یہ صفحہ مزید اپ ڈیٹ نہیں کیا جا رہا ہے!
بی بی سی اردو کی لائیو پیج کوریج جاری ہے تاہم یہ صفحہ مزید اپ ڈیٹ نہیں کیا جا رہا ہے۔
30 اپریل کی خبریں جاننے کے لیے یہاں کلک کریں
پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس سے مطالبہ کیا کہ وہ انڈیا کو ’ذمہ داری اور تحمل‘ کا مشورہ دیں۔ ادھر انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا ہے کہ پہلگام حملے کے ردعمل میں طریقہ کار، اہداف اور وقت کا تعین کرنے میں مسلح افواج کو ’مکمل آپریشنل آزادی‘ ہے۔
بی بی سی اردو کی لائیو پیج کوریج جاری ہے تاہم یہ صفحہ مزید اپ ڈیٹ نہیں کیا جا رہا ہے۔
30 اپریل کی خبریں جاننے کے لیے یہاں کلک کریں
،تصویر کا ذریعہReuters
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کے ترجمان سٹیفن دوجارک نے کہا ہے کہ گوتریس نے پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف اور انڈیا کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر سے ٹیلیفون پر رابطہ کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ گوتریس نے جموں و کشمیر میں حملے کی مذمت کی ہے اور قانونی طریقے سے اس حملے میں ملوث افراد کے احتساب کا مطالبہ کیا ہے۔
دوجارک کا کہنا تھا کہ سیکریٹری جنرل نے پاکستان اور انڈیا کے درمیان بڑھتے تناؤ پر تشویش ظاہر کی ہے اور کہا ہے کہ ایسی لڑائی سے گریز کرنا چاہیے جو افسوسناک نتائج کا سبب بن سکتی ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے تناؤ میں کمی کے لیے اپنے دفاتر کی خدمات کی پیشکش کی ہے۔
ادھر انڈیا کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے کہا ہے کہ وہ احتساب کے معاملے پر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل سے اتفاق کرتے ہیں۔ جے شنکر نے کہا ہے کہ اس حملے میں ملوث عناصر، منصوبہ سازوں اور سہولت کاروں کا احتساب کیا جائے گا۔
،تصویر کا ذریعہX
،تصویر کا ذریعہGetty Images
پاکستان کے سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کے درمیان ٹیلیفونک رابطہ ہوا ہے جس میں جنوبی ایشیا کی موجودہ صورت حال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
اس موقع پر وزیر اعظم شہباز شریف نے پہلگام میں حملے پر ’بے بنیاد‘ انڈین الزامات کی تردید کی اور واقعے کی غیر جانبدار اور شفاف تحقیقات کا مطالبہ دہرایا۔
انھوں نے کہا کہ پانی 24 کروڑ پاکستانیوں کی لائف لائن ہے تاہم انڈیا کی طرف سے سندھ طاس معاہدے کی معطلی ’غیر ذمہ دارانہ‘ اور ’ناقابل قبول‘ ہے۔
پی ٹی وی کے مطابق شہباز شریف نے کہا کہ ’انڈیا کی کسی مہم جوئی کی صورت میں پاکستان اپنی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا پوری طاقت سے دفاع کرے گا۔‘ انھوں نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل سے کہا کہ وہ انڈیا کو ’ذمہ داری اور تحمل‘ کا مشورہ دیں۔
پاکستان کے وزیر اعظم نے ’اس بات پر زور دیا کہ جموں و کشمیر کا حل طلب مسئلہ جنوبی ایشیا میں عدم استحکام کی بنیادی وجہ ہے۔ انھوں نے اقوام متحدہ کے سیکرتٹری جنرل پر زور دیا کہ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق اس کے منصفانہ حل کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔‘
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ سمیت بی وائی سی کے دیگر گرفتار رہنماؤں کی رہائی کے لیے بلوچستان میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ اس سلسلے میں منگل کے روز نہ صرف نوشکی میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے زیر اہتمام ایک بڑا جلسہ ہوا بلکہ بی وائی سی کے زیر اہتمام پریس کلب سے پولیس تھانہ تک مارچ کیا گیا۔
دوسری جانب بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں بیبو بلوچ، گلزادی بلوچ، صبغت اللہ شاہ اور بیبرگ بلوچ سمیت بی وائی سی، بی این پی اور نیشنل پارٹی کے 90 سے زائد رہنماؤں اور کارکنوں کی گرفتاری کے خلاف درخواست کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔
نوشکی میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے زیر اہتمام احتجاجی جلسہ شہید اصغر مینگل اسٹیڈیم میں ہوا جوکہ بی وائی سی کے رہنمائوں اور کارکنوں کی گرفتاری کے خلاف چوتھا احتجاجی جلسہ تھا۔مقامی صحافیوں کے مطابق لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے اس جلسے میں شرکت کی۔
جلسے کے شرکا سے خطاب میں سردار اختر مینگل نے خواتین رہنماؤں اور کارکنوں کی گرفتاری پر حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ انھوں نے نہ اس ریاست کے وسائل پر ڈاکہ ڈالا تھا اور نہ ہی کسی اور کے وسائل پر بلکہ وہ بلوچستان کے ان مظلوم ماؤں کے بیٹوں کی بازیابی کے لیے جدوجہد کر رہی تھیں جو کہ طویل عرصے سے لاپتہ ہیں۔
انھوں نے کہا کہ گذشتہ 70 سال کے دوران بلوچستان کے لوگوں نے ہر قسم کے مظالم برداشت کیے لیکن یہ ظلم برداشت نہیں کیا جاسکتا کہ ان کے خواتین کو گرفتار کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’بلوچستان کے لوگوں کو ایک مرتبہ پھر ایک جرنیل نے دھمکی دی ہے لیکن ماضی میں دھمکی دینے والے جرنیل آج نہیں ہیں۔ مگر بلوچستان کے لوگ میدان میں موجود ہیں۔ اس طرح وہ اب بھی ان دھمکیوں سے اپنی جدوجہد سے دستبردار نہیں ہوں گے۔‘
