ادلب کے باغی سے دمشق کے ’پُرکشش اور سخت جان‘ صدر تک: الجولانی کا نیا شام کیسا ہے؟

بی بی سی اردو  |  Dec 09, 2025

BBC

وہ جنگ جسے صدر بشار الاسد جیتا ہوا سمجھ رہے تھے، ایک سال قبل اچانک اُس کی بازی پلٹ گئی۔

ترکی کی سرحد کے قریب واقع شام کے صوبہ ادلب سے ایک باغی گروہ اچانک نکل کر ملک کے دارالحکومت دمشق کی جانب بڑھنے لگا۔ اس باغی گروہ کی قیادت ابو محمد الجولانی کر رہے تھے، وہی الجولانی جو اپنی ملیشیا تنظیم ’ہیت تحریر الشام‘ کے سربراہ بھی ہیں۔

’جولانی‘ دراصل ایک عرفی نام ہے جو اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ اُن (ابو محمد الجولانی) کے خاندان کا تعلق گولان کی پہاڑیوں سے ہے۔ گولان کی پہاڑیاں شام کا وہ جنوبی حصہ ہے جسے اسرائیل نے سنہ1967 میں قبضے کے بعد اپنے ملک میں ضم کر لیا تھا۔ باغی گروہ کی قیادت کرنے والے ابو محمد الجولانی کا اصل نام احمد الشرع ہے۔

ایک سال بعد احمد الشرع شام کے عبوری صدر ہیں جبکہ بشار الاسد روس میں پرتعیش جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔

دوسری جانب شام اب بھی کھنڈرات کا منظر پیش کر رہا ہے، گذشتہ دس دنوں کے دوران میں نے شام کے جن شہروں اور دیہات کا دورہ کیا وہاں لوگوں کو جنگ سے تباہ شدہ کھنڈرات نما گھروں اور عمارتوں میں زندگی گزارنے پر مجبور پایا۔

تاہم شام کو درپیش ان تمام تر مسائل کے باوجود، آج یہ ملک اسد خاندان کے ظلم اور جبر کے بوجھ کے بغیر کہیں زیادہ ہلکا محسوس کر رہا ہے۔

Getty Imagesجنگ کے زخم ابھی باقی ہیں اور شام کے شہروں اور دیہات میں لوگ اپنے کھنڈرات نما گھروں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں

احمد الشرع کو بیرونی دنیا کو قائل کرنا اپنے ملک کے لوگوں کو قائل کرنے کے مقابلے میں آسان لگا۔ انھوں نے سعودی عرب اور مغرب کو کامیابی سے یہ باور کروایا کہ وہ شام کے لیے مستحکم مستقبل کا بہترین موقع ہیں۔

رواں برس مئی میں، سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے احمد الشرع اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ایک مختصر ملاقات کا انتظام کیا۔ اس ملاقات کے بعد ٹرمپ نے انھیں (احمد) ’نوجوان اور پرکشش‘ شخصیت قرار دیا۔

تاہم احمد الشرع کے اپنے ملک میں، شامی اُن کی کمزوریوں اور شام کو درپیش مسائل کو غیر ملکیوں سے بہتر جانتے ہیں۔

احمد الشرع کا اپنے ملک کے شمال مشرقی حصوں پر کنٹرول نہیں ہے، یہ وہ علاقے ہیں جہاں کرد قابض ہیں۔ ملک کے اُن جنوبی حصوں میں بھی ان کی نہیں چلتی جہاں اقلیتی گروہ ’دروز‘ اکثریت میں ہیں اور جو اپنے اسرائیلی اتحادیوں کی حمایت سے ایک علیحدہ ریاست چاہتے ہیں۔

جبکہ شام کے ساحلی علاقوں میں جہاں علوی آباد ہیں، وہی فرقہ جس سے بشار الاسد کا تعلق بھی تھا، وہ اپنے خلاف جاری کارروائیوں سے خوفزدہ ہیں۔

