بریکنگ, یہ صفحہ مزید اپ ڈیٹ نہیں کیا جا رہا!
بی بی سی کی اردو پیج لائیو کوریج جاری ہے تاہم یہ صفحہ مزید اپ ڈیٹ نہیں کیا جا رہا۔
چھ جون کی خبریں جاننے کے لیے یہاں کلک کریں۔
پاکستان سفارتی وفد کے سربراہ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے واشنگٹن میں مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انڈیا، پاکستان کے ساتھ سندھ طاس معاہدے پر اقدامات کر کے پانی پر پہلی ایٹمی جنگ کی بنیاد رکھ رہا ہے۔
پیشکش: اعظم خان
بی بی سی کی اردو پیج لائیو کوریج جاری ہے تاہم یہ صفحہ مزید اپ ڈیٹ نہیں کیا جا رہا۔
چھ جون کی خبریں جاننے کے لیے یہاں کلک کریں۔
،تصویر کا ذریعہRadio Pakistan
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے واشنگٹن میں مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پہلگام حملے سے پاکستان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’انڈیا نے مسئلہ کشمیر پر صدر ٹرمپ کی ثالثی سے انکار کیا ہے اور اب مذاکرات سے انکاری ہے۔‘
پاکستان سفارتی وفد کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ انڈیا، پاکستان کے ساتھ سندھ طاس معاہدے پر اقدامات کر کے پانی پر پہلی ایٹمی جنگ کی بنیاد رکھ رہا ہے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ موسمیاتی چیلنجز کے اس دور میں پانی کی قلت اور پانی کی جنگیں پہلے صرف ایک نظریہ تھیں، انڈیا، پاکستان کا پانی بند کر کے پانی پر پہلی ایٹمی جنگ کی بنیاد رکھ رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’ہم پہلے ہی یہ کہہ چکے ہیں کہ پانی بند کرنا جنگی اقدام کے مترادف ہوگا۔‘
بلاول بھٹو نے کہا کہ ’ہم یہ بات جذباتی یا جوش و خروش میں آ کر نہیں کہتے، نہ ہی ہمیں اس میں کوئی خوشی یا فخر محسوس ہوتا ہے، یہ ہماری بقا کا مسئلہ ہے، دنیا کا کوئی بھی ملک چاہے بڑا یا چھوٹا ہو، یا اس کی طاقت یا قابلیت کچھ بھی ہو، وہ اپنی بقا اور اپنے پانی کے لیے ضرور لڑے گا۔‘
بلاول بھٹو نے کہا کہ انڈیا کو سندھ طاس معاہدے کی پابندی کرنی چاہیے اور امریکہ سمیت دیگر ممالک کو اس معاہدے کی خلاف ورزی کی اجازت نہ دینے کے لیے مضبوط مؤقف اختیار کرنا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’آپ پاکستان کے تناظر میں اس نظیرکو قائم ہونے نہیں دے سکتے، کیونکہ ہم پہلی جنگ ضرور لڑیں گے، لیکن وہ آخری نہیں ہوگی، اگر انڈیا کو ہمارا پانی بند کرنے کی اجازت دی گئی، تو اس کا مطلب ہوگا کہ ہر بالائی دریا پر واقع ملک جس کے نچلی سطح کے ملک سے اختلافات ہوں، اسے کھلی چھوٹ مل جائے گی۔‘
بلاول بھٹو نے کہا کہ اگر ہم امن کے لیے مذاکرات اور سفارت کاری کو کامیاب بنانا چاہتے ہیں، اگر ہم انڈیا سے بات چیت کرنا چاہتے ہیں، انڈیا کے ساتھ مثبت مکالمہ، نئے معاہدے، حتیٰ کہ شاید نئے معاہدات کرنا چاہتے ہیں، تو پھر لازمی ہے کہ وہ پہلے پرانے معاہدوں کی پاسداری کرے اور سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے اپنے فیصلے کو واپس لے۔‘
انھوں نے کہا کہ پاکستان دونوں ممالک کے فائدے کے لیے امن کا خواہاں ہے۔
چیئرمین پیپلزپارٹی نے انڈین حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس نے دہشت گردی پر تعاون سے انکار کیا، وزیرِ اعظم شہباز شریف کی پہلگام حملے کی تحقیقات میں تعاون کی پیشکش کو رد کیا، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی کی کوشش کو مسترد کیا اور مزید بات چیت کے مواقع ضائع کیے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سب کا مطلب یہ ہے کہ مزید دہشت گردی ہوگی، مزید جنگیں ہوں گی اور امن نہیں ہو گا۔
انھوں نے کہا کہ انڈین وزیرِ اعظم اور ان کی حکومت شاید اپنے عوام کو اس انجام کے حوالے کرنا چاہتے ہیں، لیکن ہم ایسا نہیں چاہتے، یہی وجہ ہے کہ میرا وفد اور میں دارالحکومت سے دارالحکومت جائیں گے صرف ایک پیغام لے کر کہ ہم امن چاہتے ہیں، ہمیں آپ کی مدد درکار ہے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ اگر انڈیا اور پاکستان مل کر کام کریں تو انفرادی طور پر حاصل ہونے والے نتائج سے کہیں زیادہ کامیابیاں حاصل کی جا سکتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یقیناً، اگر انڈیا اور پاکستان مل کر کام کریں، تو ہم برصغیر سے دہشت گردی کا خاتمہ کر سکتے ہیں، انڈیا اور پاکستان مل کر کشمیر میں ایسا سازگار ماحول پیدا کر سکتے ہیں جہاں کے لوگ ظلم و جبر سے آزاد ہو کر خوشحالی دیکھ سکیں۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان تعاون کے لیے لازمی ہے کہ پانی کا بہاؤ آزادانہ جاری رہے، اور یہ وسیع تر تعاون کا پیش خیمہ بنے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’موسمیاتی تبدیلی اور پانی کی قلت پاکستان کے لیے ایک چیلنج ہے، یہ انڈیا کے لیے بھی ایک چیلنج ہے، ہم آنے والی دہائیوں کا سامنا کیسے کریں گے؟ ہم پہلے ہی تباہ کن سیلاب، قحط سالی اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا سامنا کر چکے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ میرا یقین ہے کہ اگر پاکستان اور انڈیا مل کر کام کریں، تو اس چیلنج کا بھی مقابلہ کیا جا سکتا ہے، اگر ہم اس موقع سے فائدہ نہ اٹھا سکے، تو پھر کوئی غلط فہمی نہ رہے، قتل و غارت، تباہی، آفت، اور جھگڑوں کا ذمہ دار صرف اور صرف نریندر مودی اور ان کی حکومت کو ٹھہرایا جائے گا، آپ نے آج میری بات سنی ہے، میں دہرانا نہیں چاہتا۔‘
