"ریاست کہاں تھی جب 18 زندگیاں ایک ہی لمحے میں بپھرے دریا نے نگل لیں؟"
یہ وہ سوال ہے جو ہر پاکستانی کے دل سے چیخ بن کر ابھرتا ہے۔ سوشل میڈیا پر ابھرنے والی آوازیں محض چند لائنوں کا ردِعمل نہیں، بلکہ برسوں کے زخموں کا نوحہ ہیں۔ لوگ پوچھتے ہیں: یہاں پی ایس ایل کے دوران میدانوں میں ہیلی کاپٹر اتر سکتے ہیں، شوبز اور سیاسی جلسوں میں فضا سے پھول برسائے جا سکتے ہیں، تو پھر جب عام شہری پانی میں ڈوب رہا ہو، پہاڑ سے گر رہا ہو، یا کسی ویرانے میں بے یارو مددگار موت سے لڑ رہا ہو تو ریسکیو ہیلی کاپٹر کیوں نظر نہیں آتا؟
ریاستی بے حسی کی یہ انتہا ہے کہ یہاں ہیلی کاپٹر اور ریسکیو سسٹم صرف حکمرانوں، وزیروں، مشیروں اور وی آئی پیز کے لیے مخصوص ہیں۔ عوام، جو دن رات خون پسینے کی کمائی سے ٹیکس دیتے ہیں، جن کی محنت پر یہ عمارتیں، یہ ایئرکنڈیشنڈ دفاتر، یہ جہاز اور ہیلی کاپٹرز چلتے ہیں. ان کے حصے میں صرف انتظار، آنسو، لاشیں اور معذرتیں آتی ہیں۔
سوات کا حالیہ دل دہلا دینے والا واقعہ صرف ایک حادثہ نہیں، بلکہ پوری سرکاری مشینری کے لیے ایک سوالیہ نشان ہے۔ ایک ہی خاندان کے 18 افراد ایک لمحے میں پانی کی بے رحم موجوں کی نذر ہوگئے، لیکن کوئی مدد کو نہ پہنچا۔ کوئی نظام حرکت میں نہ آیا، کوئی الرٹ جاری نہ ہوا۔ وہ خاندان جو خوشیوں کے لیے سفر پر نکلا تھا، واپس آیا تو صرف لاشوں کی صورت میں۔
افسوسناک پہلو یہ ہے کہ یہ پہلا واقعہ نہیں۔ اگست 2002 میں بھی پانچ بھائیوں سمیت چھ نوجوان 3 گھنٹے تک پانی کے بہاؤ سے لڑتے رہے، اور آخرکار بے بسی میں دم توڑ گئے۔ اس وقت بھی کوئی ہیلی کاپٹر نہ آیا، کوئی سرکاری مدد نہ پہنچی۔ یہ تاریخ ہمیں بار بار ایک ہی سبق دیتی ہے: پاکستانی شہری اپنی جان کی قیمت پر بھی ریاستی مشینری کو جگا نہیں سکتے۔
چند ماہ پہلے گجرات سے تعلق رکھنے والے پانچ نوجوان سیاح سکردو کی پہاڑی سے نیچے گر کر ہلاک ہو گئے۔ وہاں نہ کوئی حفاظتی ریلنگ تھی، نہ موبائل سگنل، نہ کوئی وارننگ سسٹم۔ کئی دنوں بعد ان کی لاشیں ملیں، لیکن حکومت تب بھی خاموش تماشائی بنی رہی۔ ایسے سینکڑوں واقعات روز پیش آتے ہیں، جن کی نہ کہیں رپورٹ درج ہوتی ہے، نہ ہی کوئی نوٹس لیا جاتا ہے۔ میڈیا تک جو خبریں پہنچتی ہیں وہ صرف وہ ہیں جو وائرل ہو جاتی ہیں۔
اور پھر، ہر بار ایک ہی روایتی ردِعمل سامنے آتا ہے: ایک کمیٹی تشکیل، ایک رپورٹ، اور لواحقین کے ہاتھ میں چند لاکھ روپے۔ کیا ان چند نوٹوں سے ماں اپنے بیٹے کو، بھائی اپنی بہن کو، یا باپ اپنی پوری دنیا کو واپس لا سکتا ہے؟ کیا یہ "معاوضہ" اس اذیت کا بدل ہو سکتا ہے جس میں زندہ رہنے والے روز جیتے اور مرتے ہیں؟
سوال یہ نہیں کہ حادثے کیوں ہوتے ہیں. سوال یہ ہے کہ ہم ان حادثات سے سیکھتے کیوں نہیں؟ کیوں آج تک کوئی قومی ہنگامی ریسکیو نظام تشکیل نہ دیا جا سکا؟ کیوں ہر سانحہ کے بعد چند دن کی آہ و زاری کے بعد سب کچھ معمول پر آ جاتا ہے؟ اور سب سے بڑھ کر، کیا واقعی اس ریاست میں عام شہری کی جان کی کوئی قیمت ہے؟
یہ محض واقعات نہیں، یہ فرداً فرداً ہر پاکستانی کے لیے انتباہ ہیں۔ آج اگر سوات میں 18 لوگ بے بسی سے مر گئے، تو کل یہ سانحہ کسی اور وادی، کسی اور پہاڑی، کسی اور خاندان کا مقدر بن سکتا ہے۔ اگر ہم نے آج آواز نہ اٹھائی، اگر ہم نے آج حساب نہ مانگا، تو اگلا جنازہ شاید ہمارا ہو اور ریاست ہمیشہ کی طرح سوئی رہے گی۔