ڈاکٹر وردہ کے قتل میں ملوث مرکزی ملزم ’اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے‘ ہلاک، ایبٹ آباد پولیس کا دعویٰ

بی بی سی اردو  |  Dec 15, 2025

ایبٹ آباد پولیس کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر وردہ کے اغوا اور قتل کے مقدمے میں ملوث مرکزی ملزم ایک پولیس مقابلے کے دوران ’اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے‘ ہلاک ہو گیا ہے۔

ایبٹ آباد پولیس کے ترجمان محمد اعظم نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ پولیس کو مطلوب مرکزی ملزم شمریز کے بارے میں اطلاع ملی تھی کہ وہ ایبٹ آباد کے دوردراز علاقے میرا رحمت میں روپوش ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے گرفتاری کے لیے چھاپہ مارا تو ملزم اور اس کے دو ساتھیوں نے ’پولیس پر فائرنگ کر دی۔ پولیس نے اس موقع پر اپنے دفاع میں معمولی فائرنگ کی۔ ملزمان کی جانب سے فائرنگ کا سلسلہ کافی دیر تک جاری رہا۔ جب فائرنگ کا سلسلہ تھما تو ملزم اپنے ٹھکانے پر مردہ پایا گیا۔‘

خیال رہے کہ اس کیس میں دیگر تین ملزمان پولیس کی حراست میں ہیں۔ ایبٹ آبادسے چار دسمبر کو لاپتہ ہونے والی ڈاکٹر وردہ کی لاش اسی ضلع کے نواحی علاقے سے برآمد ہونے کے بعد تفتیش کاروں نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی ایک قریبی دوست نے انھیں اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر مبینہ طور پر قتل کیا ہے۔

ایبٹ آباد کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او) ہارون الرشید کا کہنا تھا کہ مقتولہ نے دو برس قبل دبئی جانے سے پہلے 67 تولہ سونا اپنی ایک دوست کے پاس امانتاً رکھوایا تھا اور ’یہی سونا ڈاکٹر وردہ کے قتل کی وجہ بنا تھا۔‘

جبکہ ڈاکٹر وردہ کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق آٹھ دسمبر کو جب ان کی لاش پوسٹ مارٹم کے لیے لائی گئی تو اس وقت ان کی موت کو 72 گھنٹے گزر چکے تھے۔

ابتدائی پوسٹ مارٹم کے مطابق ان کو گلا گھونٹ کر مارا گیا تھا اور ان کی گردن کے اردگرد ایسے نشانات تھے جو کسی رسی یا کپڑے کے ہو سکتے ہیں، جس سے ان کی گردن کی ہڈی بھی ٹوٹ گئی تھی۔

پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق ڈاکٹر وردہ کے جسم پر تشدد کے نشانات بھی موجود تھے۔

پولیس مقابلے میں ہلاک مرکزی ملزم نے ’گلا دبا کر قتل کیا تھا‘

دریں اثنا ایبٹ آباد کے ڈسٹرکٹ پولیس افسر ہارون الرشید نے گذشتہ روز پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا ہے کہ شمریز اور ان نے ایک ساتھی نے مبینہ طور پر ڈاکٹر وردہ کا گلا دبا کر انھیں قتل کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ شمریز کا 'مرکزی کردار تھا اور یہ واردات کے بعد مفرور تھا۔ اس کی گرفتاری کے لیے پشاور اور ایبٹ آباد میں چھاپے مارے جا رہے تھے۔

’ہمیں آج اطلاع ملی کہ ملزم کشمیر کی طرف فرار ہونے کی کوشش کر رہا ہے اور ہم نے اپنی اطلاعات کی بنیاد پر مختلف چھاپہ مار ٹیمیں تشکیل دیں۔‘

ہارون الرشید کا کہنا تھا کہ 'رحمت خان کے مقام پر ملزم اپنے دو ساتھیوں کے ہمراہ فرار ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس دوران جب پولیس پارٹی نے گرفتاری کی کوشش کی تو اس نے پولیس پر فائرنگ کر دی۔

’پولیس نے اپنا دفاع کیا۔ اس دوران ملزم کے دو ساتھی رات کے اندھیرے کا فائدہ اٹھا کر فرار ہوگئے جبکہ ملزم اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے مارا گیا۔‘

ڈسٹرکٹ پولیس افسر نے مزید کہا کہ اگرچہ فرار ہونے والوں کا ڈاکٹر وردہ کے کیس سے براہ راست تعلق نہیں ہے تاہم انھیں جلد گرفتار کرنے کی کوشش کریں گے۔

