انڈین وزیر اعظم اور آرمی چیف کی ڈیپ فیک ویڈیوز: دلی دھماکے کے بعد ’گمراہ کن مہم‘ پر ترکی پریشان اور انڈیا کا ’پاکستانی اکاؤنٹس‘ پر الزام

بی بی سی اردو  |  Nov 14, 2025

EPAتفتیش کاروں نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ پولیس نے انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر سے سات افراد کو گرفتار کیا ہے اور یہ جانچ کی جا رہی ہے کہ آیا ان حالیہ گرفتاریوں کا دلی میں دھماکے سے کوئی تعلق ہے

انڈیا کے دارالحکومت نئی دہلی میں رواں ہفتے ہونے والے دھماکے کے بعد تحقیقات کا عمل جاری ہے مگر اس دوران تفتیش سے جڑی افواہوں، ڈیپ فیک ویڈیوز اور غیر مصدقہ معلومات کا بازار گرم ہے۔

فیک نیوز کے خلاف قائم انڈیا کے سرکاری ادارے ’پی آئی بی فیک چیک‘ نے نہ صرف پولیس اہلکاروں بلکہ وزیر اعظم نریندر مودی اور آرمی چیف اپیندر دیویدی سے متعلق ایسی ڈیپ فیک ویڈیوز کی تردید کی ہے جن میں تفتیش سے متعلق جھوٹے دعوے کیے گئے ہیں۔

اُدھر ترکی نے انڈین میڈیا میں شائع ہونے والی ایسی خبروں کی سختی سے تردید کی ہے جن میں الزام عائد کیا جا رہا تھا کہ تفتیش کے دوران بعض سرے ترکی سے مل رہے ہیں۔

انڈیا کے بعض اخباروں اور ٹی وی چینلز نے 10 نومبر کو دلی میں دھماکے کے بعد ایسی خبریں چلائی ہیں جن میں ترک حکومت پر انڈیا میں ’شدت پسندی کی سرگرمیوں‘ کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

انڈیا کے دارالحکومت نئی دہلی میں واقع لال قلعہ میٹرو سٹیشن پر ایک کار میں دھماکے کے بعد تفتیش کاروں نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ پولیس نے انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر سے سات افراد کو گرفتار کیا ہے اور یہ جانچ کی جا رہی ہے کہ آیا ان حالیہ گرفتاریوں کا دھماکے سے کوئی تعلق ہے۔

بدھ کو انڈیا کی وفاقی کابینہ نے ایک قرارداد پاس کی تھی جس میں لال قلعہ حملہ کو دہشتگردی کا واقعہ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ اس دھماکے کے پیچھے ’قوم مخالف قوتیں‘ ہیں۔

خود وزیر اعظم نریندر مودی نے اس ’سازش‘ پر اظہار خیال کرتے ہوئے متنبہ کیا تھا کہ ’سازش کرنے والوں کو نہیں چھوڑا جائے گا‘ اور ’انھیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔‘

انڈین میڈیا کے الزامات اور ترکی کا ردعمل

انڈیا کے کئی اخباروں اور نیوز چینلز نے دلی دھماکے پر تحقیقات کے بارے میں ایسی خبروں چلائی ہیں جن میں باقاعدہ ترکی کا نام لیا گیا ہے۔

اخبار ’ٹائمز آف انڈیا‘ نے اپنی خبر میں دعویٰ کیا کہ دھماکے میں ایک ایسا ہینڈلر ملوث ہے جو کہ ترکی میں مقیم ہے اور اس کا عرفی نام ’اوکاسا‘ ہے۔ اس خبر میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ اس دھماکے کی منصوبہ بندی 2022 میں شروع ہوئی تھی جب مبینہ شدت پسندوں نے ترکی کا دورہ کیا تھا۔

انڈین نیوز چینل نیوز 18 نے اپنی خبر میں دعویٰ کیا کہ انڈیا کے خلاف ’سلیپر سیلز‘ کو اُبھارنے میں ترکی کا کردار ہے جبکہ انڈیا ٹوڈے اور ہندوستان ٹائمز نے بھی ’ذرائع‘ کا حوالے دیتے ہوئے ٹائمز آف انڈیا جیسے الزامات دہرائے ہیں۔