AFP via Getty Imagesاحمد الشرع

ایک سال پہلے دمشق کے نئے حکمران بننے والے شام کے زیادہ تر مسلح باغی سنی اسلام کے ماننے والے ہیں۔ جبکہ ان باغیوں کے رہنما الشرع کا عراق میں القاعدہ کی طرف سے لڑنے کا طویل تجربہ تھا۔ عراق میں الشرع کو ایک موقع پر امریکیوں نے قید کیا تھا، تاہم بعدازاں وہ القاعدہ چھوڑ کر اُس گروپ کے سینیئر کمانڈر بن گئے جو بعد میں دولتِ اسلامیہ بنا۔

مگر الشرع نے جب شام میں اپنی طاقت کو مرکوز کرنا شروع کیا تو انھوں نے دولتِ اسلامیہ اور القاعدہ دونوں سے علیحدگی اختیار کر لی اور اُن کے خلاف لڑائی بھی کی۔

بہت سے شامی شہریوں نے محسوس کیا کہ ملک کو چلانے کے لیے الشرع نے جو منصوبہ تیار کیا ہے وہ شام کی حکومت کے لیے زیادہ موزوں ہے، جہاں ایک سے زیادہ مذہبی فرقے موجود ہیں۔

سنی اکثریت میں ہیں۔ کردوں اور دروز کے علاوہ، مسیحی بھی ہیں، جن میں سے بہت سوں کے لیے الشرع کے جہادی ماضی کو بھولنا مشکل ہے۔

اپنے جہادی ماضی کو پیچھے چھوڑ دینے والا شخص

گذشتہ سال دسمبر کے پہلے ہفتے میں، یہ یقین کرنا مشکل تھا کہ احمد الشرع کی قیادت میں باغی گروہ اتنی تیزی سے پیش قدمی کر رہا ہے۔

انھیں حلب، جو شام کا شمالی صوبہ ہے، پر قبضہ کرنے میں محض تین دن لگے۔

اس کا موازنہ اگر سنہ 2012 سے سنہ 2016کے صعوبت زدہ سالوں سے کریں، جب شامی حکومت کی فوج اور باغی ملیشیاؤں نے اسی صوبے پر کنٹرول کے لیے لڑائی کی اور اس کا اختتام بشار الاسد کی فتح پر ہوا، جنھیں اُس وقت روس کے صدر ولادیمیر پوتن کی فضائیہ اور توپ خانے کی مدد حاصل تھی۔

جب میں نے اُس وقت مشرقی حلب میں سابق باغیوں کے مضبوط ٹھکانوں کا دورہ کیا تھا تو دیکھا تھا کہ روسی بمباری سے بڑے علاقے تباہ ہو چکے تھے۔ کچھ گلیاں ملبے کی وجہ سے بند تھیں، عمارتیں ملبے کا ڈھیر تھیں۔

لیکن 2024کے آخر تک، ملک بھر میں حکومتی فوج تحلیل ہو چکی تھی۔ اپنی آخری سانسیں لیتی ہوئی بشار الاسد کی حکومت کے وفادار اب ایک کرپٹ اور ظالم حکومت کے لیے لڑنے اور مرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔

AFP via Getty Imagesبشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کا ایک سال مکمل ہونے پر جشن منایا گیا

اسد کے اپنے خاندان کے ساتھ روس فرار ہونے کے چند دن بعد میں نے صدارتی محل میں احمد الشرع کا انٹرویو کیا تھا۔

یہ صدارتی محل دمشق کے اوپر ایک چٹان پر واقع ہے، جسے اس طرح ڈیزائن کیا گیا تھا کہ شہریوں کو یاد دہانی رہے کہ اسد رجیم کی سب پر نظر ہے۔

دمشق کے صدارتی محل میں پہنچنے پر الجولانی اپنا عرفی نام اور جنگی لباس پہننا چھوڑ دیا تھا۔

الشرع محل کے ایک سرد ہال میں ایک سمارٹ جیکٹ، استری شدہ پتلون اور چمکدار سیاہ جوتے پہنے بیٹھے تھے۔

انھوں نے مجھے بتایا کہ اُن کا ملک جنگ سے تھک چکا ہے اور اب شام اپنے پڑوسیوں یا مغرب کے لیے خطرہ نہیں ہے۔ انھوں نے اصرار کیا کہ وہ تمام شامیوں کے لیے حکومت کریں گے۔

