عمران خان سے قبل پاکستان میں کب کب سابق وزرائے اعظم کو ’قومی سلامتی کا خطرہ‘ قرار دیا گیا؟

بی بی سی اردو  |  Dec 07, 2025

Getty Imagesپاکستان کی تاریخ میں کئی مواقع پر سیاست دانوں اور سابق وزرائے اعظم کو ’سکیورٹی رسک‘ قرار دیا جاتا رہا ہے

جمعے کے روز پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرلاحمد شریف چوہدری نے پریس کانفرنس میں سابق وزیرِاعظم اور اس وقت جیل میں قید عمران خان پر کڑی تنقید کرتے ہوئے اُنھیں قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے جس طرح کا لب ولہجہ کا اختیار کیا، اس سے معاملے کی سنگینی کا احساس ہوتا ہے۔ احمد شریف چوہدری کا کہنا تھا ’اُس شخص (عمران خان) کا بیانیہ قومی سلامتی کے لیے خطرہ بن چکا ہے۔‘

’اُس شخص کی مایوسی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ میں نہیں تو کچھ نہیں۔‘ پاکستانی فوج کے ترجمان یہ تک کہہ گئے کہ ’اس شخص میں کسی ذہنی مریض کی علامات بھی پائی جاتی ہیں۔‘

فوج کے ترجمان کی جانب سے سخت لب و لہجے میں سابق وزیرِ اعظم کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دینا بظاہر بہت سنگین بھی ہے اور معنی خیز بھی۔ مگر پاکستانی سیاسی نظام اور اُس کی تاریخ میں یہ کوئی انہونی بات نہیں۔

ہم دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ’قومی سلامتی کے لیے خطرہ‘ یا ’سکیورٹی رِسک‘ کی اصطلاح کی تاریخ کیا ہے اور کون کون اب تک اس کی زَد میں آ چکے ہیں؟ نیز اسطرح کے ’سیاسی ہتھیار‘ اُس وقتکی سیاست و نظام اور ریاست کے لیے کس حد تک مہلک ثابت ہوئے؟ اور قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیے جانے والے بعد ازاں ’محب وطن‘ کیسے قرار پائے؟

’قیام پاکستان کے بعد قومی سلامتی کا خطرہ وجود میں آ گیا تھا‘

ملک کے قیام کے بعد کی پوری دہائی سیاست دانوں اور سول و ملٹری بیوروکریسی کے مابین سیاسی کشمکش میں گزری۔

اس کے نتیجے میں آئینی و جمہوری اور سیاسی ادارے پنپ نہ سکے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بار بار وزرائے اعظم تبدیل ہوتے رہے، حکومتیں ٹوٹتی رہیں اور آخرِ کار ایوب خان نے حالات و واقعات کو مخدوش قرار دیتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔

وزرائے اعظمکا اختیار کئی معاملات میں محدود ہوتا چلا گیا۔ اُس وقت کے ایک وزیرِ اعظم حسین شہید سہروردی، جو مشرقی و مغربی پاکستان کے مقبول لیڈروں میں سے ایک تھے، کو سول ملٹری بیورو کریسی کی جانب سے وزیرِاعظم ان شرائط پر قبول کیا گیا کہ وہ مغرب نواز خارجہ پالیسی جاری رکھیں گے اور فوج کے اُمور میں مداخلت نہیں کریں گے۔

Getty Imagesقیوم نظامی نے اپنی کتاب ’جرنیل اور سیاست دان تاریخ کی عدالت‘ میں لکھا کہ ایک موقع پر جناح نے ایوب خان (تصویر میں دائیں جانب) کے بارے میں کہا کہ ’میں اس آرمی افسر کو جانتا ہوں۔ وہ فوجی معاملات سے زیادہ سیاست میں دلچسپی لیتا ہے‘

قیوم نظامی اپنی کتاب ’جرنیل اور سیاست دان تاریخ کی عدالت‘ میں لکھتے ہیں کہ بانی پاکستان محمد علی جناح کو سول ملٹری کے افسروں کے بارے میں خدشات تھے اور انھیں اس کا مشاہدہ اُس وقت ہوا جب ایوب خان کو مہاجرین کی آبادکاری کے سلسلے میں سردار عبدالرب نشتر کی معاونت کی ذمہ داری سونپی گئی۔