’ڈاکٹر وردہ قتل کیس میں اس وقت تمام ملزمان گرفتار ہیں جس میں ڈاکٹر وردہ کی دوست، دوست کا خاوند اور دو دیگر ساتھی شامل ہیں۔ پولیس اس کیس میں ٹھوس شواہد حاصل کر رہی ہے کہ ملزمان کو عدالت سے قرار واقعی سزا مل سکے۔‘

ڈاکٹر وردہ کے اغوا اور قتل کے بارے میں ہمیں اب تک کیا معلوم ہے؟

ایبٹ آباد کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او) ہارون الرشید کا کہنا ہے کہ مقتولہ نے دو برس قبل دبئی جانے سے پہلے 67 تولہ سونا اپنی ایک دوست کے پاس امانتاً رکھوایا تھا اور ’یہی سونا ڈاکٹر وردہ کے قتل کی وجہ بنا۔‘

ایبٹ آباد پولیس کے ایک افسر نے بی بی سی کو بتایا کہ ملزمہ کے خاوند کو براہ راست قتل کے مقدمے میں نہیں بلکہ دھوکا دہی کے الزامات میں گرفتار کیا گیا۔

’تفتیش کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ ملزمہ کے خاوند نے اپنی اہلیہ کو زیور واپس کرنے سے روکا تھا اور کہا تھا کہ تمہارا وردہ کے ساتھ اور بھی لین دین ہے جب تک وہ طے نہیں ہوتا اس وقت تک زیور واپس نہ کرو۔‘

واضح رہے کہ اس سے قبل پولیس ڈسڑکٹ پولیس افسر ایبٹ آباد نے بتایا تھا کہ زیور کو بینک میں رکھ کر ایڈوانس لیا گیا تھا۔

ایبٹ آباد تفتیشی افسر کے مطابق ملزمہ کو زیور واپس کرنے سے روکنا ایک خوفناک واردات کا سبب بنا اور اب اس بات پر بھی تفتیش ہو رہی ہے کہ ملزمہ کا شوہر قتل کی سازش میں شریک تھا یا نہیں۔

ایبٹ آباد پولیس نے اس کیس میں انسداد دہشتگردی کی دفعات بھی شامل کی ہیں۔

Getty Images

پانچ دسمبر کو ڈاکٹر وردہ کے والد کی مدعیت میں درج ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ 18 اکتوبر 2023 کو دبئی جانے سے قبل ان کی بیٹی نے 67 تولہ سونے کے زیورات اپنی دوست کے پاس رکھوائے تھے۔

والد کے مطابق تقریباً تین ماہ قبل ان کی بیٹی واپس پاکستان آئیں اور جب انھوں نے اپنی دوست سے سونے کی واپسی کا مطالبہ کیا تو ملزمہ نے ٹال مٹول کیا۔

درج مقدمہ میں کہا گیا ہے کہ چار دسمبر کو ’دن تقریباً 11 بجے ملزمہ میری بیٹی کو اپنے ساتھ لے کر اپنے زیرِ تعمیر گھر گئی تھی۔ جب کافی وقت بعد میں نے بیٹی کے موبائل نمبر پر رابطہ قائم کیا تو اس کے ساتھ رابطہ نہ ہو سکا۔ جب اس کی قریبی دوست (ملزمہ) کے ساتھ رابطہ کیا تو اس نے کہا کہ اس نے ڈاکٹر وردہ کو طلائی کے زیورات واپس کر دیے ہیں۔‘

ایبٹ آباد کے ڈی پی او ہارون الرشید کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر وردہ کے اغوا کا معاملہ انتہائی سنگین تھا اور مقدمہ درج ہوتے ہی اس کیس کی تفتیش شروع کر دی گئی تھی۔

زیرِ تعمیر گھر میں قتل

ڈی پی او ہارون الرشید کہتے ہیں کہ مقتولہ خاتون ڈاکٹر نے بیرونی ملک جانے سے قبل اپنی قابل اعتماد دوست کے پاس زیور امانتاً رکھوایا تھا اور پولیس کی تفتیش میں پتا چلا کہ اس زیور کی حفاظت کرنے کے بجائے ان کی دوست نے یہ سونا بینک میں رکھوا کر پچاس لاکھ قرض حاصل کیا کیونکہ ملزمہ کے خاندان کو کاروبار میں نقصان ہوا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’جب مقتولہ ڈاکٹر بیرونی ملک سے واپس آئیں تو انھوں نے زیور کی واپسی کا تقاضا کیا۔ پہلے تو ملزمہ نے ٹال مٹول سے کام لیا مگر جب مقتولہ ڈاکٹر کا تقاضا بڑھنے لگا اور معاملہ سامنے آنے لگا تو ملزمہ نے اپنے تین ساتھیوں کے ساتھ مل کر قتل کا منصوبہ بنایا۔‘