انھوں نے کہا کہ بی وائی سی کی خواتین رہنمائوں اور کارکنوں کی رہائی تک احتجاج کا سلسلہ جاری رہے گا۔ دوسری جانب بی وائی سی، بلوچستان نیشنل پارٹی اور نیشنل پارٹی کے 3 ایم پی او کے تحت 90 سے زائد کارکنوں کی گرفتاری کے خلاف درخواست کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔
اس حوالے سے درخواست دہندہ کے وکیل ساجد ترین ایڈووکیٹ نے بتایا کہ آج ایڈووکیٹ جنرل نے جواب دائر کرنا تھا لیکن انھوں نے کابینہ کے اجلاس کی وجہ سے کل تک مہلت کی درخواست کی۔ جبکہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنمائوں ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ ، گلزادی بلوچ ، بیبرگ بلوچ اور صبغت اللہ نے ڈسٹرکٹ جیل کوئٹہ میں بھوک ہڑتال کو ختم کی ہے۔
نادیہ بلوچ نے بتایا کہ انھوں نے یہ بھوک ہڑتال بیبو بلوچ کی ڈسٹرکٹ جیل کوئٹہ سے پشین منتقلی، دوسرے گرفتار رہنماؤں کی کوئٹہ سے دیگر علاقوں میں متوقع منتقلی اور جیل میں ان کے پاس سی ٹی ڈی کے اہلکاروں کے آنے کے خلاف بطور احتجاج شروع کی تھی۔
نادیہ بلوچ کے وکیل عمران بلوچ نے بتایا کہ وہ اور نادیہ بلوچ گزشتہ روز جیل گئے اور ان سے بھوک ہڑتال ختم کرنے کی درخواست کی جس پر انھوں نے اپنی بھوک ہڑتال ختم کردی۔
انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا ہے کہ پہلگام حملے کے ردعمل میں طریقہ کار، اہداف اور وقت کا تعین کرنے میں مسلح افواج کو ’مکمل آپریشنل آزادی‘ ہے۔
انڈین نیوز ایجنسی پی ٹی آئی اور اے این آئی کے مطابق وزیر اعظم مودی نے کہا ہے کہ پہلگام میں حملے کے بعد مسلح افواج کو ’کھلی آپریشنل آزادی‘ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلح افواج انڈیا کے ردعمل کے لیے طریقہ کار، اہداف اور وقت کا تعین کریں گی۔
انھوں نے یہ بیان ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کے موقع پر دیا جس میں وزیر دفاع راجناتھ سنگھ، قومی سلامتی کے مشیر اجیت دووال سمیت تینوں سروسز کے سربراہان موجود تھے۔
مودی نے کہا کہ دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے قوم متحد ہے اور انھیں مسلح افواج کی پیشہ ورانہ قابلیت پر مکمل اعتماد ہے۔
دلی میں بی بی سی اردو کے نامہ نگار شکیل اختر کے مطابق انڈیا میں ’ممکنہ ردعمل‘ کے بارے میں قیاس آرائیاں موجود ہیں۔ انڈین میڈیا نے یہ خبر وزیر اعظم مودی کی مسلح افواج کے سربراہوں سے ملاقات کے بعد دی ہے۔
،تصویر کا ذریعہIndian govt
پہلگام حملے کے بعد کی صورتحال پر غور کرنے کے لیے یہ میٹنگ وزیر اعظم کی رہائش گاہ پر بلائی گئی تھی مگر اس کی تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں۔
لیکن اس میں صرف مسلح افواج کے سربراہان، وزیر دفاع اور قومی سلامتی کے مشیر کی شرکت سے واضح ہے یہ صرف سلامتی کے امور پر اور ملک کی دفاعی تیاریوں پر بات چیت کے لیے بلائی گئی تھی۔
فوج کے سربراہوں سے یہ میٹنگ بدھ کی صبح قومی سلامتی سے متعلق کابینہ کی کمیٹی کے مکمل اجلاس سے ایک روز پہلے ہوئی ہے۔ یہ خبر بھی ہے کہ کل صبح وزیر خزانہ کی سربراہی میں اقتصادی امور کے اہلکاروں کی میٹنگ بھی ہو رہی ہے۔
وزیر اعظم مودی نے پہلگام حملے کے بعد ایک بیان میں کہا تھا وہ ’پہلگام میں سیاحوں پر حملہ کرنے والے دہشتگردوں اور ان کی پشت پناہی کرنے والوں کو زمین کے آخری کونے تک تلاش کریں گے اور انھیں ایسی سزائیں دی جائی گی جس کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتے۔‘
سکیورٹی کی اس اعلی اختیاراتی میٹنگ کے بعد آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت بھی وزیر اعطم سے ملنے ان کی رہائش گاہ پر پہنچے ہیں۔
پہلگام حملے کے بعد انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔ اس حملے کے لیے پاکستان کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے انڈیا نے ابتدائی قدم کے طور پر سندھ طاس معاہدہ معطل کر دیا ہے اور پاکستان سے اپنا سفارتی عملہ محدود کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔ انڈیا نے پاکستانی شہریوں کے لیے ویزا بند کر دیا گیا اور انڈیا میں موجود پاکستانی شہریوں سے ملک سے چلے جانے کے لیے گہا تھا جس کی آخری تاریخ آج تھی۔
پاکستان نے بھی جوابی کارروائی کرتے ہوئے کچھ اسی طرح کے اقدامات کیے تھے اور اعلان کیا تھا کہ وہ شملہ معاہدے سے نکل رہا ہے۔
،تصویر کا ذریعہISPR
پاکستانی فوج نے انڈیا پر سرحد پار دہشتگردی کا الزام لگایا ہے اور اپنے بقول ایسے ’ٹھوس شواہد‘ پیش کیے ہیں جو پاکستان میں گرفتار ہونے والے بعض افراد کو انڈین ’سٹیٹ سپانسرڈ‘ کارروائیوں سے جوڑتے ہیں۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے سربراہ میجنر جنرل احمد شریف چوہدری نے دعویٰ کیا کہ 25 اپریل کو جہلم سے عبدالمجید نامی شخص کو گرفتار کیا گیا جس سے آئی ای ڈی بم اور انڈین ڈرون برآمد ہوا۔