عبدالرب نشتر نے محمد علی جناح کو پیش کی گئی اپنی رپورٹ میں بتایا کہ ایوب خان نے اپنی ڈیوٹی میں پیشہ ورانہ رویہ نہیں اپنایا۔ اس پر بانی پاکستان کے یہ الفاظ تھے ’میں اس آرمی افسر کو جانتا ہوں۔ وہ فوجی معاملات سے زیادہ سیاست میں دلچسپی لیتا ہے۔‘

Getty Imagesایوب خان اور فاطمہ جناح (تصویر میں بائیں جانب) کے مابین جب صدارتی معرکہ ہوا تو فاطمہ جناح کو ’غدار‘ تک کہا گیافاطمہ جناحسےبینظیر بھٹو تک

قیوم نظامی اپنی مذکورہ کتاب میں لکھتے ہیں کہ جنرل ایوب نے اقتدار پر قبضے کے بعد اپنے پہلے خطاب میں سیاست دانوں کے بارے میں خاصے سخت الفاظ کا استعمال کیا تھا۔

اُنھوں نے کہا تھا ’کچھ الفاظ انتشار پھیلانے والوں، سیاسی موقع پرستوں، سمگلروں، چور بازاری کرنے والوں اور دوسرے سماجی موزی کیڑوں، شارک اور جونکوں کے لیے: فوج اور عوام آپ کی شکل سے بیزار ہیں۔ اب یہ آپ کے مفاد میں ہے کہ نئے دَور کا آغاز کریں اور اپنے انداز بدلیں ورنہ انتقام یقینی اور فوری ہوگا۔ٗ

واضح رہےکہ ایوب خان نے سیاست دانوں کو سیاست سے روکنے کے لیے ’ایبڈو‘ کا قانون بنایا۔ اس قانون کے تحت نامور سیاست دانوں کو سیاست سے حصہ لینے سے نااہل قرار دیا گیا۔ ’ایبڈو‘ کا قانون درحقیقت سیاسی انتقام کے طور پر بنایا گیا تھا، جس کا واضح مقصد سیاست دانوں کو عوام کی نظروں میں کمتر دکھانا تھا۔

پہلے مارشل لا کے نفاذ کے بعد یہ عمومی کلچر بن گیا تھا کہ حکومت مخالف کیمپ میں جو سیاست دان ہوتے تھے، انھیں غیر ملکی سازشوں کا حصہ دار قراردیا جاتا تھا۔

ایوب خان اور فاطمہ جناح کے مابین جب صدارتی معرکہ ہوا تو فاطمہ جناح کو ’غدار‘ تک کہا گیا۔ اُن کی کردارکشی کی گئی اور ایوب خان اور اُن کے حامیوں کی جانب سے جو پمفلٹس تقسیم کیے جاتے اُن پر فاطمہ جناحپر ملک توڑنے کی سازش کے الزامات تک لگائے جاتے۔

حامد خان نے اپنی کتاب ’کانسٹیٹیویشنل اینڈ پولیٹیکل ہسٹری آف پاکستان‘ میں لکھا ’ایوب خان حکومت نے فاطمہ جناح کے خلاف غداری اور ملک دُشمنی کا تاثر بنوایا۔‘

ذوالفقار علی بھٹو جنھوں نے آئین پاکستان تشکیل دیا، پھانسی کے پھندے پر چڑھ گئے جبکہ اُن کی بیٹی بینظیر بھٹو پر بھی غداری کے الزامات لگے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کی ’جارحانہ‘ پریس کانفرنس میں عمران خان کا نام لیے بغیر تنقید: ’ادارے کے لیے مناسب نہیں کہ ایسے لب و لہجے میں بات کی جائے‘امریکی قانون سازوں کا فیلڈ مارشل عاصم منیر کو جوابدہ بنانے سے متعلق خط کیا امریکی انتظامیہ پر اثرانداز ہو سکتا ہے؟27ویں آئینی ترمیم: ’طاقت کا پلڑا ایک بار پھر فوج کے حق میں‘ اور اس کے سربراہ تاحیات فیلڈ مارشل’پسندیدہ‘ فیلڈ مارشل، شہباز شریف اور ٹرمپ: ’خدا آپ کو سلامت رکھے، دنیا کو آپ کی سب سے زیادہ ضرورت تھی‘پاکستان کے آرمی چیفس کے دلچسپ حقائق: وہ طیارہ حادثہ جس نے ایوب خان کو فوج کا سربراہ بنا دیا

