Getty Imagesشائقین کے بھی اپنے مخمصے ہیں کہ جونہی بابر سے پہلے کھیلتا کوئی بلے باز آؤٹ ہو، سٹیڈیمز میں ایسا شور اٹھتا ہے گویا وکٹ پاکستان کی اپنی نہ گری ہو بلکہ پاکستان نے مخالف کی گرا دی ہو
پاکستان کرکٹ کا معمہ ہے کہ جہاں ہیرو کو ولن بنانے، اس کا ڈھول پیٹنے میں مہینوں خرچ کیے جاتے ہیں، وہیں ایک ہی شام کے صرف چند گھنٹے پھر سے اسی ولن کو ہیرو بنا جاتے ہیں تاوقتیکہ ایک اور شکست پھر سے ’مبصرین‘ کی راکھ میں دبی چنگاریاں بھڑکا نہ ڈالے۔
پچھلے ایک برس سے، بابر اعظم پاکستان کے ولن تھے۔ کرکٹ میں جو بھی بُرا ہوا، بالآخر اس کے ڈانڈے انہی کی کارکردگی سے جوڑے جاتے رہے۔ گو، وہ خود بھی بطور کپتان متاثر کن نہیں رہے مگر ’کرسی‘ چھڑوانے کو باقاعدہ ان کے خلاف مہم جوئی کی گئی۔
ابھی جب جنوبی افریقہ کے خلاف ٹی ٹونٹی میں بابر اعظم کی واپسی ہوئی تو پہلے دو میچز کی بھی ساری ہاہاکار انہی کے گرد رہی۔ لیکن آخری میچ میں جب ان کی ففٹی پاکستان کے لیے مثبت نتیجہ لے آئی تو یکایک پھر سے وہ قوم کی امنگوں کے ترجمان قرار پائے۔
کرکٹ کو ہمیشہ ’جینٹلمین گیم‘ اسی لیے کہا گیا ہے کہ یہ کھیل محض مہارت کا نہیں بلکہ نفاست اور تحمل اس کے بنیادی عوامل ہیں۔ کھیل کوئی بھی ہو، کھلاڑی روز اس پہ حاوی نہیں ہو سکتا۔
ایتھلیٹس کے کرئیرز میں جہاں دن اچھے بھی آتے ہیں، وہیں برے بھی ناگزیر ہوتے ہیں۔ لیکن جب کوئی ایتھلیٹ ناکام ہو تو لازم نہیں کہ یہ اس کی اپنی تکنیکی کوتاہی کے سبب ہی ہو، یہ تو قسمت بھی ہو سکتی ہے کہ ایک نہایت عمدہ گیند اس کے نصیب میں آ گئی ہو۔
’ٹیسٹ ٹوئنٹی‘: 80 اوورز کے میچ میں دو، دو اننگز، ’ایک دن کا ٹیسٹ میچ بھی کیسا ٹیسٹ ہو گا‘لاکھوں مالیت کی کلیکشن، انڈین فینز اور روبک کیوب حل کرنے کا جنون: گوجرانوالہ کے یوٹیوبر نے ایک ویڈیو کی آمدن سے گاڑی خریدیسات ماہ کی حاملہ خاتون جو 145 کلو وزن اٹھا کر کانسی کا تمغہ جیت گئیں: کیا دورانِ حمل ویٹ لفٹنگ کی جا سکتی ہے؟ آئی پی ایل سے موازنہ، تنازعات، ’ریلو کٹوں‘ کے طعنے اور اب دو نئی ٹیمیں: پاکستان سپر لیگ کے 10 سال کی کہانی
اور پھر جو کھیل گیارہ افراد کی ٹیم کی بدولت چلتا ہو، وہ کبھی کبھار تو ایک انفرادی کارکردگی کے سہارے سر کے بل پلٹ سکتا ہے مگر روز روز تو ایسا ممکن ہی نہیں۔
یہ سب مگر ’بے کار‘ کی باتیں ہیں جن میں الجھنے سے مبصرین کی ’رینا‘ فضول بِیت سکتی ہے، سو ان پہ دھیان دیا ہی کیوں جائے؟
EPAبابر کی فارم پہ ریٹنگ کماتے مبصرین اور ان کے آؤٹ ہونے پہ سٹیڈیم چھوڑتے شائقین نہ تو بابر کے لیے کوئی فائدہ لا سکتے ہیں نہ ہی پاکستان کرکٹ کے کسی کام آ سکتے ہیں۔
جہاں مبصرین اپنے بھاشنوں کو ہی کرکٹ کا سارا حسن سمجھ بیٹھتے ہیں، وہیں شائقین کے بھی اپنے مخمصے ہیں کہ جونہی بابر سے پہلے کھیلتا کوئی بلے باز آؤٹ ہو، سٹیڈیمز میں ایسا شور اٹھتا ہے گویا وکٹ پاکستان کی اپنی نہ گری ہو بلکہ پاکستان نے مخالف کی گرا دی ہو۔