انھوں نے الزام لگایا کہ انڈیا سے چلائے جانے والے سیل کال ریکارڈنگز میں اعتراف کرتے ہیں کہ وہ ’بلوچستان سے لاہور تک دہشتگردی میں ملوث ہیں‘ اور ہینڈلرز لوگوں کی مالی معانت بھی کرتے ہیں۔
احمد شریف چوہدری نے کہا کہ ایسے شواہد موجود ہیں جو ان کارروائیوں کو انڈین فوج کے سپاہیوں سے جوڑتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کارروائیوں میں ’را نہیں، انڈین فوج ملوث ہے۔‘
تاحال انڈین حکام کی جانب سے اِن الزامات پر ردعمل نہیں دیا گیا ہے تاہم ماضی میں انھوں نے ایسے الزامات کی تردید کی ہے۔
دریں اثنا پاکستانی فوج کے ترجمان نے دعویٰ کیا کہ سرحد پار دہشتگردی کے لیے انڈین فوج میں جونیئر رینک کے سروونگ افسران بطور ہینڈلر کام کر رہے ہیں جو کہ ’سٹیٹ سپانسرڈ کراس بارڈر دہشتگردی‘ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پہلگام میں حملے کے بعد پاکستان میں کارروائی کی کوششیں ناکام بنائی گئی ہیں۔ ’ہمارے پاس ٹھوس انٹیلیجنس ہے کہ پہلگام میں حملے کے بعد بلوچستان میں دہشگردوں، فتنہ الخوارج (ٹی ٹی پی) اور دہشتگردی کے آزاد سیلز کو فعال کیا گیا۔‘
میجر جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ پہلگام میں حملے کے بعد اب تک پاکستانی فوج نے 71 شدت پسندوں کو ہلاک کیا ہے۔
،تصویر کا ذریعہPTI
انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے منگل کو وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ، قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال اور تینوں مسلح افواج کے سربراہوں کے ساتھ ایک اہم ملاقات کی۔
انڈیا کے سرکاری خبر رساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے مطابق چیف آف ڈیفنس سٹاف جنرل انل چوہان بھی اس اجلاس کا حصہ تھے۔ اجلاس میں پہلگام دہشت گردانہ حملے کے بعد انڈیا کے جوابی اقدامات پر غور بھی کیا گیا۔ واضح رہے کہ انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں کم از کم 26 افراد ہلاک ہوئے تھے، جن میں زیادہ تر سیاح تھے۔
تاہم اب تک وزیرِ اعظم نرندر مودی کی سربراہی میں ہونے والے اس اہم اجلاس سے متعلق سرکاری طور پر کوئی اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا ہے۔
انڈیا کے وزیرِ اعظم نرندر مودی نے اس حملے کے بعد اپنے ایک خطاب میں اس حملے میں ملوث دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو سخت سزا دینے کا اعلان کیا تھا۔
خیبر پختونخوا میں گزشتہ شب ایک درجن سے زائد مسلح افراد نے ضلع لکی مروت کے دیہات ’بیگو خیل‘ میں امن کمیٹی کے اراکین پر حملہ کیا ہے جوابی کارروائی میں ایک شخص ہلاک اور تین زخمی ہوئے ہیں۔
پولیس کے مطابق مسلح شدت پسندوں کی تعداد 15 سے 20 تک تھی اور انھوں نے گزشتہ شب مقامی امن کمیٹی کے ممبران پر حملہ کیا۔ لکی مروت کے ضلعی پولیس افسر جواد اسحاق نے واقع کی تصدیق کی اور بتایا کہ ’اس حملے میں ایک شخص ہلاک اور تین زخمی ہوئے ہیں۔‘
ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ ’شدت پسندوں کے حملے کا جواب مقامی لوگوں بھرپور انداز میں دیا اور جوابی کارروائی کی وجہ سے شدت پسندوں کو موقع سے فرار ہو گئے۔‘ پولیس کے مطابق حملہ آوروں میں سے ایک کا تعلق اسی گاؤں اور اسی علاقے سے بتایا گیا ہے۔
بیگو خیل امن کمیٹی کے صدر یونس خان نے بی بی سی کو بتایا کہ ’انھیں اس بات کا خدشہ تھا کہ مسلح افراد حملہ کر سکتے ہیں جس پر وہ مقامی سطح پر تیار تھے اور پھر مسلح شدت پسندوں کے ساتھ جھڑپ ہوئی جو لگ بھگ دو گھنٹے تک جاری رہی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’شدت پسندوں کے پاس بھاری ہتھیار جیسے راکٹ لانچر اور تھرمل ڈیوائسز تھیں جبکہ امن کمیٹی کے لوگوں کے پاس صرف کلاشنکوف تھیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’فائرنگ کافی دیر تک جاری رہی لیکن پولیس یا سکیورٹی فورسز کی جانب سے کوئی موقع پر نہیں پہنچ سکا۔‘
گزشتہ روز جنوبی وزیرستان لوئر کے صدر مقام وانا میں امن کمیٹی کے دفتر میں دھماکہ ہوا تھا جس میں آٹھ افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری تاحال کسی تنظیم نے قبول نہیں کی ہے۔
یہ حملہ بھی جنوبی وزیرستان لوئر میں امن کمیٹی کے لوگوں پر کیا گیا ہے۔ مقامی لوگوں نے بتایا ہے کہ دھماکہ خیز مواد دفتر اور اس کے ساتھ ایک گودام کی عمارت کی بیچ میں دیوار کے ساتھ رکھا گیا تھا۔
اس حملے میں ہلاک ہونے والوں میں کمانڈر سیف الرحمان شامل ہیں جو ابتدائی اطلاعات کے مطابق اس حملے میں زخمی ہو گئے تھے لیکن بعد میں دم توڑ گئے تھے۔ اس کے علاوہ اس حملے میں کمانڈر تحصیل بھی زخمی ہوئے ہیں۔ یہ دونوں افراد ماضی میں کمانڈر نذیر گروپ سے وابستہ تھے۔ کمانڈر نزیر کے بارے میں مقام لوگوں نے بتایا ہے کہ وہ ماضی میں کالعدم تنظیم تحریک طالبان کے رہنما کے ساتھ رہے تھے لیکن بعد میں ان سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ کمانڈر نزیر حکومت کا حمایتی گروپ سمجھا جاتا تھا۔
واضح رہے کہ جنوبی وزیرستان سمیت خیبر پختونخوا کے دیگر جنوبی اضلاع میں حالات کشیدہ بتائے گئے ہیں۔ مختلف علاقوں سے ٹارگٹ کلنگ، اغوا اور پولیس تھانوں اور گاڑیوں پر حملوں کی اطلاعات موصول ہوتی رہتی ہیں۔