بلاول بھٹو نے وزیراعظم مودی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’اب وہ میری نسل اور آنے والی نسلوں کو صرف کشمیر پر جنگ کے لیے نہیں، صرف کسی دہشت گرد حملے پر مکمل جنگ کے لیے نہیں، بلکہ اب ہم آنے والی نسلوں کو پانی پر لڑنے کے لیے بھی مجبور کر رہے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اسی لیے میں اپنے مقصد میں پُراعتماد ہوں، اسی لیے میں پُرجوش ہوں، میں اپنے ملک کے عوام کو اس انجام کے حوالے کرنے سے انکار کرتا ہوں اور میں انڈیا کے عوام کے خلاف کوئی دشمنی نہیں رکھتا۔‘
اس سے قبل بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں اعلیٰ سطح کے وفد نے واشنگٹن میں امریکی کانگریس کے ارکان سے ملاقاتوں کے دوران انڈیا کے ساتھ ڈائیلاگ کی ضرورت پر زور دیا۔ بلاول بھٹو نے ’ایکس‘ پر لکھا کہ اُن کی ٹیم نے کانگریس مین جیک برگمین، ٹام سوزی اور ڈیموکریٹک رکن الہان عمر اور ریپبلکن پارٹی کے رکن رائن کیتھ زنکے سے بھی ملاقات کی۔
واضح رہے کہ انڈیا سے حالیہ کشیدگی کے بعد پاکستان نے امریکہ میں جامع سفارتی مہم کا آغاز کیا ہے تاکہ انڈیا کے ساتھ حالیہ کشیدگی میں اپنا مؤقف دنیا کے سامنے رکھا جا سکے۔ پاکستانی وفد عالمی سفارتی کوششوں کے تحت لندن اور برسلز کا بھی دورہ کرے گا۔
قومی وفد میں سابق وزرا بلاول بھٹو زرداری، حنا ربانی کھر اور خرم دستگیر شامل ہیں، جبکہ سینیٹر شیری رحمٰن، سینیٹر مصدق ملک، سینیٹر فیصل سبزواری اور سینیٹر بشریٰ انجم بٹ کے علاوہ سینئر سفارتکار جلیل عباس جیلانی اور تہمینہ جنجوعہ بھی اعلیٰ سطح کے وفد کا حصہ ہیں۔
سرکاری نشریاتی ادارے ریڈیو پاکستان کے مطابق کیپیٹل ہل میں ہونے والی ملاقاتوں کے دوران وفد نے مسئلہ کشمیر پر ڈائیلاگ کی فوری ضرورت کو اجاگر کرتے ہوئے اسے اقوام متحدہ کا ادھورا ایجنڈا قرار دیا۔
وفد نے بین الاقوامی قوانین، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور سندھ طاس معاہدے کے احترام کی اہمیت پر بھی زور دیا۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کا انحصار یک طرفہ اقدامات یا پھر دھمکیوں پر نہیں بلکہ بات چیت اور مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل پر ہے۔ ریڈیو پاکستان کے مطابق ’بلاول بھٹو نے کانگریس کے ارکان کو انڈیا کے حالیہ بلا اشتعال جارحانہ اقدامات سے آگاہ کیا، جس میں بے گناہ شہریوں کو نشانہ بنانا اور سندھ طاس معاہدے کی یک طرفہ معطلی بھی شامل ہے۔‘
بلاول بھٹو نے امریکہ، بالخصوص صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کم کرانے اور جنگ بندی کی کوششوں میں تعمیری کردار ادا پر شکریہ ادا کیا۔
امریکی کانگریس کے ارکان نے پاکستانی وفد کا خیر مقدم کیا اور دونوں ممالک پر زور دیا کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کریں اور خطے میں امن و استحکام کو ترجیح دیں۔ کانگریس کے ارکان نے پاکستانی عوام کے ساتھ امریکی حمایت اور ملک کی اقتصادی ترقی میں تعاون کے عزم کو بھی دہرایا۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے وہ اپنے سابق اتحادی ایلون مسک کی جانب سے بجٹ بل پر تنقید سے ’بہت حیران‘ اور ’مایوس‘ ہیں۔
صدر ٹرمپ نے جمعرات کو وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ایلون اور میرے درمیان بہت اچھے تعلقات تھے۔ میں نہیں جانتا کہ ہم اب رہیں گے یا نہیں۔‘
ٹیکسوں میں کمی اور سرکاری اخراجات میں کمی کی تجاویز کے خلاف ایلون مسک کی لابنگ کی کوششوں پر یہ صدر کی سب سے براہ راست تنقید تھی۔
ایکس پر ایلون مسک نے اس پر مزید کڑی تنقید کی اور کہا کہ یہ بل ’سور کے گوشت‘ سے بھرا ہوا ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ فضول سرکاری اخراجات پر مبنی ہے۔ انھوں نے مزید لکھا کہ ’یا تو آپ کو بڑا اور بدصورت بل ملے یا ایک پتلا اور خوبصورت بل۔‘
،تصویر کا ذریعہPID
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سندھ طاس معاہدے کے تحت کوئی فریق یکطرفہ طور پر معاہدے سے نہیں نکل سکتا۔
شہباز شریف نے کہا کہ ’انڈین دھمکیاں بے معنی ہیں، روایتی جنگ کی طرح آبی معاملے پر بھی انڈیا کا گھمنڈ خاک میں ملائیں گے۔‘
انھوں نے کہا کہ پاکستانی قوم متحد ہے، اتفاق رائے سے آنے والی نسلوں کے تحفظ کے لیے ’اب یا کھبی نہیں‘ کی بنیاد پردلیرانہ فیصلے اور ٹھوس اقداما ت کریں گے۔
ان خیالات کا اظہار انھوں نے جمعرات کو آبی ذخائرکے حوالے سے اہم اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
اجلاس میں نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ محمد اسحاق ڈار، فیلڈ مارشل سید عاصم منیر، وفاقی وزرا، صوبائی قیادت اور سرکاری حکام بھی موجود تھے ۔
وزیراعظم نے کہا کہ انڈیا حالیہ جنگ میں بدترین شکست کے بعد تواتر سے سندھ طاس معاہدے کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکیاں دے رہا ہے اور اس میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’پانی تقسیم کے معاہدے کی خلاف ورزی سے متعلق انڈیا اپنے بیانیے کو ہوا دے رہا ہے۔‘