ڈی پی او ہارون الرشید کہتے ہیں کہ ملزمہ نے ڈاکٹر وردہ کو قتل کرنے کے لیے اپنے شوہر کے کاروبار سے منسلک تین ملازمین کی مدد حاصل کی تھی۔

ایبٹ آباد کے تھانہ کینٹ کے ایس ایچ او زبیر تنولی تحقیقات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ ڈاکٹر وردہ کے خاندان نے پولیس کو مقتولہ کے اغوا کی اطلاع واقعہ رونما ہونے کے آٹھ گھنٹے بعد کی تھی۔

زبیر تنولی کہتے ہیں کہ مقتولہ ملزمہ کے ہمراہ 11 بجے کے بعد ہسپتال سے گئی تھیں اور سی سی ٹی وی کیمروں کا جائزہ لیتے ہوئے معلوم ہوا کہ ڈاکٹر وردہ ملزمہ کے ساتھ اپنی مرضی سے گئی تھیں۔

’میں کسی مجرم کی طرح شام سے نکلا تھا اور اب وہاں میرا ہیرو جیسا استقبال ہوا‘خوبصورت بچیوں کو قتل کرنے والی خاتون گرفتار: ’خوف تھا کہ یہ بڑی ہو کر مجھ سے زیادہ خوبصورت ہو جائیں گی‘’بدکردار بیوی یا خفیہ جاسوس‘؟ اس عورت کی کہانی جسے تاریخ نے سب سے زیادہ نفرت کی نگاہ سے دیکھا’خاموش رہ کر میں اُس کی اے ٹی ایم مشین بن گئی‘: شوہر اپنی شریک حیات کو نجی تصاویر کے ذریعے کیوں بلیک میل کر رہے ہیں؟

تھانہ کینٹ کے ایس ایچ او کا کہنا ہے کہ ابتدائی طور پر انھیں ملزمہ نے بتایا تھا کہ مقتولہ کو زیورات واپس کر دیے گئے تھے اور اس کے بعد ڈاکٹر وردہ کا ان سے کوئی رابطہ نہیں ہوا۔

’مگر یہ بات پولیس کو مطمئن نہ کرسکی۔ اردگرد کے سی سی ٹی وی کیمروں کا جائزہ لیا گیا تو پتا چلا کہ ایک گاڑی زیر تعمیر گھر والی سڑک میں داخل ہوتی ہے اور پھر دس منٹ بعد واپس چلے جاتی ہے۔‘

تھانہ کینٹ کے ایس ایچ او زبیر تنولی مزید کہتے ہیں کہ پولیس کو ملزمہ کے ڈرائیور نے بتایا کہ ان کی مالکن مقتولہ کے ساتھ گھر آئیں تھیں اور انھوں نے ڈرائیور سے کہا کہ وہ بچوں کو سکول لینے کے لیے ان کے ساتھ چلیں۔

پولیس افسر کہتے ہیں کہ ملزمہ گھر میں پہلے سے ہی موجود تین ملزمان کے پاس مقتولہ کو چھوڑ کر چلی گئیں۔

’ابتدائی تفتیش میں پتا چلا ہے کہ ملزمان نے دس سے پندرہ منٹ میں پھندا لگا کر مقتولہ کو قتل کیا اور ملزمان جس گاڑی میں آئے تھے اسی گاڑی میں مقتولہ کو لے کر دفنانے چلے گئے تھے۔‘

زبیر تنولی کا کہنا تھا کہ ملزمان نے قتل اور دفنانے کی ساری کارروائی ’اندازاً ایک گھنٹے سے کچھ زیادہ وقت میں مکمل کی۔‘

پولیس کی نظر میں یہ زیرِ تعمیر گھر مشکوک ہو چکا تھا اور اسی وقت وہاں تلاشی لینے کا فیصلہ کیا گیا۔