جنوبی وزیرستان سمیت جنوبی اضلاع کے مختلف علاقوں سے سرکاری ملازمین کے اغوا کے واقعات رپورٹ ہو رہے ہیں جن میں سے بیشتر اب تک ان کی تحویل میں ہیں ان میں اٹامک انرجی کمیشن کے قبول خیل منصوبے کے سات ملازمین شامل ہیں جنھیں تین ماہ گزر جانے کے باوجود بازیاب نہیں کرایا جا سکا۔
سپریم کورٹ آئینی بینچ میں زیر سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ ججز تبادلہ و سنیارٹی کیس میں درخواست گزار پانچ ججز کے وکیل منیر اے ملک نے کہا ہے ’ہائیکورٹ کے کسی بھی جج کا دوسری ہائیکورٹ میں تبادلہ عارضی بنیادوں پر ہوتا ہے جبکہ مستقل طور پر کسی بھی جج کا دوسری ہائیکورٹ میں تبادلہ نہیں کیا جا سکتا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں تین ججز کے ٹرانسفر اور سنیارٹی کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔
جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس شاہد بلال، جسٹس شکیل احمد اور جسٹس صلاح الدین پنہور بینچ میں شامل تھے۔ دورانِ سماعت جسٹس محمد علی مظہر نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے پانچ درخواست گزار ججز کے وکیل منیر اے ملک سے استفسار کیا آپ نے جواب الجواب جمع کروا دیا ہے؟ منیر اے ملک نے کہا ’ابھی جواب جمع نہیں کرایا مگر جلد اپنے موکل کی ہدایات کے بعد جواب جمع کروا دیں گے۔‘
منیر اے ملک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’آئین کے آرٹیکل 200 کا اصل مطلب عارضی تبادلے ہیں، اس حوالے سے میں ماضی کے آئین سے اپنے دلائل شروع کروں گا۔‘ انھوں نے کہا کہ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 میں ججز ٹرانسفر کی کوئی شق شامل نہیں تھی، 1956 کے آئین میں ججز کے ٹرانسفر کے حوالے سے شق شامل تھی، اس شق کے تحت صدر دونوں ہائیکورٹس کے چیف جسٹسز کی مشاورت سے ٹرانسفر کر سکتا تھا، اس شق کے تحت ججز کا ٹرانسفر عارضی یا مخصوص مدت کے لیے تھا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’سنہ 1962 کے آئین کے مطابق بھی ججز کا ٹرانسفر مخصوص مدت کیلئے تھا، سنہ 1973 کے آئین میں ججز ٹرانسفر کیلئے آرٹیکل 202 تھا، اس آرٹیکل کے مطابق بھی ججز کے ٹرانسفر کی مدت اور مراعات کا تعین صدر کرتا تھا۔‘
منیر اے ملک نے مزید کہا کہ 18ویں آئینی ترمیم کے بعد ججز ٹرانسفر کیلئے آئین کے آرٹیکل 200 کے تحت ججز کا ٹرانسفر عارضی ہوگا، آرٹیکل 200 کی شق دو کے تحت ججز کا تبادلہ عارضی ہوسکتا ہے، چھبیسویں ترمیم میں آرٹیکل 200 کو نہیں چھیڑا گیا۔ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ سنہ 1935 کے تحت ٹرانسفر ہونے والے ججز کو عہدہ سنبھالنے سے پہلے حلف لینا ہوگا، جج کے عہدہ سنھبالنے کے بعد حلف لینے کی شق میں بھی ابھی تک کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔‘
منیر اے ملک نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’ججز تبادلے کا اختیار دینے والے آرٹیکل 200 کو تنہا نہیں پڑھا جا سکتا، آرٹیکل 200 پر آئین کی کچھ دیگر شقوں کا بھی اثر ہے، آرٹیکل 200 کو آرٹیکل 2 اے اور آرٹیکل 175 اے سے ملا کر ہی دیکھا جائے گا، آرٹیکل 2 اے میں واضح ہے کہ عدلیہ آزاد ہوگی۔‘
منیر اے ملک نے کہا کہ ’سنہ 1976 میں آرٹیکل 200 میں نئی شق شامل کی گئی۔ شق کے مطابق ججز کا تبادلہ ایک سال کے لیے ہوتا تھا۔ سنہ 1985 میں ترمیم کرکے تبادلے کی مدت دو سال کر دی گئی۔ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کے تحت بھی تبادلہ متعلقہ جج کی رضامندی سے مشروط تھا، سنہ 1956 اور سنہ 1962 کے آئین میں بھی تبادلہ ججز کی رضامندی سے مشروط تھا۔ سنہ 1985 کی ترمیم میں جج کی رضامندی کو ختم کر دیا گیا، ایک شق یہ بھی شامل کی گئی کہ تبادلہ تسلیم نہ کرنے والا جج ریٹائر تصور ہوگا۔‘
منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ ’ججز کا تبادلہ عوامی مفاد میں ہی ممکن ہے، ثابت کرنا ہوگا کہ موجودہ تبادلے عوامی مفاد میں کیے گئے ہیں، کسی بھی جج کو سزا دینے کیلئے تبادلے نہیں کیے جا سکتے۔
جسٹس شاہد بلال حسن نے استفسار کیا کہ ’آپ کے مطابق تبادلہ عارضی نوعیت کا ہوتا ہے، عارضی نوعیت کے تبادلے کی مدت کتنی ہوگی؟‘ وکیل منیر اے ملک نے جواب دیا کہ ’آئینی تاریخ کے مطابق تبادلے کی مدت دو سال ہوگی۔‘
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ ’موجودہ آئین میں تو دو سال کی مدت نہیں دی گئی، مدت نہ ہونے کی ایک تشریح یہ بھی ہے کہ تبادلہ غیر معینہ مدت کیلئے ہوگا۔‘
منیر اے ملک نے کہا کہ ججز کی مرضی کے بغیر تبادلہ ہو تو دو سال کی مدت لاگو ہوگی۔‘
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ’یہ تشریح بھی ہو سکتی ہے کہ جج اپنی مرضی سے غیر معینہ مدت تک ٹرانسفر ہوسکتا ہے۔‘
