’جتنا کچرا، اتنا لذیذ کھانا‘: وہ کیفے جہاں کھانے کی قیمت روپوں کے بجائے کچرے سے ادا کی جاتی ہے

بی بی سی اردو  |  Aug 25, 2025

ویسے تو دیکھنے میں انڈیا کی ریاست چھتیس گڑھ کے شہر امبیکا پور میں واقع ’گاربیج کیفے‘ (کچرا کیفے) کسی بھی ایسے دوسرے کیفے کی طرح لگتا ہے جہاں روزانہ درجنوں افراد اپنی بھوک مٹانے آتے ہیں۔

لیکن جو چیز اس کیفے کو ممتاز بناتی ہے وہ ہے یہاں ادائیگی کا نظام۔ یہاں آپ کو کھانے کے پیسے نہیں دینے پڑتے بلکہ یہاں آنے والے افراد کھانے کے بدلے میں پلاسٹک کے بنڈل دیتے ہیں جیسے پرانے پلاسٹک کے تھیلے، کھانے پینے کی چیزوں کے ریپر اور پانی کی خالی بوتلیں وغیرہ۔

ونود کمار پٹیل کہتے ہیں کہ ایک کلو پلاسٹک کا کچرا آپ کے ایک وقت کے کھانے کی ادائیگی کے لیے کافی ہے جس میں آپ کو چاول، دو طرح کی سبزیاں، دال، روٹی سلاد اور اچار ملتا ہے۔

ونود کمار شہر کے بلدیاتی ادارے امبیکا پور میونسپل کارپوریشن (اے ایم سی) کی جانب سے یہ کیفے چلا رہے ہیں۔

’آدھا کلو پلاسٹک کے کچرے کے بدلے سموسے یا وڑا پاؤ جیسا ناشتہ مل سکتا ہے۔‘

امبیکا پور کی انتظامیہ نے شہر کو درپیش پلاسٹک کے کچرے کے مسئلے کو بھوکوں کو کھانا کھلانے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔

سنہ 2019 میں شہر کی انتظامیہ نے اس ’کچرا کیفے‘ کو شروع کیا۔ اُن کا نعرہ تھا کہ ’جتنا کچرا، اُتنا لذیز کھانا۔‘

اس کیفے کو شہر کے مرکزی بس سٹینڈ کے نزدیک تعمیر کیا گیا۔

پٹیل کہتے ہیں کہ اس کا مقصد امبیکاپور کے دو مسائل سے نمٹنا تھا: پلاسٹک کا کچرا اور بھوک۔

’آئیڈیا ایک دم سادہ تھا: کم آمدنی والے لوگ، خاص طور پر بے گھر اور کچرا چننے والوں کی حوصلہ افزائی کی جائے کہ وہ سڑکوں اور لینڈ فلز سے پلاسٹک کا کچرا اکٹھا کر کے لائیں اور بدلے میں انھیں گرم کھانا مہیا کیا جائے۔‘

رشمی منڈل کا شمار بھی ان افراد میں ہوتا ہے جو روزانہ کیفے میں پلاسٹک لے کر آتے ہیں۔ ہر صبح، وہ کھانے پینے کی چیزوں کے ریپرز سے لے کر پلاسٹک کی بوتلوں جیسے استعمال شدہ پلاسٹک کی تلاش میں امبیکاپور کی سڑکوں پر نکلتی ہیں۔ یہ کچرا جمع کرنا ان کے لیے ایک طرح سے ان کی بقا کا ذریعہ ہے۔

رشمی خود کے لائے پلاسٹک کے اس چھوٹے سے ڈھیر کو دیکھتے ہوئے کہتی ہیں ’میں برسوں سے یہ کام کر رہی ہوں۔‘

اس سے قبل انھیں ایک کلوگرام پلاسٹک کے عوض صرف 10 انڈین روپے ملتے تھے جس میں گزارہ کرنا تقریباً ناممکن تھا۔ ’لیکن اب، میں جو پلاسٹک جمع کرتی ہوں اس کے بدلے میں اپنے خاندان کے لیے کھانا حاصل کر سکتی ہوں۔ اس سے ہماری زندگیوں میں بہت فرق پڑا ہے۔‘

