پاکستان میں حکام کا کہنا ہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے جنوبی وزیرستان کے صدر مقام وانا میں کیڈٹ کالج میں پیر کی شام لگ بھگ پانچ بجے داخل ہونے والے چاروں حملہ آوروں کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔
فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ یعنی آئی ایس پی آر کی جانب سے وانا کیڈٹ کالج میں کیے جانے والے لگ بھگ 30 گھنٹے پر محیط آپریشن کو کمانڈ کرنے والے کرنل محمد طاہر کے بیان پر مشتمل ایک ویڈیو جاری کی گئی ہے جس میں وہ اس حملے سے متعلق تفصیلات فراہم کر رہے ہیں۔
کرنل طاہر بتاتے ہیں کہ 10 نومبر کو پانچ شدت پسندوں نے کیڈٹ کالج وانا پر حملہ کیا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ پہلے انھوں نے خود کش دھماکہ کیا، جس کے بعد چار شدت پسند کیڈٹ کالج میں داخل ہوئے۔ کرنل طاہر نے اس ویڈیو میں دعویٰ کیا کہ شدت پسند ’افغان خوارج‘ تھے۔
یاد رہے کہ افغان حکومت نے اس حملے پر دُکھ کا اظہار کیا ہے جبکہکالعدم تحریک طالبان پاکستان نے اس حملے سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔ منگل کی دوپہر وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے الزام عائد کیا تھا کہ اس حملے میں افغانستان براہ راست ملوث ہے اور یہ کہ کیڈٹ کالج میں موجود شدت پسند افغانستان میں رابطے میں رہے۔
اس ویڈیو میں کرنل طاہر نے مزید بتایا کہ حملہ آوروں نے پہلے طلبا کو یرغمال بنانے کی کوشش کی، لیکن فورسز نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے اس کوشش کو ناکام بنا دیا۔
انھوں نے کہا کہ سکیورٹی فورسز نے پہلے طلبا کو محفوظ بنانے کی کوشش کی اور حملہ آوروں کو ایک مخصوص بلاک تک محدود کیا اور پھر گذشتہ رات (منگل کو) 10 بجے کے قریب ایک بھرپور آپریشن کیا گیا جس میں تمام چار حملہ آور مارے گئے۔
مقامی پولیس اہلکاروں کے مطابق شدت پسند سوموار کے شام پانچ بجے کے لگ بھگ کیڈٹ کالج میں داخل ہوئے تھے۔ وانا کے ضلعی پولیس افسر طاہر خان کے مطابق پہلے ایک خود کش حملہ آور نے بارودی مواد سے بھری گاڑی کالج کے گیٹ سے ٹکرائی، جس کے باعث گیٹ اور دیوار منہدم ہو گئی اور اس کے بعد باقی کے حملہ آور کالج میں داخل ہوئے۔
وفاقی وزیر تارڑ عطا اللہ تارڑ کا کہنا ہے کہ اس آپریشن کے دوران 500 سے زائد طلبا کو بازیاب کروایا گیا۔
مقامی پولیس حکام کے مطابق سکیورٹی حکام نے کالج اور اس کا قریبی علاقہ اب تک گھیرے میں لیا ہوا ہے، جہاں کلیئرنس آپریشن جاری ہے۔ ایک پولیس اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ پیر کے روز ابتدائی دھماکے کے چند منٹ بعد جب وہ کالج کے قریب پہنچے تو اُس وقت معلوم نہیں ہو رہا تھا کہ ہوا کیا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ اس کے چند منٹ بعد مقامی سکیورٹی اہلکار موقع پر پہنچ گئے۔
ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال وانا کے ایک ڈاکٹر نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ حملے کے ابتدائی روز کچھ بچے زخمی حالت میں لائے گئے تھے، تاہم مقامی پولیس حکام کا کہنا ہے کہ اس آپریشن میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ہے۔
