انڈین ریاست میں ہاسٹل میں رہنے والی طالبات کے حمل ٹیسٹ کا معمہ: ’وہ کہتے ہیں ٹیسٹ لازمی ہے ورنہ ہاسٹل میں داخلہ نہیں ملے گا‘

بی بی سی اردو  |  Dec 09, 2025

Getty Imagesہاسٹل میں رہنے والی بہت سے طالبات نے بی بی سی کو تصدیق کی اور ثبوت دکھائے کہ انھیں حمل ٹیسٹ کروانے پر مجبور کیا جاتا ہے

’ہمیں میڈیکل ٹیسٹ کے لیے ایک فارم ملا۔ اس کے بعد حمل کی جانچ کی کِٹ ملی۔ یہ سب چیزیں ساتھ لے کر آپ کو ایک سرکاری ہسپتال جانا پڑتا ہے، ہسپتال میں اس فارم پر لکھ دیا جاتا ہے کہ آپ کو یو پی ٹی (یعنی پیشاب کے نمونے سے اس بات کا پتا چلانا کہ خاتون حاملہ ہے یا نہیں) کی ضرورت ہے۔ وہاں سے آپ کو دوسرے ڈاکٹر کے پاس جانا پڑتا ہے۔ ٹوائلٹ میں پیشاب کر کے اُن کے سامنے کٹ میں ڈالنا پڑتا ہے۔ اگر رپورٹ منفی آتی ہے تو وہ اس پر لکھ دیتے ہیں کہ حمل نہیں ہے۔ پھر ہمیں میڈم کے دستخط اور مہر کے ساتھ اس فارم کو پُر کر کے کالج میں جمع کروانا ہوتا ہے۔‘

یہ کہنا ہے انڈیا کی مغربی ریاست مہاراشٹر کے ایک سرکاری ہاسٹل میں مقیم طالبہ کا۔

گذشتہ ماہ (24 نومبر) اپنا پرگنینسی ٹیسٹ کرانے والی آشا (نام شناخت کے تحفظ کی غرض سے بدلا گیا ہے) کی طرح ضلع پونے کے ایک سرکاری قبائلی ہاسٹل میں کئی طالبات نے اسی نوعیت کے الزامات عائد کیے ہیں کہ کس طرح چھٹیوں سے واپسی پر انھیں ہاسٹل میں دوبارہ داخل ہونے سے پہلے انھیں حاملہ ہونے کی جانچ (یورین پرگنینسی ٹیسٹ یعنی یو پی ٹی) سے گزرنا پڑتا ہے، اس سے قطع نظر کہ قبائلی ہاسٹلوں سے متعلق حکومتی ضابطوں کے مطابق ایسے کسی ٹیسٹ کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

مہاراشٹر میں قبائل کی فلاح و بہبود اور ترقی کی کمشنر لینا بنسوڑ نے ان الزامات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ طلبا کا اس طرح کا ٹیسٹ نہیں کرایا جانا چاہیے۔

دوسری جانب انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ماضی میں ایسی کسی بھی جانچ کو روک دیا گیا تھا، لیکن اُن کے دعوؤں کے باوجود بہت سی طالبات کا کہنا ہے کہ طالبات کا یہ ٹیسٹ کروانے کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

تاہم کوئی بھی یہ بتانے سے قاصر ہے کہ آخر اس ٹیسٹ کی ضرورت کیوں پیش آ رہی ہے؟

ٹائمز آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق مقامی انتظامیہ ہسپتال پر الزام عائد کر رہی ہے کہ وہ یہ ٹیسٹ خود سے کر رہے ہیں جبکہ ہسپتال کا واضح طور پر کہنا ہے کہ انھیں ہاسٹل انتظامیہ کی جانب سے ایسا کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔

مہاراشٹر کے قبائلی ترقی کے محکمے کے زیر انتظام ایک سرکاری ہاسٹل میں رہنے والی کالج کی طالبہ سنیہا (اصل نام نہیں ہے) نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جب سے میں نے ہاسٹل میں داخلہ لیا ہے، ٹیچر کہتی ہیں کہ اگر ہر بار گھر سے واپسی پر ہم یہ ٹیسٹ نہیں کروائیں گے تو ہمیں ہاسٹل میں رہنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘

