بلوچستان کے ایک معروف سیاستدان اور نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر مالک بلوچ نے گذشتہ دنوں ایک پریس کانفرنس میں انکشاف کیا کہ جامعہ بلوچستان میں بلوچی، براہوئی اور پشتو زبان کے ڈیپارٹمنٹس بند کرنے کی ڈائریکٹو جاری کی گئی ہے جو نہ صرف علمی و تعلیمی جرم ہے بلکہ یہ ہماری قوموں کی ثقافت اور شناخت کے خلاف کھلی سازش ہے۔
انہوں نے بتایا کہ شعبہ جات کی بندش کی وجہ مالی خسارہ بتائی جارہی ہے اگر یہی معیار ہے تو پھر پورا پاکستان بھی خسارے میں ہے، کیا اسے بھی بند کر دیا جائے؟ تعلیمی ادارے ریونیو کے لیے نہیں ہوتےان کا مقصد شعور، زبان، تاریخ اور تہذیب کا تحفظ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج تعلیمی اداروں میں فیسیں بڑھائی جارہی ہیں، جس کے باعث بچوں کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے جبکہ جامعات میں اساتذہ کو تین تین ماہ تک تنخواہیں بھی نہیں ملتیں۔
اس حوالے سے ہم نے معروف تجزیہ کارادیب اور مصنف عابد سے پوچھا کہ اس تمام صورتحال کو کس نظر سے دیکھتے ہیں، انہوں نے ’’ہماری ویب‘‘ کو بتایا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ زبانوں کے شعبے بند نہیں ہو رہے، انہیں ایک بڑے ادارے میں ضم کرنے کی تجویز ہے۔ مبینہ طور پر’’انسٹی ٹیوٹ فار لینگویجز اینڈ لٹریچر‘‘ کے نام سے ایک شعبہ بنایا جائے گا جس میں یہ تینوں زبانیں بلوچی، براہوی اور پشتو ضم ہوں گی۔ عابد میرکے بقول:’’اس اقدام سے ان کا سکوپ بہرحال سکڑ جائے گا، کام کی نوعیت بھی بدل جائے گی‘‘۔ انہوں نے بتایا کہ بلوچی، پشتوزبانیں دیگر جامعات میں بھی پڑھائی جاتی ہیں لیکن براہوی زبان میں گریجویشن، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی تعلیم صرف بلوچستان یونیورسٹی میں ہو رہی ہے۔

عابد سمجھتے ہیں ’’براہوی کا شعبہ بند ہونے سے اس زبان میں اعلیٰ تعلیم کا دروازہ بند ہو جائے گا، جو پہلے سے معدومیت کے خطرے سے دوچار اس زبان کے لیے مزید نقصان دہ ہو گا‘‘۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ہماری زبانوں کے ساتھ دو اہم مسائل ہیں، ایک یہ کہ یہ بنیادی تعلیم میں رائج نہیں، یہ اسکول میں کہیں نہیں پڑھائی جاتیں، کالجز میں بھی برائے نام ہیں۔ اس لیے ان میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا ایک ’’رسک‘‘ ہے۔ گریجویشن یا ڈاکٹریٹ کی ڈگری لے کر بھی کوئی ان شعبوں میں کیریئر نہیں بنا سکتا۔ دوسرا یہ کہ یہ زبانیں کوئی مارکیٹ بھی نہیں رکھتیں۔ محض ریسرچ کی غرض سے انسٹی ٹیوٹ ہی بنایا جا سکتا ہے جہاں تحقیقی، ثقافتی اور علمی کام ہوتا رہے لیکن جس شعبے کی مارکیٹ ویلیو نہیں، وہ تادیر نہیں چل پائے گا، خواہ زبانیں ہوں، ادبیات ہو یا فلسفے جیسا اہم ترین مضمون ہو۔
عابد کہتے ہیں کہ میں اس تجویز کے حوالے سے کچھ تجاویز دی ہیں تاکہ ان زبانوں کے شعبوں کو بچایا جاسکے، انہوں نے بتایا کہ مادری قومی زبانوں کو مارکیٹ اورینٹڈ بنانا ہوگا۔ صرف ادبیات کی بجائے فنونِ لطیفہ کے دیگر شعبوں سے بھی انہیں منسلک کیا جائے۔ فلم، ٹی وی، اسٹیج، ڈراما، موسیقی سمیت پرفارمنگ آرٹ کے کئی شعبے اس سے منسلک کیے جا سکتے ہیں۔ عابد کے بقول: ’’زبان، کلچر اور علم و ادب کی سرپرستی ریاست کا بنیادی فریضہ ہے، اُسے اِس سے گریز نہیں کرنا چاہیے‘‘۔
ادھر نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر مالک کہتے ہیں کہ آج سوئیڈن میں بلوچی زبان پڑھائی جا رہی ہے، لیکن افسوس بلوچستان یونیورسٹی میں اسے بند کیا جا رہا ہے جبکہ براہوئی جیسا اہم مضمون جو صرف بلوچستان یونیورسٹی میں موجود ہے، اسے بھی ختم کیا جا رہا ہے۔