منیر اے ملک نے کہا کہ ’اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز ٹرانسفر سے قبل پانچ ججز کی آسامیاں خالی تھیں، آرٹیکل 200 نے صدر مملکت کو یہ اختیار دیا ہی نہیں کہ وہ آرٹیکل 175 اے کے تحت ججز کی تعیناتیاں کر سکیں، آئین اور رولز میں طے شدہ ہے کہ جج کی خالی آسامی کیلئے نامزدگی ممبر جوڈیشل کمیشن کرے گا، آئین پاکستان نے ججز کی تعیناتی کیلئے پورا طریقہ کار طے کر رکھا ہے، مستقل جج کی تعیناتی جوڈیشل کمیشن کے بغیر ہو ہی نہیں سکتی، ایسے تو ہائیکورٹ میں ججز کی خالی آسامیاں پر کرنے کیلئے صدر ہی اختیار استعمال کرتے رہیں گے۔‘
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ ’آپکی دلیل یہ ہے کہ صدر مملکت کو مستقل جج کی تعیناتی کا اختیار ہی حاصل نہیں، آپ نے کہا مستقل جج کی تعیناتی کا طریقہ کار آرٹیکل 175 اے میں موجود ہے، پانچ رکنی آئینی بینچ میں موجود ججز نے مل کر طے کیا ہے کہ آپ سے کوئی سوال نہیں پوچھا جائے گا، ہم نے طے کیا ہے جب آپکے دلائل مکمل ہونگے تو سوالات و جوابات کا ایک سیشن ہوگا، عدالتی کارروائی کے اس سوال و جواب کے سیشن میں آپ جوابات دیجیے گا۔‘
منیر اے ملک نے کہا کہ ’جی ٹھیک ہے انڈیا میں بلاتفریق ججز کا ٹرانسفر ہونا روٹین ہے۔‘
بعد ازاں عدالت نے ججز ٹرانسفر کیخلاف کیس کی سماعت کل یعنی بدھ تک کے لیے ملتوی کردی۔ درخواست گزار ججز کے وکیل منیر اے ملک کل بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
لاہور سمیت پنجاب بھر سے افغان شہریوں سمیت 12 ہزار 762 غیر قانونی طور پر مقیم باشندوں ڈی پورٹ کیا گیا ہے۔
اس سلسلے میں پنجاب پولیس کی جانب سے جاری انخلا مہم کے دوران 12 ہزار 936 غیر قانونی طور پر مقیم باشندوں کو ہولڈنگ سنٹرز پہنچایا گیا۔
ترجمان پنجاب پولیس کے مطابق غیر قانونی طور پر مقیم افراد 174 ہولڈنگ پوائنٹس پر موجود ہیں۔
ترجمان کے مطابق لاہور میں 05، صوبہ بھر میں 46 ہولڈنگ سنٹرز قائم ہیں۔
آئی جی پنجاب ڈاکٹرعثمان انور نے دعویٰ کیا ہے کہ انخلا کے عمل کے دوران انسانی حقوق کو مکمل طور پر مدنظر رکھا جا رہا ہے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
پاکستان نے کہا ہے کہ اس کے پاس جعفر ایکسپریس مسافر ٹرین پر حملے کے بارے میں قابلِ اعتماد شواہد موجود ہیں جس میں کم از کم 30 بے گناہ پاکستانی شہری ہلاک ہوئے اور درجنوں کو یرغمال بنایا گیا۔
پاکستان نے الزام عائد کیا ہے کہ یہ حملہ اس کے علاقائی حریفوں کی بیرونی معاونت سے کیا گیا تھا۔
اقوام متحدہ میں دہشت گردی کے متاثرین کی ایسوسی ایشن نیٹ ورک کے آغاز کے موقع پر بیان دیتے ہوئے پاکستان مشن کے کونسلر جواد اجمل نے کہا کہ عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ دہشت گرد حملوں کے متاثرین اور ان خاندانوں کی حمایت کرے جن کی زندگیاں ان سانحات کے نتیجے میں ہمیشہ کے لیے بدل جاتی ہیں۔
جواد اجمل نے مطالبہ کیا کہ دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو جوابدہ ٹھہرایا جائے اور تنازع زدہ علاقوں کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے امتیاز کے بغیر نقطہ نظر اپنایا جائے۔
انھوں نے مزید کہا کہ دہشت گردی اور حق خودارادیت کی جائز جدوجہد کے درمیان واضح فرق کرنا بھی لازمی ہے۔
انھوں نے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام، ضلع اننت ناگ میں حالیہ حملے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس حملے میں سیاحوں کی قیمتی جانوں کے ضیاع پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہیں۔
بی بی سی ہندی کے مطابق اقوام متحدہ میں انڈیا کی نائب مستقل مندوب یوجنا پٹیل نے اسی فورم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پوری دنیا نے پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف کو ایک حالیہ ٹیلی ویژن انٹرویو میں یہ اعتراف کرتے ہوئے سنا ہے کہ پاکستان کی دہشت گرد تنظیموں کی حمایت، تربیت اور فنڈنگ کی تاریخ ہے۔
سکائی نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو کے دوران خواجہ آصف سے سوال کیا گیا تھا کہ ’کیا آپ اس بات کو قبول کریں گے کہ پاکستان طویل عرصے سے ان دہشت گرد تنظیموں کی مالی معاونت اور تربیت کر رہا ہے؟
خواجہ آصف نے جواب دیا تھا کہ 'ہم تین دہائیوں سے یہ 'گھناؤنا کام' امریکہ کے کہنے پر کر رہے ہیں، برطانیہ سمیت مغربی ممالک بھی اس میں ملوث ہیں، یہ ایک غلطی تھی اور ہم اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں
،تصویر کا ذریعہRADIO PAKISTAN
پاکستان نے لائن آف کنٹرول پر فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے والے انڈین کواڈ کاپٹر کو مار گرانے کا دعویٰ کیا ہے۔
پاکستانی سکیورٹی ذرائع کے حوالے سے سرکاری ریڈیو نے خبر دی ہے کہ انڈیا نے کواڈ کاپٹر کی مدد سے بھمبھر کے علاقے مناور سیکٹرمیں جاسوسی کرنے کی کوشش کی۔
خیال رہے کہ 22 اپریل کو پہلگام، انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں ایک دہشتگرد حملے میں 26 سیاح ہلاک ہوئے۔ اس حملے کے بعد انڈیا نے پاکستان کے خلاف غیر معمولی نوعیت کے اقدامات کرتے ہوئے انڈس واٹر ٹریٹی (سندھ طاس معاہدہ) کو معطل کر دیا، واہگہ اٹاری سرحد بند کی، ویزا سہولتیں واپس لیں اور سفارتی روابط محدود کیے۔