قیوم نظامی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ’انڈیا کے وزیرِ اعظم راجیو گاندھی دسمبر 1988 اور جولائی 1989میں پاکستان آئے تھے۔ راجیو اور بینظیر دونوں نوجوان لیڈر تھے اُن کے بارے میں عام تاثر یہ تھا کہ دونوں ماضی کی نفرتوں کو بھلا کر نئے دور کا آغاز کریں گے۔

’پاکستان اور انڈیا کے مابین ایک دوسرے کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ نہ کرنے کا معاہدہ طے پایا۔ سیاچن گلیشیئر کے بارے میں راجیو نے مثبت ردِعمل کا مظاہرہ کیا۔ خفیہ ایجنسیوں نے دونوں لیڈروں کی ملاقاتوں کو مانیٹر کر کے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ قومی سلامتی کے بارے میں بینظیر پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔‘

سماجی کارکن اور تاریخ کے اُستاد عمار علی جان کہتے ہیں کہ ’یہ المیہ ہے کہ کبھی سب بنگالیوں کو قومی سلامتی کا مسئلہ قرار دیا گیا، کبھی ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی چڑھایا گیا، تو کبھی فاطمہ جناح اور بینظیر کو سکیورٹی رسک قرار دیا گیا۔‘

نواز شریف اور پھر عمران خان

ہمیں اکتوبر 2020 میں میاں نوازشریف کی اُس تقریر کو ذہن میں رکھنا ہوگا جو اُنھوں نے اپوزیشن جماعتوں کے پہلے جلسے میں ویڈیو لنک کے ذریعے کی تھی۔ اُنھوں نے کہا تھا کہ ’ملک کا آئین توڑنے والے محب وطن ہیں اور اس جلسے میں موجود ملک کی سیاسی قیادت غدار ہے۔‘

اُنھوں نے اُس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’آپ کو نواز شریف کو غدار کہنا ہے، ضرور کہیں۔ مگر نواز شریف عوام کو اُن کے ووٹ کی عزت دلوا کر رہے گا۔‘

اکتوبر ہی میں لاہور میں میاں نواز شریف پر غداری اور ریاست کے خلاف اُکسانے کا مقدمہ درج کیا گیا جس پر اُن کی جماعت کی جانب سے شدید ردِعمل سامنے آیا۔

اسی طرح مارچ 2021 میں میاں نواز شریف نے لندن سے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا جس میں اُن کا کہنا تھا کہ ’پہلے آپ نے کراچی میں ہوٹل کے کمرے کا دروازہ توڑا جہاں مریم رہ رہی تھیں اور اب آپ اُنھیں دھمکی دیتے ہیں۔‘

میاں نوازشریف کا کہنا تھا کہ ’اگر مریم کو کوئی نقصان پہنچا تو اس کے ذمہ دار عمران خان کے ساتھ ساتھ آرمی چیف قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض بھِی حمید ہوں گے۔‘

واضح رہے کہ یہ وہ موقع تھا جب میاں نواز شریف، اُن کی پارٹی اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین کشیدگی بہت بڑھ چکی تھی اور یہ کہا جا رہا تھا کہ اب فریقین کے لیے واپسی ممکن نہیں۔

Getty Imagesنواز شریف بھی ماضی میں فوجی قیادت کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں

مئی 2018میں اُس وقت کے وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی نے پارلیمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’جس نے ملک کو ناقابلِ تسخیر بنایا اُس کے بارے میں غداری کی باتیں قابلِ قبول نہیں۔‘

شاہد خاقان عباسی کے اس خطاب کا پس منظر یہ تھا کہ میاں نواز شریف نے ایک انگریزی روزنامے کو انٹرویو دیا تھا، جس میں اُنھوں نے کہا تھا کہ ’عسکری تنظیمیں فعال ہیں۔ اُنھیں غیر ریاستی عناصر کہا جاتا ہے۔ کیا ہم اُنھیں اجازت دے سکتے ہیں کہ وہ سرحد پار جا کر ممبئی میں 150 لوگوں کا قتل کریں۔‘