لال قلعہ دھماکے سے قبل ہونے والا کشمیر پولیس کا آپریشن اور تین ڈاکٹروں کی گرفتاری کا معمہانڈین صدر کے ساتھ شیوانگی سنگھ کی نئی تصویر: انڈیا کو اپنی فائٹر پائلٹ کے بارے میں بار بار تردیدیں کیوں جاری کرنی پڑتی ہیں؟پاکستان اور چین کا اثر و رسوخ کم کرنے کی کوشش یا ’سکیورٹی گارنٹی‘: طالبان وزیر خارجہ کا پہلا دورہ انڈیا کے لیے کتنا اہم ہے؟پاکستان انڈیا کی جانب سے داغے گئے میزائلوں کو کیوں نہیں روک پایا؟

مگر 12 نومبر کو فیک نیوز کے خلاف قائم کیے گئے ترک ادارے ’ڈی ایم ایم‘ نے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ بعض انڈین میڈیا اداروں نے ’جان بوجھ کر‘ ایسی اطلاعات دی ہیں جن میں ’انڈیا میں دہشتگردی کے واقعات پر ترکی کو ملوث قرار دیا گیا ہے‘ اور یہ الزام بھی عائد کیا گیا ہے کہ ترک حکومت ’دہشتگرد گروہوں کی لاجسٹک، سفارتی اور مالی معاونت کرتی ہے۔‘

ڈی ایم ایم کا کہنا تھا کہ ایسی ’گمراہ کن مہم‘ کے ذریعے بعض عناصر دونوں ملکوں کے درمیان باہمی تعلقات کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔

اس کا کہنا تھا کہ ترکی بین الاقوامی تعاون کے ذریعے عالمی سطح پر انسداد دہشتگردی کی کوششیں کرتی ہے اور اس کی جانب سے نہ صرف اقوام متحدہ کی گلوبل کاؤنٹنر ٹیررازم سٹریٹیجی کی حمایت کی جاتی ہے بلکہ نیٹو اتحاد کی انسداد دہشتگردی کی پالیسیوں میں بھی کردار ادا کیا جاتا ہے۔

ڈی ایم ایم نے مزید کہا کہ ’یہ دعویٰ کہ ترکی انڈیا یا کسی اور ملک کو نشانہ بنانے والی شدت پسندی کی سرگرمیوں میں ملوث ہے، یہ خالصاً جان بوجھ کر گمراہ کن ہے اور اس کی کوئی حقیقی بنیاد نہیں۔‘

انڈیا میں گردش کرتی مودی اور انڈین آرمی چیف کی ڈیپ فیک ویڈیو

فیک نیوز کے خلاف متحرک انڈین ادارے پی آئی بی فیک چیک نے گذشتہ روز سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی وزیر اعظم نریندر مودی کی ایک ویڈیو کو ڈیپ فیک قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ مودی نے ایسا کوئی بیان نہیں دیا۔

اس ڈیپ فیک ویڈیو میں مودی کو یہ کہتے سنا جا سکتا ہے کہ 'آپریشن سندور میں جو ہمارا نقصان ہوا ہے، اس کا جواب دینے کے لیے ایسے فالس فلیگ کی ضرورت ہے۔‘

پی آئی بی فیک چیک نے الزام لگایا کہ یہ ڈیپ فیک ویڈیو پاکستانی سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی طرف سے شیئر کی جا رہی ہے۔

اسی طرح کی ایک اور ڈیپ فیک ویڈیو کا بھی ذکر کیا گیا ہے جس میں انڈین آرمی چیف اپیندر دیویدی کو یہ کہتے سنا جا سکتا ہے کہ دلی میں دھماکے کے بعد ’20 ہزار مسلم فوجی جوانوں کے استعفے موصول ہوئے ہیں۔‘ پی آئی بی فیک چیک نے اس ویڈیو کی بھی تردید کی ہے اور اس پر ’پاکستانی پراپیگنڈا ہینڈلرز‘ کو موردِ الزام ٹھہرایا ہے۔

اسی طرح ڈی سی پی ہیڈکوارٹر ارپت جین سے متعلق ایک جعلی ویڈیو شیئر کی گئی ہے جس میں وہ دھماکے کو حادثہ قرار دیتے ہیں۔ جبکہ ڈی سی پی نارتھ کی ایک ڈیپ فیک ویڈیو میں انھیں یہ کہتے سنا جا سکتا ہے کہ یہ دہشتگردی کا واقعہ نہیں۔ پی آئی بی فیک چیک نے دونوں ویڈیوز کی تردید کی ہے۔