’ملک میں نئے آبی ذخائر کی تعمیر کے حوالے سے مل کر کام کرنا ہوگا‘
شہباز شریف نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت اور صوبوں سمیت تمام وفاقی اکائیوں کو ملک میں نئے آبی ذخائر کی تعمیر کے حوالے سے مل کر کام کرنا ہوگا۔
انھوں نے کہا کہ غیر متنازع ذخائر کی تعمیر کو ترجیحی بنیادوں پر مکمل کا جائے گا۔ نئے ڈیمز کی تعمیر تمام صوبوں کے اتفاق سے ہو گی۔
وزیراعظم آفس کے میڈیا ونگ کی طرف سے جاری بیان کے مطابق وزیر اعظم نے کہا کہ انڈیا کی طرف سے سندھ طاس معاہدے کی یکطرفہ معطلی اور سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی آبی جارحیت ہے۔
معرکہ حق کی طرح انڈیا کو اس کی آبی جارحیت کا نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے 24 اپریل کے اجلاس میں لیے گئے فیصلوں کے تحت جواب دیا جائے گا اور پاکستان اس معرکہ میں بھی فتح سے ہمکنار ہو گا۔
وزیراعظم نے کہا کہ وفاقی حکومت اور صوبوں سمیت تمام وفاقی اکائیوں کو ملک میں نئے پانی کے ذخائر کی تعمیر کے حوالے سے مل کر کام کرنا ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ غیر متنازع ذخائر کی تعمیر کو ترجیحی بنیادوں پر مکمل کیا جائے گا، نئے ڈیمز کی تعمیر، تمام صوبوں کے اتفاق سے ہو گی۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images/National Assembly
پاکستان کی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب خان نے چیف الیکشن کمشنر اور دو ممبران کی تعیناتی کے لیے سپیکر کو پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل کی درخواست کرتے ہوئے سینیٹ اور قومی اسمبلی سے پاکستان تحریک انصاف کے چھ ارکان کے نام ارسال کر دیے ہیں۔
اپوزیشن لیڈر نے پارلیمانی کمیٹی کے لیے قومی اسمبلی سے اسد قیصر، گوہر علی خان، صاحبزادہ حامد رضا، لطیف کھوسہ جبکہ سینیٹ سے شبلی فراز اور علامہ راجہ ناصر عباس کو نامزد کیا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے نئے چیف الیکشن کمشنر اور دو ممبران کی تقرری کے لیے مشاورت کا آغاز کرتے ہوئے گذشتہ روز اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کو ملاقات کے لیے مدعو کیا تھا۔
شہباز شریف نے اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کو لکھے گئے خط میں موقف اپنایا تھا کہ چیف الیکشن کمشنر اور دو ممبران کی مدت 26 جنوری کو ختم ہوچکی ہے۔
انھوں نے مزید کہا تھا کہ آرٹیکل 218 کے تحت چیف الیکشن کمشنر اور ممبران کے لیے تجاویز پارلیمانی کمیٹی کو ارسال ہونی ہیں، نئی تقرریوں کے لیے آپ کو ملاقات کی دعوت دیتا ہوں۔
اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کی جانب سے سپیکر کو ارسال کردہ خط میں کہا گیا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کے لیے پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل کا مشاورتی عمل شروع کرنے کے لیے 15 جنوری 2025 کو ارسال کی گئی درخواست کے تناظر میں ایک مرتبہ پھر یاد دلا رہا ہوں کہ الیکشن کمشنر کی مدت مکمل ہوئے کافی وقت گزر چکا ہے، لہٰذا تقرری کا عمل تیز کیا جائے۔
انھوں نے کہا کہ مقررہ طریقہ کار اور درکار مشاورت کے تحت میں اپوزیشن بینچز سے کمیٹی کے لیے نام تجویز کررہا ہوں۔
عمر ایوب نے خط میں مطالبہ کیا ہے کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 213 (2B) کے تحت چیف الیکشن کمشنر اور دو ممبران کی تعیناتی کے لیے کمیٹی کا قیام فوری عمل میں لایا جائے۔
پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے پاکستان کی جانب سے شملہ معاہدہ ختم ہو چکا ہے اور اب ہم ایل او سی پر 1948 والی پوزیشن پر آ گئے ہیں۔
خواجہ آصف نے کہا کہ شملہ معاہدے میں ایسی شقیں تھیں کہ دو طرفہ مسائل حل کیے جائیں گے اور اب یہ معاہدہ اس حالیہ جنگ کے بعد ختم ہو چکا ہے۔ ان کے مطابق ’اس معاہدے کی اب کوئی وقعت نہیں رہی ہے۔‘
نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ شملہ معاہدہ ختم ہونے کے بعد کنٹرول لائن آف کنٹرول (ایل او سی) اب سیز فائر لائن بن جائے گی۔ ان کے مطابق انڈیا اور پاکستان اب واپس 1948 والی پوزیشن پر آ گئے ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ شملہ معاہدہ دو ممالک کے درمیان ہے، اس میں ورلڈ بینک یا کوئی تیسرا فریق نہیں ہے، شملہ معاہدہ نہ ہونے سے کنٹرول لائن سیز فائر لائن ہو جائے گی، سیز فائرلائن اس کا اصل سٹیٹس تھا جو بحال ہو جائے گا۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ 1948 کے بعد رائے شماری سے متعلق جو ہوا اس کے بعد یہ سیز فائر لائن ہے۔ ان کے مطابق انڈیا کے اقدامات کی وجہ سے شملہ معاہدے کی حیثیت اب ختم ہو گئی ہے۔
خواجہ آصف نے مزید کہا کہ سندھ طاس معاہدے میں کوئی فریق یکطرفہ طور پر اس سے نہیں نکل سکتا ہے۔ ان کے مطابق سندھ طاس معاہدے سے متعلق تمام اقدامات مشترکہ ہو سکتے ہیں، انڈیا کبھی چھ ہزار تو کبھی 25 ہزار کیوسک پانی چھوڑتا ہے، انڈیا اپنی مرضی سے پانی کے بہاؤ میں رکاوٹ نہیں بن سکتا۔
انڈیا کے زیرانتطام کشمیر میں 22 اپریل کے پہلگام حملے کے بعد پاکستان نے انڈیا کی طرف سے اس معاہدے کو معطل کرنے کے اعلان کے بعد جہاں دیگر اور جوابی اقدامات اٹھائے وہیں شملہ معاہدے کے خاتمے کا بھی اعلان کیا۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
