ترکی اور شام میں زلزلے کے عینی شاہدین: ’آؤ کم از کم ایک ساتھ ایک جگہ پر مرتے ہیں‘

ترکی زلزلہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

’میں نے اپنی زندگی میں ایسا کچھ نہیں دیکھا تھا۔ ہم تقریباً ایک منٹ تک ادھر سے ادھر جھولتے رہے۔‘

جنوبی ترکی کے شہر ادانا کے رہائشی نیلوفر اسلان پیرکی صبح ترکی سمیت شام اور لبنان میں آنے والے شدید زلزلے کی ہولناکی کے بارے میں بات کر رہے تھے۔

ترکی کے شہر ادانا میں اسلان نے بی بی سی کو زلزلے کے وقت کے بارے میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’جب اپارٹمنٹ کی پانچ منزلہ عمارت ہلنے لگی تو مجھے یقین ہو گیا تھا کہ اب میرا خاندان نہیں بچے گا۔ مجھے لگا ہم زلزلے میں مر جائیں گے۔‘

انھیں دوسرے کمروں میں موجود اپنے عزیزوں کو پکارنے کی بات یاد ہے۔ وہ کہتے ہیں ’میں نے کہا یہ تو زلزلہ ہے، آؤ کم از کم ہم ایک ساتھ ایک ہی جگہ مرتے ہیں۔ بس یہی بات میرے ذہن میں آئی۔‘

جب زلزلہ تھم گیا تو اسلان باہر بھاگے اور انھوں نے دیکھا کہ ان کے ارد گرد کی چار عمارتیں زمین بوس ہو چکی ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ’میں بھاگتے وقت اپنے ساتھ کچھ نہیں لے سکا، صرف چپل میں باہر نکلا تھا۔‘

ترکی کے جنوب مشرقی علاقے غازی انتیپ میں پیر کی صبح 7.8 شدت کے زلزلے میں سینکڑوں افراد ہلاک جبکہ متعدد عمارتیں زمین بوس ہو گئی ہیں۔

ترکی، زلزلہ

،تصویر کا ذریعہANADOLU AGENCY VIA GETTY IMAGES

،تصویر کا کیپشندیار بکر میں امدادی کارروائیاں جاری، ریسکیو ورکرز لوگوں کو بچانے میں مصروف

ترک وزیر داخلہ سليمان صويلو کے مطابق خوفناک زلزلے سے 10 شہروں میں تباہی ہوئی ہے جن میں غازی انتیپ، قہرمان مرعش، حطائے، عثمانیہ، آدیامان، مالاطیہ، شانلیعرفا، آدانا، دیار بکر اور کیلیس شامل ہیں۔

عثمانیہ کے گورنر نے کہا ہے کہ صوبے میں 34 عمارتیں تباہ ہوئی ہیں۔ آن لائن، ترکی سے ایسی متعدد ویڈیوز شیئر کی گئی ہیں جن میں رہائشی عمارتیں گرتی ہوئی دیکھی جا سکتی ہیں جبکہ امدادی کارکنان ملبے تلے دبے افراد کی تلاش میں ہیں۔

زلزلے کے فوراً بعد بی بی سی نے ترکی سمیت دیگر ممالک میں اس زلزلے میں زندہ بچ جانے والے چند افراد سے بات کر کے ان کی تاثرات جاننے کی کوشش کی ہے۔

ترکی، زلزلہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنترک شہر مالاطیہ میں رہائشی عمارتوں کا ملبہ

’ہمارے سامنے عمارت کی کھڑکیاں ٹوٹ گئیں‘

ترکی کے شہر ملاطیہ میں رہنے والی 25 سالہ اوزگل کوناکچی کا کہنا ہے کہ وہ زلزلے سے تو بچ گئیں لیکن آفٹر شاکس اور سرد موسم ان کے لیے پریشان کن ہے۔

انھوں نے بی بی سی ترکی کو بتایا کہ ’ملبے تلے افراد کی تلاش اور ریسکیو کی کوششیں جاری ہیں۔ یہاں بہت سردی ہے اور اس وقت برفباری ہو رہی ہے۔ ہر کوئی سڑکوں پر ہے، لوگ پریشان ہیں کہ کیا کریں۔ ہماری آنکھوں کے سامنے، آفٹر شاکس کی وجہ سے ایک عمارت کی کھڑکیاں ٹوٹ گئی تھیں۔‘

جب زلزلہ آیا تو کوناکچی اور ان کے بھائی صوفے پر سو رہے تھے۔

انھوں نے بتایا کہ ’ہم نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور کہا ’کیا تم ہل رہے ہو؟‘ میں نے لیمپ کی طرف دیکھا، ایسا لگتا تھا کہ وہ گر پڑے گا۔ جیسے ہی ہمارا تین سالہ بھتیجا کمرے میں داخل ہوا ہم نے صوفے سے چھلانگ لگا دی۔‘

انھوں نے کہا کہ ان کی عمارت کو نقصان پہنچا ہے لیکن آس پاس کی پانچ عمارتیں گر گئی ہیں۔

انھوں نے مزید بتایا کہ ’شہر میں ٹریفک جام ہے کیونکہ لوگ آفٹر شاکس کے خوف کے باعث عمارتوں سے دور جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

