PA Mediaمحمد فاہر عماز کو تین ہفتے تک جاری رہنے والی سماعت کے بعد مجرم قرار دیا گیا۔
مانچسٹر ایئرپورٹ پر پیش آنے والے ایک پرتشدد واقعے کے دوران دو خاتون پولیس اہلکاروں پر حملہ کرنے کے الزام میں ایک پاکستانی نژاد طالبعلم محمد فاہر عماز کو مجرم قرار دیا گیا ہے۔
20 سالہ محمد فاہر عماز پر 23 جولائی 2024 کو گریٹر مانچسٹر پولیس کی دو اہلکاروں پر حملے کا الزام تھا، جس کی ویڈیو موبائل فون کے ذریعے بنائی گئی اور سوشل میڈیا پر وسیع پیمانے پر وائرل ہوئی۔
اس واقعے کی ویڈیوز وائرل ہونے کے بعد مقامی ایشیائی نژاد برادری میں شدید غم و غصہ پایا گیا اور پولیس کے رویے کی سخت مذمت کی گئی تھی۔ اس واقعے کے بعد راچڈیل کے پولیس سٹیشن کے باہر احتجاج ہوا اورمانچسٹر میں سینکڑوں مظاہرین نے ’نسل پرستی کے خلاف اٹھ کھڑے ہو‘ اور ’انصاف نہیں تو امن نہیں‘ کے نعرے بلند کرتے ہوئے پولیس کے مبینہ تشدد کے خلاف احتجاج کیا تھا۔
لیورپول کراؤن کورٹ میں تین ہفتے تک جاری رہنے والی سماعت کے بعد فاہر عماز کو پی سی لیڈیا وارڈ پر حملہ کر کے جسمانی نقصان پہنچانے اور ایمرجنسی ورکر پی سی ایلی کک پر حملہ کرنے کے جرم میں مجرم قرار دیا گیا ہے۔
فاہر عماز کو اسی روز ایئرپورٹ پر مسافروں کی آمد والے حصے میں واقع سٹاربکس کیفے میں ایک شہری عبد الکریم اسماعیل پر حملے کا بھی مجرم قرار دیا گیا ہے۔
عدالت کو بتایا گیا کہ پی سی زکری مارسڈن، پی سی لیڈیا وارڈ اور پی سی ایلی کک ایئرپورٹ کی کار پارکنگ کے ادائیگی مرکز میں اس وقت پہنچے جب انھیں اطلاع ملی کہ عماز سے مشابہہ ایک شخص نے ایک عام شہری کو سر مار کر زخمی کیا ہے۔
تاہم 10 گھنٹے تک مشاورت کے باوجود جیوری محمد فاہر عماز اور ان کے 26 سالہ بھائی محمد عماد پر پی سی زکری مارسڈن پر حملہ کر کے نقصان پہنچانے کے الزامات کے حوالے سے کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی۔
اب استغاثہ ان الزامات پر دوبارہ مقدمہ چلانے کے لیے عدالت سے رجوع کرے گا۔
گذشتہ برس جولائی میں بی بی سی کو ملنے والی معلومات کے مطابق اس ویڈیو میں نظر آنے والے نوجوان دو بھائی ہیں جو اپنی والدہ کو لینے کے لیے ایئرپورٹ پر موجود تھے جہاں یہ واقعہ پیش آیا۔
ان کی والدہ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سے مانچسٹر پہنچی تھیں۔ اس خاندان کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے میرپور ڈویژن کے علاقے ناڑ کوٹلی سے ہے جو اب برطانیہ کے شہر روچڈیل میں رہائش پذیر ہے۔
اس وقت برطانیہ میں اس خاندان کے وکیل بیرسٹر اکمل یعقوب نے ایک بیان میں کہا تھا کہ تشدد کا نشانہ بننے والے افراد کا تعلق بھی ایک ایسے پولیس اہلکار کے خاندان سے ہی ہے جو گریٹر مانچسٹر پولیس فورس میں ہی ملازم ہے اور وہ خود اپنے تحفظ کے حوالے سے خدشات کا شکار ہے۔