ہاسٹل کی کئی دیگر طالبات نے بھی اسی طرح کے الزامات عائد کیے ہیں۔

آشا نے بھی کہا کہ ’ہماری شکایت یہ ہے کہ سات، آٹھ دن کی چھٹیوں سے واپس آنے کے بعد بھی ہمیں یو پی ٹی ٹیسٹ کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ اسے ختم کیا جانا چاہیے۔‘

BBCایک لڑکی کا فارم، جس کا حمل ٹیسٹ 30 اکتوبر کو منفی آیا ہے

ایک اور طالبہ ریکھا (نام بدلا ہے) نے کہا کہ ’یو پی ٹی ٹیسٹ اس وقت لیا جاتا ہے جب لڑکیاں چھٹیوں کے بعد گھر سے واپس ہاسٹل آتی ہیں۔ مجھے ہاسٹل میں ہی اس ٹیسٹ کے بارے میں پتا چلا۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’وہ یو ٹی پی ٹیسٹ کے بغیر لڑکیوں کو فٹنس سرٹیفکیٹ جاری نہیں کرتے ہیں۔ وہ یہ ٹیسٹ منفی آنے کے بعد ہی سرٹیفکیٹ جاری کرتے ہیں۔‘

ان طالبات کا کہنا ہے کہ ہاسٹل واپسی پر انھیں حمل ٹیسٹ کرانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

حکومتی ضوابط کے مطابق، ہاسٹلز میں رہنے والی لڑکیوں کے لیے حمل کا ٹیسٹ کرانا لازمی نہیں ہے۔ متعلقہ حکام نے بھی اس کی وضاحت کی ہے۔

ایک اور طالبہ کا دعویٰ ہے کہ ’وہ کہتے ہیں کہ یو پی ٹی ٹیسٹ لازمی ہے، اگر آپ ایسا نہیں کریں گی تو آپ کو ہاسٹل میں داخلہ نہیں ملے گا۔‘

ذہنی تناؤGetty Imagesطالبات اور سٹوڈنٹس کی تنظیموں نے فی الفور پرگنینسی ٹیسٹ بند کرانے کا مطالبہ کیا ہے

طلباء نے اس پورے عمل کو انتہائی ’شرمناک‘ قرار دیا ہے۔

سنیہا نے کہا کہ ’ہم نے یہ مسئلہ اٹھایا ہے، لیکن ابھی تک یہ حل نہیں ہوا ہے۔‘

ایک اور طالبہ نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہ کئی مرتبہ حمل کا یہ ٹیسٹ دے چکی ہیں، اور ان کے ساتھ ہاسٹل میں موجود تمام لڑکیاں اس عمل سے گزری ہیں۔

آشا کہتی ہیں کہ اس صورتحال سے نہ صرف لڑکیوں کی تعلیم متاثر ہو رہی ہے بلکہ وہ ذہنی تناؤ کا بھی سامنا کر رہی ہیں۔

وہ مزید کہتی ہیں کہ ’یو پی ٹی کو روک دیا جانا چاہیے۔ لوگ ہمیں شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ لوگ سوچتے ہیں جب یہ شادی شدہ نہیں ہیں تو پھر یہ ٹیسٹ کیوں کروا رہی ہیں؟‘

’کنواری نہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں اس کے ساتھ ریپ نہیں ہوا‘35 سالہ خاتون کے جگر میں تین ماہ کا حمل: بچہ دانی کے بجائے جسم کے کسی اور عضو میں جنین کے نشوونما پانے کا کیس کتنا غیرمعمولی ہے؟کنوار پن سے جڑا صدیوں پرانا افسانہ جو لڑکیوں کی زندگیاں تباہ کر رہا ہےحمل کی تصدیق کے چار ہزار سال پرانے طریقے کون سے تھے؟

اسی ضلع یعنی پونے کے ایک آشرم سکول سے بھی ایسی ہی شکایت موصول ہوئی ہیں۔

مہاراشٹر کی ریاستی حکومت پہاڑی اور دور دراز علاقوں میں رہنے والے لوگوں کی سماجی اور تعلیمی ترقی کو فروغ دینے کے لیے آشرم سکول چلاتی ہے۔