اس کے جواب میں پاکستان نے بھی کئی اقدامات کا اعلان کیا ہے جن میں دونوں ملکوں کے درمیان ہونے والے تمام دو طرفہ معاہدے، جن میں شملہ معاہدہ بھی شامل ہے، معطل کر دیے گئے ہیں، اس کے علاوہ فضائی حدود اور سرحد بند کرنے کے علاوہ تجارت کا عمل معطل، انڈیا کے لیے پاکستان کی فضائی حدود استمعال کرنے پر پابندی اور سفارتی سطح پر انڈیا کو جواب دیتے ہوئے بھی متعدد پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔ پاکستان نے بھی انڈیا کی طرح دفاعی اتاشیوں اور ان کے معاونین کو ملک چھوڑنے اور اور سفارتی عملہ محدود کرنے کو کہا ہے۔
پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی نے انڈیا کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس معاہدے کے تحت پاکستان کے حصے کے پانی کے بہاؤ کو روکنے یا اس کا رخ موڑنے کی کوئی بھی کوشش کو جنگی اقدام تصور کیا جائے گا جس کا پوری قوت سے جواب دیا جائے گا۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
سابق وزیر اعظم عمران خان کی اہلیہ بشری بی بی کی جیل میں بہتر سہولیات فراہم کرنے کی درخواست پر اسلام آباد ہائیکورٹ میں سماعت ہوئی جبکہ جیل حکام نے اس سے متعلق ایک تفصیلی رپورٹ عدالت میں پیش کی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس راجہ انعام امین منہاس نے کیس کی سماعت کی۔
ایڈوکیٹ جنرل آفس نے جیل سپریٹنڈنٹ کی رپورٹ عدالت میں جمع کروا دی۔
عدالت میں بشری بی بی کی جانب سے وکیل عثمان گل اور ظہیر عباس ایڈوکیٹ عدالت میں پیش ہوئے۔
بشری بی بی کو جیل میں کیا سہولیات میسر ہیں اس سے متعلق جیل سپریٹنڈنٹ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بشری بی بی کی اہل خانہ، وکلا اور دیگر افراد سے بغیر کسی رکاوٹ ملاقات کرائی جا رہی ہے۔
’بشری بی بی کو جیل میں الگ کشادہ کمرے میں رکھا گیا ہے جہاں چہل قدمی کی بھی گنجائش ہے، اور خاتون طبّی معالج بھی دستیاب ہے، بشری بی بی کا دن میں 2 بار طبی معائنہ کیا جاتا ہے۔‘
رپورٹ کے مطابق بشری بی بی کو میٹرس، کرسی ٹیبل اور کتابوں کی الماری بھی فراہم کی گئی ہے۔
’بشری بی بی کے کمرے میں لائٹ اور پنکھا موجود ہے، موسم گرما میں روم کولر فراہم کیا گیا ہے۔‘
جیل سپریٹینڈنٹ کی رپورٹ کے مطابق بشری بی بی کو جیل میں ایل سی ڈی کی سہولت بھی موجود ہے۔
انھیں جیل میں علیحدہ کچن کی صورت میں کوکنگ کی سہولت بھی دی گئی ہے، ان کے کھانے کا پہلے میڈیکل آفیسر معائنہ کرتا ہے،
یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بشری بی بی کو کموڈ، واش بیسن اور باتھ شاور کے لیے الگ روم دیا گیا ہے۔
عدالت نے جیل سہولیات سے متعلق رپورٹ درخواست گزار کے وکیل کو فراہم کرنے کی ہدایت کر دی اور کہا کہ آپ رپورٹ دیکھ لیں آئندہ سماعت پر اپنا موقف پیش کریں۔
،تصویر کا ذریعہANI
انڈیا میں اپوزشن جماعت کانگرس نے پہلگام حملے کے حوالے سے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں خصوصی اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا ہے۔
اس حوالے سے لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے وزیر اعظم نریندر مودی کو خط لکھا ہے۔
راہل گاندھی نے کہا ہے کہ پہلگام میں حملے سے ہر ہندوستانی ناراض ہے، اس نازک وقت میں انڈیا کو دکھانا ہوگا کہ ہم دہشت گردی کے خلاف ہمیشہ متحد رہیں گے۔
راہل گاندھی نے مزید لکھا کہ اپوزیشن کا خیال ہے کہ پارلیمینٹ کے دونوں ایوانوں میں ایک خصوصی اجلاس بلایا جانا چاہیے، جہاں عوام کے نمائندے اپنے اتحاد اور عزم کا مظاہرہ کر سکیں۔
انھوں نے اس خصوصی اجلاس کو جلد از جلد بلانے کی اپیل کی ہے۔
خیال رہے کہ گذشتہ ہفتے انڈیا کے زیر انتظام کشیمر کے علاقے پہلگام میں ایک دہشت گردانہ حملہ ہوا تھا، جس میں 26 افراد ہلاک ہو گئے تھے اورمتعدد زخمی ہوئے تھے۔
،تصویر کا ذریعہReuters
کینیڈا میں عام انتخابات میں لبرل پارٹی کے مارک کارنی کو برتری حاصل ہو گئی ہے۔
جیت کے بعد اوٹاوا میں اپنی پہلی تقریر میں انھوں نے عوام سے کہا کہ میرا ایک سوال ہے کینیڈا کے لیے میرے ساتھ کون کھڑا ہو گا۔
وہاں موجود ان کے حامی ان کے نام کے نعرے لگا رہے تھے۔
مارک کارنی نے کہا کہ وہ کئی ماہ سے خبردار کر رہے ہیں کہ امریکہ ہماری زمین، ہمارے وسائل اور ہمارا ملک چاہتا ہے، صدر ٹرمپ ہمیں توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ امریکہ ہم پر قبضہ کر لے جو کہ کبھی نہیں ہوگا۔
59 سالہ کارنی جو اس سے قبل سابق وزیراعظم ٹروڈو کے مشیر کے طور پر کام کر چکے ہیں۔
ہارورڈ سے پڑھے ہوئے کارنی نے کبھی کوئی سرکاری عہدہ نہیں سنبھالا لیکن ان کا اقتصادی تجربہ شاندار ہے۔
وہ کینیڈا اور برطانیہ کے اہم بینکوں کے سربراہ رہ چکے ہیں۔
ماہرین کی جانب نے لبرل پارٹی کی برتری کو غیر معمولی قرار دیا جا رہا ہے۔
اس سے قبل کنزرویٹو پارٹی کے پیری پولیور نے اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ وہ نئی حکومت کے ساتھ مل کر کام کریں گے تاکہ صدرٹرمپ کی جانب سے ٹیرف اور دیگر اقدامات کا مقابلہ کر سکیں۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