شردھا سنگھ پٹیل اس کیفے کے قیام سے یہاں کام کر رہی ہیں۔ ان کے مطابق، اس کیفے میں آنے والے بیشتر افراد معاشرے کے پسماندہ طبقات سے تعلق رکھتے ہیں۔

’اگر پلاسٹک کے بدلے کھانا دستیاب ہے تو اس سے نہ صرف ہم لوگوں کا پیٹ بھرنے میں مدد دے رہے ہیں بلکہ ماحول کو بھی صاف کرنے میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔‘

اس کیفے کے بعد سے لینڈ فل میں جانے والے پلاسٹک کے کچرے کی مقدار پر بھی اثر پڑا ہے۔ یہ کہنا ہے رتیش سینی کا جو کہ ’صاف انڈیا مشن‘ کے لیے شہر میں صفائی اور فضلے کے انتظام کو مربوط کرتے ہیں۔ یہ پروگرام 2014 میں انڈین حکومت کی طرف سے شروع کی گئی صفائی مہم کا حصہ ہے۔

کیفے کے تحت چلنے والے پروگرام کے تحت 2019 سے اب تک مجموعی طور پر تقریباً 23 ٹن پلاسٹک اکٹھا کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس پروگرام کے آغاز کے بعد سے شہر سے لینڈ فل بھیجے جانے والا پلاسٹک، جو کہ 2019 میں 5.4 ٹن تھا کم ہو کر 2024 میں دو ٹن سالانہ پر آ گیا ہے۔

یہ امبیکاپور میں جمع ہونے و الے پلاسٹک کے فضلے کا ایک ایک چھوٹا حصہ ہے۔

رتیش سینی کے مطابق، تقریباً تمام پلاسٹک پہلے سے ہی ری سائیکل کیا جاتا ہے۔ لیکن کیفے کا مقصد اس پلاسٹک کو جمع کرنا ہے جو جمع کرنے کے مرکزی نیٹ ورک کا حصہ بننے سے رہ جاتا ہے۔

وہ کہتے ہیں اس کے علاوہ اس کا ایک اور مقصد عوام کی شرکت کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔

رتیش سینی کہتے ہیں کہ یہ شہر میں پلاسٹک کے کچرے کو کم کرنے اور ری سائیکل کرنے کی ایک وسیع مہم کا حصہ ہے جس میں پلاسٹک کے استعمال سے متعلق سخت قوانین اور کچرے کو چھانٹنے اور ان کا انتظام کرنے کے بہتر طریقے شامل ہیں۔

اس اقدام کی وجہ سےامبیکاپور شہر کو صاف ستھرے شہروں کی فہرست میں شمار کیا جاتا ہے۔ امبیکاپور میں یومیہ 45 ٹن فضلہ جمع ہوتا ہے۔

سینی کہتے ہیں کہ ایک وقت تھا کہ یہاں سے کچھ کلومیٹر کے فاصلے پر ایک ڈمپنگ سٹیشن بھی اس کوڑے کو ٹھکانے لگانے کے لیے ناکافی تھا۔ لیکن 2016 میں اسی جگہ کو ایک خوبصورت پارک میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔

اب شہر کے کوڑے کو ٹھکانے لگانے کے لیے زیر ویسٹ ڈی سینٹرلائزڈ سسٹم لگایا گیا ہے جس کے بعد ڈمپنگ سٹیشن کی ضرورت نہیں رہتی۔

جمع شدہ پلاسٹک کو دانے دار بنانے کے لیے ری سائیکل کیا جاتا ہے جو بعدازاں سڑک کی تعمیر کے لیے استعمال ہوتا ہے یا ری سائیکلرز کو فروخت کیے جاتے ہیں، جس سے مقامی حکومت کو آمدنی ہوتی ہے۔

سنہ 2020 کی ایک حکومتی رپورٹ کے مطابق، گیلے فضلے کو کمپوسٹ کیا جاتا ہے اور صرف ایک چھوٹی سی مقدار میں ناقابل ری سائیکل فضلہ ایندھن کے لیے سیمنٹ فیکٹریوں کو بھیجا جاتا ہے۔ اس اور اسی طرح کی کوششوں کی بدولت امبیکاپور ایک ’زیرو لینڈ فل‘ شہر کے طور پر جانا جانے لگا ہے۔

