Getty Imagesبڑی فصلوں کی پیداوار کو دیکھا جائے تو اس میں 13 فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی جس میں گندم، گنا، کاٹنمکئی وغیرہ شامل ہیں
پاکستان میں وفاقی حکومت کی جانب سے موجودہ مالی سال کے لیے اقتصادی سروے جاری کر دیا گیا ہے جس میں موجودہ مالی سال میں اب تک ملکی معیشت کی صورتحال اور مختلف معاشی اشاریوں میں رد و بدل کے بارے میں تفصیلات جاری کی گئی ہیں۔
اگلے مالی سال کے لیے پیش کیے جانے والے بجٹ سے ایک دن قبل حکومت کی جانب سےجاری کیے گئے اس اقتصادی سروے میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ موجودہ مالی سال میں ملکی معاشی ترقی کی شرح 2.7 فیصد رہے گی۔
پاکستانی حکومت نے اس بنیاد پر معاشی ترقی کا دعویٰ کیا ہے کہ اس کی پالیسی اور سخت پالیاتی اقدامات نے ملکی معاشی شرح نمو کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا ہے جو دو سال قبل منفی تھی اور گذشتہ مالی سال میں اس میں معمولی بہتری ریکارڈ کی گئی تھی۔ تاہم بعض معاشی ماہرین نے اعداد و شمار پر سوالات اٹھائے ہیں۔
حکومت کی جانب سے موجودہ مالی سال میں اقتصادی ترقی کا دعویٰ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب اس اقتصادی سروے میں خود حکومت نے تسلیم کیا ہے کہ ملک میں بڑی فصلوں کی پیداوار اور بڑی صنعتوں کی پیداوار میں کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔
مشیر وزیر خزانہ خرم شہزاد نے بتایا ہے کہ گذشتہ تین سال کے عرصے میں دنیا بھر میں پیداوار میں کمی دیکھی گئی ہے مگر پاکستان میں پیداوار بڑھی اور مہنگی میں کمی آئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ زرعی پیداوار میں گراوٹ کی کئی وجوہات ہیں، جیسے پانی اور بارش میں کمی۔
ملکی معیشت میں زرعی اور صنعتی شعبے کا اہم کردار ہے اور ان دونوں میں ہونے والی کمی کے باوجود حکومت کی جانب سے کیے جانے والے دعوے کے بارے میں بی بی سی نے زراعت اور معیشت کے شعبے کے ماہرین سے بات چیت کر کے اس حکومتی دعوے کے بارے میں جاننے کی کوشش کی۔
Getty Imagesبڑی صنعتوں کی پیداوار میں مسلسل کمی ریکارڈ کی گئی ہےمعاشی بحالی کے دعوے اور زمینی حقائق
موجودہ مالی سال کے لیے جاری کیے جانے والے اقتصادی سروے کے مطابق ملک کی موجودہ مالی سال میں معاشی شرح نمو 2.7 فیصد رہے گی۔ واضح رہے کہ موجودہ مالی سال کی پہلی تین سہہ ماہیوں میں ملکی شرح نمو اوسطاً ڈیڑھ فیصد رہی۔ تاہم حکومت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ موجودہ مالی سال کی آخری سہہ ماہی میں ملکی شرح نمو چار فیصد سے زائد رہے گی جس کی وجہ سے پورے سال کی مجموعی ملکی شرح نمو دو 2.7 فیصد رہے گی۔
پاکستان میں معیشت کے ماہرین کے مطابق حکومت کا یہ دعویٰ زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا۔
پلاننگ کمیشن آف پاکستان کے سابقہ ڈپٹی چیئرمین ڈاکٹر ندیم الحق نے بی بی سی کو بتایا کہ حکومت کے جاری کردہ اعداد و شمار کی ساکھ پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔
انھوں نے کہا کہ پہلی تین سہہ ماہیوں میں گروتھ کم رہی اور حکومت نے چوتھی سہہ ماہی میں اسے کھینچ کر شرح نمو کے اعداد و شمار کو اوپر ظاہر کیا ہے۔ انھوں نے کہا اسے ’جادو ہی کہا جا سکتا ہے کہ اچانک سے نمبرز کو اتنا زیادہ دکھایا گیا ہے۔‘