EPAپولیس یا این آئی اے اب تک تحقیقات سے متعلق نہ تو کوئی بیان جاری کیا ہےہمیں دلی دھماکے کے بارے میں اب تک کیا معلوم ہے؟

پولیس نے اس واقعے کے خلاف انسداد دہشتگردی، دھماکہ خیز مواد اور مجرمانہ سرگرمیوں سے متعلق دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا تھا مگر یہ کیس پھر انسداد دہشتگردی کے لیے قائم کردہ انڈین ادارے ’این آئی اے‘ کو منتقل کر دیا گیا ہے۔

پولیس یا این آئی اے اب تک تحقیقات سے متعلق نہ تو سرکاری سطح پر اب تک کوئی بیان جاری کیا گیا ہے اور نہ ہی کوئی پریس کانفرنس کی گئی ہے۔

اس دوران انڈیا میڈیا میں ’لیک‘ اور ’ذرائع‘ سے چلنے والی خبروں کی بھرمار ہے جن سے کئی جواب طلب سوالات نے جنم لیا ہے۔ خاص کر یہ سوال کہ کشمیر پولیس نے گذشتہ 15 دنوں سے جاری جس آپریشن میں سات افراد کو گرفتار کیا اور فرید آباد میں جن ہتھیاروں اور دھماکہ خیز مواد کو ضبط کیا گیا، ان سب کا دلی دھماکے سے کیا تعلق ہے۔

پیر کو دھماکے سے قبل کشمیر پولیس نے ایک بیان میں تین ڈاکٹروں کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ جبکہ اتر پردیش اور ہریانہ سے بھی کچھ گرفتاریاں کی گئی تھیں۔

دریں ااثنا ’این آئی اے‘ نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ اُن کی جانب سے دلی میں دھماکے پر تحقیقات شروع کی گئی ہے اور شواہد اکٹھے کرنے کا کام کیا جا رہا ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اس موقع پر فی الحال مزید تفصیلات فراہم نہیں کی جا سکتیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ ہر زاویے سے تحقیقات کی جا رہی ہے۔ انڈین میڈیا پر ایک تصویر بھی وائرل ہوئی ہے جس میں مبینہ طور پر حملہ آور کو گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ انڈین میڈیا کی خبروں میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس شخص نے شہر کے گرد کئی گھنٹوں تک کار چلائی، اسے ایک پارکنگ لاٹ میں کھڑا کیا اور پھر دھماکے کے مقام تک پہنچے۔ این آئی اے یا پولیس نے ان تفصیلات کی تصدیق نہیں کی ہے۔

دھماکہ پیر کو قریب چھ بج کر 52 منٹ پر ہوا تھا جب ایک آہستہ چلنے والی کار ’ہنڈائی آئی 20‘ مصروف ٹریفک سنگل پر رُکی جس کے بعد دھماکہ ہوا اور آگ کے شعلوں نے اردگرد دیگر کاروں کو بھی اپنی لپیک میں لیا۔

سرکاری سطح پر کوئی اطلاع نہیں کہ کار کا مالک کون ہے یا اس میں دھماکہ کیسے ہوا۔

لال قلعہ دھماکے سے قبل ہونے والا کشمیر پولیس کا آپریشن اور تین ڈاکٹروں کی گرفتاری کا معمہانڈین صدر کے ساتھ شیوانگی سنگھ کی نئی تصویر: انڈیا کو اپنی فائٹر پائلٹ کے بارے میں بار بار تردیدیں کیوں جاری کرنی پڑتی ہیں؟’سِگنل پر موجود سُرخ ہنڈائی کار‘: دہلی میں لال قلعہ کے قریب ہونے والے کار دھماکے کی ابتدائی تحقیقات میں کیا سامنے آیا؟پاکستان اور چین کا اثر و رسوخ کم کرنے کی کوشش یا ’سکیورٹی گارنٹی‘: طالبان وزیر خارجہ کا پہلا دورہ انڈیا کے لیے کتنا اہم ہے؟پاکستان انڈیا کی جانب سے داغے گئے میزائلوں کو کیوں نہیں روک پایا؟دو جوہری طاقتوں کے بیچ پہلی ڈرون جنگ: کیا پاکستان اور انڈیا کے درمیان روایتی لڑائی میں نئے اور خطرناک باب کا آغاز ہو چکا ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More