یہ ایک پیغام تھا جو بہت سے شامی اور غیر ملکی حکومتیں سننا چاہتی تھیں۔

تاہم اسرائیل نے اسے مسترد کر دیا۔ اور جہادی سخت گیر افراد نے بھی الشرع کو ایسا غدار قرار دیا جنھوں نے مبینہ طور پر اپنا مذہب اور اپنی تاریخ بیچ دی تھی۔

احمد الشرع کے انٹرویو اور جنگ کی رپورٹنگ کے لیے میں جلدی میں برطانیہ سے شام پہنچا تھا۔ مجھے توقع نہیں تھی کہ بشار الاسد کی حکومت اتنی تیزی سے گر جائے گی، اسی جلد بازی میں میں اپنا اچھا لباس لندن ہی چھوڑ آیا تھا۔

انٹرویو کے بعد الشرع کے ایک معاون نے شکایت کی کہ مجھے ایک قومی رہنما کا انٹرویو کرنے کے لیے سوٹ پہننا چاہیے تھا۔

اس کی شکایت صرف میرے لباس کے انتخاب کے بارے میں نہیں تھی۔ یہ ایک طویل مہم کا تسلسل تھا جو کئی سال پہلے شروع ہوئی تھی جب الشرع ادلب میں اپنی طاقت بڑھا رہے تھے۔

یہ مہم انھیں ایک ایسے شخص کے طور پر پیش کرنے کے لیے ترتیب دی گئی تھی جو اپنے جہادی ماضی کو چھوڑ کر پورے شام کا ایک قابل رہنما بن گیا ہے، ایک ایسا رہنما جسے باقی دنیا کو سنجیدگی سے لینا چاہیے اور اُس کے ساتھ احترام سے پیش آنا چاہیے۔

شام میں کمزور داعش

الشرع نے اُس وقت اقتدار سنبھالا جب اس حوالے سے شدید غیر یقینی تھی کہ وہ کیا کر سکتے ہیں اور اُن کے دشمن اُن کے ساتھ کیا کر سکتے ہیں۔

اِن میں یہ خدشات بھی شامل تھے کہ دولتِ اسلامیہ کے انتہا پسند جہادی، جو آج بھی شام میں واقع اپنے خفیہ ٹھکانوںمیں موجود ہیں، انھیں قتل کرنے یا دمشق میں بڑے پیمانے پر ہلاکت خیز حملوں کے ذریعے افراتفری پھیلا سکتے ہیں۔

جہادی سوشل میڈیا پر مغرب میں الشرع کے لیے موجود پسندیدگی پر غصے میں ہیں۔ جب انھوں نے امریکی قیادت میں دولتِ اسلامیہ کے خلاف اتحاد میں شامل ہونے پر رضامندی ظاہر کی تھی، تو آن لائن نمایاں آوازوں نے انھیں مرتد قرار دیا تھا، یعنی ایک ایسا مسلمان جو اپنے ہی مذہب سے منکر ہو چکا تھا۔ اور انتہا پسند مرتد ہونے کو قتل کرنے کا لائسنس سمجھتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ شام میں دولتِ اسلامیہ یا داعش کمزور ہے۔ اس سال اس کی جانب سے زیادہ تر حملے شمال مشرق میں کرد قیادت والی فورسز پر کیے گئے ہیں۔ یہ صورتحال پچھلے چند ہفتوں میں بدل گئی ہے، خاص طور پر اسد حکومت کے خاتمے کی سالگرہ کے قریب۔

Getty Images

’سیریا ویکلی‘ میں شائع ہونے والے ایک نیوز لیٹر کے مطابق گذشتہ دنوں جب سکیورٹی فورسز نے داعش کے ٹھکانوں پر چھاپے مارے تو جہادیوں نے حکومت کے زیر کنٹرول شہروں میں تین فوجیوں اور سابق صدر اسد سے منسلک دو ہلکاروں کو قتل کر دیا ہے۔

