ایئر انڈیا کے طیارے کی ٹیک آف کے 30 سیکنڈز میں گِر کر تباہ ہونے کی ممکنہ وجوہات کیا ہو سکتی ہیں؟

بی بی سی اردو  |  Jun 13, 2025

BBC

احمد آباد سے لندن گیٹوک جانے والی ایئر انڈیا کی پرواز فلائٹ اے آئی 171 کے ساتھ ان 30 سیکنڈز میں کیا ہوا، اس بارے میں ویسے تو حتمی طور پر تفصیلی تحیقیقات کے بعد ہی معلوم ہو سکے گا لیکن پرواز کے اڑان بھرنے کے بعد کے لمحات ایوی ایشن میں انتہائی دشوار سمجھے جاتے ہیں۔

انڈیا میں اس حادثے کی تحقیقات کے دوران مقامی ٹیمز کو برطانیہ اور امریکہ سے آنے والے ماہرین کی معاونت حاصل ہو گی اور حکام یہ معلوم کرنے کی کوشش کریں گے کہ بوئنگ 8-787 ڈریم لائنر اڑان بھرنے کے کچھ ہی لمحات کے اندر احمد آباد کے بین الاقوامی ایئرپورٹ کے رن وے سے ڈیڑھ کلومیٹر دور گر کر تباہ کیوں ہو گیا؟

یہ پہلی مرتبہ ہے کہ سنہ 2011 میں کمرشل سروس میں آنے والے 8-787 ڈریم لائنر کو حادثے کا شکار ہونا پڑا ہے۔ جمعرات کے سانحے میں طیارے پر موجود 241 افراد ہلاک ہوئے جبکہ جہاں یہ طیارہ گر کر تباہ ہوا وہاں بھی ہلاکتیں ہوئی ہیں۔

بی بی سی نے انڈیا میں ایوی ایشن ماہرین اور پائلٹس سے بات کی ہے جن میں کچھ نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ہمیں معلومات دی ہیں۔ ان پائلٹس نے 8-787 انڈیا کے بین الاقوامی ایئرپورٹس سے اڑائے ہیں۔ ہم نے ان سے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ اس بدقسمت طیارے کے پرواز بھرنے کے چند سیکنڈز بعد رہائشی عمارتوں میں گر کر تباہ ہونے کے پیچھے کیا عوامل ہو سکتے ہیں؟

طیارہ اڑان بھرتے ہوئے بلندی حاصل کرنے میں مشکلات کا شکار رہا

اس طیارے کو اڑانے والے پائلٹ کپتان سمیت سبھروال اور ان کے ساتھی پائلٹ کلائیو کندر تھے۔ دونوں انتہائی تجربہ کار تھے اور ان کا نو ہزار فلائنگ آورز کا مشترکہ تجربہ تھا۔ سبھروال کا بطور کمرشل ایئر لائن پائلٹ 22 سالہ کا تجربہ تھا۔

طیارے میں اس وقت 242 افراد سوار تھے جب اس نے جمعرات کی دوپہر احمدآباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے رن وے کی جانب بڑھنا شروع کیا۔ ایئر انڈیا کے مطابق طیارے نے مقامی وقت کے مطابق ایک بج کر 39 منٹ پر اڑان بھری۔

انڈیا کے وزیرِ داخلہ امت شاہ نے بتایا کہ طیارے میں 100 ٹن ایندھن موجود تھا یعنی اس کے ٹینک تقریباً بھرے ہوئے تھے۔

انڈیا کے ایوی ایشن ریگولیٹر کا کہنا ہے کہ اڑان بھرنے کے فوراً بعد کاک پٹ سے مے ڈے کال دی گئی۔ اس کے بعد طیارے سے کوئی پیغام موصول نہیں ہوا۔ تاحال یہ واضح نہیں ہے کہ مے ڈے کال دینے کے پیچھے کیا عوامل تھے لیکن طیارے کے واحد بچ جانے والے مسافر نے انڈین میڈیا کو بتایا ہے کہ انھوں نے اس وقت دھماکے کی آواز سنی جب طیارے کو اڑان بھرنے میں مشکلات کا سامنا تھا۔