منگل کی شام وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے کہا تھا کہ پاکستانی فوج نے قوم کو ’بڑے نقصان سے بچا لیا۔ یہ اے پی ایس حملے سے 10 گنا بڑا واقعہ ہو سکتا تھا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ ایک حساس آپریشن تھا‘ جس میں ’طلبہ کی جانیں بچائی گئی ہیں اور دہشتگردوں کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔‘
عطا اللہ تارڑ نے مزید دعویٰ کیا کہ روایتی جنگ کے بعد پاکستان کو ’پراکسی وار میں بھی کامیابی مل رہی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ اسلام آباد میں خودکش دھماکے اور وانا میں کیڈٹ کالج پر حملے کی تحقیقات ہوں گی اور اس کے ٹھوس شواہد دوست ممالک اور عالمی برادری کے ساتھ شیئر کیے جائیں گے۔
’ہمارے مکان کی دیواروں میں دراڑیں پڑ گئی‘BBCاس کیڈٹ کالج کے قریب ایک گرلز اور ایک بوائز کالج بھی واقع ہے، جبکہ اس کے مغرب میں آرمی کالونی ہے جسی زیڑے نور کالونی بھی کہا جاتا ہے
مقامی صحافی ظفر وزیر وانا کیڈٹ کالج سے تھوڑی دور واقع آبادی میں رہائش پذیر ہیں۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اتنی شدت کا دھماکہ ہم نے کبھی نہیں سُنا، اس سے ہمارے مکان کی دیواروں میں دراڑیں پڑ گئیں، کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ گئے اور آس پاس کے علاقے میں بیشتر مکانات کی یہی حالت ہے۔‘
ظفر وزیر نے منگل کے دوپہر بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’یہ حملہ پیر کو شام ہوا تھا، اور اب تک کیڈٹ کالج کے اندر سے فائرنگ اور دھماکوں کی آوازیں آ رہی ہیں۔‘
حملے کا نشانہ بننے والا کیڈٹ کالج وانا بازار سے تقریباً پانچ کلومیٹر دور زڑے نور کے گنجان آباد علاقے میں واقع ہے۔
جنوبی علاقے سے تعلق رکھنے والے صحافی دلاور وزیر نے بی بی سی کو بتایا کہ اس کیڈٹ کالج کے قریب ایک گرلز اور ایک بوائز کالج بھی واقع ہے جبکہ اس کے مغرب میں آرمی کالونی ہے جسی زیڑے نور کالونی بھی کہا جاتا ہے۔
اسی علاقے میں برطانوی دور میں بنایا گیا سکاؤٹس کیمپاور عام شہریوں کے مکانات بھی واقع ہیں۔ دلاور وزیر کے مطابق اسی علاقے کے قریب ایک ہسپتال اور چند فرلانگ کے فاصلے پر پولیس لائن اور دیگر سرکاری ادارے ہیں، جہاں چیک پوسٹس پر اہلکار تعینات رہتے ہیں۔
وانا بنیادی طور پر وزیر قوم کا علاقہ ہے جبکہ اس کے ساتھ یہاں محسود قبیلے کے لوگ بھی آباد ہیں۔
منگل کی دوپہر مقامی رہائشیوں نے بی بی سی کو بتاتا تھا کہ ’اس وقت علاقے میں سخت خوف و ہراس پایا جاتا ہے، لوگ اس پریشانی میں ہیں کہ کالج کے اندر موجود طلبا، اساتذہ اور دیگر عملہ کس حال میں ہوں گے۔‘
پاکستان اور افغانستان کا ایک دوسرے پر مذاکرات کی ناکامی کا الزام: ’کیا ہم پاکستان کی سکیورٹی کے ذمے دار ہیں‘ امیر خان متقیاستنبول مذاکرات ناکام: افغان طالبان ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی سے کیوں ہچکچاتے ہیں؟پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے تیسرے دور میں افغان طالبان کے وفد میں شامل شخصیات کون ہیں؟افغان طالبان کے پاس کون سے ہتھیار ہیں اور پاکستان کے ساتھ سرحدی جھڑپوں کے دوران انھوں نے کیسے اپنا دفاع کیا؟الزامات، بداعتمادی اور آن لائن پروپیگنڈا: استنبول میں پاکستان اور افغانستان کے مذاکرات سے کیا توقعات ہیں؟سرحد کی بندش کے باعث 20 دن تک طورخم پر پھنسے رہنے والے افغان پناہ گزین: ’ہم ٹرکوں پر رہنے پر مجبور تھے، اس دوران میری بیوی نے مُردہ بچے کو جنم دیا‘