لڑاکا طیارے، جنگی ہیلی کاپٹرز اور ڈرونز: ماضی میں دیگر ممالک سے اسلحہ خریدنے والا ترکی دفاعی ساز و سامان فروخت کرنے والا بڑا ملک کیسے بنا؟

بی بی سی اردو  |  Dec 09, 2025

ترکی سے تعلق رکھنے والی دفاعی سازوسامان بنانے والی پانچ کمپنیاں دنیا میں اسلحہ بنانے اور عسکری خدمات فراہم کرنے والی سو بہترین کمپنیوں کی فہرست میں شامل ہیں۔

سٹاک ہوم پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ (سپری) نے 2024 میں بہترین دفاعی سازو سامان اور عسکری خدمات فراہم کرنے والی سو کمپنیوں کی رینکنگ جاری کی ہے۔

آمدن کی بنیاد پر کی گئی اس رینکنگ یا درجہ بندی میں ترکی کی کمپنی ایسلیسن 52 ویں، بایکار 66 ویں اور ترکی کی ایرو سپیس انڈسٹریرز اس فہرست میں 75 ویں نمبر پر ہے۔

دی مشینری اینڈ کیمیکل انڈسٹری کارپوریشن اس درجہ بندی میں 93 ویں نمبر پر ہے۔

سپری کی اس تازہ ترین رینکنگ میں ترکی کی کپمنیوں کی شمولیت یہ ظاہر کرتی ہے کہ ترکی کی دفاعی صنعت وسیع ہو رہی ہے اور دنیا میں اسلحہ کی تجارت میں ترکی کا اثرروسوخ بڑھ رہا ہے۔

ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان دفاعی شعبے میں خود کفالت سے عوامی رائے اپنے حق میں ہموار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

حکومتی میڈیا کا کہنا ہے کہ دفاعی شعبے کی ترقی بین الاقوامی سطح پر ترکی کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی عکاسی کرتی ہے۔

BBCسپری کے مطابق2028 میں دفاعی پیدوار سے 11 ارب ڈالر کی آمدن کا امکان ہے۔سپری کی رینکنگ میں کون کون سی ترک کمپنیاں شامل ہیں؟

سپری کی اس رینکنگ میں شامل تمام کمپنیاں سوائے’ بایکار‘ کے حکومت کی سرپرستی میں کام کرتی ہیں جبکہ بایکار کمپنی کے سربراہ بھی ترک صدر کے داماد سلجوق بیرقدار ہیں۔

اسیلیسن کمپنی دفاعی صنعت میں استعمال ہونے والے الیکٹرونکس بنانے میں مہارت رکھتی ہے، جیسے مواصلاتی ریڈار، سینسرز، الیکٹرانک وار فیئرز وغیرہ۔

سپری کی رپورٹ کے مطابق 2024 میں اس کمپنی کی آمدن میں 25 فیصد آضافہ ہوا اور کمپنی نے تین ارب چالیس کروڑ ڈالر کمائے۔

اسیلیس کمپنی 1975 میں اُس وقت بنی جب ترکی پر اسلحے کی خریداری پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ اسکمپنی کا شمار ترکی کی ابتدائی کمپنیوں میں ہوتا ہے۔

2024 میں مزید سات ممالک نے اسیلیس کے ساتھ نئے دفاعی معاہدے کیے ہیں جبکہ مجموعی طور پر دنیا کے 92 ممالک اسیلیس ٹیکنالوجی کے خریدار ہیں۔

ترکی کی ایرو سپیس انڈسٹریز (ٹی اے آئی) ایرو سپیس اور ایوی ایشن کے شعبے میں کام کرتی ہے۔ یہ کمپنی ہیلی کاپٹر، ایئر کرافٹس اور خود کار لڑاکا گاڑیاں بناتی ہے۔

سپری کا کہنا ہے کہ 2024 میں اس کی آمدن میں 11 فیصد آضافہ ہوا اور کمپنی کی آمدن دو ارب دس کروڑ ڈالر رہی۔

ٹی اے آئی کیوسیع دفاعی پیداوار میں دفاعی آلات، مختلف طرح کے لڑاکا ڈرونز، ہیلی کاپٹر اور دیگر اشیا شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق فلپائن، تیونس، کرغستان، نائیجریا اور آزربائیجان اس کمپنی سے دفاعی سازوسامان خریدتے ہیں۔

ترکی کی کمپنی بایکار کے بیرقدار ٹی بیڈرونز کو عالمی سطح پر شہرت حاصل ہے، یہ ڈرون لیبیا، شام اور یوکرین میں استعمال ہوا ہے۔ 2024 میں اس کمپنی کی آمدن میں کچھ کمی آئی اور اس کی کُل کمائی ایک ارب نوے کروڑ ڈالر رہی۔

بایکار کمپنی کے مسلح ڈرونزTB 2 اورTB 3 دنیا کے تیس سے زائد ممالک خرید چکے ہیں۔

اسی کمپنی نے حال ہی میں ترکی کے پہلے یو اے وی (بغیر پائلٹ لڑاکا ڈرون طیارے) ’بیراکتر کزلیلما‘ بنایا ہے، جسے دفاعی صنعت کی تاریخی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے۔

ترک ساختہ ’بغیر پائلٹ لڑاکا طیارہ‘ جسے فضائی جنگ کا ’گیم چینجر‘ قرار دیا جا رہا ہےترک حکومت کے عزائم: کیا اسلحے کی صنعت اس کا نیا سیاسی ہتھیار ہے؟ترکی کے ڈرون عالمی فوجی منڈیوں میں اتنے مقبول کیوں ہو رہے ہیں؟یورپ کی فضاؤں میں منڈلاتے ’پراسرار ڈرون‘ جن کے خلاف ہزاروں کلومیٹر طویل ’دفاعی دیوار‘ بنائی جا رہی ہے