خود کو غدار قرار دیے جانے پر نواز شریف نے کہا تھا کہ ’اگر مَیں غدار ہوں تو قومی کمیشن بناؤ۔‘

واضح رہے کہ 2013 میں میاں نوازشریف کے حکومت سنبھالنے سے، وزارت عظمیٰ چھن جانے اور بعد ازاں 2018 کے الیکشن تک، اُن کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ محاذ آرائی عروج پر رہی تھی۔

میاں نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین محاذ آرائی نوے کی دہائی میں بھی وقفے وقفے سے جاری رہی تھی اور اس کا نقطہ عروج 12 اکتوبر 1999 کو نواز شریف کو اقتدار سے ہٹایا جانا تھا۔

جنرل پرویز مشرف کے دور میں نوازشریف اور ان کے بھائی پر طیارہ اغوا کرنے کی سازش کا کیس بنایا گیا جس طرح میاں نواز شریف کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ محاذ آرائی رہی اور اُنھیں الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔ ایسے ہی حالات کا سامنا اس وقت عمران خان کو بھی ہے۔

جمعے کے دِن ہونے والی ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس سے اس شائبے کو تقویت پہنچی کہ اب سابق وزیرِ اعظم عمران خان، اُن کی پارٹی اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے مابین کشیدگی اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے اور یہاں سے واپسی شاید اب ممکن نہیں ہے۔

عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین کشیدگی کی بنیاد تو 2022 میں پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے سے تھوڑا قبل پڑ گئی تھی، مگر وقت کے ساتھ ساتھ چند ایسے واقعات ہوئے جنھوں نے اِس کی شدت میں اضافہ کیا۔

Getty Imagesعمران خان کے ایکس ہینڈل سے چار دسمبر کو جاری کیے گئے بیان میں فیلڈ مارشل عاصم منیر کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا جس کے ایک روز بعد ڈی جی آئی ایس پی آر نے جارحانہ پریس کانفرنس کی

عمران خان نے اپنی حکومت کے آخری دِنوں میں اُس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ پر تنقید شروع کردی تھی۔ میر جعفر اور میر صادق، اسی طرح نیوٹرل جیسے لفظوں اور اُن میں چھپے معنی نے جنم لیا تھا۔

جیسے جیسے عمران خان کا یہ احساس کہ عدم اعتماد کے نتیجے میں حکومت ختم ہو سکتی ہے تقویت پکڑتا گیا، ویسے ویسے وہ جارحانہ ہوتے چلے گئے۔

حکومت کے خاتمے کے بعد کشیدگی مزید بڑھتی چلی گئی اور پھر 9 مئی کا لمحہ آن پہنچا۔ یہ وہ موقع تھا جب دوطرفہ کشیدگی کو نیا رُخ ملا۔

پھر اگلے ہی سال آٹھ فروری کے انتخابات کے نتائج پر پی ٹی آئی کا عدم اطمیان اور ردِعمل کشیدگی کو مزید بڑھاتا گیا۔ مزید براں 26 نومبر 2024 کے واقعے نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔

حالیہ دِنوں میں سابق وزیرِ اعظم سے اُن کی بہنوں، بعض پارٹی رہنماؤں اور خیبرپختونخوا کے نئے وزیرِاعلیٰ کی ملاقاتوں میں بندش کی خبریں بھی دوطرفہ کشیدگی کو واضح کرتی دکھائی دیں۔ اس پس منظر میں سابق وزیرِ اعظم کا سماجی رابطے کے پلیٹ فارم ایکس پر بیان انتہا ٹھہرا۔

حالیہ تاریخ میں آگےپیچھے دو سابق وزرائے اعظمکو قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دینا کیا معنی رکھتا ہے؟ اس ضمن میں عمارعلی جان کہتے ہیں ’حب الوطنی، غدار، ملک دُشمنی، کرپشن یہ سب ایسے الفاظ ہیں جو پروپیگنڈے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔

’اس کے سوا ان الفاظ کی کوئی اہمیت نہیں، ایک ہی فلم ہے جو عوام کو بار بار دکھائی جاتی ہے۔‘

’قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دینا محض بیان بازی تک محدود نہیں ہوتا‘

ایک طرف سیاسی رہنما ایک دوسرے پر اسی نوعیت کے الزامات لگاتے رہے ہیں تو دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ بھی اپنی ناپسندیدہ سیاسی جماعتوں اور رہنماؤںپر الزامات لگاتی رہی ہے۔