بی بی سی نے داعش کے سوشل میڈیا چینلز کو دیکھا ہے جن پر شام میں بسنے والے سُنّیوں کو مسلسل بتایا جا رہا ہےکہ الشرع نے اُن سے غداری کی ہے۔

بغیر کسی ثبوت کے، انھوں نے دعوے کیے ہیں کہ وہ امریکہ اور برطانیہ کے ایجنٹ رہے ہیں اور فی الحال وہ جہادی منصوبے کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ٹرمپ اور مغرب کو قائل کرنا

الشرع کی مغرب کو اپنی جانب مبذول کرنے کی کوششیں حیرت انگیز طور پر کامیاب رہی ہیں۔

شام میں اقتدار سنبھالنے کے دو ہفتوں کے اندر اندر، انھیں سینیئر امریکی سفارتکاروں کا وفد ملا۔ فوراً ہی امریکیوں نے اُن کی گرفتاری پر مقرر کردہ ایک کروڑ ڈالر کا انعام ختم کر دیا۔

اس کے بعد سے اسد کے دور کے دوران شام پر عائد کردہ عالمی پابندیاں بتدریج کم کی گئی ہیں۔

اور پھر نومبر میں ایک بڑا سنگ میل آیا جب الشرع وائٹ ہاؤس آنے والے پہلے شامی صدر بنے۔

AP

اوول آفس میں ٹرمپ نے اُن کا بہتر استقبال کیا۔ انھوں نے الشرع پر ٹرمپ برانڈ کا کولون چھڑکا، اور پھر انھیں اُن کی بیوی کے لیے گھر لے جانے کے لیے کافی پرفیوم دیے۔ پھر مذاق میں پوچھا کہ اُن کے پاس کتنے ہیں؟ ’صرف ایک‘، الشرع نے جواب دیا۔

کیمروں کے لیے دکھاوا کرنے کے علاوہ بھی سعودی عرب اور مغربی حکومتیں شریعت کو مشرق وسطیٰ کے دل میں واقع ملک شام کو مستحکم کرنے کے لیے بہترینواحد راستہ سمجھتی ہیں۔

’میں کسی مجرم کی طرح شام سے نکلا تھا اور اب وہاں میرا ہیرو جیسا استقبال ہوا‘بشار الاسد کے مفرور ساتھیوں کے محل جن میں سونے کی تجوریاں اور تہہ خانوں میں سوئمنگ پول ہیں

اگر شام دوبارہ خانہ جنگی میں چلا گیا تو خطے میں پرتشدد ہنگامہ خیزی کو کم کرنے کا کوئی امکان نہیں ہو گا۔

ایک سینیئر مغربی سفارتکار نے مجھے بتایا کہ خانہ جنگی کے حالات اب بھی موجود ہیں۔

یہ آدھی صدی کی آمریت اور 14 سالہ جنگ کے دیرپا زخموں کی وجہ سے ہے، جو اسد کی ظالمانہ حکمرانی کے خلاف بغاوت کے طور پر شروع ہوئی اور ایک بڑھتی ہوئی فرقہ وارانہ لڑائی میں بدل گئی۔

AFP via Getty Imagesبہت سی مغربی طاقتوں کا خیال ہے کہ احمد الشرع ایک اچھا متبادل ہیں

الشرع ایک سُنی مسلمان ہیں، جو شام کا سب سے بڑا مذہبی گروہ ہے۔ اُن کی حکومت کا پورے ملک پر کنٹرول نہیں ہے۔ گذشتہ ایک سال کے دوران وہ کردوں اور دروزوں کو دمشق کی اتھارٹی قبول کرنے پر قائل یا مجبور نہیں کر سکے ہیں۔ جبکہ ملک میں بسنے والی علوی کمیونٹی گھبراہٹ کا شکار اور بے چین ہے۔

علوی ایک فرقہ ہے جو شیعہ اسلام سے نکلا ہے۔

سابق صدر بشار الاسد علوی ہیں۔ بشار الاسد کے والد حافظ الاسد نے اپنی طاقت علوی اقلیت پر قائم کی تھی، جو شام کی آبادی کا تقریبا 10 فیصد ہیں۔

