قربانی کا مزہ تو پاکستان میں ہے

بی بی سی اردو  |  Jun 07, 2025

Getty Images

ہمارے محلے میں جھالروں اور دودھیا روشنی کے درجنوں برقی بلبوں سے آراستہ شاندار منڈب تیار کیا گیا ہے۔ اِس پر تین قدِ آدم بیل براجمان ہیں۔ پیروں میں جھانجریں، ٹانگوں پر مہندی کے بیل بوٹے، گردن میں پیتل کی چھوٹی چھوٹی گھنٹیوں والے سنہری گلوبند، ماتھے پر طلائی تارکشی والا مخملیں ٹیکہ، کمر میں سُرخ رنگ کی چمک پٹی اور روغنِ زیتون کی مالش سے دمکتے سینگ۔

روزانہ عشا کے بعد محلے میں ان تینوں مہمانوں کی ٹہلائی ہوتی ہے۔ ایک ایک گلی سے گزران ہوتا ہے تاکہ سب علاقہ معززین کو یاد رہے کہ پچیس، تیس لاکھ روپے کا جانور اور اس کے ٹھاٹھ باٹھ کیا ہوتے ہیں۔

محلے کے بچوں کی پچھلے دس دن سے یہی عید ہے کہ اس منڈب کے آس پاس منڈلاتے رہتے ہیں اور جوش و خروش سے ان بیلوں کی ٹہل سیوا میں شامل ہیں۔

مگر وہ بوڑھے ہی کیا جو لونڈوں بالوں کو ذرا دیر کے لیے خوش دیکھ لیں۔ اپارٹمنٹ بلڈنگ کے صدر دروازے کے باہر چبوترے پر سرِشام کرسیاں ڈالے محروم جوانیوں کے ڈسے چار، پانچ ریٹائرڈ بزرگ ہر راہ گزرتے محلے دار کے لیے انسانی سکینرز ہیں۔ میں بھی کبھی کبھی اُن کے پاس بیٹھ کر ٹائم مشین کی سواری کے مزے لیتا ہوں۔ اِن دنوں ان پنشن یافتگان کا موضوع بڑی عید اور بے راہ روی ہے۔

’بھائی مشتاق آپ کو یاد ہو گا کہ ہمارے بچپنے تک ہمارے بزرگوں کا عیدالضحی کی قربانی کا تصور اس نظریے سے جڑا ہوا تھا کہ ہم سنتِ ابراہیمی کے اتباع میں اس لیے جانور قربان کرتے ہیں تاکہ ہمارے اندر بھی باہمی ایثار و قربانی کا جذبہ سال میں کم از کم ایک بار تو ضرور بیدار ہو مگر وہ جو کہتے ہیں کہ بس حرف رہ گئے ہیں کرامت نہیں رہی۔‘

’ہاں شاکر تم بالکل سولہ آنے کہہ رہے ہو۔ اب تو بس تماش بینی رہ گئی۔ مہنگے سے مہنگا جانور لو، اس کی نمائش کرو تاکہ نفس عاجز ہونے کے بجائے اور اکڑ جائے اور اگلی عید تک چرچا رہے کہ دیکھو یہ وہ گھر ہے جنھوں نے پچیس لاکھ کا بیل خریدا تھا۔ اب دیکھو کہ یہ والے بھائی صاحب سنار ہیں۔ کروڑوں کا کام ہے۔ ہم تو کہتے ہیں کہ اللہ انھیں اور ترقی دے مگر ان کا سب کام کیش پر ہے۔ اسی لیے شاید ٹیکس ایک دھیلہ بھی نہیں دیتے ہوں گے مگر ہر رمضان میں مسجد نبوی میں اعتکاف کے لیے جانا نہیں بھولتے اور پچیس، تیس لاکھ کے جانور قربان کرنے کے لیے مشہور بھی ہیں۔‘

’ارے بھائی ہمیں کیا لینا دینا۔ پیسہ ہے تو دکھاوے کی چمک بھی ہے مگر ان سے زیادہ تو غریب غریب کی کھال کھینچ رہا ہے۔ جو چھری نفس پر چلانی چاہیے وہ گاہکوں پر چلتی ہے۔ رمضان میں پھلوں کے دام تگنے چوگنے اور بڑی عید کے موقع پر گوشت کے مصالحے، پیاز، ٹماٹر، مرچیں، دھنیا سونے کے بھاؤ بیچ رہے ہیں۔ ہے کوئی پوچھنے والا۔‘

Getty Images

’اب ذرا سنو کہ گزرے بدھ کو میرا بیٹا دوستوں کے ساتھ بکرا پیڑی گیا۔ مرے سے مرا بکرا بھی پینتیس، چالیس سے کم کا نہیں۔ ایک سے پوچھا کہ بیس، پچیس والا بھی کوئی بکرا ہے۔ کہنے لگا صاحب جی کوئی اچھا سا مرغا خرید لو اس کی قربانی سستی بڑے گی۔ بھلا بتاؤ: ایک تو منہ مانگے دام بتاتے ہیں اوپر سے گاہکوں سے بدتمیزی بھی کرتے ہیں۔‘