زبیر تنولی کہتے ہیں کہ جب اس زیرِ تعمیر گھر میں تلاشی کے لیے پولیس پہنچی تو انھیں بتایا گیا کہ اس گھر کی چابی ایک ملازم کے پاس ہے اور وہی گھر کی تعمیر کروا رہا ہے۔

’پولیس کو پتا چلا کہ ملزمہ کا اپنے اس ملازم کے ساتھ قریبی رابطہ تھا اور جب جدید طریقوں سے تفتیش کو آگے بڑھایا گیا تو ایک مشتبہ نمبر ملا۔‘

پولیس کا کہنا ہے کہ جب ملازم سے تفتیش ہوئی تو اس نے بتایا کہ ڈاکٹر کو قتل کرکے دفنا دیا گیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ گرفتار ہونے والے تمام ملزمان آپس میں قریبی رشتہ دار ہیں۔

Getty Imagesلاش کی برآمدگی

ایبٹ آباد کے ڈی پی او ہارون الرشید کا دعویٰ ہے کہ گرفتار ملزمان نے اعتراف کیا کہ ڈاکٹر وردہ کو اغوا اور قتل کر کے تھانہ بکوٹ کی حدود میں واقع لڑی بنوٹہ جنگل میں گڑھا کھود کر دفن کیا گیا تھا۔

خیال رہے کہ پولیس کی تحویل میں دیے گئے اعترافی بیان کی عدالت میں کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔

ڈی پی او کا کہنا تھا کہ پولیس نے اب تک 100 سے زائد مقامات پر چھاپے مارے، 35 سے زائد مشتبہ افراد سے تفتیش کی، جرم میں استعمال ہونے والی گاڑیاں، طلائی زیورات سے متعلق سٹامپ پیپر اور چیک قبضے میں لے لیے ہیں۔

کیس کو جدید خطوط، تکنیکی معاونت اور ٹیم ورک کے ساتھ تیزی سے آگے بڑھایا جا رہا ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ ملزمہ کے ساتھ مل کر ڈاکٹر وردہ کو قتل کرنے والوں میں ایک چچا بھتیجا بھی ملوث ہیں، جنھیں مبینہ طور پر پیسوں کا لالچ دیا گیا تھا۔

’بیٹی کو ڈاکٹر بنانے پر اپنی جمع پونجی خرچ کر دی‘

ڈاکٹر وردہ کے والد محمد مشتاق پاکستانی فضائیہ کے ریٹائرڈ ملازم ہیں۔ مقتولہ کے خاندانی دوست ڈاکٹر محمد معظم خان نے بی بی سی کو بتایا کہ ڈاکٹر وردہ کے والد اٹک کے علاقے کے رہائشی ہیں، جنھوں نے ایبٹ آباد کے نجی کالج میں بیٹی کو پڑھانے اور ڈاکٹر بنانے کے لیے اٹک سے ایبٹ آباد میں رہائش اختیار کرلی تھی۔

’ڈاکٹر وردہ کو ڈاکٹر بننے کا شوق تھا جبکہ والد کی بھی خواہش تھی کہ ان کی بیٹی ڈاکٹر بنے، جس کے لیے انھوں نے ایئر فورس سے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی ساری جمع پونجی بیٹی کو ڈاکٹر بنانے پر لگا دی تھی۔‘

ڈاکٹر محمد معظم خان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر وردہ نے سوگواروں میں دوکم عمر بچے اور خاوند چھوڑے ہیں۔

ان کے شوہر کوریا میں ملازمت کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر وردہ سنہ 2017 سے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال میں خدمات انجام دے رہی تھیں۔ ’ڈاکٹر وردہ اپنے مریضوں میں بہت مقبول تھیں۔ وہ ہمہ وقت مریضوں کے لیے دستیاب ہوتی تھیں۔‘

فیصل آباد میں بیٹے کے ہاتھوں باپ کا مبینہ قتل: پولیس کو آٹھ سال بعد گھر میں دفن ہڈیاں کیسے ملیں؟ اندھے قتل کا معمہ: وہ ’لاپتہ‘ لڑکی جس کی لاش قاتل نے قالین میں لپیٹ کر دفنا دی تھیخدا کی بستی میں ’غیرت‘ کے نام پر میاں، بیوی اور دو بچوں کا قتل جس کی ’اطلاع مبینہ قاتلوں نے خود دی‘ثنا یوسف کا قتل: ’بہن کو آواز آئی کہ شاید کوئی غبارہ پھٹا ہے‘بلوچستان وائرل ویڈیو میں قتل ہونے والی خاتون کی والدہ گرفتار، دو روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More