بی بی سی ویریفائی کی جانب سے تصدیق شدہ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اس کے بعد طیارہ ایک رہائشی علاقے کے اوپر سے بتدریج نچلی پرواز کر رہا ہے۔

موصول ہونے والے ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے طیارہ 625 فٹ کی بلندی تک گیا۔ اس کے بعد وہ نیچے آتا دکھائی دیا اور پھر عمارتوں اور درختوں کی اوٹ میں چلا گیا جس کے بعد زوردار دھماکہ ہوا۔

ایک پائلٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ 'اگر انھیں دونوں انجنز کے بند ہونے کا سامنا تھا تو پھر ان کے لیے فوری ردِ عمل دینے کا کوئی وقت موجود نہیں تھا۔

بی بی سی ویریفائی کی جانب سے تصدیق شدہ سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ طیارہ 30 سیکنڈز تک فضا میں رہا۔

یہ طیارہ ایک رہائشی علاقے میں گرا اور اس کے بعد سامنے آنے والے مناظر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ رہائشی بلاکس کو قصان پہنچا ہے اور اس علاقے میں سرکاری عمارتیں اور ہسپتال بھی موجود تھے۔

BBCدونوں انجنز کے بند ہو جانے کے حوالے سے قیاس آرائیاں

طیارے کی تیس سیکنڈز کی فلائٹ کی ویڈیو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا تقریباً ناممکن ہے کہ اس سانحے کی اصل وجہ کیا بنی ہو گی۔

آنے والے دنوں میں ایک پیچیدہ تحقیقات کی جائیں گی جس میں طیارے کا بلیک باکس جس میں فلائٹ ڈیٹا ریکارڈ موجود ہوتا ہے اور طیارے کے ملبے کا جائزہ لیا جائے گا۔

تاہم اس واقعے کی جو ویڈیوز سامنے آئی ہیں ان میں دیکھا جا سکتا ہے کہ طیارے بلندی حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے جو بظاہر تھرسٹ یا طاقت کی کمی کی وجہ سے ہوتا ہے۔

کچھ ماہرین کی جانب سے جس ممکنہ وجہ کی بات کی گئی ہے وہ ایسی ہے جو بہت کم ہوتی ہے یعنی دونوں انجن کا بند ہو جانا۔ اس حوالے سے بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں کہ آیا طیارے کا ریم ایئر ٹربائن (آر اے ٹی) کو آن کیا گیا تھا، یہ ایک ایمرجنسی بیک اپ ٹربائن ہوتا ہے جو مرکزی انجنز کے بند ہونے یا ان میں خرابی پیدا ہونے کی صورت میں کام کرنا شروع کرتا ہے۔

دونوں انجنز کی ناکامی کے بارے میں عام طور پر کم ہی سننے کو ملتا ہے اور اس کی سب سے نمایاں مثال سنہ 2009 میں 'ہڈسن کے معجزے' سے ملتی ہے جب امریکی ایئرویز ایئر بس اے 320 کے دونوں انجن نیو یارک کے ایئرپورٹ سے اڑان بھرنے کے کچھ ہی دیر بعد پرندوں کے ٹکرانے کے باعث بند ہو گئے تھے۔ تاہم طیارے گلائیڈ کر کے ہڈسن دریا پر اترا تھا اور تمام مسافر محفوظ رہے تھے۔

ایک سینیئر پائلٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ دونوں انجنز کا بند ہونا فیول کنٹینمینیشن یا کلاگنگ کی وجہ سے ہو سکتا ہے جسے عام فہم زبان میں مکینک انجن میں کچرا اکٹھا ہونا کہتے ہیں۔

طیارے کے انجنز ایک فیول میٹرنگ نظام پر انحصار کرتے ہیں اور اگر یہ نظام بلاک ہو جائے تو فیول نہ پہنچنے کے باعث انجن بند ہو جاتے ہیں۔

ایک سابق پائلٹ مارکو چین نے بی بی سی ویریفائی کو بتایا کہ موجودہ فوٹیج سے یہ اندازہ لگانا ممکن نہیں ہے کہ یہ واقعی دونوں انجنز کی ناکامی کی وجہ سے ہوا ہے۔