یہ بزرگ ان دنوں محلے میں عید کی رونق کے سبب نصف شب تک محفل بازی کرتے ہیں اور پھر اگلی شام تک برخواست ہو جاتے ہیں۔ پہلے یہ ماشاللہ سات آٹھ تھے، اب پانچ ہی رہ گئے ہیں۔

دشمن کی ناک رگڑوانے کا قاتل شوق’ٹرمپ کی دوستی یا ریچھ کا جپھا‘جنگ ہم کریں اور چھڑوائیں دوسرے’کیا ٹرمپ ہمارا ابا لگتا ہے؟‘

ویسے آپس کی بات ہے قربانی کا مزہ پاکستان سے باہر بالکل نہیں۔ بھلا یہ کیا بات ہوئی کہ سڑک یا گلی میں جانور باندھنے پر جرمانہ دو۔ قربانی صرف رجسٹرڈ فلاحی انجمنیں ہی کرنے کی مجاز ہیں۔

آپ اپنا جانور ان کے حوالے کیجیے۔ وہ اسے دیگر جانوروں کے ساتھ مخصوص جگہوں پر رکھیں گی۔ آپ سے ان کی خوراک اور دیکھ بھال کے لیے کچھ پیسے لیں گی اور عید کے دن اس جانور کا پیک شدہ صاف ستھرا گوشت آپ کے حوالے کر دیں گی۔

اس کے بعد آپ کی نیت جانے اور خدا جانے۔ آپ چاہیں تو گوشت کے تین حصے کر کے ایک حصہ مستحق عزیز و اقارب اور ایک حصہ غربا میں تقسیم کر دیں۔ یا پھر پورا جانور ڈیپ فریزر میں رکھ لیں اور ایک آدھ مہینے تک مزے اڑائیں۔ یا صرف انھی کو حصہ بھجوائیں جو کسی بھی طرح آپ کے لیے کارآمد ہوں۔

اگلے تین دن میرا ’دو قومی نظریہ‘ کچھ یوں ہے کہ ایک فریق قصاب ہیں اور دوسرا فریق اکثریت میں ہونے کے باوجود قصابی اقلیت کا غلام ہے۔ قصاب کا یہاں لائسنس یافتہ ہونا ضروری نہیں۔ جس کے ہاتھ میں بھی دو، تین چھوٹی بڑی چھریاں ہیں وہ سرجن ہے۔ بھلے ایک دن پہلے تک رکشہ ہی کیوں نہ کھینچ رہا ہو۔

Getty Images

جانور کب ذبح ہو گا، کس ریٹ پر ہو گا، اس کی کھال معاوضے میں شامل ہو گی کہ نہیں۔ اسے پیسوں اور کھال کے علاوہ کلو، دو کلو گوشت بھی ملے گا یا نہیں۔ یہ سب کچھ قصاب آپ کو بتائے گا۔ آپ کا کام صرف قربانی کے جانور کی طرح سر جھکا کے سننا اور ہاں میں سر ہلا دینا ہے۔ اب جانور کی قسمت جانے قصائی جانے۔

میں بس اتنا کرتا ہوں کہ صبح سے دوپہر تک کمرے کی کھڑکی کے ساتھ کرسی ڈال کر بیٹھ جاتا ہوں۔ بیلوں، گایوں اور بکروں کو سڑک یا پکی فٹ پاتھ پر گرتے اور اٹھتے اور پھر گرتے دیکھتا ہوں۔ ان کے ڈکرانے کی معدوم ہوتی آوازیں سنتا ہوں۔ خونم خون سڑک سے چھینٹیں اڑاتی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو گزرتے دیکھتا ہوں۔

بوٹیاں بنانے کے لیے چوبی منڈی پر پڑنے والے بگدوں کی آوازیں سنتا ہوں۔ کبھی کبھی کسی اناڑی قصائی اور اس کے گاہک کی تلخ کلامی بھی کانوں میں پڑتی رہتی ہے۔ دن میں ایک آدھ بار کسی جانور کے رسی تڑا کر بھاگنے سے پیدا ہونے والی ’افراتفریح‘ سے جو عارضی ہنگامہ پیدا ہوتا ہے اسے محسوس کر کے جانے کیا کیا سوچتا ہوں۔

چوتھے دن سڑکوں، گلیوں اور فٹ پاتھوں پر جمے خون پر مٹی یا چونا پڑ جاتا ہے۔ گھاس کے تنکے آس پاس بکھرے رہتے ہیں۔ دور میدانوں میں جمع شدہ آلائش اور اوجھڑیوں کے ڈھیر کئی کئی ہفتے بڑی عید کی یاد دلاتے رہتے ہیں اور پھر ان کی بو بھی زندگی کے بوجھ تلے دب جاتی ہے۔

دشمن کی ناک رگڑوانے کا قاتل شوق’ٹرمپ کی دوستی یا ریچھ کا جپھا‘جنگ ہم کریں اور چھڑوائیں دوسرے’کیا ٹرمپ ہمارا ابا لگتا ہے؟‘’خدایا آئی ایم ایف کو ہیضہ ہو جائے‘پاکستان کے غدار محبِ وطن
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More