شملہ معاہدہ
پاکستان اور انڈیا کے درمیان ایک اور اہم دوطرفہ معاہدہ شملہ معاہدہ ہے۔ یہ معاہدہ 1971 کی جنگ کے بعد انڈیا اور پاکستان کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کی طرف ایک اہم قدم سمجھا جاتا ہے۔
یہ معاہدہ دو جولائی 1972 کو پاکستان کے صدر ذوالفقار علی بھٹو اور انڈیا کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے درمیان طے پایا تھا۔ یہ ایک امن معاہدہ تھا جو انڈین ریاست ہماچل پردیش کے دار الحکومت شملہ میں ہوا تھا اسی وجہ سے اسے شملہ معاہدہ کہا جاتا ہے۔
اس کے اہم نکات میں دونوں ممالک کے درمیان تنازعات کا پرامن تصفیہ اور کسی فریق ثالث کی مداخلت کے بغیر دو طرفہ اور پرامن طریقے سے تنازعات بشمول مسئلہ کشمیر حل کرنے پر اتفاق کرنا، علاقائی خودمختاری اور سالمیت کا احترام، سیاسی آزادی اور داخلی معاملات میں عدم مداخلت کا احترام کرنا شامل تھا۔
اس معاہدے میں جموں اور کشمیر میں سرحدی لائن کو ایل او سی کے طور پر نامزد کیا گیا تھا، دونوں فریقوں نے یکطرفہ طور پر اسے تبدیل نہ کرنے پر اتفاق کیا تھا۔
اسی معاہدے کے تحت انڈیا نے بنگلہ دیش جنگ کے دوران 93,000 پاکستانی جنگی قیدیوں کو رہا کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی اور پائیدار امن کا قیام کی کوشش کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
پاکستان میں سونے کی قیمت میں نمایاں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ آل پاکستان صرافہ جیولرز ایسوسی ایشن کے جاری کردہ قیمتوں کے مطابق سونے کی فی تولہ قیمت میں 4,300 روپے کا اضافہ ہوا، جس کے بعد مقامی مارکیٹ میں فی تولہ سونے کی قیمت 358,400 روپے تک پہنچ گئی ہے۔
اسی طرح، 10 گرام سونے کی قیمت میں 3,687 روپے کا اضافہ ہوا جو کہ 307,270 روپے ہو گئی ہے۔
مقامی قیمتوں میں یہ اضافہ عالمی مارکیٹ میں سونے کی قیمت میں نمایاں اضافے کے بعد ہوا، جہاں فی اونس سونا 43 ڈالر بڑھ کر 3,400 ڈالر فی اونس تک پہنچ گیا۔
پاکستان میں سونے کی قیمتیں عام طور پر عالمی نرخوں کے مقابلے میں 20 ڈالر کے پریمیئم کے ساتھ مقرر کی جاتی ہیں تاکہ مقامی مارکیٹ کی صورتحال اور لاگت، بشمول کرنسی ریٹ اور درآمدی چارجز، کو مدنظر رکھا جا سکے۔
مارکیٹ کے تجزیہ کاروں نے اس قیمت میں اضافے کو مہنگائی، سست عالمی معاشی بحالی، اور بڑی معیشتوں میں سود کی شرحوں کے بارے میں غیر یقینی صورتحال جیسے عوامل کے تحت سونے میں سرمایہ کاروں کی بڑھتی ہوئی دلچسپی سے منسلک کیا ہے۔
،تصویر کا ذریعہIris Haggai/PA Wire
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے سات اکتوبر 2023 کو جنوبی اسرائیل پر حماس کے حملے کے دوران یرغمال بنائے گئے دو اسرائیلی نژاد امریکیوں کی لاشیں برآمد کر لی ہیں۔
اسرائیلی فوج کے بیان میں کہا گیا ہے کہ جن دو افراد کی لاشیں برآمد کی گئی ہیں ان کی شناخت 70 سالہ جوڈی وینسٹائن ہگائی اور ان کے 72 سالہ شوہر گاڈی ہگائی سے ہوئی ہے۔ انھیں سات اکتوبر کے حملے میں کیوبتس نیراوز میں حماس کی مجاہدین بریگیڈ کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔
ان کی لاشیں غزہ کے جنوبی خان یونس علاقے سے ملی اور فرانزک شناخت کے لیے اسرائیل واپس لائی گئی تھیں۔
غزہ میں حماس کے ہاتھوں اب بھی 56 اسرائیلی یرغمال ہیں جن میں سے کم از کم 20 کے زندہ ہونے کا امکان ظاہر کیا جاتا ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو نے کہا کہ انھوں نے جوڈی اور گاڈی ہ کے اہل خانہ سے ان کی ہلاکت پر تعزیت کی ہے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
پنجاب کے قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے نے عید کی تعطیلات اور آئندہ ہفتے کے دوران شدید گرمی کی لہر سے متعلق الرٹ جاری کر دیا ہے۔
جمعے کو صوبائی محکمہ کی جانب سے جاری ایک اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ سات جون سے 12 جون تک پنجاب کے بڑے شہروں اور میدانی علاقوں میں درجہ حرارت بڑھنے اور ہیٹ ویو کے خدشات ہیں۔
پی ڈی ایم اے پنجاب کا یہ بھی کہنا ہے کہ آئندہ چند روز میں درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافے کا خدشہ ہے۔ 12 جون تک دن کے اوقات میں درجہ حرارت پانچ سے سات ڈگری سینٹی گریڈ معمول سے زیادہ رہنے کا خدشہ ہے۔
اس حوالے سے پی ڈی ایم اے پنجاب کے ڈائریکٹر جنرل عرفان علی کاٹھیا کی جانب سے متعلقہ محکموں اور کمشنر و ڈپٹی کمشنرز کو الرٹ رہنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا ہے کہ گرمی اور لو کی شدت میں اضافے سے عوام الناس کو بھی محتاط رہنا ہو گا۔ دوپہر کے وقت کام کرنے والے افراد لو سے بچنے کا اہتمام کریں۔ ہلکے رنگ کے کپڑے پہنیں اور سر ڈھانپ کر رکھیں۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
بانی پاکستان تحریک انصاف اور سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشری بی بی کی عید سے قبل سزا معطلی اور ضمانت پر رہائی نا ہو سکی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے 190 ملین پاؤنڈ کیس میں دونوں کی سزائیں معطل کر کے ضمانت پر رہا کرنے کی درخواستوں پر نیب کو 11 جون تک سپیشل پراسیکیوٹر تعینات کرنے کی مہلت دے دی۔