کیا ٹوائلٹ سیٹ سے آپ کو بیماریاں لگ سکتی ہیں؟’قاتل فنگس‘ کیا ہے؟ جان لیوا فنگل انفیکشن سے خود کو کیسے محفوظ رکھا جائے؟انسانی فضلے کو ٹھکانے لگانے کے بجائے اس سے کیسے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے؟اپنے گھر کے باغ میں بیٹھے شخص پر طیارے نے انسانی فضلہ کیوں گرایا؟

گاربیج کیفے میں آنے والا پلاسٹک AMC کے مخصوص مقامی کچرے کے انتظام کے مراکز کو بھیجا جاتا ہے۔

امبیکاپور میں ایسے 20 مراکز ہیں، جہاں زیادہ سے زیادہ ری سائیکلنگ کو یقینی بنانے کے لیے کچرے کو 60 سے زیادہ زمروں میں چھانٹا جاتا ہے۔

ان مراکز میں 480 خواتین کام کرتی ہیں، جنھیں ’سوچھتا دیدی‘ کہا جاتا ہے۔

کچرے کو الگ کرنے کے ساتھ ساتھ یہ خواتین ہر روز گھر گھر جا کر کچرا بھی جمع کرتی ہیں۔ وہ ماہانہ آٹھ سے دس ہزار روپے کماتی ہیں۔

ان میں سے ایک ویسٹ مینجمنٹ سینٹر چلانے والی سونا ٹوپو کہتی ہیں کہ ’ہر روز 30 سے ​​35 لوگ یہاں پلاسٹک لاتے ہیں۔ کچھ باقاعدگی سے آتے ہیں جبکہ کچھ وقفے وقفے سے آتے ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ جو لوگ یہاں پلاسٹک دیتے ہیں وہ مختلف پس منظر سے آتے ہیں – جیسا کہ کچرا چننے والے، دکان پر کام کرنے والے اور یہاں تک کہ دیہاڑی دار مزدور۔

سینی کے مطابق، کچرے کے انتظام کے مراکز میں کام کرنے والے عملے کو اسے سنبھالنے کے دوران صحت کے خطرات کو کم کرنے کے لیے دستانے، ماسک اور دیگر سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔

تاہم، فضلہ جمع کرنے والوں کو ایسا تحفظ فراہم نہیں کیا جاتا ہے۔

شہری علاقوں میں موسمیاتی تبدیلیوں پر کام کرنے والی احمد آباد یونیورسٹی کی ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر مینل پاٹھک کا کہنا ہے کہ بنیادی حفاظتی آلات کے بغیر کچرا چننے والے روزانہ کی بنیاد پر بیکٹیریا، تیز دھار چیزوں اور زہریلے مواد کی زد میں آتے ہیں، جس سے وہ بیماریوں کا شکار ہو سکتے ہیں۔

سنہ 2016 سے ان مراکز نے تقریباً 50 ہزار ٹن خشک فضلہ بشمول پلاسٹک، کاغذی گتے، دھات اور ای ویسٹ کو اکٹھا کیا گیا اور ری-سائیکل کیا ہے۔

گھر گھر کچرا اٹھانے کا یہ ماڈل اتنا کامیاب رہا ہے کہ اب اسے پوری چھتیس گڑھ ریاست کی 48 وارڈوں میں ’امبیکاپور ماڈل‘ کے نام سے اپنایا گیا ہے۔

ریتو سین، جنھوں نے امبیکاپور میں ’زیرو ویسٹ‘ ماڈل کو آگے بڑھایا، نے 2025 میں پرنسٹن یونیورسٹی کے ایک بلاگ میں لکھا تھا کہ ’ہمارا مقصد صرف امبیکاپور کے مسئلے کو حل کرنا نہیں تھا بلکہ درمیانے درجے کے شہروں کے لیے بھی حل فراہم کرنا تھا۔‘

اُن کے بقول ’ہمارا مقصد ایک ایسا ماڈل بنانا تھا جو فعال، ماحولیاتی طور پر پائیدار اور اقتصادی طور پر قابل عمل ہو۔‘

انڈیا کے دیگر حصوں میں بھی کوڑا کرکٹ کیفے شروع ہو چکے ہیں۔ سلی گوڑی، مغربی بنگال میں 2019 میں ایک سکیم شروع کی گئی تھی، جس میں پلاسٹک کے کچرے کے بدلے مفت کھانا دیا جاتا ہے۔