ایوی ایشن ماہر موہن رنگاناتھن نے بی بی سی کو بتایا کہ دونوں انجنز کا بند ہو جانا ایک 'بہت ہی زیادہ کم ہوتا ہے۔'

انجن بنانے والی کمپنی جی ای ایروسپیس نے کہا ہے کہ وہ ایک ٹیم انڈیا بھیج رہی ہے تاکہ تحقیقات میں مدد کی جا سکے جبکہ بوئنگ کا کہنا ہے کہ وہ ایئرلائن کی پوری مدد کر رہی ہے۔

Getty Imagesپرندوں کا ٹکرانا

انڈیا میں ماہرین کی جانب سے ایک اور ممکنہ وجہ پرندوں کا ٹکرانا بھی قرار دیا جا رہا ہے۔

یہ تب ہوتے ہیں جب ایک طیارہ پرندے سے ٹکراتا ہے اور یہ طیارے کے لیے بہت زیادہ خطرناک ہو سکتا ہے۔ اگر انجنز میں پرندے چلے جائیں تو کبھی کبھار بند بھی ہو سکتے ہیں اور جیسے جنوبی کوریا میں گذشتہ برس ہونے والے جیجو ایئر سانحے میں ہوا تھا جس میں 179 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

ماہرین اور پائلٹس جو احمد آباد ایئرپورٹ سے واقف ہیں نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ یہ 'پرندوں کے لیے بدنام ہے۔'

رنگاناتھن کا کہنا ہے کہ 'یہ (پرندے) ہمیشہ موجود ہوتے ہیں۔' ان کی جانب سے کیے گئے اس تبصرے کی حمایت کم سے کم تین ایسے پائلٹس نے بھی کی ہے جو اس ایئرپورٹ سے طیارے اڑا چکے ہیں۔

سنہ 2023 میں پارلیمان میں سول ایوی ایشن کی جانب سے پیش کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق ریاست گجرات جہاں یہ ایئرپورٹ موجود ہے وہاں (2023 سے قبل) گذشتہ پانچ سالوں میں طیاروں کے پرندوں سے ٹکرانے کے 462 واقعات رپورٹ کیے گئے ہیں جن میں سے اکثر احمد آباد ایئرپورٹ پر ہی ہوتے ہیں۔

ٹائمز آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق ستمبر 2023 میں ایئر پورٹ اتھارٹی کے اعداد و شمار کے مطابق 23-2022 میں احمد آباد میں برڈ سٹرائک کے 38 واقعات پیش آئے جو گذشتہ 12 ماہ میں 35 فیصد اضافہ ہے۔

سنہ 2009 میں 'ہڈسن معجزے' کے وقت 2700 فٹ کی بلندی پر سمندری بگلوں کا ایک غول ایئر اے 320 کے انجنز میں داخل ہو گیا تھا۔ ایئر انڈیا کے طیارے کے کیس میں نہ تو طیارے کے پائلٹس بلندی پر تھے اور نہ ہی ان کے پاس اس سے بچنے کے لیے کچھ کرنے کا موقع تھا۔

تاہم ایک سینیئر پائلٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ پرندے کا ٹکرانا بہت کم ہی بڑے حادثے کی وجہ بنتا ہے، اور ایسا خاص طور پر اس وقت ہوتا ہے جب اس سے 'دونوں انجن متاثر ہوں۔'

پی کے 8303 کی تباہی: ’کپتان چیخا مے ڈے، مے ڈے، طیارہ مڑا مگر پائلٹس کو اندازہ ہو چکا تھا کہ رن وے تک پہنچنا ممکن نہیں‘32 برس قبل گلگت سے روانہ ہونے والی پی آئی اے کی فلائیٹ جو آج تک منزل پر نہیں پہنچ سکی’پر میں پھنسا پرندہ۔۔۔‘ جنوبی کوریا کی تاریخ کا سب سے جان لیوا طیارہ حادثہ کیسے پیش آیا’میں نے تو کلمہ پڑھ لیا تھا‘: ایک چھوٹا سا پرندہ ہوائی جہاز کو کیسے تباہ کر سکتا ہے؟BBCکیا طیارے کے فلیپس بھی ایک وجہ ہو سکتے ہیں؟