مہاراشٹر میں قبائلیوں کی فلاح و بہبود کا محکمہ 552 سرکاری آشرم سکول چلاتا ہے۔

اور اسی نوعیت پر ریاست میں مختلف سطحوں پر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کے لیے سرکاری ہاسٹل چلائے جاتے ہیں۔ یہ ہاسٹل بھی قبائلی ترقی کے محکمے کے تحت آتے ہیں۔

متاثرہ طالبات کے والدین نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ آشرم سکول میں طالبات کو حمل کے ٹیسٹ کروانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ متعلقہ بنیادی صحت کے مرکز کے ایک ڈاکٹر نے بھی ان معلومات کی تصدیق کی ہے۔

آشرم سکول کی ایک طالبہ کی والدہ نے بتایا کہ ’صرف جن لڑکیوں کو ماہواری آتی ہے، اُن کا میڈیکل چیک اپ کروانا ضروری ہے۔ چیک اپ کے لیے ایک کٹ دی جاتی ہے۔ کٹ کے ذریعے پیشاب کی جانچ کی جاتی ہے۔ پھر، اگر یہ مثبت یا منفی ہے وہ اسے فارم پر لکھ دیتے ہیں۔‘

ایک دوسری لڑکی کی والدہ نے کہا کہ ’حکومت کی بھی کچھ ذمہ داری ہونی چاہیے۔ ہر لڑکی کو یہ ٹیسٹ کروانے کے لیے 150 سے 200 روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ ہر بار والدین کو خرچہ اٹھانا پڑتا ہے۔‘

ہم اس بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے متعلقہ بنیادی مرکز صحت گئے۔

ایک ڈاکٹر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’آشرم سکول کی ہدایات کے مطابق، وہ یو ٹی پی ٹیسٹ کٹس لاتے ہیں۔ ہمارے پاس بھی ٹیسٹ کٹس دستیاب ہیں۔ یہ ہمارے رجسٹر میں درج ہے۔ اس آشرم سکول میں 12ویں جماعت تک لڑکیاں پڑھتی ہیں۔‘

جب اُن سے پوچھا گیا کہ حمل کے ٹیسٹ کے دوران طالبات کے ساتھ کون آتا ہے تو انھوں نے کہا کہ ’کبھی تو والدین ہوتے ہیں، کبھی دادا دادی ہوتے ہیں، کبھی لڑکیاں اکیلی آتی ہیں۔‘

BBCبہت سی تنظیموں نے اس نوعیت کے ٹیسٹ کو فوری بند کرنے کا مطالبہ کیا ہےٹیسٹ بند کرنے کا مطالبہ

طلبہ تنظیم ’سٹوڈنٹ فیڈریشن آف انڈیا‘ نے یہ جانچ روکنے کا مطالبہ کرتے ہوئے انتظامیہ کے پاس ایک میمورینڈم جمع کرایا ہے۔

ایس ایف آئی پونے کی ضلعی صدر سنسکرت گوڈے نے کہا کہ ’جب ہم یو پی ٹی ٹیسٹ کے لیے جاتے ہیں تو ہمیں وہاں لوگوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہاں کے ڈاکٹر جس طرح سے سلوک کرتے ہیں وہ بھی ذہنی اذیت ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’ہم نے اس کے خلاف بارہا احتجاج کیا ہے۔ لڑکیوں کو یو پی ٹی ٹیسٹ کروانا انھیں ذہنی اذیت کا نشانہ بنانے کے مترادف ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ یو پی ٹی ٹیسٹ فوری طور پر بند کیے جائیں۔‘

رواں سال ستمبر میں یہ خبریں منظر عام پر آئی تھی کہ پونے کے ایک ہاسٹل میں حمل کے ٹیسٹ کرائے جا رہے ہیں۔ ریاستی خواتین کمیشن نے اس معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے ٹیسٹوں کو روکنے کا حکم دیا۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ریاستی خواتین کمیشن کی چیئرپرسن روپالی چاکنکر نے کہا کہ ’مجھے ایک ٹویٹ کے ذریعے شکایت موصول ہوئی ہے۔‘