ایرانی پورٹ دھماکے کی وجوہات کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی نے ایک نیا بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ کمیٹی کی رائے میں حفاظتی اصولوں پر عمل نہ کرنا اور غیر فعال دفاع واضح ہے۔
خیال رہے کہ پورٹ پر دھماکے اور آگ لگنے سے مرنے والوں کی تعداد 70 ہو گئی اور ہرمزگان کے گورنر کے مطابق 22 افراد تاحال لاپتہ ہیں جب کہ 22 نامعلوم لاشیں ہیں جن کی فرانزک ڈاکٹرز شناخت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ایران کی وزارت داخلہ نےاعلان کیا کہ آگ بجھانے کا آپریشن ختم ہو گیا ہے، لیکن ہرمزگان کے گورنر نے کہا ہے کہ متاثرین کے لیے امدادی کارروائیاں ابھی بھی جاری ہیں اور ’ہمیں علاقے کی صفائی میں کئی دن لگیں گے‘ اور کنٹینرز کو منتقل کرنے میں ’دو ہفتے تک‘ لگ سکتے ہیں۔
کمیٹی نے ایک بیان میں اعلان کیا کہ کچھ معاملات میں ’جھوٹے بیانات‘ تھے اور یہ کہ سکیورٹی اور عدالتی ادارے قصورواروں کی شناخت کے لیے کوشاں ہیں۔
بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’اس واقعے کی وجہ کا تعین کرنے کے لیے اس کے مختلف پہلوؤں کی مکمل اور جامع جانچ کی ضرورت ہے، جس کے لیے ماہرین کی ضروریات کے مطابق، تکنیکی اور لیبارٹری کے عمل کی ضرورت ہے۔‘
ایرانی وزیر داخلہ سکندر مومنی نے کہا ہے کہ ’کرائسس ہیڈ کوارٹر اور صوبائی سکیورٹی کونسل کے مشترکہ اجلاس منعقد کیے گئے ہیں، کچھ مجرموں کو طلب کیا گیا ہے، اور کچھ کی تلاش جاری ہے۔‘
،تصویر کا ذریعہAFP
کینیڈا میں عام انتخابات ہو رہے ہیں اور اس سلسلے میں پولنگ کے بعد ووٹوں کی گنتی جاری ہے۔
ابتدائی نتائج بھی آنا شروع ہو گئے ہیں جس میں لبرل پارٹی سبقت لیتی دکھائی دے رہی ہے۔
کینیڈا کے اس الیکشن میں اصل مقابلہ لبرل پارٹی اور کنزرویٹو پارٹی کے درمیان ہے۔
سرکاری خبررساں ادارے سی بی سی کے مطابق ابتدائی نتائج میں بظاہر ایسا لگتا ہے کہ مارک کارنی کی لبرل پارٹی کو ہاؤس آف کامنز میں اتنی سیٹیس مل جائیں گی کہ وہ حکومت بنا لے۔
ماہرین اب تک آنے والے نتائج کو حیران کن قرار دے رہے ہیں تاہم ان کا کہنا ہے کہ مکمل نتائج آنے سے پہلے حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ انتخابات میں جیت کس کی ہوئی۔
سی بی سی نیوز نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ واضح نہیں ہے کہ آیا پارٹی کو 343 سیٹوںپر مشتمل پارلیمنٹ میں قطعی اکثریت ملے گی۔
لبرل پارٹی کے صدر دفتر میں حامیوں میں کافی جوش و خروش پایا جاتا ہے۔
رجحانات کے اعلان کے بعد پارٹی کے ایک حامی نے سی بی سی کو بتایا کہ ’کینیڈا کی تاریخ میں یہ سب سے بڑی واپسی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ بہت اہم ہے کہ کارنی اس وقت آگے آئے جب کینیڈا کو ان کی ضرورت تھی۔’
سی بی سی کے مطابق مارک کارنی کی پارٹی کینیڈا میں حکومت بنانے کے لیے کافی نشستیں جیت سکتی ہے۔ چاہے اسے قطعی اکثریت نہ ملے۔
کینیڈا کی سیاست میں لبرل پارٹی گذشتہ چند مہینوں سے کافی دباؤ کا شکار ہے۔ جسٹن ٹروڈو کو انھیں حالات میں ہی استعفیٰ دینا پڑا۔
وہ پارٹی جو چند ماہ قبل تک تقریباً ختم سمجھی جاتی تھی، اب چوتھی بار اقتدار میں آسکتی ہے۔
بی بی سی کے نامہ نگار انتھونی زرکر کا خیال ہے کہ لبرل پارٹی کی جیت میں ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کا بھی کردار تھا۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس ہوا جس میں مشترکہ مفادات کونسل کی پہلگام واقعے کے بعد انڈیا کے یکطرفہ اقدامات کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے انھیں ’غیر قانونی اور غیر ذمہ دارانہ‘ قرار دیا گیا۔
مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں کہا گیا کہ ’پاکستان ایک پر امن اور زمہ دار ملک ہے لیکن ہم اپنا دفاع کرنا خوب جانتے ہیں۔‘ اجلاس کے بعد کونسل کے جاری کردے اعلامیے میں کہا گیا کہ ’سندھ طاس معاہدے کی معطلی اور پاکستان کا پانی روکنے کی صورت میں پاکستان اپنے آبی مفادات کے تحفظ کا حق رکھتا ہے۔‘
مشترکہ مفادات کونسل نے نئی نہروں کے حوالے سے بھی فیصلہ کیے جن کے مطابق ’وفاقی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ سی سی آئی سے باہمی مفاہمت کے بغیر کوئی نئی نہر تعمیر نہیں کی جائے گی۔‘
فیصلہ کے مطابق ’وفاقی حکومت اس وقت تک آگے نہیں بڑھے گی جب تک صوبوں کے درمیان باہمی افہام و تفہیم پیدا نہیں ہو جاتی۔ تمام صوبائی حکومتوں کو پاکستان بھر میں زرعی پالیسی اور پانی کے انتظام کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے لیے طویل مدتی متفقہ روڈ میپ تیار کرنے کے لیے شامل کیا جائے گا۔‘ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ تمام صوبوں کے پانی کے حقوق آبی تقسیم معاہدے 1991 اور واٹر پالیسی 2018 میں شامل ہیں۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
خدشات دور کرنے لیے کمیٹی کا قیام
’تمام صوبوں کے خدشات کو دور کرنے اور پاکستان کی خوراک اور ماحولیاتی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی جا رہی ہے جس میں وفاق اور تمام صوبوں کی نمائندگی ہوگی۔ کمیٹی پاکستان کی طویل مدتی زرعی ضروریات اور تمام صوبوں کے پانی کے استعمال کا حل تجویز کرے گی۔‘