اگر شام میں فرقہ وارانہ قتل جاری رہے تو شام بحال نہیں ہو گا۔ آئندہ 12 ماہ میں مزید سنگین تشدد کے واقعات کو روکنا حکومت کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔

انصاف کی سست رفتار

اسد کی حکومت کے خاتمے کا ایک سال مکمل ہونے سے کچھ ہی پہلے، اقوامِ متحدہ کے ہیومن رائٹس دفتر (OHCHR) نے شام میں انصاف کے سست عمل پر گہری تشویش کا اظہار کیا تھا۔

ایک ترجمان نے کہا کہ ’اگرچہ عبوری حکام نے ماضی کی خلاف ورزیوں سے نمٹنے کے لیے حوصلہ افزا اقدامات کیے ہیں، لیکن یہ اقدامات صرف اس بڑے کام کی شروعات ہیں، جو ابھی کیا جانا باقی ہے۔‘

کچھ شامیوں نے بعض اوقات سرکاری فورسز کے ساتھ مل کر، معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیے ہیں۔

یو این ایچ سی آر کے مطابق گذشتہ سال کے دوران سکیورٹی فورسز اور ان سے منسلک گروہوں، سابق حکومت سے وابستہ عناصر، مقامی مسلح گروہوں اور نامعلوم مسلح افراد کے ہاتھوں سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’دیگر رپورٹ شدہ خلاف ورزیوں اور زیادتیوں میں جنسی تشدد، من مانی گرفتاریاں، گھروں کی تباہی، جبری بے دخلیاں، اور اظہارِ رائے اور پُرامن اجتماع کی آزادیوں پر پابندیاں شامل ہیں۔‘

یو این ایچ سی نے کہا کہ علوی، دروز، مسیحی اور بدو برادریاں اس تشدد سے زیادہ متاثر ہوئی ہیں، جسے آن لائن اور آف لائن نفرت انگیز تقریر میں اضافے نے مزید ہوا دی ہے۔

Anadolu via Getty Images

سنہ 2026 کے لیے ایک بڑا خطرہ یہ ہے کہ گذشتہ مارچ میں علوی علاقوں میں ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد کے دوبارہ پھوٹ پڑنے کا امکان ہے۔

اسد حکومت کے خاتمے کے بعد پیدا ہونے والے سکیورٹی خلا میں، نئی حکومت نے گرفتاریوں کی ایک سلسلہ وار کارروائی کے ذریعے شامی ساحلی علاقے پر اپنی رٹ قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔

یو این ایچ سی آر کی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ ’سابق حکومت کے حامی جنگجوؤں نے اس کے جواب میں عبوری حکومت کی فورسز کے سینکڑوں اہلکاروں کو گرفتار کیا، قتل کیا اور زخمی کیا۔‘

دمشق نے سخت ردِعمل دیا مگر اس کے بعد وہ شدت پسند مسلح گروہوں پر قابو کھو بیٹھا، جنھوں نے علویوں پر منظم اور مہلک حملوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔

اقوام متحدہ نے بتایا کہ تقریباً 1,400 افراد، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے، ان خونریز کارروائیوں میں مارے گئے۔ ہلاک ہونے والوں کی بڑی تعداد بالغ مردوں پر مشتمل تھی، لیکن متاثرین میں تقریباً 100 خواتین، بزرگ، معذور افراد اور بچے بھی شامل تھے۔

الشرع حکومت نے اقوام متحدہ کی تحقیقات میں تعاون کیا۔ اس کی کچھ فورسز نے علویوں کو بچانے میں کامیابی حاصل کی اور قتلِ عام کے کچھ ذمہ داروں کو عدالت میں پیش بھی کیا ہے۔

Reutersمارچ میں علوی برادری کے علاقوں میں ہونے والے فسادات میں 1400 افراد مارے گئے تھے

The UN Syria Commission of Inquiry confirmed it had found no evidence the

اقوامِ متحدہکے شام کے لیے تحقیقاتی کمیشن نے تصدیق کی کہ اسے کوئی ثبوت نہیں ملا کہ حکام نے ان حملوں کا حکم دیا تھا۔ لیکن اُس وقت بھی اور مستقبل کے لیے بھی تشویش یہ تھی کہ دمشق کی حکومت اُن مسلح سنی گروہوں کو کنٹرول نہیں کر پا رہی تھی جو بظاہر اس کی سکیورٹی فورسز میں شامل ہو گئے تھے۔