تین ماہرین جنھوں نے بی بی سی ویریفائی سے بات کی انھوں نے کہا کہ یہ سانحہ اس لیے بھی ہو سکتا ہے کیونکہ طیارے کے فلیپس کو ٹیک آف کے وقت پھیلایا نہیں گیا تھا۔ تاہم دیگر پائلٹس اور تجزیہ کاروں نے اس تجزیے کو چیلنج کیا ہے۔

فلیپس کا اڑان کے وقت بہت اہم کردار ہوتا ہے اور وہ طیارے کو کم رفتار بھی اٹھان فراہم کرتے ہیں۔

اگر انھیں صحیح طریقے سے نہ پھیلایا جائے تو ایک بھاری جیٹ جس میں مسافر بھی موجود ہوں اور یہ انتہائی گرم موسم میں طویل پرواز کے لیے ایندھن سے بھی بھرا ہوا ہوا تو اسے اٹھان میں مشکلات کا سامنا ہو گا۔

ایک پائلٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ احمد آباد میں جہاں جمعرات کو درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ تھا، ہوا کے ہلکے دباؤ کے باعث فلیپ سیٹنگز ہائی ہونی چاہیے تھی اور انجن تھرسٹ بھی زیادہ ہونا چاہیے تھا۔ ایسی صورتحال میں چھوٹی سی غلطی کے بھی المناک نتائج نکل سکتے ہیں۔

جمعرات کی دوپہر سامنے آنے والی سی سی ٹی وی فوٹیج میں طیارے کو احمد آباد سے ٹیک آف کرتے دیکھا جا سکتا ہے لیکن یہ اڑان بھرنے میں مشکلات کا شکار دکھائی دیتا ہے اور پھر یہ نیچے گرنے لگتا ہے اور کریش کر جاتا ہے۔

ایک پائلٹ جس سے بی بی سی نے بات کی نے بتایا کہ اگر ٹیک آف کرتے ہوئے فلیپس کی سیٹنگز درست نہ ہوں تو 787 کا ٹیک آف کنفگریشن وارننگ نظام خبردار کرنا شروع کر دیتا ہے۔

سابق پائلٹ مارکو چین نے بی بی سی ویریفائی کو بتایا کہ اب تک سامنے آنے والی فوٹیج اتنی واضح نہیں ہے کہ جس سے یہ تصدیق کی جا سکے کہ آیا طیارے کے فلیپس پھیلائے گئے تھے یا نہیں لیکن ان کے مطابق ایسی غلطی 'بہت غیر معمولی ہو گی۔'

چین کے مطابق 'فلیپس کی سیٹنگ اڑان بھرنے سے پہلے پائلٹس کی جانب سے خود کی جاتی ہے، اور اس سیٹنگ کو ویریفائی کرنے کے لیے متعدد چیک لسٹس اور مراحل ہوتے ہیں جن سے انسانی غلطی پکڑی جا سکتی ہے۔'

اضافی رپورٹنگ جیک ہورٹن

پی کے 8303 کی تباہی: ’کپتان چیخا مے ڈے، مے ڈے، طیارہ مڑا مگر پائلٹس کو اندازہ ہو چکا تھا کہ رن وے تک پہنچنا ممکن نہیں‘احمد آباد طیارہ حادثہ: بی بی سی کے نامہ نگار نے جائے حادثہ پر کیا دیکھا؟انڈیا میں مسافر طیارہ گرنے کے بعد تباہی کے مناظر اور ریسکیو کارروائیاں’میں نے تو کلمہ پڑھ لیا تھا‘: ایک چھوٹا سا پرندہ ہوائی جہاز کو کیسے تباہ کر سکتا ہے؟’پر میں پھنسا پرندہ۔۔۔‘ جنوبی کوریا کی تاریخ کا سب سے جان لیوا طیارہ حادثہ کیسے پیش آیاکراچی طیارہ حادثہ: کیا ایئرپورٹ سے متصل آبادی حادثے کی وجہ بنی؟32 برس قبل گلگت سے روانہ ہونے والی پی آئی اے کی فلائیٹ جو آج تک منزل پر نہیں پہنچ سکی
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More