جمعے کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس سردار سرفراز ڈوگر اور جسٹس محمد آصف نے 190 ملین پاؤنڈ کیس میں عمران خان اور بشری بی بی کی سزا معطلی درخواستوں پر سماعت کی۔درخواست گزاروں کی جانب سے بیرسٹر سلمان صفدر نے دلائل میں کہا منتوں، مرادوں اور دعاؤں کے بعد آج کی تاریخ ملی ہے۔ توشہ خانہ ون، توشہ خانہ ٹو اور پھر 190 ملین پاؤنڈ کیس بنایا گیا۔
بیرسٹر سلمان صفدر کا عدالت سے کہنا تھا کہ نیب عمران خان کے لیے سپیشل پراسیکیوشن ٹیم لے آئے لیکن بشری بی بی کی درخواست پر آج ہی فیصلہ کر دیں۔
انھوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کے خلاف یہ متنازعہ ترین فیصلہ ہے۔ جن جج صاحب نے اس کیس کا فیصلہ سنایا ان کے خلاف سپریم کورٹ کی آبزرویشنز موجود ہیں۔
سلمان صفدر نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’ٹرائل عدالت سے سزا ہوتی ہے، ہائیکورٹ میں کہتے ہیں کہ سزا غلط ہوئی معطل کر دی جائے۔ یہ کیسے فیصلے ہیں جس میں چھ ماہ سے میاں بیوی کو جیل میں رکھا ہوا ہے۔‘
نیب پراسیکیوٹر رافع مقصود نے عدالت کو بتایا کہ ’مجھے کل کیس کا پتہ چلا اور گذشتہ رات کو ہی نوٹس ملا ہے۔ میری گزارش ہے اس کیس میں وفاقی حکومت نے سپیشل پراسکیوٹر تعینات کرنا ہے جس کے لیے وزارت قانون سے خط و کتابت ہونی ہے، چار ہفتوں کا وقت دے دیں۔‘
عمران خان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے عدالت میں کہا کہ عمران خان کے خلاف سپیشل ٹیم لانا چاہتے ہیں تو لے آئیں، ہم نہیں گھبراتے لیکن عدالت بشری بی بی کی سزا معطلی درخواست پر آج ہی فیصلہ کرے۔
اس موقع پر لطیف کھوسہ ایڈوکیٹ کا کہنا تھا عمران خان بغیر کسی ثبوت کے جیل میں ہیں۔
انھوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی نہ بیرون ملک جائیں گے نہ ہی ریکارڈ ٹمپر کرنے کا خطرہ ہے۔
عدالت نے نیب کی جانب سے التوا کی درخواست منظور کرتے ہوئے نیب کو لیگل ٹیم نوٹیفائی کرنے کا وقت دے دیا اور مقدمے کی سماعت 11 جون تک ملتوی کر دی۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں نا معلوم مسلح افراد کی جانب سے کوئٹہ جانے والے تعمیراتی کمپنی کے 15 اغوا کیے جانے والے ملازمین میں سے پانچ بازیاب کروا لیے گئے ہیں۔
یہ واقعہ ڈیرہ اسماعیل خان سے بلوچستان کے شہر ژوب جانے والی شاہراہ پر تھانہ درابن کی حدود میں پیش آیا ہے۔
پولیس کے مطابق تعمیراتی کمپنی کے لگ بھگ 15 ملازمین دو سے تین گاڑیوں میں کوئٹہ کی طرف جا رہے تھے کہ راستے میں گرہ خان کے مقام پر مسلح افراد نے ان کی گاڑیوں کو روکا اور اسلحے کے زور پر انھیں گاڑیوں سمیت ساتھ نامعلوم مقام کی طرف لے گئے ہیں۔
پولیس نے انسداد دہشت گردی کے محکمے سی ٹی ڈی کو مراسلے میں لکھا ہے کہ تعمیراتی کمپنی کے ملازمین موٹر کار فیلڈر اور سنگل کیبن میں جا رہے تھے جنھیں 14 سے 15 مسلح افراد اسلحہ کے زور پر نا معلوم مقام کی طرف لے گئے ہیں۔
درابن پولیس کے اہلکاروں نے بتایا ہے کہ ایک گاڑی میں سوار پانچ افراد واپس آگئے ہیں اور ان کا کہنا تھا کہ ان کی گاڑی جنگل میں پھنس گئی تھی اس لیے مسلح افراد انھیں چھوڑ کر باقی لگ بھگ 10 ملازمین کو ساتھ لے گئے ہیں۔
مقامی پولیس کے مطابق ان ملازمین کی بازیابی کے لیے علاقے میں سرچ آپریشن جاری ہے جس میں پولیس کے ساتھ سکیورٹی فورسز کے اہلکار شامل ہیں۔
ڈیرہ اسماعیل خان میں درابن ، کلاچی ، مڈی ، زر کنڑی اور قریبی علاقوں میں مسلح شدت پسندوں کی موجودگی کی اطلاعات موصول ہوتی رہتی ہیں اور ان علاقوں میں اغوا کے متعدد واقعات پیش آ چکے ہیں۔
ان میں چند ماہ پہلے فوای افسران ، ججز ، اور پیپلز پارٹی کے رہنما کو اغوا کیا گیا تھا جنھیں بعد میں بازیاب کرا لیا گیا تھا۔
ادھر لکی مروت میں پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے قبول خیل پراجیکٹ پر کام کرنے والے ملازمین کو اب تک بازیاب نہیں کرایا جا سکا۔
ان ملازمین کو اس سال فروری میں اغوا کیا گیا تھا جن میں سے کچھ کو رہا کر دیا گیا تھا جبکہ ایک ملازم شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کے دوران ہلاک ہو گئے تھے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ’سکیورٹی وجوہات‘ کی بنا پر افغانستان اور ایران سمیت 12 ممالک کے شہریوں پر امریکہ میں داخلے پر پابندی کے حکم نامے پر دستخط کردیے ہیں۔ اس پابندی کا اطلاق سوموار نو جون سے شروع ہو گا۔
اس کے ساتھ ساتھ صدر ٹرمپ نے سات دیگر ممالک کے شہریوں پر امریکہ میں داخلے پر جزوی طور پر پابندی عائد کی ہے۔
صدر ٹرمپ نے اس پابندی کے حوالے سے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ ’گزشتہ دنوں کولوراڈو میں کیے جانے والا دہشت گرد حملہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ غیر ملکی شہری جو درست طریقے سے ویری فائی نہیں ہوتے، ہمارے ملک کے لیے شدید خطرہ بن سکتے ہیں۔‘
یاد رہے کہ گزشتہ دنوں امریکی ریاست کولوراڈو میں اسرائیل کے حق میں ریلی پرنامعلوم شخص نے حملہ کیا جس سے چھ افراد زخمی ہوگئے تھے تاہم حملہ آور کو زخمی حالت میں گرفتار کرلیا گیا تھا۔