جولائی میں جنوبی صوبے السویدہ میں دروز اور بدو کمیونٹیز کے درمیان شدید تشدد نے الشرع انتظامیہ کو ہلا کر رکھ دیا۔ دروز مذہب تقریباً ایک ہزار سال قبل اسلام سے جنم لینے والا عقیدہ ہے، اور اس کے پیروکار، جنھیں بعض مسلمان بدعتی سمجھتے ہیں، شام کی آبادی کا تقریباً تین فیصد ہیں۔

جب حکومتی فورسز السویدہ میں نظم بحال کرنے کے دعوے کے ساتھ داخل ہوئیں تو وہ بالآخر دروز ملیشیاؤں سے لڑنے لگیں۔ اسرائیل، جس کی اپنی دروز کمیونٹی ہے اور جو اسرائیلی ریاست سے انتہائی وفادار ہے, نے مداخلت کی۔ اس کے فضائی حملوں میں دمشق کی وزارتِ دفاع تقریباً تباہ ہو گئی۔

صورتحال کو مزید بگڑنے سے روکنے کے لیے امریکہ کی فوری مداخلت درکار ہوئی، جس نے جنگ بندی پر مجبور کیا۔ دسیوں ہزار لوگ اپنے گھروں سے بےدخل ہوئے اور اب بھی بے گھر ہیں۔

Getty Imagesاقوام متحدہ کی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ شامی حکومت نے مارچ میں ہونے والے قتل عام کا حکم نہیں دیا تھااسرائیل کا سوال

ابھی تک یہ واضح نہیں کہ الشرعاور اُن کی عبوری حکومت اتنی مضبوط ہے کہ کسی سنگین اور نئے بحران سے بچ سکے۔ اسرائیل، شامیوں کے لیے ایک بڑا اور خطرناک خطرہ بنا ہوا ہے۔

اسد حکومت کے خاتمے کے بعد، اسرائیل نے پرانی حکومت کی باقی رہ جانے والی عسکری صلاحیت کو تباہ کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر فضائی حملوں کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ اسرائیلی افواج مقبوضہ گولان کی پہاڑیوں سے آگے بڑھ کر شامی علاقے کے مزید حصوں پر قابض ہو گئیں، جن پر وہ اب بھی قابض ہے۔

اسرائیلی، شام کی بدنظمی کا فائدہ اٹھا کر اس ملک کو کمزور کر رہے تھے جسے وہ اپنے لیے دشمن سمجھتے تھے، اور وہ ہتھیار تباہ کر رہے تھے جن کے بارے میں ان کا دعویٰ تھا کہ انھیں اسرائیل کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے۔

امریکہ کی جانب سے اسرائیل اور شام کے درمیان ایک سکیورٹی معاہدہ کروانے کی کوششیں گذشتہ دو ماہ سے تعطل کا شکار ہیں۔

شام اُس معاہدے کی واپسی چاہتا ہے جو سنہ 1974 میں اس وقت کے امریکی وزیرِ خارجہ ہنری کسنجر نے طے کروایا تھا۔ نتن یاہو چاہتے ہیں کہ اسرائیل اپنے قبضے میں لیا ہوا شامی علاقہ رکھیں اور وہ یہ بھی مطالبہ کر رہے ہیں کہ شام دمشق کے جنوب میں ایک وسیع علاقے کو غیر عسکری بنا دے۔

گذشتہ ماہ کے دوران اسرائیل نے شام میں اپنی زمینی کارروائیاں تیز کر دی ہیں۔ ہفت روزہ سِریا وِیکلی جو تشدد کے اعداد و شمار جمع کرتا ہے کے مطابق یہ کارروائیاں سال کے باقی مہینوں کے ماہانہ اوسط سے دوگنا سے زیادہ تھیں۔