تاہم جب ملٹری اسٹیبلشمنٹ کسی سیاست دان کو خصوصاً ایسا شخص جو ملک کا وزیرِ اعظم رہا ہو، قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دے تو یہ معاملہ سیاسی بیان بازی تک محدود نہیں رہتا۔ اس کے نتائج اندرونی سیاست و سماج کو ضرور متاثر کرتے ہیں کہ کیونکہ اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی جماعتوں کے درمیان محاذ آرائی لمبے عرصے پر محیط ہو سکتی ہے۔

تاہم یہ کیسی عجیب تاریخ ہے، جن پر غداری، غیر ملکی سازش اور ملک دُشمنی کے الزامات لگائے جاتے رہے بعد ازاں اُن کو ’محب وطن‘ بھی قرار دیا گیا۔ حسین شہید سہروردی، مولانا بھاشانی بھی غدار قرار دیے گئے تھے۔

ذوالفقار علی بھٹو پر ملک توڑنے کا الزام لگا تو اُن کی بیٹی کو غلام اسحاق خان کی صدارت کے دوران ’سکیورٹی رسک‘ قرار دیا گیا۔

میاں نواز شریف بھی ملک دُشمن قرار پائے اور اب عمران خان سکیورٹی رسک قرار دیے جا چکے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ سیاست دان جب ایک دوسرے پر الزام لگاتے ہیں تو یہ درحقیقت ایک دوسرے کی سیاست پر تنقید ہوتی ہے، لیکن اسٹیبلشمنٹ جو خود کو غیر سیاسی کہتی ہے اور حالیہ پریس کانفرنسز میں بار بار یہ کہا بھی جاتا رہا ہے کہ فوج کو سیاست سے دور رکھا جائے تو اُن کی جانب سے سیاست دانوں پر اس طرح کے الزامات کیوں؟

عمار علی جان کہتے ہیں ’ہماری ایک بد قسمتی یہ ہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کو یہ حق دے دیا گیا ہے کہ وہ اس بات کا تعین کریں کہ کون سلامتی کے لیے خطرہ ہے اور کون نہیں ہے۔

’جب ہم ریاست اور حب الوطنی کی بات کرتے ہیں تو کسی ایک ادارے یا محکمے کے پاس حق نہیں ہونا چاہیے کہ وہ یہ فیصلہ کرے۔ ہم سب پاکستانی ہیں اور اگر عوام کسی کو ووٹ دیتے ہیں، یا سپورٹ کرتے ہیں، یا اُس کے خلاف ہوتے ہیں تویہ عوام کا حق ہے۔‘

ان کے مطابق دلچسپ بات یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے تمام سیاست دانوں کو استعمال بھی کیا اور اُنھیں بعد ازاں قومی سلامتی کے لیے خطرہ بھی قراردیا اور ایسا ہی عمران خان کے حوالے سے ہوا۔

’اگر وہ اتنے خطرناک اور برے تھے، تو پھر آپ نے اُن کو سپورٹ کیوں کیا؟ حکومت میں لے کر کیوں آئے؟‘

عمران خان جیلر ہے یا قیدی؟’قومی سلامتی کے لیے خطرہ‘ اور ’نئی سُرخ لکیر‘: ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس فوج اور پی ٹی آئی کے لیے کیا معنی رکھتی ہے؟ڈی جی آئی ایس پی آر کی ’جارحانہ‘ پریس کانفرنس میں عمران خان کا نام لیے بغیر تنقید: ’ادارے کے لیے مناسب نہیں کہ ایسے لب و لہجے میں بات کی جائے‘27ویں آئینی ترمیم: ’طاقت کا پلڑا ایک بار پھر فوج کے حق میں‘ اور اس کے سربراہ تاحیات فیلڈ مارشل’پسندیدہ‘ فیلڈ مارشل، شہباز شریف اور ٹرمپ: ’خدا آپ کو سلامت رکھے، دنیا کو آپ کی سب سے زیادہ ضرورت تھی‘امریکی قانون سازوں کا فیلڈ مارشل عاصم منیر کو جوابدہ بنانے سے متعلق خط کیا امریکی انتظامیہ پر اثرانداز ہو سکتا ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More