ماہر معیشت ڈاکٹر اکرام الحق بھی ان اعداد و شمار کی ساکھ پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ 'تین سہہ ماہیوں میں ملکی گروتھ کم رہی اور چوتھی میں اسے زیادہ ظاہر کیا گیا ہے۔'
انھوں نے کہا کہ ابھی اس مالی سال میں کچھ دن رہتے ہیں اور یہ شرح نمو کا نمبر بھی 11 مہینوں پر مشتمل ہے۔ انھوں نے کہا کہ جب یہ مالی سال مکمل ہو جائے گا تو امکان ہے کہ ملکی شرح نمو کا نمبر دو فیصد یا اس سے کم پر ظاہر کیا جائے۔
آئی ایم ایف کی 11 نئی شرائط: استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد پر چھوٹ سمیت وہ شرائط جو عام پاکستانیوں کی زندگی متاثر کر سکتی ہیںڈالر کو ایک کمزور کرنسی بنانے کا منصوبہ: کیا ٹرمپ امریکی کرنسی کی قدر میں گراوٹ لانا چاہتے ہیں؟حکومت پیٹرول و ڈیزل کی خریداری کے لیے نقد رقم کے بجائے ڈیجیٹل ادائیگی کو کیوں فروغ دینا چاہتی ہے؟کوششوں کے باوجود انڈیا آئی ایم ایف کو پاکستان کے لیے قرض کی قسط جاری کرنے سے کیوں نہیں روک پایا؟
مالی سال کے اختتام سے پہلے معاشی ترقی کے دعوے اور معاشی اشاریوں کے تخمینے کے بارے میں وزیر اعظم پاکستان کے کوآرڈینیٹر رانا احسان افضل نے رابطہ کرنے پر بی بی سی کو بتایا کہ یہ کوئی نئی پریکٹس نہیں۔ ان کے مطابق کئی دہائیوں سے ایسا ہی ہوتا ہے کہ بجٹ سے پہلے اقتصادی سروے میں پورے سال کا معاشی ترقی کا تخمینہ دیا جاتا ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ مالی سال کے اختتام پر معاشی اعداد و شمار پر نظر ثانی کی جاتی ہے۔
جب ان سے بڑی فصلوں اور بڑی صنعتوں کی پیداوار میں کمی کے باوجود معاشی شرح نمو میں اضافے کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے تسلیم کیا کہ اگرچہ بڑی فصلوں کی پیداوار میں کمی ہوئی ہے تاہم 'جو جی ڈی پی کے اعداد و شمار بتائے گئے ہیں وہ مجموعی ہوتے ہیں، جن میں زرعی شعبے کےعلاوہ صعنتی شعبے اور سروسز شعبے کے اعداد و شمار بھی شامل ہوتے ہیں۔'
ان کے بقول اسی بنیاد پر یہ کہا گیا ہے کہ ملکی جی ڈی پی میں ترقی ہوئی ہے۔
موجودہ مالی سال میں زرعی شعبے کی کارکردگی کیا رہی؟
حکومت کی جانب سے جاری کردہ اقتصادی سروے میں کہا گیا ہے کہ موجودہ مالی سال میں زرعی شعبے کی ترقی ایک فیصد سے بھی کم رہی۔ اس شعبے کا ملکی جی ڈی پی میں حصہ تقریباً 24 فیصد ہے اور یہ ملک میں سنتیس فیصد کے قریب روزگار فراہم کرنے والا شعبہ ہے۔
اس شعبے میں بڑی فصلوں کی پیداوار کو دیکھا جائے تو اس میں 13 فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی جس میں گندم، گنا، کاٹنمکئی وغیرہ شامل ہیں۔ حکومت نے زرعی شعبے میں ایک فیصد سے کم ہونے والی ترقی کی وجہ پولٹری اور لائیو سٹاک کی پیداوار میں اضافے کو بتایا ہے۔
زرعی امور کے ماہر اور صدر سندھ آباد گار بورڈ محمود نواز شاہ نے بی بی سی کو اس سلسلے میں بتایا کہ زرعی پیداوار میں معمولی اضافے کے نمبر کو لائیو سٹاک کی پیداوار میں اضافے سے منسلک کیا گیا ہے۔
انھوں نے کہا یہ غیر رسمی شعبہ ہے جس میں ملک کے دیہی علاقوں میں لوگوں کے پاس دو تین جانور اپنے گھر کی دودھ کی ضرورت کے لیے ہوتے ہیں۔ 'ان جانوروں کے دودھ اور گوشت کا حساب لگانا مشکل ہوتا ہے تاہم حکومت ہر سال اس میں گروتھ کے اعداد و شمار جاری کر کے زرعی شعبے میں ترقی کا دعویٰ کرتی ہے۔'