ہم نے سرحدی گاؤں بیت جن کا دورہ کیا، جس پر 28 نومبر کو اسرائیلی فوج کے دستوں نے چھاپہ مارا تھا۔ اسرائیلی فوج کا کہنا تھا کہ وہ اُن سنی شدت پسندوں کو گرفتار کر رہے تھے جو حملوں کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔

مقامی افراد نے مزاحمت کی، چھ اسرائیلیوں کو زخمی کر دیا، اور چھاپہ مار ٹیم کو جلدی میں پسپا ہونا پڑا۔ واپسی کے دوران انھوں نے ایک فوجی گاڑی چھوڑ دی، جسے بعد میں انھوں نے فضائی حملے سے تباہ کر دیا۔ ریاستی میڈیا کے مطابق اسرائیلیوں نے کم از کم 13 مقامی افراد کو ہلاک کیا اور درجنوں کو زخمی کیا۔

یہ واقعہ اس بات کی علامت تھا کہ شام اور اسرائیل کے درمیان ایک سکیورٹی معاہدہ کروانا کتنا مشکل ہو گا۔ دمشق حکومت نے اسے جنگی جرم قرار دیا۔ جوابی کارروائی کے مطالبات میں شدت آ گئی۔

واشنگٹن میں، ٹرمپ اس حملے پر واضح طور پر پریشان تھے۔ انھوں نے اپنی سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹروتھ سوشل‘ پر پوسٹ کیا کہ وہ شام کو مستحکم کرنے کے لیے الشرع کی کوششوں سے ’بہت مطمئن‘ ہیں۔

انھوں نے خبردار کیا کہ ’یہ بہت اہم ہے کہ اسرائیل شام کے ساتھ مضبوط اور سچا مکالمہ برقرار رکھے، اور ایسا کچھ نہ ہو جو شام کے ایک خوشحال ریاست بننے کے عمل میں رکاوٹ ڈالے۔‘

بیت جن میں میری ملاقات خلیل ابو ظاہر سے ہوئی، جو ہسپتال سے واپسی جا رہے تھے۔ گولی لگنے کے زخم کے بعد ان کے بازو پر پلستر چڑھا ہوا تھا۔ انھوں نے مجھے اپنے گھر آنے کی دعوت دی، جو اس جگہ کے قریب ہے جہاں اسرائیلی فوجی گاؤں کے مردوں کے ساتھ جھڑپ میں مصروف تھے۔

خلیل نے مجھے بتایا کہ جب اسرائیلی رات 3:30 بجے گاؤں میں داخل ہوئے تو وہ اپنے گھر پر اپنے خاندان کے ساتھ تھے۔ انھوں نے محفوظ جگہ تلاش کرنے کی کوشش کی۔

’میں اپنے بچوں کے ساتھ گھر میں تھا۔ ہم ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں گئے۔ انھوں نے میری دو بیٹیوں پر فائرنگ کی۔ ایک زخمی ہوئی اور دوسری وہیں مر گئی۔ جب میں نے اسے اٹھایا تو مجھے ہاتھ میں گولی لگی۔‘

مرنے والی لڑکی 17 سالہ ہِبہ ابو ظاہر تھی، جسے پیٹ میں گولی لگی تھی۔ خلیل نے بتایا کہ وہ دو گھنٹے تک ہِبہ کی لاش کے ساتھ ہی چھپے رہے، پھر انھیں بچا کر ہسپتال پہنچایا گیا۔

جب میں نے ان کا گھر دیکھا، تو خلیل کی نو سالہ بیٹی صوفے پر بچھے کمبل پر لیٹی تھی، جہاں وہ اپنے کولہے سے گولی نکالنے کی سرجری کے بعد صحت یاب ہو رہی تھی۔

لڑکیوں کی ماں، اُم محمد، گھر کی خواتین کے ساتھ بیٹھی تھیں اور مستقبل کے بارے میں شدید پریشان تھیں۔

انھوں نے مجھ سے کہا کہ ’ہم ذہنی سکون چاہتے ہیں۔ ہم اپنے گھروں میں رہنا چاہتے ہیں، اور ہمیں ایک کلینک اور طبی عملہ چاہیے کیونکہ یہاں کچھ نہیں ہے۔‘

