آئن بیٹریوں کے لیے ایک بڑی ممکنہ مارکیٹ توانائی ذخیرہ کرنے والے سٹیشن ہو سکتے ہیں، جو کسی وقت پیدا کی گئی بجلی کو بعد میں استعمال کے لیے محفوظ رکھتے ہیں۔

جب ان بیٹریوں کو کسی مستقل جگہ نصب کیا جاتا ہے، تو وہ تمام خامیاں جو گاڑیوں میں استعمال کے دوران سامنے آتی ہیں، بےمعنی ہو جاتی ہیں۔

کومبز کہتے ہیں: ’آپ بس تھوڑا بڑا توانائی ذخیرہ کرنے والا پلانٹ بنا سکتے ہیں۔ وہ کہیں نہیں جا رہا۔ اور بیٹریوں کا وزن کوئی معنی نہیں رکھتا۔‘

توانائی کی ذخیرہ اندوزی مستقبل میں ایک بہت بڑی اور تیزی سے ترقی کرنے والی مارکیٹ بننے والی ہے کیونکہ دنیا بھر کے ممالک اپنے ماحولیاتی اہداف حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

بین الاقوامی توانائی ایجنسی (آئی ای اے) کے مطابق اگر دنیا 2050 تک نیٹ زیرو حاصل کرنا چاہتی ہے، تو سنہ 2022 سے 2030 کے درمیان دنیا بھر کی گرڈ میں توانائی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کو تقریباً 35 گنا بڑھانا ہوگا۔

واشنگٹن ڈی سی میں سٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز سینٹر کی سینیئر فیلو ایلاریا مازوکو کہتی ہیں کہ ’یہ مستقبل میں واقعی ایک اہم مارکیٹ بننے جا رہی ہے، خاص طور پر جب گرڈ پر قابل تجدید توانائی کا حصہ بڑھتا جا رہا ہے۔ اس وقت بجلی کی پیداوار میں اتار چڑھاؤ کو متوازن کرنے کے لیے سٹوریج سسٹمز کی زیادہ ضرورت ہوگی۔‘

وہ کہتی ہیں کہ توانائی ذخیرہ کرنے والے سٹیشنوں میں سوڈیم آئن بیٹریوں کا استعمال اس لیے بھی فائدہ مند ہے کہ ان سہولیات کو گاڑیوں کے لیے بیٹریوں کی تیاری میں آٹو کمپنیوں سے مقابلہ نہیں۔

چین میں جہاں ہوا اور شمسی توانائی کے پلانٹس میں تیز رفتار ترقی ہوئی ہے وہیں وہ دنیا بھر میں قابلِ تجدید توانائی کے فروغ کے لیے توانائی کے ذخیرے کا سب سے زیادہ استعمال کر رہا ہے۔

مئی 2024 میں چین نے سوڈیم آئن بیٹریوں سے چلنے والی توانائی ذخیرہ کرنے کی اپنی پہلی سہولت کو فعال کیا۔ یہ پلانٹ جنوبی چین کے صوبے گوانگشی میں واقع ہے۔

چینی سرکاری میڈیا کے مطابق یہ ایک وقت میں 10 میگا واٹ گھنٹے بجلی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جو کہ 1,500 گھروں کی روزمرہ بجلی کی ضروریات کے برابر ہے۔ یہ منصوبہ دراصل ایک بڑے سٹیشن کے پہلے مرحلے کا حصہ ہے، جس کی صلاحیت اس کا دس گنا ہوگی۔

گوانگشی کے منصوبے کے فوراً بعد وسطی چین کے صوبہ ہوبی میں ایک اور سوڈیم آئن توانائی ذخیرہ کرنے کا منصوبہ شروع ہوا۔ درحقیقت بجلی کی صنعت پر نظر رکھنے والے چینی نیوز آؤٹ لیٹ بیجیشنگ کے مطابق سنہ 2023 میں چین کی سرکاری کمپنیوں کی جانب سے منصوبہ بند تمام توانائی ذخیرہ کرنے والے منصوبوں کی مجموعی صلاحیت کا تقریباً پانچواں حصہ سوڈیم ٹیکنالوجی پر مشتمل تھا۔

لیکن بڑے پیمانے پر سوڈیم آئن بیٹریوں کی تیاری کے لیے اصل سوال یہ ہے کہ کیا کمپنیاں انھیں لیتھیم آئن بیٹریوں کے مقابلے میں سستا بنا سکتی ہیں؟ وڈ میکینزی میں توانائی ذخیرہ کرنے والی سپلائی چین کی ماہر کنسلٹنٹ ژینگ جیا یو کے مطابق کا کہنا ہے کہ یہی بنیادی چیلنج ہے۔

فی الوقت، توانائی ذخیرہ کرنے کے لیے سوڈیم آئن بیٹریوں کی فی یونٹ قیمت لیتھیم آئن بیٹریوں سے تقریباً 60 فیصد زیادہ ہے، لیکن چین سینٹرل ٹیلی ویژن کی رپورٹ کے مطابق بیجنگ میں قائم غیر منافع بخش تنظیم ’چائنا انرجی سٹوریج الائنس‘ کے تجزیے کے مطابق یہ فرق مستقبل میں کم ہونے کا امکان ہے۔

Getty Imagesچین لیتھیم بیٹریوں کے معاملے میں بھی سب سے آگے ہےچین قیادت کے لیے تیار

