“شادی کے وقت والدین نے سسرال کو ایک قیمتی سیاہ رنگ کی گاڑی دی تھی، مگر اسے نحوست کا بہانہ بنا کر بیچ دیا گیا اور پھر نئے ماڈل کی گاڑی اور نقدی کا مطالبہ کیا گیا۔ جب یہ خواہش پوری نہ ہوئی تو مجھے میکے واپس بھیج دیا گیا۔”
یہ ہولناک بیان دیا ہے مینیکشی نے، جو نکی بھاٹی کی بھابھی ہیں۔ نکی وہی 28 سالہ بدقسمت خاتون تھیں جنہیں گریٹر نوئیڈا (اتر پردیش) میں جہیز کی ہوس نے شوہر اور ساس کے ہاتھوں زندہ جلا کر موت کے حوالے کردیا۔ ابھی اس لرزہ خیز واردات کی گونج ختم نہ ہوئی تھی کہ مقتولہ کے اپنے گھر سے بھی تہلکہ خیز انکشاف سامنے آگیا۔
میناکشی کا کہنا ہے کہ 2016 میں شادی کے بعد وہ بھی جہیز کے مطالبات کی بھینٹ چڑھیں۔ ان کے مطابق، معاملہ یہاں تک پہنچا کہ پنچایت میں یا تو 35 لاکھ روپے واپس کرنے یا پھر انہیں دوبارہ بہو کے طور پر قبول کرنے کی شرط رکھی گئی، لیکن فیصلہ کبھی نہ ہو سکا اور رشتہ بکھر گیا۔ اس اعتراف نے سوالات کی نئی لہر پیدا کر دی ہے کہ آخر جہیز جیسی لعنت صرف ایک خاندان تک محدود ہے یا پورے معاشرے کی رگوں میں زہر کی طرح سرایت کر چکی ہے؟
نکی بھاٹی کے قتل نے پورے بھارت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ رپورٹ کے مطابق 21 اگست کو ساس اور شوہر نے سات سالہ بیٹے کے سامنے بہو پر پٹرول چھڑکا، تھپڑ مارے اور لائٹر سے آگ لگا دی۔ وہ معصوم بچہ اپنی آنکھوں سے ماں کو جلتے دیکھتا رہا اور چیخ بھی نہ سکا۔ نکی کا یہ المیہ نہ صرف خواتین کے لیے دردناک مثال بن گیا بلکہ معاشرتی بے حسی کا آئینہ بھی دکھا گیا۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ نکی کے بھائی روہت پیلا نے ان الزامات پر کوئی بات کرنے سے انکار کر دیا۔ تاہم خاندان کے ایک فرد نے مانا کہ تنازع کے دوران دونوں طرف سے اسلحہ بھی دکھایا گیا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ جھگڑے تو ہر گھر میں ہوتے ہیں، “کم از کم ہم نے بہو کو زندہ نہیں جلایا۔” یہ جملہ نہ صرف ہولناک بے حسی کی غمازی کرتا ہے بلکہ پورے کیس کو مزید پیچیدہ کر دیتا ہے۔
اس افسوسناک واقعے نے یہ حقیقت عیاں کر دی ہے کہ جہیز کے خلاف قوانین محض کتابوں تک محدود ہیں اور حقیقت میں یہ لعنت ہر روز کسی نہ کسی نکی کو بھسم کر رہی ہے۔