احمد یعقوب کا یہ بھی کہنا تھا کہ پولیس کے تشدد کے شکار محمد فاہر ہسپتال میں زیرِ علاج ہیں اور ان کی حالت تشویش ناک ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے سی ٹی سکین سے معلوم ہوا ہے کہ ان کے دماغ میں گلٹی بن گئی ہے۔
اس وقت پولیس نے اعلان کیا تھا کہ اس پولیس اہلکار کو معطل کر دیا گیا ہے جس کی ویڈیوز ایئر پورٹ پر عینی شاہدین اور متاثرین کے خاندان کی جانب سے فلمائی گئی تھیں۔
وائرل ویڈیوز میں کیا نظر آ رہا تھا؟BBCدوسرے زاویے سے بنائی گئی ایک اور ویڈیو میں پولیس اہلکار ٹیزر سے نشانہ بنانے کے بعد نوجوان کو مارتے ہوئے گردن سے دبوچ کر گراتے ہیں اور لاتیں مارتے نظر آتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی متعدد ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا تھا کہ دو پولیس اہلکار ایک نوجوان کو ٹیزر سے نشانہ بناتے ہیں اور اس کے زمین پر گرنے کے بعد اسے لاتیں مارتے ہیں اور گرفتار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ایک دوسری ویڈیو میں ایک شخص پولیس والوں سے کہہ رہا ہے ’ہم نے کچھ نہیں کیا، ہم عام شہری ہیں۔‘
سرخ ٹی شرٹ میں ملبوس ایک باریش نوجوان چار سے پانچ پولیس اہلکاروں کے آگے بار بار یہ الفاظ دہرا رہا ہے جبکہ ان کے ساتھ خواتین اور بچے سامان کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔
دوسرے زاویے سے بنائی گئی ایک اور ویڈیو میں پولیس اہلکار ٹیزر سے نشانہ بنانے کے بعد نوجوان کو مارتے ہوئے گردن سے دبوچ کر گراتے ہیں اور لاتیں مارتے نظر آتے ہیں۔ اس دوران ایک خاتون کے چیـخنے کی آواز سنائی دیتی ہے کہ ’اس نے کچھ نہیں کیا۔‘
ان کے بالکل پیچھے دو پولیس اہلکار ایک تیسرے نوجوان کو بھی اسی طرح گرا کر مارتے ہوئے گرفتار کر رہے ہیں اور وہ خاتون چیخ رہی ہیں کہ ’اس نے کچھ نہیں کیا، آپ اس طرح گرفتار نہیں کر سکتے۔ بتائیں اس نے کیا کیا ہے؟‘
اس کے ساتھ ہی دو پولیس اہلکار آتے ہیں اور سرخ شرٹ میں ملبوس شخص کے ساتھ ہاتھا پائی کرتے ان کا فون چھینتے ہیں اور ان کی جیبوں سے مزید کئی فون نکالتے ہیں، اس موقع پر وہ شخص پولیس کو بتاتے سنائی دیتے ہیں کہ ’ہم ابھی ابھی جہاز سے اترے ہیں اور یہ فون میرے بھائی کے ہیں۔‘
واقعے کے بعد لیڈز سے تعلق رکھنے والے ایک عینی شاہد عامر منہاس نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ جب وہ ایئر پورٹ پر ’آمد‘ والے حصے میں آئے تو انھوں نے دیکھا کہ ’پولیس اہلکاروں نے تقریباً 20 سالہ نوجوان کے پاس آ کر اسے کہا کہ وہ ایک مطلوب شخص ہے۔ اس کے بعد انھیں نے اسے پکڑ کر دیوار کے ساتھ لگایا۔‘
عامر کے مطابق اس موقع پر ایک اور نوجوان نے پولیس کے ساتھ بحث شروع کی جس کے ساتھ ہی لڑائی ہو گئی۔
اس دوان پولیس اہلکاروں نے جس نوجوان کو دیوار کے ساتھ دبوچ رکھا تھا اس نے انھیں مکے مارنے شروع کر دیے جس پر پولیس نے اسے ٹیزر گن سے نشانہ بنایا اور وہ فرش پر گرا، تبھی پولیس اہلکاروں نے اسے لاتیں مارنا شروع کر دیں۔