ڈاکٹر مالک بلوچ کے پریس کانفرنس اور انکشاف کے حوالے سے حکومت بلوچستان کے ترجمان شاہد رند نے اپنے ایک پریس کانفرنس میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ڈاکٹر مالک بلوچ نے پریس کانفرنس میں کہا کہ ان شعبوں کو ایک ادارے میں ضم کیا جارہا ہے، جس سے ان کے شعبوں کا خاتمے کا دعویٰ رد ہوجاتا ہے۔
ادھرماہر لسانیات اوربراہوی زبان میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھنے والے جامعہ بلوچستان کے پروفیسر ڈاکٹر لیاقت سنی نے ’’ہماری ویب‘‘ کو بتایا کہ وائس چانسلر کمیٹی کے اجلاس کے دوران یہ تجویز سامنے آئی ہے کہ جامعات میں رائٹ سائزنگ کی جائے جن شعبوں میں داخلے کم ہیں، ان کو ضم کیا جائے۔ ڈاکٹر لیاقت سنی نے بتایا کہ پاکستان میں کہیں بھی شعبوں کو ختم کرنا ایک مشکل کام ہے، اس میں بڑے مسائل درپیش ہوتے ہیں، یہ بات کہ ان شعبوں کو بند کیا جارہا ہے، یہ ممکن نہیں ہے، ادارے ضم ہوتے ہیں، تاہم جہاں تک بلوچی، براہوی اور پشتو زبانوں کے شعبوں کی بات ہے تو ان کو ضم کرنے نے ان کی شناخت کا خطرہ ہوسکتا ہے۔

لیاقت سنی مزید کہتے ہیں کہ جامعہ بلوچستان کے بہت سے شعبوں میں طلبہ کی تعداد کم ہے، ان کے ملازمین کو کم کیا جائے۔ لیاقت سنی کہتے ہیں کہ دنیا بھر کے جامعات کی درجہ بندی کے حوالے سے درجے کوکیو ایس رینک کہا جاتا ہے، جب جامعہ بلوچستان کو سال 2024 اس حوالے سے اسے جمع کیا تو اسے سو فیصد رینک صرف براہوی کے شعبے کی وجہ سے ملی کیوں کہ یہ شعبہ کہیں اور نہیں ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ طلبہ کی تعداد میں کمی کی ایک وجہ فیسوں کا زیادہ ہونا بھی ہے، جیسے بی ایس کی کالج میں فیس تین ہزار روپے اور جامعہ میں چالیس ہزار روپے ہے، اس طرح کوئی بھی طالب علم ایک جیسی ڈگری مہنگی فیس دے کو کیوں لے گا؟ داخلوں میں کمی کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ اس کے ساتھ 2013 سے جامعہ بلوچستان میں بلوچی، براہوی اور پشتو کے شعبے میں کوئی اسامی نہیں آئی۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت براہوی زبان کے شعبے میں بی ایس، ایم فل اور پی ایچ ڈی کے کل 60طلبہ ہیں، 8اساتذہ ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ فیسوں کو کم کیا جائے۔ پاکستان اسٹڈی سینٹر میں بلوچی، براہوی اور پشتو میں مضمون شامل ہے، وہاں کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے۔
لیاقت سنی سمجھتے ہیں کہ چیزیں ضم ہوتی ہیں، لیکن زبانوں سے متعلق شعبے اگرضم ہوجائیں تو ان کی شناخت کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے، کیوں زبانیں قوموں سے وابستہ ہوتی ہیں، جن کی تاریخ ہزاروں سال قدیم ہے، دنیا میں زبانوں کے شعبوں اور ثقافت کے شعبوں میں داخلے کم ہوتے ہیں، یہ شعبے کمائی والے نہیں ہوتے ہیں، ان میں تحقیق پر کام ہوتا ہے۔
اس حوالے سے جب ہم نے جامعہ بلوچستان کے شعبہ تعلقات عامہ کے محمد صادق سے پوچھا گیا کہ کیا بلوچی ، براہوی پشتو کے زبانوں کے شعبوں کو ختم کیا جارہا ہے، جس ڈاکٹر مالک بلوچ نے انکشاف کیا تو انہوں نے اس کے جواب میں کہا کہ کسی بھی شعبے کو ختم کرنے کے لیے تجویز کو اکیڈمک کونسل میں بھیجا جاتا ہے، ان کو کوئی ایک فرد ختم نہیں کرسکتا ہے۔
محمد صادق نے ’’ہماری ویب‘‘ کو بتایا کہ اس وقت یہ تجویز ہے کہ جن زبانوں کے شعبوں میں طلبہ کی تعداد کم ہے، زبانوں کے شعبوں کو ہم شعبے میں شروع کرنا ہے، تاکہ یہ فروغ پائیں، جیسے بلوچی، پشتو یا براہوی ہے اس کو فزکس اور دوسرے شعبوں میں بھی پڑھایا جائے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ ابھی تک فیصلہ نہیں ہوا تاہم جن شعبوں میں طلبہ کی تعداد کم ہے ان کو ضم کرنے کی باتیں ہورہی ہیں، پھر جو زبانوں کے ٹیچرز ہیں وہ دوسرے شعبوں کے طلبہ کو جاکر پڑھائیں گے، وہاں ان زبانوں کو لازمی مضمون میں شامل کیا جائے گا۔