انھوں نے کہا کہ زراعت کے شعبے میں اس وقت صورتحال یہ ہے کہ بڑی فصلوں کی پیداوارمیں کمی آئی ہے۔ 'یہ بیس، پچیس سالوں کے بعد ہوا ہے کہ ان سب ٖفصلوں کی پیداوار میں کمی ہوئی ہے۔'
ان اجناس کی پیداوار میں کمی ہوئی جس سے ان کے بقول ان کی قیمت بھی بہت کم ہوئی ہے اور کسان کو اس کی لاگت بھی نہیں ملی۔
'زرعی پیداوار کے اعداد و شمار پر شک کیا جا رہا ہے کیونکہ زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ اس وقت کسان کی حالت بہت خراب ہے۔'
Getty Imagesماہرین کے مطابق ملک میں صنعتی شعبے کی ترقی بھی درآمدات پر انحصار کرتی ہےکیا ملک میں صنعتی پیداوار میں اضافے کا حکومتی دعویٰ صحیح ہے؟
حکومت کے جاری کردہ اقتصادی سروے میں ملک میں صنعتی شعبے کی ترقی کا دعویٰ کیا گیا ہے اور اس کے مطابق موجودہ مالی سال میں اب تک اس شعبے میں ترقی کی شرح چار اعشاریہ ستتر فیصد رہی۔
تاہم اگر ملک میں بڑی صنعتوں کی پیداوار کو دیکھا جائے تو اس میں مسلسل کمی ریکارڈ کی گئی ہے اور موجودہ مالی سال کے پہلے نو مہینوں میں بڑی صنعتوں کی پیداوار میں ڈیڑھ فیصد تک کمی ریکارڈ کی گئی۔
بڑی صنعتوں میں ٹیکسٹائل ملز، کیمیکل انڈسٹری، پیٹرولیم انڈسٹری جیسے ریفائنریاں، سیمنٹ انڈسٹری، پاور پلانٹس، ٹوبیکو انڈسٹری اور فارماسیوٹیکل وغیرہ شامل ہیں۔ جبکہ چھوٹی صنعتوں میں گارمنٹ پاور لومز، کاٹیج فیکٹریاں وغیرہ شامل ہوتی ہیں۔
حکومت کے مطابق موجودہ مالی سال کی آخری سہہ ماہی میں صنعتی ترقی کے شعبے میں ترقی ریکارڈ کی گئی ہے اور امکان ہے کہ مالی سال کے خاتمے پر اس میں اضافہ ریکارڈ کیا جائے گا۔
ماہر معیشت ڈاکٹر اکرام الحق نے کہا اگر مارچ کے مہینے میں بڑی صنعتوں کی پیداوار کو دیکھا جائے تو اس میں کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔
ان کا سوال ہے کہ 'آخری سہہ ماہی میں ایسا کیا ہوگیا کہ یہ پیداوار منفی سے مثبت زون میں چلی گئی؟'
ان کے مطابق اس وقت دیکھا جائے تو ملک میں درآمدات کی حوصلہ شکنی کی پالیسی جاری ہے۔ ان کے مطابق ماہرین کے مطابق ملک میں صنعتی شعبے کی ترقی بھی بڑے پیمانے پر درآمدات پر انحصار کرتی ہے کیونکہ ’اس کا خام مال باہر سے آتا ہے اور برآمدات کے لیے بھی درآمدات ضروری ہیں۔‘
اس لیے ایسی صورتحال میں صنعتی ترقی کا دعویٰ ’اتنا زیادہ کریڈیبل نظر نہیں آتا ہے کہ جس کی بنیاد پر کہا جائے کہ صنعتی ترقی میں اضافہ ہوا ہے۔‘
آئی ایم ایف کی 11 نئی شرائط: استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد پر چھوٹ سمیت وہ شرائط جو عام پاکستانیوں کی زندگی متاثر کر سکتی ہیںپاکستان میں سونے کی قیمت میں مسلسل اضافہ، یہ قیمتی دھات کون خرید رہا ہے اور کیا یہ سب سے محفوظ سرمایہ کاری ہے؟کوششوں کے باوجود انڈیا آئی ایم ایف کو پاکستان کے لیے قرض کی قسط جاری کرنے سے کیوں نہیں روک پایا؟حکومت پیٹرول و ڈیزل کی خریداری کے لیے نقد رقم کے بجائے ڈیجیٹل ادائیگی کو کیوں فروغ دینا چاہتی ہے؟ڈالر کو ایک کمزور کرنسی بنانے کا منصوبہ: کیا ٹرمپ امریکی کرنسی کی قدر میں گراوٹ لانا چاہتے ہیں؟