روپالی کہتی ہیں کہ ’یہ میرے لیے بہت چونکا دینے والا تھا۔ میں نے بغیر کسی پیشگی اطلاع کے واکڈ میں موجود ایک ہاسٹل کا اچانک دورہ کیا۔ لڑکیوں کو ایک طرف لے جا کر ان سے بات کرنے کے بعد مجھے پتا چلا کہ ان میں سے کچھ کو یو پی ٹی ٹیسٹ کروانا پڑے ہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’قواعد و ضوابط میں کہیں بھی اس کا ذکر نہیں ہے۔ لڑکیوں کو پڑھائی کے دوران ایسے ٹیسٹ دینے سے ان کی خود اعتمادی ختم ہو جاتی ہے۔‘

’اس کے علاوہ، قانون میں ایسی کوئی شق موجود نہیں ہے۔ داخلے کے وقت اس ٹیسٹ کی ضرورت کا کوئی اصول نہیں ہے۔ ہم نے متعلقہ محکمے کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے نوٹس جاری کیا ہے۔‘

قبائلیوں کی ترقی کی کمشنریٹ نے اس سلسلے میں 30 ستمبر کو ایک خط جاری کیا ہے۔

اس نے ہدایت کی کہ سرکاری ہاسٹلز میں ہیلتھ چیک اپ کے دوران لڑکیوں پر حمل کے ٹیسٹ کرانے کے لیے دباؤ نہ ڈالا جائے۔

پراجیکٹ آفیسر پردیپ دیسائی نے واضح کیا کہ ’ہم کسی لڑکی کو یو پی ٹیسٹ دینے کے لیے مجبور نہیں کر رہے ہیں، ہمیں اس سلسلے میں کوئی ہدایت نہیں ملی ہے۔‘

لیکن ان دعوؤں کے باوجود کئی لڑکیوں نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں اکتوبر اور نومبر میں حمل کے ٹیسٹ کروانے پر مجبور کیا گیا۔

قبائلی ترقی کی کمشنر لینا بنسود نے کہا کہ ’محکمہ قبائلی ترقی نے واضح کر دیا ہے کہ اس طرح کے ٹیسٹ نہیں کرائے جائیں۔ کہیں بھی ایسی کوئی مجبوری نہیں ہے۔‘

پونے ڈسٹرکٹ سول سرجن ڈاکٹر ناگ ناتھ یمپلے نے کہا کہ ’یو پی ٹی ٹیسٹ چار مہینے پہلے بند کر دیا گیا ہے۔ اس سے پہلے، لڑکیوں کو ہاسٹل سے گھر واپس آنے پر اس ٹیسٹ سے گزرنے کے لیے کہا جاتا تھا۔‘

’کنواری نہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں اس کے ساتھ ریپ نہیں ہوا‘کنوار پن سے جڑا صدیوں پرانا افسانہ جو لڑکیوں کی زندگیاں تباہ کر رہا ہے35 سالہ خاتون کے جگر میں تین ماہ کا حمل: بچہ دانی کے بجائے جسم کے کسی اور عضو میں جنین کے نشوونما پانے کا کیس کتنا غیرمعمولی ہے؟انڈیا: ملازم خواتین کو برہنہ کر کے ’حمل کے ٹیسٹ‘انڈیا کے قبائلی علاقے جہاں جادو ٹونہ کرنے کے شکپر خواتین کو ’چڑیل‘ قرار دے کر قتل کر دیا جاتا ہےآن لائن کھانا، فضلے کا ڈھیر اور ایک کرسی: وہ شخص جس نے تین سال تک خود کو گھر میں بند رکھاٹوائلٹ میں خون کے دھبے اور طالبات کو برہنہ کر کے جانچ، انڈیا میں سکول پرنسپل سمیت دو افراد گرفتارسکول طالبہ کی سینیٹری پیڈز کی درخواست پر خاتون افسر کا متنازعہ بیان اور معافی
مزید خبریں

تازہ ترین خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More