بنوں میں پہلی مرتبہ کتاب میلہ، ’شٹل کاک بُرقعے میں خواتین کی شرکت‘ نے کیا پیغام دیا؟

اردو نیوز  |  Jun 17, 2025

خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں نوجوانوں نے پہلی بار دو روزہ کتاب میلے کا انعقاد کیا جہاں خواتین نے بھی شٹل کال برقعہ پہن کر شرکت کی۔مقامی افراد کے مطابق یہ پہلا موقع ہے جب خواتین نے اس طرح ایک عوامی میلے میں براہِ راست شرکت کر کے کتابوں میں اپنی دلچسپی ظاہر کی۔ بنوں خیبر پختونخوا کی سرسبز وادی میں واقع ایک تاریخی شہر ہے جو برطانوی راج میں سرحدی اہمیت کا حامل تھا۔ 16 اور 17 جون 2025 کو بنوں ڈویژن سٹوڈنٹس فورم اور ضلعی انتظامیہ کے اشتراک سے شہر کے آڈیٹوریم گراؤنڈ کے سامنے اس کتاب میلے کا انعقاد کیا گیا۔ 

ڈپٹی کمشنر بنوں نے اس میلے کا افتتاح کیا جس میں 40 سے زائد کتابوں کے سٹالز سجائے گئے۔ بنوں میں پہلی بار کتاب میلہ منعقد کرنے میں پنجاب یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم ایک نوجوان سلمان احساس کا کردار اہم تھا۔انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’بنوں شہر میں مذہبی انتہا پسندی، منشیات اور دیگر منفی سرگرمیاں پھیل رہی تھیں جس کے بعد انہوں نے کتاب میلہ منعقد کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان کے مطابق ’ہمارا بنیادی مقصد یہ تھا کہ مذہبی انتہا پسندی، منشیات کلچر اور دیگر منفی چیزوں کا خاتمہ کیا جائے تاکہ لوگ کتاب کی طرف آئیں اور علاقے میں کتاب کی ترویج ہو۔‘سلمان احساس کے لیے تاریخ میں پہلی بار اس طرح کا میلہ سجانا آسان نہ تھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کے لیے سب کو اکٹھا کرکے ایک مقصد کے لیے کام کرنے پر راضی کرنے میں دُشواری کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’ہمیں اس دوران کئی طرح کے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان بھر کی طرح یہاں بھی پدر شاہی نظام رائج ہے لیکن اس کے باوجود ہم کامیاب رہے ہیں۔سخت روایات کی وجہ سے بھی مسائل درپیش آئے لیکن بالآخر کامیابی ملی۔‘’اس میلے میں ضلعی انتظامیہ کی جانب سے لاجسٹکس سپورٹ فراہم کی گئی تاہم باقی اخراجات اور انتظامات طلبہ اور نوجوانوں نے برداشت کیے۔‘سلمان احساس بتاتے ہیں کہ ’اس کتب میلے کے لیے اسلام آباد، لکی مروت، راولپنڈی اور دیگر شہروں سے کتب فروش آئے ہیں۔ ان کے لیے رہائش، کھانے پینے کے انتظامات ہم نے مل کر کیے ہیں۔‘میلے میں مجموعی طور پر 40 سے زائد کتابوں کے سٹالز لگائے گئے تھے جن میں تاریخ، فلسفہ، ادب، اور شاعری سمیت دیگر کتابیں موجود تھیں۔

میلے میں 40 سے زائد کتابوں کے سٹالز تھے جن میں تاریخ، فلسفہ، ادب، اور شاعری کی کتابیں موجود تھیں (فوٹو: خِضر خٹک)