کچھ کاروباری افراد اور محققین کا ماننا ہے کہ سوڈیم ایک ایسا متبادل ہے جس سے دیگر ممالک چین پر انحصار کم کر سکتے ہیں۔

لیکن اگر یہ ٹیکنالوجی بڑے پیمانے پر کامیاب ہو گئی تو عالمی پیداوار کی قیادت چینی کمپنیاں ہی کریں گی۔ کومبز کے مطابق چین کے بڑے بیٹری ساز اداروں نے سوڈیم کو اپنی طویل مدتی حکمت عملیوں میں شامل کر لیا ہے تاکہ عالمی مسابقت میں برقرار رہ سکیں۔ اس کا مطلب ہے کہ سوڈیم آئن بیٹریاں اب چینی غلبے سے بچ نہیں سکتیں۔

ژینگ کہتی ہیں کہ چینی کمپنیوں اور دیگر ممالک کی کمپنیوں کے درمیان ’سب سے بڑا فرق‘ یہ ہے کہ چین میں کسی ٹیکنالوجی کو لیبارٹری سے بڑے پیمانے پر پیداوار تک لانا بہت تیز ہوتا ہے۔

لوگن کے مطابق چونکہ لیتھیئم آئن اور سوڈیم آئن بیٹریوں کے ڈیزائن میں کافی مماثلت ہے اس لیے چین میں پہلے سے موجود بیٹری بنانے والے انفراسٹرکچر کو معمولی تبدیلیوں کے ساتھ سوڈیم بیٹریوں کی تیاری کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، جس سے کمرشلائزیشن میں وقت اور لاگت کم ہو جاتی ہے۔

تاہم، وہ مزید کہتی ہیں کہ ’یہ ہم آہنگی دیگر بیٹری کیمیکل اقسام کے لیے لازماً درست نہیں۔‘

بیجنگ میں قائم بیٹری تحقیقاتی فرم ’ریئل لی ریسرچ‘ کے بانی موکے نے مثال کے طور پر کہا کہ آل-سالڈ-سٹیٹ بیٹریاں مائع الیکٹرولائٹ استعمال نہیں کرتیں جو کہ موجودہ جنریشن کی بیٹریوں میں آئنز کی منتقلی کی بنیاد ہے۔ اس لیے موکے کا خیال ہے کہ ان بیٹریوں کا موجودہ صنعتی سپلائی چین پر انحصار کم ہوگا۔

چین میں اب بڑے پیمانے پر سوڈیم آئن سیلز بنانے والی فیکٹریاں تعمیر کی جا رہی ہیں، جن میں سے کچھ پہلے ہی کام شروع کر چکی ہیں۔ گاؤگونگ انڈسٹریل ریسرچ کے مطابق سنہ 2024 میں، چینی مینوفیکچررز نے مجموعی طور پر 180 گیگا واٹ گھنٹے کی صلاحیت رکھنے والی 27 سوڈیم آئن بیٹری پلانٹس تعمیر کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا، جن میں شوژاو میں بی وائی ڈی کا 30 گیگاواٹ کا پلانٹ بھی شامل ہے۔

وڈ میکینزی کے تجزیے کا حوالہ دیتے ہوئے ژینگ کہتی ہیں کہ سنہ 2033 تک دنیا میں منصوبہ بند سوڈیم آئن بیٹریوں کی صلاحیت 500 جی ڈبلیو ایچ سے تجاوز کر جائے گی، اور چین اس میں 90 فیصد سے زیادہ کا حصہ دار ہوگا۔

چین کے باہر، امریکہ کی نیٹرون انرجی اور برطانیہ کی فریڈین اس میدان کی سرکردہ کمپنیاں ہیں۔ لیکن ژینگ کے مطابق غیر ملکی کمپنیاں عموماً پروڈکشن لائنز بنانے میں زیادہ وقت لیتی ہیں، اور ان کی پیداوار کی صلاحیت کے لیے چین کا مقابلہ کرنا مشکل ہے۔

برسلز میں قائم تھنک ٹینک بروگل سے منسلک ماہرِ معاشیات اور سینیئر فیلو ایلیسیا گارشیا ہریرو کے مطابق صرف 2023 میں چینی کمپنیوں نے سوڈیم آئن بیٹریوں کی تحقیق و ترقی پر 55 ارب یوآن (تقریباً 7.6 ارب امریکی ڈالر) سے زائد خرچ کیے، جو کہ 2023 تک امریکی نان-لیتھیم بیٹری سٹارٹ اپس کی جانب سے جمع کی گئی مجموعی 4.5 ارب ڈالر کی رقم سے کہیں زیادہ ہے۔

کومبز کے مطابق چینی کمپنیوں کی حکمت عملی سادہ ہے کہ ’مارکیٹ شیئر نہ کھونا ہے اور مستقبل کی مارکیٹ میں شامل رہنا ہے۔‘ ژاو کے مطابق یاڈیا جنوب مشرقی ایشیا، لاطینی امریکہ اور افریقہ میں بھی اپنی سرگرمیاں بڑھا رہا ہے، جہاں الیکٹرک سکوٹرز کافی مقبول ہیں۔

ژاو کے مطابق یاڈیا کا ہدف واضح ہے: سوڈیم آئن بیٹریوں کی بڑے پیمانے پر پیداوار اور سکوٹرز کے لیے چارجنگ انفراسٹرکچر میں بہتری لانا ’تاکہ کروڑوں لوگ گرین ٹرانسپورٹ سے فائدہ اٹھا سکیں۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More