مانچسٹر ایئرپورٹ پر’پولیس تشدد‘ کا نشانہ بننے والے پاکستانی نژاد نوجوان کون ہیںایک سافٹ ویئر اپڈیٹ جس نے دنیا بھر میں آئی ٹی اور ٹرانسپورٹ کا نظام بٹھا دیامانچسٹر ایئرپورٹ پر پولیس تشدد: ’وہ ماں اس سب کے بعد کیسے زندہ رہے گی‘برطانیہ کی مسلم آبادی انتخابات جیتنے والی جماعت لیبر پارٹی سے ناراض کیوں؟
استغاثہ نے کہا کہ عماز نے کار پارکنگ میں ٹکٹ مشین کے قریب پیچھے سے پکڑے جانے پر مزاحمت کی۔ جس کے بعد طویل اور پرتشدد جھڑپ شروع ہو گئی۔
عدالت میں دکھائی گئی ویڈیو میں عماز کو پی سی لیڈیا وارڈ کو چہرے پر ایک زوردار مکا مار کر زمین پر گراتے دیکھا گیا جس کے نتیجے میں ان کی ناک ٹوٹ گئی جبکہ پی سی ایلی کک کو بھی زمین پر گرایا گیا۔
عماز پر الزام تھا کہ انھوں نے پی سی مارسڈن کو پیچھے سے مکا مارا اور پھر پکڑ لیا، جس کے بعد پی سی کک نے ٹیزر ڈیوائس کا استعمال کیا۔
ویڈیو میں دیکھا گیا کہ پی سی مارسڈن نے زمین پر پڑے عماز پر لات ماری اور ان پر پاؤں رکھا۔
راچڈیل کے رہائشی دونوں بھائیوں نے عدالت میں کہا کہ انھوں نے قانونی طور پر اپنا دفاع کیا یا جو کیا وہ ایک دوسرے کے دفاع میں کیا۔
گواہی دیتے ہوئے عماز نے کہا کہ وہ ’پاگل‘ مرد پولیس افسر سے خوفزدہ تھے کیونکہ انھیں ڈر تھا کہ وہ عماز کو مار کر ہلاک کر دے گا جبکہ عماد کا کہنا تھا کہ انھیں لگا تھا کہ وہ حملے کی زد میں ہیں۔
ان کے وکیل نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ پولیس اہلکاروں نے عماز کو پیچھے سے پکڑنے کے دوران خود کو متعارف کرائے بغیر ’غیر قانونی طاقت‘ کا استعمال کیا۔
Greater Manchester Policeمحمد فاہر عماز کو سزا سنائے جانے تک حراست میں رکھا گیا ہے
عدالت کو بتایا گیا کہ اس واقعے میں پی سی وارڈ کی ناک ٹوٹ گئی اور انھوں نے بیان دیا کہ چہرے پر شدید حملے کے بعد وہ ’زمین پر گر گئیں اور انھیں کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔‘
پی سی وارڈ نے کہا ’جب میں ہوش میں آئی تو صرف یہ محسوس ہو رہا تھا کہ میری ناک سے خون بہہ رہا ہے۔ میں سوچ رہی تھی کہ اس نے میرے ناک یا چہرے کو کچھ نقصان پہنچایا ہے، مجھے نہیں معلوم تھا کہ کیا ہوا ہے۔‘
’سچ کہوں تو میں بہت ڈری ہوئی تھی۔ میں نے اپنی زندگی میں کبھی اتنے تشدد کا سامنا نہیں کیا۔‘
عماز کو ’ہوش میں لانے‘ کے لیے چہرے پر لات ماری
دسمبر میں کراؤن پروسیکیوشن سروس نے اعلان کیا تھا کہ پی سی مارسڈن کو اس واقعے کے سلسلے میں کسی بھی مقدمے کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
عدالت کو بتایا گیا کہ پولیس کا دفتر برائے کنڈکٹ اس افسر کے رویے کی تحقیقات جاری رکھے ہوئے ہے جن میں ایک فوجداری تفتیش بھی شامل ہے جس کے تحت ممکنہ طور پر کیس کو دوبارہ کراؤن پروسیکیوشن سروس کے پاس بھیجا جا سکتا ہے۔