اسی سال تلنگانہ کے ملوگو شہر میں ایک نئی سکیم شروع کی گئی جس میں ایک کلو پلاسٹک کے عوض چاول کی صورت میں مساوی رقم دی جاتی ہے۔

کرناٹک کے میسور میں سنہ 2024 میں ایک سکیم شروع کی گئی تھی، جس کے تحت لوگ 500 گرام پلاسٹک دے کر مفت ناشتہ حاصل کر سکتے ہیں یا ریاستی حکومت کے زیر انتظام اندرا کینٹین میں ایک کلو پلاسٹک دے کر مفت کھانا حاصل کر سکتے ہیں۔

اتر پردیش میں ایک مہم کے تحت خواتین کو پلاسٹک کے کچرے کے بدلے سینیٹری پیڈ دیے جاتے ہیں۔

تاہم، اس طرح کی سکیمیں ہمیشہ آسانی سے نہیں چلتی ہیں۔ دہلی میونسپل کارپوریشن نے بھی 2020 میں ’گاربیج کیفے‘ کے ذریعے پلاسٹک کا کچرا جمع کرنے کے لیے ایک مہم شروع کی، جس میں 20 سے زیادہ دکانیں شامل تھیں۔ لیکن یہ سکیم رفتہ رفتہ بند ہو گئی۔

کئی کیفیز نے بی بی سی کو بتایا کہ چیلنجز میں عوامی بیداری کی کمی، کچرے کی ناقص علیحدگی اور ری سائیکلنگ انفراسٹرکچر کے لیے ناکافی مدد شامل ہے۔

سینی کا خیال ہے کہ دہلی میں گاربیج کیفے کی طرف کم جوش کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ وہاں اتنی غربت نہیں ہے جتنی امبیکاپور میں ہے۔

انڈیا سے باہر کمبوڈیا نے بیک وقت کچرے اور بھوک دونوں سے نمٹنے کے لیے اسی طرح کی سکیمیں شروع کی ہیں۔

مثال کے طور پر پلاسٹک سے آلودہ ٹونلے سیپ جھیل کے آس پاس کی بستیوں میں، لوگ پلاسٹک جمع کر سکتے ہیں اور اس کے بدلے میں چاول حاصل کر سکتے ہیں۔

پاٹھک کا کہنا ہے کہ امبیکاپور جیسے اقدامات سے پلاسٹک کے کچرے کے منفی اثرات کے بارے میں بیداری پیدا کرنے میں بھی مدد ملتی ہے۔

لیکن ان کا کہنا ہے کہ حکومت کو مزید ڈیٹا فراہم کرنا چاہیے تاکہ دوسرے شہر اس بات کا اندازہ لگا سکیں کہ آیا ان کے لیے کوڑے کے کیفے صحیح ماڈل ہیں۔

پاٹھک مزید کہتے ہیں کہ اگرچہ اس طرح کی اسکیموں نے اثر کیا ہے، لیکن وہ پلاسٹک کی زیادہ پیداوار، ناقابل ری سائیکل پلاسٹک اور ہندوستانی گھرانوں میں کچرے کی ناکافی علیحدگی کے بڑے مسائل کو حل نہیں کرتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ 'یہ بہترین طور پر ایک سطحی حل ہے جو مسئلے کی جڑ تک نہیں پہنچتا۔'

پھر بھی ان کا خیال ہے کہ یہ کوششیں مددگار ہیں۔ وہ لوگوں کو مسئلے کے بارے میں آگاہ کرتے ہیں اور یہ ظاہر کرتے ہیں کہ مقامی حل اثر ڈال سکتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’یہ ایک اچھی شروعات ہے، لیکن ہمیں بڑی تبدیلیوں کی بھی ضرورت ہے۔‘

انسانی فضلے کو ٹھکانے لگانے کے بجائے اس سے کیسے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے؟اپنے گھر کے باغ میں بیٹھے شخص پر طیارے نے انسانی فضلہ کیوں گرایا؟ٹوائلٹ کی بدبو کم کرنے والی کوٹنگ ایجاد’انسانی فضلہ‘ چھپا کر فریج میں کیوں رکھ دیا؟ماؤنٹ ایورسٹ کی صفائی، ٹنوں کچرہ بلند ترین چوٹی پر موجود
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More