حکام کے مطابق اس حملے میں ملوث شخص غیر قانونی طور پر امریکا میں داخل ہوا تھا۔
صدر ٹرمپ یہ نئی سفری پابندی امریکی امیگریشن پالیسی میں ایک اہم تبدیلیاں سمجھی جا رہی ہیں جن کے ممکنہ طور پر ان ممالک کے شہریوں پر سنگین اثرات بھی ہو سکتے ہیں۔
صدر ٹرمپ کے ’ٹریول بین‘ سے متاثر ہونے والے 12 ممالک کی فہرست میں افغانستان، ایران، میانمار، چاڈ، جمہوریہ کانگو، استوائی گنی، اریٹیریا، ہیٹی، لیبیا، صومالیہ، سوڈان اور یمن شامل ہیں۔
دوسری جانب جزوی پابندیوں کی ذد میں آنے والے ممالک کی فہرست میں برونڈی، کیوبا، لاؤس، سیرا لیون، ٹوگو، ترکمانستان اور وینزویلا شامل ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے مطابق امریکی شہریوں اور ان کے مفادات کو دہشت گردوں سے بچانے کے لیے اس پابندی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
نئی سفری پابندی کا اعلان کرتے ہوئے اپنے ویڈیو پیغام میں صدر ٹرمپ نے الزام عائد کیا کہ خطرناک مقامات سے غیر ملکی ویزا لے کر قیام کرنے والے ایک کے بعد ایک دہشت گردانہ حملہ کر رہے ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر ان ممالک کے حالات بہتر ہوتے ہیں تو ممنوعہ ممالک کی فہرست میں ترمیم کی جا سکتی ہے۔
ترجمان وائٹ ہاؤس ابیگیل جیکسن کے مطابق ’صدر ٹرمپ امریکہ کو ان خطرناک غیر ملکییوں سے محفوظ رکھنے کے لیے پرعزم ہیں جو ہمارے ملک میں آکر ہمیں نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔‘
ترجمان کے مطابق ’یہ پابندیاں ان ممالک کو متاثر کر رہی ہیں جو مسافروں کے پس منظر کی مناسب جانچ نہیں کرتے، ویزا کی خلاف ورزیوں میں زیادہ ملوث پائے جاتے ہیں۔‘
انھوں نے دعویٰ کیا کہ صدر ٹرمپ ہمیشہ امریکی عوام اور ان کی سلامتی کے بہترین مفاد میں کام کرتے رہیں گے۔‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
ہارورڈ یونیورسٹی میں غیر ملکی طلبا کے ویزوں پر بھی پابندی عائد
دوسری جانب ٹرمپ نے ہارورڈ یونیورسٹی میں غیر ملکی طالب علموں کے ویزوں پر بھی پابندی عائد کر دی ہے اور اس حوالے سےانھوں نے ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کر دیے ہیں۔
یاد رہے کہ صدر ٹرمپ نے اپنے پہلے دور حکومت میں 2017 میں کچھ مسلمان ممالک پر ایسی ہی پابندیاں لگائی تھیں۔
اس پابندی کو مختلف قانونی چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا اور اس میں کئی بار ترامیم کی گئیں تاہم بعد میں سپریم کورٹ نے اسے نافذ کرنے کی اجازت دے دی تھی۔
سفری پابندیوں سے مستثنیٰ کون ہو گا
صدر ٹرمپ کی جانب سے سفری پابندی سے کچھ لوگوں کو استثنیٰ دیا گیا ہے جن کی تفصیل یوں ہے۔
ڈیموکریٹک پارٹی کا ٹرمپ کے اس فیصلے پر ردعمل: ’ٹرمپ کی پالیسی ہمیں صرف تقسیم کرتی ہے‘
امریکہ کی ڈیموکریٹک پارٹی نے ٹرمپ کے اس فیصلے پر شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔
واشنگٹن سے ایک ڈیموکریٹک کانگریس خاتون پرامیلا جے پال نے سوشل میڈیا پر لکھا، ’یہ پابندی، جو ٹرمپ کے پہلے دور میں لگائی گئی مسلم پابندی کی توسیع ہے، ہمیں بین الاقوامی سطح پر مزید تنہا کر دے گی۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’کیونکہ آپ ان کی ملک کی حکومت کے ڈھانچے یا کام کاج سے متفق نہیں تو اس بنا پر ایک پوری کمیونٹی پر پابندی لگانا دراصل الزام کا غلط استعمال ہو گا۔
ادھر ڈیموکریٹک کانگریس کے ڈان بیئر نے ٹرمپ پر الزام لگایا کہ وہ امریکہ کے بانیوں کے نظریات سے ’خیانت‘ کر رہے ہیں۔
انھوں نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ ’ٹرمپ کی سفری پابندی تعصب اور نفرت سے بھری ہوئی ہے اور ہمیں زیادہ محفوظ نہیں بناتی۔ یہ صرف ہمیں تقسیم کرتی ہے اور ہماری عالمی قیادت کو کمزور کرتی ہے۔‘
،تصویر کا ذریعہBalochistan Assembly
بلوچستان اسمبلی نے بلوچستان انسداد دہشت گردی ترمیمی مسودہ قانون 2025 کی منظوری دے دی ہے جس کے تحت کسی بھی مشتبہ شخص کو گرفتار کرکے 90 روز کے لیے زیر حراست رکھا جا سکے گا اور ایسے افراد کے لیے حراستی مراکز قائم کیے جائیں گے۔
بدھ کے روز سپیکر کیپٹن ریٹائرڈ عبدالخالق کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں یہ مسودہ قانون رکن اسمبلی میر صادق سنجرانی نے ایوان میں پیش کیا۔
یاد رہے کہ جس وقت اسمبلی میں یہ مسودہ قانون پیش کیا جارہا تھا اس وقت ایوان میں حزب اختلاف کے صرف چار اراکین تھے جن میں سے مولانا ہدایت الرحمان نے مسودہ قانون کی فوری منظوری کی مخالفت کی جبکہ نیشنل پارٹی کی خاتون رکن اسمبلی کلثوم نیاز نے اس پر بات کرنے کی اجازت نہ ملنے پر ایوان سے واک آؤٹ کیا۔
مولانا ہدایت الرحمان نے کہا کہ اس مسودہ قانون پر ہمارے بعض خدشات ہیں جن کو دور کیا جانا چایے جبکہ جمیعت العلما اسلام کی خاتون رکن شاہدہ روف نے بھی کہا کہ اس کو جلد بازی میں منظور نہیں کرنا چائیے۔
نئے ترمیمی مسودہ قانون میں کیا ہے؟
اس قانون کے تحت مجاز حکام تحقیقات کے لیے ایسے افراد کے 90 دن کے لیے پروینٹو حراستی آرڈر جاری کرسکتے ہیں جو کہ مسلح فورسز ، سول آرمڈ فورسز بلوچستان کی سکیورٹی ، دفاع پاکستان ، قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملوں، بم دھماکوں، اہم تنصیبات کو نقصان پہنچانے ، ٹارگٹ کلنگ ، اغوا برائے تاوان ، بھتہ خوری ، اقلیتوں پر حملے ، لسانی بنیادوں پر قتل کے واقعات میں ملوث ہوں۔