راکستان کمپنی راکٹ، بلیسٹک میزائل، آسلحہ، گولہ بارود، دیگر راکٹ لانچنگ سسٹم بناتی ہے۔

2024 میں راکستان کی آمدن ایک ارب 39 کروڑ ڈالر رہی۔

سپری کی اس فہرست میں آخری ترکش کمپنی ایم کے ای ہے، جو چھوٹے ہتھیار، آرٹلری، گولہ بارود بناتی ہے۔ اس کمپنی کی آمدن میں بھی اضافہ ہوا ہے اور کمپنی کی 2024 میں آمدن ایک ارب بیس کروڑ ڈالر رہی ہے۔

دفاعی سازو سامان کے خریداری سے فروخت تک کا سفر

ایک وقت تھا جب ترکی کا شمار دنیا میں اسلحے کے خریدار ملک کے طور پر ہوتا تھا لیکن اب ترکی کی دفاعی سازو سامان کی صنعت کی ترقی کے بعد ترکی اسلحے فروخت کرنے والے ملک کے طور پر نمایاں ہو رہا ہے۔

حالیہ چند برسوں کے دوران مختلف تنازعات کے دوران ترک ساختہ دفاعی سازوسامان نے ’گیم چینجر‘ کا کردار ادا کرتے ہوئے بین الاقوامی سطح پر کافی توجہ حاصل کی ہے۔

ترک ساختہ جنگی ڈرونز نے یوکرین، شام، لیبیا سمیت دیگر ممالک میں جاری تنازعات کے دوران اہم کردار ادا کیا ہے۔

ترک حکام کا کہنا ہے کہ وہ 80 فیصد اپنی دفاعی ضروریات مقامی طور پر پوری کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ترکی دنیا کے دیگر ممالک سے کم آسلحہ خریدتا ہے۔

سپری کے مطابق عالمی سطح پر اسلحے کی خریداری میں ترکی کا حصہ تقریباً تین فیصد تھا، جو 2024 میں کم ہو کر تقریباً ڈیڑھ فیصد ہو گیا ہے۔

ترکی نے1974 میں قبرض کے تنازعے، نوے کی دہائی میں کرد ملیشیاؤں کے خلاف لڑائی اور شام کی جنگ کے دوران خود پر عائد پابندیوں کا جواب دفاعی پیدوار کے شعبے میں خود کفالت سے دیا ہے۔

خود کفالت کی بنیاد رکھنے کے بعد جب امریکہ نے ترکی پر اسلحہ کی خریداری پر عائد پابندی اُٹھائی تو ترکی نے امریکہ سے ایف 35 طیارے خریدے اور روس سے ایس 400 ایئر ڈیفنس سسٹم خریدا۔

ترکی کی دفاعی برآمدات میں مقامی طور پر تیار کردہ ہلکے لڑاکا طیارے، جنگی ہیلی کاپٹر، بکتر بند گاڑیاں، گولہ بارود اور میزائل سسٹم بھی شامل ہیں۔

جیسے جیسے دنیا میں ترکی کے ملٹری ہارڈویئر میں دلچسپی بڑھ رہی ہے، انقرہ کی دفاعی برآمدات سے حاصل آمدن میں بھی اضافہ ہوا رہا ہے۔ 2014 میں دفاعی پیدوار کے شعبے کی آمدن ایک ارب 64 کروڑ ڈالر تھی جو اب 2024 میں بڑھ کر سات ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے۔

سپری کے مطابق2028 میں دفاعی پیدوار سے 11 ارب ڈالر کی آمدن کا امکان ہے۔

ترکی میں حکام اور حکومتی ذرائع ابلاغ تیزی سے دفاعی شعبے میں بڑھتی ’خود کفالت‘ پر زور دے رہے ہیں اور یہ صدر رجب طیب اردوغان کے سیاسی بیانیے کا مرکز بھی ہے۔

ترکی کی ڈیفنس انڈسٹری پریزڈینسی کی ویب سائٹ کے مطابق اس وقت ملک میں 1100 سے زائد پراجیکٹس پر کام ہو رہا ہے اور اس کے لیے سو ارب ڈالر سے زائد مالیت کا بجٹ مختص کیا گیا ہے۔

ملک کیدفاعی پیداوار کی صنعت ہزاروں افراد کو روزگار فراہم کر رہی ہے اور 2025 میں اس صنعت میں ملازمتوں کی تعداد ایک لاکھ دس ہزار تک ہو جائے گی۔

ترک حکام بھی دفاعی پیدوار کے شعبے کو دنیا کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے کیکوشیشوں کے طور پر دیکھتے ہیں اور وہ ٹیکنالوجی کی منتقلی کے ذریعے بین الاقوامی شراکت داروں کو ترکی کی زیر قیادت منصوبوں میں شامل ہونے کی دعوت دیتے ہیں۔

ترک ساختہ ’بغیر پائلٹ لڑاکا طیارہ‘ جسے فضائی جنگ کا ’گیم چینجر‘ قرار دیا جا رہا ہےترکی کے ڈرون عالمی فوجی منڈیوں میں اتنے مقبول کیوں ہو رہے ہیں؟یورپ کی فضاؤں میں منڈلاتے ’پراسرار ڈرون‘ جن کے خلاف ہزاروں کلومیٹر طویل ’دفاعی دیوار‘ بنائی جا رہی ہےترک حکومت کے عزائم: کیا اسلحے کی صنعت اس کا نیا سیاسی ہتھیار ہے؟
مزید خبریں

تازہ ترین خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More