ترکی، زلزلہ

،تصویر کا ذریعہANADOLU AGENCY VIA GETTY IMAGES

،تصویر کا کیپشنمالاطیہ میں زلزلے میں تباہ ہونے والی گاڑیاں

’مجھے ایسا لگا جیسے میں بچے کے جھولے میں ہوں‘

ترکی کے علاوہ شام کے شہریوں نے بھی صبح سویرے آنے والے شدید زلزلے کے بعد اپنے خوف و اضطراب کے بارے میں بات کی ہے۔

شام کے دارالحکومت دمشق کے ایک رہائشی ثمر نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا ’گھر کی دیواروں سے پینٹنگز گر پڑیں۔ میں گھبرا کر اٹھ بیٹھا۔ اب ہم سب کپڑے تبدیل کر کے دروازے پر کھڑے ہیں۔‘

ترکی کے پڑوسی ملک شام سے بھی تباہی کی اطلاعات ہیں۔

شام کا شہر حلب زلزلے کے مرکز سے دو گھنٹے کی مسافت پر ہے جہاں بڑی تعداد میں عمارتیں زمیں بوس ہو گئی ہیں۔ محکمۂ صحت کے ڈائریکٹر زیاد طحہ نے بتایا ہے کہ زلزلے کے بعد بڑی تعداد میں زخمیوں کو ہسپتال لایا جا رہا ہے۔

شام میں امدادی ادارے وائٹ ہیلمٹس کے ایک کارکن اسماعیل ال عبداللہ ترکی کی سرحد کے ساتھ واقع سرمادہ میں امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔

’شام کے شمال مغربی علاقوں میں بہت سی عمارتیں گر چکی ہیں۔ مدد کی شدید ضرورت ہے۔ ہمیں بین الاقوامی برادری کی امداد کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے لوگوں کی جانیں بچانے کے لیے سب کی ضرورت ہے۔‘

ترکی کے شہر غازی انتپ کے ایک رہائشی اردم نے زلزلے کی کیفیت کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’میں خود کو بچے کے جھولے میں محسوس کر رہا تھا۔‘ انھوں نے فون پر روئٹرز کو بتایا کہ ’میں نے 40 برس میں کبھی ایسا کچھ محسوس نہیں کیا۔ ہر کوئی اپنی گاڑیوں میں بیٹھا ہے یا پھر عمارتوں سے دور کھلی جگہوں پر گاڑی لے جانے کی کوشش کر رہا ہے۔‘

’میرا خیال ہے کہ غازی انتیپ میں ایک بھی شخص اب اپنے گھر میں نہیں ہو گا۔‘

’میرے اردگرد تباہ شدہ عمارتیں ہیں، گھروں میں آگ لگی ہوئی ہے‘

ترکی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ترکی کے شہر پزارجک میں ایک شخص نے بتایا کہ ان کا خاندان زلزلے کے شدید جھٹکوں سے بیدار ہوا تھا اور نقصان کا جائزہ لینے کے لیے انھوں نے سردی اور بے چینی کے عالم مین طلوع آفتاب کا انتظار کیا۔

نہاد آلتنداغ نے دی گارڈین کو بتایا ’میرے اردگرد تباہ شدہ عمارتیں ہیں، گھروں میں آگ لگی ہوئی ہے۔ ایسی عمارتیں ہیں جن میں دراڑیں پڑ رہی ہیں۔ جہاں میں اب ہوں وہاں سے صرف 200 میٹر کے فاصلے پر ایک عمارت گری ہے۔ لوگ اب بھی باہر ہیں اور سب خوفزدہ ہیں۔‘

پوری عمارت لرز اٹھی مجھے لگا کوئی دھماکہ ہوا: لبنانی طالبعلم

زلزلے کے مقام سے قریب 450 کلو میٹر دور لبنان کے دارالحکومت بیروت کے ایک طالب علم کا کہنا تھا ’میں کچھ لکھ رہا تھا کہ اچانک پوری عمارت کانپ اُٹھی۔ مجھے لگا کہ کوئی زور دار دھماکہ ہوا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’میں کھڑکی کے قریب کھڑا تھا اور مجھے ڈر تھا کہ یہ ٹوٹ جائے گی۔ زلزلے کے جھٹکے چار سے پانچ منٹ تک جاری رہے اور یہ خوفناک منظر تھا۔‘

دیار بکر میں بی بی سی کے نامہ نگار نے بتایا ہے کہ شہر میں ایک شاپنگ مال گِر کر تباہ ہو گیا ہے۔

غزہ کی پٹی میں بی بی سی کے پروڈیوسر رشدی ابو العوف کہتے ہیں کہ جس گھر میں وہ رہ رہے تھے وہ 45 سیکنڈ تک ہلتا رہا۔

ترکی دنیا کے سب سے زیادہ فعال زلزلے والے علاقوں میں سے ایک میں واقع ہے۔

یاد رہے کہ سال 1999 کے دوران ترکی کے شمال مغربی علاقے میں ایک بڑے زلزلے میں 17 ہزار سے زیادہ لوگ ہلاک ہوگئے تھے۔