مقدمے کے دوران گواہی دیتے ہوئے پی سی مارسڈن نے کہا کہ انھیں معلوم نہیں تھا کہ عماز کو ٹیزر سے نشانہ بنایا گیا ہے اور ’میں نے عماز کو ’ہوش میں لانے‘ کے لیے ان چہرے پر لات ماری کیونکہ مجھے لگا تھا کہ عماز فرش سے اٹھنے کی کوشش کر رہے تھے۔‘
پی سی مارسڈن نے عدالت کو بتایا کہ انھیں نہیں لگتا کہ انھوں نے عماز کے سر پر لات ماری تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے تو اپنے پولیس ریڈیو کے ڈھیلے تار کو دبایا تاکہ اسے اپنے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال ہونے سے روک سکوں۔
عماز کو سزا سنائے جانے تک حراست میں رکھا گیا ہے۔ ابھی تک انھیں سزا سنائے جانے کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا۔
بدھ کو سماعت متوقع ہے جس میں فیصلہ کیا جائے گا کہ آیا انھیں عبوری ضمانت پر رہا کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔
PA Mediaجیوری کو دکھائی گئی ویڈیو میں عماز کو ٹیزر سے نشانہ بنائے جانے کا لمحہ بھی شامل تھا۔’ہر ہفتے گریٹر مانچسٹر پولیس کے 35 اہلکاروں پر حملے ہوتے ہیں‘
گریٹر مانچسٹر پولیس فیڈریشن کے چیئرمین مائیک پیک نے کہا کہ عماز کی سزا پولیس اہلکاروں کو درپیش ’پولیس کے کام کے بدترین پہلو‘ کو ظاہر کرتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’مانچسٹر کے پولیس اہلکار ایک مشکل، خطرناک اور تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں کام کرتے ہیں جہاں کوئی معمول کا واقعہ نہیں ہوتا۔ انھیں عوام اور سیاستدانوں کی طرف سے بھرپور تعاون کا حق حاصل ہے۔‘
’ہر ہفتے گریٹر مانچسٹر پولیس کے 35 اہلکاروں پر حملے ہوتے ہیں۔ ہم زخمی ہیں اور چوٹیں کھائے ہوئے ہیں۔‘
انھوں نے کہا ’ہم مانچسٹر ایئرپورٹ پر گذشتہ سال گرمیوں میں پیش آنے والے واقعے میں شامل اہلکاروں کی ابتدا سے حمایت کر رہے ہیں اور ایک فیڈریشن کے طور پر یہ سلسلہ جاری رکھیں گے۔‘
چیف کانسٹیبل سر سٹیفن واٹسن نے کہا کہ فورس ’ان دو الزامات کے حوالے سے جہاں فیصلہ نہیں ہو سکا، دوبارہ مقدمے کی بھرپور حمایت کرتی ہے۔‘
انھوں نے کہا ’ہمارے اہلکار اچھے لوگ ہیں جو معمول کے مطابق عوام کی حفاظت کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈالتے ہیں۔ وہ ہماری عزت اور حمایت کے مستحق ہیں۔‘
’میں خاص طور پر اُن تمام افراد کا شکر گزار ہوں جنھوں نے متاثرہ اہلکاروں کے لیے اپنی نیک تمنائیں بھیجنے کے لیے فورس سے رابطہ کیا۔‘
مانچسٹر ایئرپورٹ پر’پولیس تشدد‘ کا نشانہ بننے والے پاکستانی نژاد نوجوان کون ہیںمانچسٹر ایئرپورٹ پر پولیس تشدد: ’وہ ماں اس سب کے بعد کیسے زندہ رہے گی‘ایک سافٹ ویئر اپڈیٹ جس نے دنیا بھر میں آئی ٹی اور ٹرانسپورٹ کا نظام بٹھا دیاامیگریشن پالیسی، جنسی بدسلوکی کے الزام یا دھڑے بازی: وہ عوامل جو رشی سونک اور کنزرویٹو پارٹی کے زوال کی وجہ بنےبرطانیہ کی مسلم آبادی انتخابات جیتنے والی جماعت لیبر پارٹی سے ناراض کیوں؟