اعلمیے میں کہا گیا ہے کہ ’پانی سب سے قیمتی اشیا میں سے ایک ہے اور آئین سازوں نے اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے پانی کے تمام تنازعات کو باہمی افہام و تفہیم کے ذریعے خوش اسلوبی سے حل کرنے کا پابند کیا ہے اور کسی بھی صوبے کے خدشات کو تمام سٹیک ہولڈرز کے درمیان مناسب غور و خوض کے ذریعے حل کیا جائے گا۔‘
کونسل نے فیصلہ کیا کہ نئی نہروں کی تعمیر کے لیے سات فروری 2024 کی عبوری ایکنک منظوری اور 17 جنوری 2024 کو اپنے اجلاس میں جاری ارسا پانی کی دستیابی کا سرٹیفکیٹ واپس کیا جائے۔
کونسل نے پلاننگ ڈویژن اور ارسا کو ہدایت کی کہ وہ تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کو یقینی بنائیں اور باہمی مفاہمت تک پہنچنے تک تمام خدشات کو دور کریں۔
بلوچستان کے ضلع نوشکی میں ایک ٹرک میں آگ لگنے سے کم از کم 40 سے زائد افراد زخمی ہوگئے ہیں۔
سرکاری حکام کے مطابق زخمی ہونے والے لوگ ٹرک میں آگ لگنے کے بعد جمع ہوئے تھے جو کہ ٹرک کا ٹینک پھٹنے کی وجہ سے اس کی لپیٹ میں آگئے۔ زخمیوں کو طبی امداد کی فراہمی کے لیے ٹیچنگ ہسپتال نوشکی منتقل کیا گیا ۔
ٹیچنگ ہسپتال نوشکی کے ایم ایس ڈاکٹر ظفر مینگل کے مطابق زخمیوں میں سے بعض کی حالت تشویشناک ہے جن کو مزید علاج کے لیے کوئٹہ منتقل کیا گیا۔
آگ لگنے کی وجوہات کے بارے میں نوشکی پولیس کے ایک اہلکار نے بتایا آگ لگنے کے بعد ٹرک کے ڈرائیور نے لوگوں کو نقصان سے بچانے کے لیے اسے آبادی سے دور خیصار پل کے قریب لے گیا۔
پولیس اہلکار کا کہنا تھا آگ بجھانے کے لیے نہ صرف نوشکی شہر میں موجود فائر بریگیڈ کی گاڑی پہنچ گئی تھی بلکہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد بھی وہان پہنچی تھی۔
انھوں نے بتایا کہ ان میں سے بعض لوگ وہاں آگ بجھانے کی کوششوں میں مصروف تھے کہ اس دوران آگ کی شدت میں اچانک اضافہ ہوا جس سے نہ صرف وہاں پر موجود لوگ بلکہ فائر بریگیڈ کی گاڑی بھی اس کی لپیٹ میں آگئی۔
نوشکی میں میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ٹرک کا ٹینک پھٹنے کی وجہ سے لوگوں کی بڑی تعداد آگ کی لپیٹ میں آگئی جس میں 40 سے زائد لوگ زخمی ہوگئے۔
ٹیچنگ ہسپتال نوشکی کے ایم ایس ڈاکٹر ظفرمینگل نے بتایا کہ زخمیوں میں سے بعض کی حالت تشویشناک تھی کیونکہ ان کے جسم 40 فیصد سے زائد جھلس گئے تھے۔
نوشکی پولیس کے سربراہ ہاشم مہمند نے بتایا کہ شدید زخمیوں کو کوئٹہ منتقلی کے لیے ایمبولینسز اور دیگر گاڑیوں کا انتظام کیا گیا۔
ڈپٹی کمشنر کا کہنا تھا کہ بعض زخمیوں کو کوئٹہ منتقل کرنے کے لیے وزیر اعلیٰ بلوچستان سے ہیلی کاپٹر کی فراہمی کی درخواست کی گئی ہے۔
کوئٹہ میں سول ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر ہادی کاکڑ نے صحافیوں کو بتایا کہ زخمیوں میں سے 20سے زائد کو سول ہسپتال اور بولان میڈیکل کمپلیکس ہسپتال منتقل کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ زخمیوں میں نوشکی پولیس کے ایک ڈی ایس پی بھی شامل ہیں۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
پاکستان کے وزیرِ دفاع کا کہنا ہے کہ انڈیا کی جانب سے فوجی کارروائی کسی بھی وقت ممکن ہے۔
پیر کو خبر رساں ادارے رؤٹرز کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا کہ گذشتہ ہفتے کشمیر میں سیاحوں پر ہونے والے حملے کے بعد انڈیا کی طرف سے فوجی کارروائی کسی بھی وقت ہو سکتی ہے کیونکہ دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان کشیدگی بڑھ رہی ہے۔
اس شدت پسند حملے میں 26 افراد ہلاک ہوئے تھے جس کے بعد سے انڈین میڈیا اور سیاستدانوں کی جانب سے پاکستان کے خلاف سخت کارروائی کے مطالبات کیے جا رہے ہیں۔ انڈیا کا الزام ہے کہ پاکستان کشمیر میں شدت پسندی کی حمایت کرتا ہے۔ یاد رہے کہ کشمیر پر دونوں ممالک دو جنگیں بھی لڑ چکے ہیں اور دونوں ہی اس پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کرتے ہیں۔
خواجہ محمد آصف نے روئٹرز کو دیے گئے انٹرویو میں کہا: ’ہم نے اپنی تیاری کر لی ہے کیونکہ اب یہ خطرہ بہت قریب محسوس ہو رہا ہے۔ ایسے حالات میں حکمتِ عملی کے حوالے سے کچھ اہم فیصلے کرنا ضروری تھے، جو کر لیے گئے ہیں۔‘
،تصویر کا ذریعہgettyimages
خواجہ آصف نے کہا کہ انڈیا کی جانب سے بیانات میں سختی آ رہی ہے اور پاکستان کی فوج نے حکومت کو ممکنہ انڈین حملے کے خدشے سے آگاہ کر دیا ہے۔ تاہم انھوں نے اس بارے میں مزید تفصیلات نہیں بتائیں کہ انھیں انڈین کارروائی کے فوری خدشے کا یقین کیوں ہے۔
کشمیر حملے کے بعد انڈیا نے دو مشتبہ عسکریت پسندوں کو پاکستانی قرار دیا تھا۔ پاکستان نے اس الزام کی تردید کرتے ہوئے غیر جانبدار تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ پاکستان ہائی الرٹ پر ہے اور ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال صرف اسی صورت میں کیا جائے گا جب ملک کے وجود کو براہِ راست خطرہ لاحق ہو۔