اس کے علاوہ مختلف موضوعات پر چھ سٹڈی سرکلز کا انعقاد بھی کیا گیا جس میں مقامی شعرا اور عمائدین نے شرکت کی۔ بنوں اپنی زرخیز زمین اور ثقافتی ورثے کے لیے جانا جاتا ہے۔ یہ شہر ماضی میں ادبی سرگرمیوں کے حوالے سے نسبتاً خاموش رہا ہے۔سلمان احساس اس کمی کو شدت سے محسوس کر رہے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’بنوں میں سیاسی، معاشی اور معاشرتی مسائل کے حل کے لیے ایک فکری پلیٹ فارم کی ضرورت تھی۔ یہ کتاب میلہ اسی ضرورت کا جواب ہے۔‘سلمان احساس نے مزید کہا کہ ’یہ میلہ نہ صرف کتابوں تک رسائی فراہم کرے گا بلکہ مقامی طلبہ اور نوجوانوں کو علم اور تحقیق کی طرف بھی راغب کرے گا۔‘وہ کہتے ہیں کہ میلے کا ایک اہم مقصد بنوں کی ان شخصیات کو خراج تحسین پیش کرنا ہے جنہوں نے ماضی میں شہر کی ادبی، سماجی اور عملی شناخت کو عروج بخشا۔ اس کتب میلے کی ایک نمایاں خصوصیت خواتین کے لیے مختص کردہ وقت ہے۔ ہر روز صبح 9 بجے سے 12 بجے تک کا وقت خواتین کے لیے مختص کیا گیا تھا۔یہ بتاتے ہیں کہ ’خواتین کے لیے خصوصی انتظامات کیے گئے تھے تاکہ روایتی اقدار کو نقصان نہ پہنچے اور ان کی پرائیویسی کا بھی خیال رکھا جائے۔‘

کتب میلے میں ہر روز صبح 9 بجے سے 12 بجے تک کا وقت خواتین کے لیے مختص کیا گیا تھا (فوٹو: خِضر خٹک)

’ہمارے لیے یہ خوشی کا موقع ہے کہ خواتین نے شٹل کاک بُرقعہ پہن کر ہی سہی لیکن کتب میلے میں شرکت کی۔بنوں میں خواتین کے لیے شٹل کاک برقعہ پہننا عام ہے۔‘اس حوالے سے بنوں کے رہائشی اور اُستاد آصف اقبال بتاتے ہیں کہ ’کتاب میلے میں خواتین کی شرکت حیرت انگیز اس لحاظ سے رہی کہ عصرِ حاضر میں جس شے کو ایسے مواقع پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے، اسی شے یعنی برقعے کو خواتین نے بڑی جرات کے ساتھ اس علمی فضا میں اپنے ساتھ رکھا۔‘’یہ اس بات کا واضح پیغام ہے کہ ہمارے بچے، بوڑھے، نوجوانوں اور خواتین علم دوست ہیں اور علم کی شمع روشن رکھنا چاہتے ہیں۔‘کتاب میلے میں بنوں سے تعلق رکھنے والے شعرا، ادیبوں اور مصنفین کی کتابوں کے لیے ایک الگ سٹال قائم کیا گیا تھا۔ میلے میں سٹڈی سرکلز کے ساتھ ساتھ بچوں کی فکری و اخلاقی تربیت کے لیے کاؤنسلنگ کارنرز اور آخری شام طلبہ کی ذہنی تازگی کے لیے ایک موسیقی کا اہتمام بھی کیا گیا۔ آصف اقبال کے مطابق ’میلے سے بنوں، وزیرستان، کرک اور لکی مروت کے عوام نے یہ پیغام دیا کہ ہم علم دوست ہیں اور ہمیں امن دیں تو ہم اس ملک کو علمی سرمایہ مہیا کریں گے جو دورِ جدید کی ضرورت ہے۔‘منتظمین سمجھتے ہیں کہ یہ میلہ بنوں میں کتاب دوستی اور فکری سرگرمیوں کے لیے ایک نئے دور کا آغاز کرے گا۔ آصف اقبال بتاتے ہیں کہ ’مختلف وجوہات کی بنا پر مثبت کام کی ابتدا مشکل ہوتی ہے لیکن اس میلے کے منتظمین نے ایسے تمام خدشات کو دُور کر دیا ہے۔’

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More