شائقین کے یہ کارنامے نہ صرف باقی بلے بازوں کا مورال پست کرتے ہیں بلکہ بابر اعظم سے جڑی توقعات کا وزن بھی کئی گنا کر دیتے ہیں۔ بابر کے آؤٹ ہوتے ہی گراؤنڈ خالی ہونا بھی اسی رجحان میں ایک نیا اضافہ ہے۔
سوال مگر یہ ہے کہ جہاں بابر کے نام پہ شور مچاتے مبصرین کو ’ریٹنگ‘ مل جاتی ہے اور شائقین کو اپنی ناآسودگی کا مداوا مل جاتا ہے، وہیں پاکستان کرکٹ اس سے کیا کماتی ہے؟
مسئلہ یہاں بابر اعظم میں نہیں، مبصرین کے اس شور میں ہے جو سمجھنے سے قاصر رہتا ہے کہ کھلاڑی بھی انسان ہی ہوتے ہیں اور اتار چڑھاؤ سپر سٹارز کی زندگی کا بھی اتنا ہی حصہ ہے جتنا اسے عام انسان دیکھتے ہیں۔
سابق کرکٹرز مگر اپنی رائے زنی میں کھیل کی بنیادیں کھوجنے کی بجائے، ٹی وی ڈائریکٹر کی ہدایات کے مطابق سجے سنورے جملوں، بھاری بھر کم اصطلاحوں اور بر وزن لفاظی سے میدان پہ کھڑے جوانوں کی حوصلہ افزائی یا ڈانٹ ڈپٹ کرتے نظر آتے ہیں۔
کوئی مشکل ترین کیچ ڈراپ ہو جائے تو اپنے وقتوں کے گئے گزرے فیلڈرز بھی کمنٹری باکس سے اسے ’ناقابلِ قبول‘ قرار دیتے ہیں۔ ایسے میں جب ہر شاٹ ’فیبولس‘ اور ہر غلطی ’ٹیریبل‘ کہلانے لگے تو الفاظ اپنے معنی کھو بیٹھتے ہیں۔
جہاں الفاظ اپنی وقعت سے محروم ہو جائیں، وہاں بولنے والوں کی حسیات بھی کچھ ایسی ہی ڈگر پہ چل نکلتی ہیں کہ ان لفظوں کے آفٹر شاکس کا اندازہ وہ خود بھی نہیں کر سکتے جو کسی ایتھلیٹ کے تمام تر اعتماد کا قیمہ کرنے کو کافی رہیں۔
برا وقت سبھی اہتھلیٹس دیکھتے ہیں۔ کچھ کے سر سے بلا جلد ٹل جاتی ہے تو کچھ کی شبِ غم طویل ہو جاتی ہے۔ مگر کھیل سے لگاؤ کا اظہار یہ نہیں ہو سکتا کہ مبصرین صبح شام اسے رگیدے تو جائیں مگر اس کی مشکل کا کوئی حل کبھی بتا ہی نہ پائیں۔
پچھلے دو سال میں بابر بہت سے اتار چڑھاؤ دیکھ چکے ہیں، مگر جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز کے فیصلہ کن میچ میں جو اعتماد اور بے فکری ان میں نظر آئی، وہ ’پرانے بابر اعظم‘ کی واپسی کا عندیہ معلوم ہوتی ہے۔
لیکن اگر پاکستان بابر سے ان کے پوٹینشل کا بھرپور استعمال چاہتی ہے تو اسے تحمل بھی سیکھنا ہو گا اور یہ ادراک بھی رکھنا ہو گا کہ ٹیم ایک کھلاڑی نہیں، گیارہ سے بنتی ہے۔
بابر کی فارم پہ ریٹنگ کماتے مبصرین اور ان کے آؤٹ ہونے پہ سٹیڈیم چھوڑتے شائقین نہ تو بابر کے لیے کوئی فائدہ لا سکتے ہیں نہ ہی پاکستان کرکٹ کے کسی کام آ سکتے ہیں۔
لاکھوں مالیت کی کلیکشن، انڈین فینز اور روبک کیوب حل کرنے کا جنون: گوجرانوالہ کے یوٹیوبر نے ایک ویڈیو کی آمدن سے گاڑی خریدیسات ماہ کی حاملہ خاتون جو 145 کلو وزن اٹھا کر کانسی کا تمغہ جیت گئیں: کیا دورانِ حمل ویٹ لفٹنگ کی جا سکتی ہے؟ آئی پی ایل سے موازنہ، تنازعات، ’ریلو کٹوں‘ کے طعنے اور اب دو نئی ٹیمیں: پاکستان سپر لیگ کے 10 سال کی کہانیانڈین بلے باز شریاس ایئر کی ’تلی کی چوٹ‘ کتنی خطرناک ہے اور کیا اس عضو کے بغیر زندہ رہنا ممکن ہے؟’ٹیسٹ ٹوئنٹی‘: 80 اوورز کے میچ میں دو، دو اننگز، ’ایک دن کا ٹیسٹ میچ بھی کیسا ٹیسٹ ہو گا‘