’ہمیں ایک ڈاکٹر بھی چاہیے، کیونکہ بیت جن میں کوئی ڈاکٹر نہیں، نہ ہی کوئی فارمیسی۔ ہمیں صرف تحفظ چاہیے۔‘

’ہم خوف میں سوتے اور خوف میں جاگتے ہیں‘

اسد کی حکومت کے خاتمے کے ایک سال بعد، شام کے نئے حکمرانوں نے کچھ اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔

وہ اب بھی اقتدار میں ہیں حالنکہ جب انھوں نے دمشق کا کنٹرول سنبھالا تھا تو لگتا نہیں تھا کہ ایسا ہو گا۔

صدر ٹرمپ الشرع کے سب سے اہم حمایتی بن گئے ہیں۔ پابندیاں ہٹائی جا رہی ہیں۔ معیشت میں بہتری کے آثار نظر آ رہے ہیں اور کاروباری معاہدے ہو رہے ہیں، جن میں تیل اور گیس کی تنصیبات کی جدید کاری شامل ہے، اور دمشق اور حلب کے ہوائی اڈوں کی نجکاری بھی۔

لیکن جو معاہدے طے پا رہے ہیں، ان کا اثر ابھی تک زیادہ تر شامیوں کی روزمرہ زندگیوں تک نہیں پہنچا۔

حکومت کے پاس تعمیرِ نو کے لیے کوئی فنڈ نہیں۔ بحالی کا کام افراد پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ فرقہ وارانہ کشیدگیاں حل نہیں ہوئیں اور دوبارہ بھی بھڑک سکتی ہیں۔ اسرائیل کے ساتھ امریکہ کی ثالثی میں جاری مکالمہ بھی تعطل کا شکار ہے۔

بنیامن نتن یاہو اس بات پر اٹل ہیں کہ دمشق جنوبی شام کے ایک بڑے علاقے کو غیر فوجی بنائے اور وہ آئی ڈی ایف کو پیچھے ہٹنے کا کوئی عندیہ نہیں دیتے۔ دونوں مطالبے شامی خودمختاری کی بڑی خلاف ورزی کے مترادف ہیں۔ بیت جن پر چھاپہ دمشق کے لیے کوئی رعایت دینے کو مزید مشکل بنا دیتا ہے۔

دمشق کی حکومت کا مرکز شارع خود ہیں، جن کی معاونت وزیرِ خارجہ اسعد الشیبانی اور چند قابلِ اعتماد ساتھی کر رہے ہیں۔ جواب دہ حکومت کا کوئی سنجیدہ ڈھانچہ تشکیل دینے کی کوشش ہوتی نظر نہیں آتی۔

اسد خاندان کے بغیر شام یقیناً ایک بہتر جگہ ہے۔ لیکن اُم محمد نے بہت سے شامیوں کے جذبات کو ایک جملے میں بیان کر دیاکہ ’مستقبل مشکل ہے۔ ہمارے پاس کچھ نہیں، یہاں تک کہ سکول بھی نہیں۔ ہمارے بچے یہاں جہنم میں جی رہے ہیں۔ ان کے لیے کوئی تحفظ نہیں۔ ہم کیسے جیئں گے؟ ہمیں تحفظ چاہیے۔ ہم سوتے بھی خوف مںی ہیں اور جاگتے بھی خوف میں ہیں۔‘

’میں کسی مجرم کی طرح شام سے نکلا تھا اور اب وہاں میرا ہیرو جیسا استقبال ہوا‘شام کی علوی برادری اور موٹرسائیکل سوار نقاب پوش قاتلوں کا خوف: ’وہ صرف اِس لیے مارے جا رہے ہیں کیونکہ وہ علوی ہیں‘حکومت کے خاتمے سے قبل آخری لمحات میں بشار الاسد نے کیسے اپنے خاندان کواندھیرے میں رکھا؟بشار الاسد کے مفرور ساتھیوں کے محل جن میں سونے کی تجوریاں اور تہہ خانوں میں سوئمنگ پول ہیں
مزید خبریں

تازہ ترین خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More