اس کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے مجرموں کی معاونت اور سہولت کاری میں ملوث افراد سے تحقیقات کے لیے حکام حراستی آرڈر جاری کرسکتے ہیں۔
ترمیمی مسودہ قانون کے تحت ان افراد کو بھی 90 دن کے لیے حراست میں رکھا جائے گا جن کے خلاف ایسے جرائم میں ملوث ہونے کے بارے میں شکایت یا مصدقہ اطلاعات موصول ہوئی ہوں۔
ترمیمی مسودہ قانون کے مطابق اگر ایسے افراد کو ابتدائی 90 دن سے زائد حراست میں رکھنا مطلوب ہو تو وہ آئین کے آرٹیکل 10کے پرویژن سے مشروط ہوگا۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان کا اس ترمیمی مسودہ قانون کے بارے میں کیا کہنا ہے
اسمبلی میں منظوری سے قبل یہ مسودہ قانون اسمبلی کے محکمہ داخلہ سے متعلق کمیٹی میں بھیجا گیا تھا جس میں وزیر اعلیٰ میر سرفراز بگٹی نے کمیٹی کے اراکین کو اس کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں بریفنگ دی تھی۔
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ بلوچستان میں کافی عرصے سے لاپتہ افراد کا مسئلہ چل رہا ہے ۔ یہاں امن و امان کی صورتحال خراب ہے۔ اکثر اوقات سیکورٹی فورسز کاروائیاں کرتی ہیں اور کچھ گرفتاریاں ہوتی ہیں۔
انھوں نے الزام عائد کیا کہ اکثر لوگ خود روپوش ہوجاتے ہیں اور الزام سکیورٹی فورسز پر لگتا ہے کہ انھیں لاپتہ کردیا گیا۔
انھوں نے کہا کہ اب ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ کم از کم اپنے اوپر یہ الزام نہیں لیں گے کہ اگر سی ٹی ڈی یا کسی انٹیلیجینس ایجنسی نے کسی کو گرفتار کرنا ہوا تو اس کے لیے ایک حراستی مرکز بنائیں گے اور انھیں اس حراست میں رکھیں گے جہاں پر ان کے والدین کو ملاقات کرائیں گے اور ورثا کو معلوم ہوگا کہ اس کا بچہ کہاں پر ہے اور اسے باقاعدہ طور پر مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا جائے ۔
انھوں نے کہا کہ اس قانون میں یہ بھی تفصیل موجود ہے کہ کہ ہائی کورٹ کا جج یہ فیصلہ کرے گا کہ کسی کی حراست کی معیار میں مزید کتنی توسیع کرنی ہے۔
یاد رہے کہ کمیٹی کے اجلاس میں بھی جے یو آئی کے رکن اصغر ترین نے اپنے اختلافی نوٹ میں یہ کہا تھا کہ مسودہ قانون کی اس نشست میں منظوری نہیں دینی چائیے بلکہ اس پر سیرحاصل بحث کے لیے ایک اور نشست کی ضرورت ہے۔
بی بی سی اردو کی لائیو کوریج کا سلسلہ جاری ہے۔ جمعرات کے روز کی خبروں کو شامل کرنے سے پہلے آپ کے لیے گزشتہ 24 گھنٹوں کی خبروں کا خلاصہ پیش خدمت ہے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
وزیرِاعظم محمد شہباز شریف پانچ اور چھ جون کو عید الاضحیٰ کے موقع پر سعودی عرب کا دو روزہ سرکاری دورہ کریں گے۔ دفترِ خارجہ کے مطابق وزیرِاعظم کے ہمراہ ایک اعلیٰ سطحی سرکاری وفد بھی ہو گا۔
دورے کے دوران وزیرِاعظم کی ملاقات سعودی ولی عہد اور وزیرِاعظم شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز آل سعود سے متوقع ہے۔ اس ملاقات میں تجارت، سرمایہ کاری، مسلم اُمہ کی فلاح، علاقائی امن و سلامتی سمیت دو طرفہ تعاون کے مختلف پہلوؤں پر تبادلۂ خیال کیا جائے گا۔
وزیرِاعظم سعودی قیادت کا پاکستان اور انڈیا کے درمیان حالیہ کشیدگی میں کمی لانے کے لیے ادا کیے گئے تعمیری کردار پر شکریہ بھی ادا کریں گے۔
دفترِ خارجہ کا کہنا ہے کہ یہ دورہ پاکستان اور سعودی عرب کے دیرینہ اور گہرے تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کی جانب ایک اہم قدم ہے جو باہمی اعتماد، مذہبی ہم آہنگی اور سٹریٹجک شراکت داری پر مبنی ہیں۔
ترجمان دفترِ خارجہ کے مطابق وزیراعظم کا یہ دورہ دونوں ممالک کے درمیان معاشی اور سفارتی تعاون کو وسعت دے گا اور سعودی عرب کے وژن 2030 اور پاکستان کی ترقیاتی ترجیحات کے درمیان ہم آہنگی کو فروغ دینے میں بھی مددگار ثابت ہوگا۔
،تصویر کا ذریعہEPA
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ان کی روسی صدر ولادیمیر پوتن سے گفتگو میں ایران کا معاملہ بھی زیرِ بحث آیا اور دونوں رہنماؤں کا اس بات پر اتفاق ہوا کہ ’ایران کو جوہری ہتھیار رکھنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔‘
جیسا کہ ہم نے آپ کو کچھ دیر قبل بتایا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق بدھ کے روز ان کی روسی صدر ولادیمیر پوتن سے یوکرین کے حالیہ ڈرون حملوں اور ایران کے معاملے پر ’اچھی گفتگو‘ ہوئی ہے۔
امریکی تجاویز کے تحت ایران کو یورینیم کی افزودگی کا عمل بند کرنا چاہیے جو ایٹمی توانائی کے ساتھ ساتھ جوہری ہتھیاروں کی تیاری میں بھی استعمال ہو سکتا ہے۔ اور اس کے بجائے ایندھن کے حصول کے لیے ایک علاقائی کنسورشیم پر انحصار کرنا چاہیے۔ تاہم سنیچر کے روز پیش کی گئی اس پیشکش پر ایران نے تاحال کوئی ردعمل نہیں دیا ہے۔
ٹرمپ نے کہا کہ پوتن نے عندیہ دیا کہ وہ ایران سے متعلق ان مذاکرات میں حصہ لینے کے لیے تیار ہیں اور اس معاملے کو حل کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔
ٹرمپ نے لکھا ’میری رائے میں ایران اس نہایت اہم معاملے پر فیصلہ دینے میں غیر ضروری تاخیر کر رہا ہے۔‘’ہمیں جلد از جلد ایک واضح اور حتمی جواب چاہیے۔‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ کے روز کہا ہے کہ ان کی روسی صدر ولادیمیر پوتن سے یوکرین کے حالیہ ڈرون حملوں اور ایران کے معاملے پر ’اچھی گفتگو‘ ہوئی ہے۔
ٹرمپ کے مطابق یوکرین کی جانب سے روس کے اندر واقع فضائی اڈوں پر بڑے ڈرون حملوں کے بعد پوتن نے انھیں بتایا کہ روس کو ان حملوں کا ’جواب دینا پڑے گا۔‘
ٹروتھ سوشل پر جاری بیان میں ٹرمپ نے خبردار کیا کہ ایک گھنٹے سے زائد جاری رہنے والی یہ فون کال فوری امن کی ضمانت نہیں دیتی۔
یوکرین کی جانب سے روس کے جوہری بمباروں کو نشانے بنانے کے بعد بعد دونوں رہنماؤں کے درمیان پہلا رابطہ ہے۔
ٹرمپ نے لکھا:’پوتن نے مجھ سے بہت سختی سے کہا کہ وہ فضائی اڈوں پر یوکرین کے حالیہ حملوں کا جواب ضرور دیں گے۔‘
گذشتہ ہفتے ٹرمپ نے ایک بیان میں اشارہ دیا تھا کہ اگر دو ہفتوں کے اندر پوتن نے امن عمل میں پیش رفت نہ کی تو امریکہ روس کے خلاف اپنے رویے میں تبدیلی لا سکتا ہے۔
یہ بیان ٹرمپ کے ان مسلسل تنقیدی تبصروں کی کڑی تھا جو وہ حالیہ ہفتوں کے دوران (جب روس نے یوکرین پر ڈرون اور میزائل حملے تیز کیے) روس کے خلاف دیتے آ رہے ہیں۔ اس سے پہلے وہ پوتن کو ’مکمل طور پر پاگل‘ قرار دے چکے ہیں اور خبردار کر چکے ہیں کہ وہ ’آگ سے کھیل رہے ہیں۔‘
تاہم بدھ کے روز جاری کردہ سوشل میڈیا پوسٹ میں ٹرمپ نے نہ تو کسی ڈیڈلائن کا ذکر کیا نہ ہی اپنے سابقہ بیانات کا۔
یہ پوسٹ ایک ایسے وقت پر سامنے آئی ہے جب چند روز قبل استنبول میں یوکرین اور روس کے درمیان دوسرے دور کے براہ راست امن مذاکرات بغیر کسی بڑی پیش رفت کے ختم ہوئے۔ تاہم دونوں فریق قیدیوں کے تبادلے پر متفق ہوئے۔
یوکرینی مذاکرات کاروں کے مطابق روس نے ’غیر مشروط جنگ بندی‘ کی تجویز مسترد کر دی جو کیئو اور امریکہ سمیت اس کے مغربی اتحادیوں کا اہم مطالبہ تھا۔
روس کی ٹیم نے دعویٰ کیا کہ وہ یوکرین کے ’کچھ علاقوں‘ میں کئی روزہ جنگ بندی پر آمادہ ہیں، تاہم انھوں نے اس حوالے سے مزید تفصیلات نہیں دیں۔
،تصویر کا ذریعہPID
پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ وہ پاکستان اور انڈیا میں جنگ بندی میں امریکی صدر کے کردار کو سراہتے ہیں۔ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ نے بغیر کسی شبے کے ثابت کردیا وہ امن کے پیامبر ہیں، امن کے فروغ، اقتصادی روابط میں اضافے کے لیے صدر ٹرمپ کی کوششیں قابل ستائش ہیں۔
اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے میں 249ویں یوم آزادی کی تقریب سے خطاب کے دوران وزیراعظم نے کہا کہ ’پاکستان اور امریکہ کے تعلقات نئے دور میں داخل ہو رہے ہیں اور دونوں ممالک تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان حالیہ کشیدگی میں کمی کے لیے امریکی دوستوں نے رابطہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ دونوں ممالک میں کشیدگی میں کمی اور جنگ بندی کے لیے دوست ممالک کا کردار خوش آئند ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگ بندی پر عمل ہو رہا ہے۔‘
وزیراعظم نے کہا کہ ’پہلگام واقعے پر انڈیا کو غیرجانبدارانہ عالمی انکوائری کی پیشکش کی، ہماری مخلصانہ پیشکش کے جواب میں انڈیا نے پاکستان پر حملہ کردیا۔‘
شہباز شریف نے کہا کہ انڈین جارحیت میں خواتین اور بچوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔
انھوں نے کہا کہ انڈیا نے جب جارحیت کی تو پاکستان نے اپنے دفاع میں جوابی کارروائی کی جس میں انڈیا کے چھ جہاز مار گرائے۔
ان کا کہنا تھا کہ کوئی شک نہیں رہا کہ پہلگام واقعہ انڈیا کا فالس فلیگ آپریشن تھا، پاکستان نے کشیدہ صورتحال میں بھی بہت تحمل کا مظاہرہ کیا، پاکستان ہمیشہ خطے میں امن واستحکام اور خوشحالی کا خواہشمند رہا ہے۔
شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان کی ترقی کے لیے مختلف امریکی منصوبے قریبی تعلقات کے عکاس ہیں، ہماری توجہ معیشت کو مضبوط کرنے پر ہے جب کہ امریکا کے ساتھ ٹیرف کے مسئلے سمیت تجارت میں اضافے کے لیے اقدامات جاری ہیں۔
انھوں نے کہا کہ دونوں ملک جمہوری روایات اور آئین کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں جب کہ امریکا، پاکستان کو تسلیم کرنے والے ابتدائی ممالک میں شامل تھا جب کہ امریکہ پہلا ملک ہے جس نے پاکستان کو 1947 میں تسلیم کیا۔
وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کی ایک تاریخ ہے، دونوں ممالک کے تعلقات ایک نئے دور میں داخل ہوررہے ہیں جب کہ دونوں ممالک تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ نائن الیون کے بعد دہشتگردی کے خلاف عالمی جنگ شروع ہوئی تو 2018 میں پاکستان نے دہشت گردی کا مکمل خاتمہ کردیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے بھاری جانی ومالی نقصان اٹھایا۔ انسداد دہشت گردی کے لیے پاکستان کی قربانیاں کسی سے کم نہیں۔
،تصویر کا ذریعہAFP
نو مئی کی صبح میں بی بی سی عربی کی اس ٹیم کا حصہ تھا جو شام کے دارالحکومت دمشق سے ملک کے جنوبی صوبے دیرا جانے کے لیے روانہ ہوئی۔
یہاں سے آگے پھر ہمارا پلان اسرائیل کے زیر قبضہ سرحدی علاقے گولان ہائیٹس جانے کا تھا۔
ہم چاہتے تھے کہ ہم ہم شام کے علاقے میں ہی رہیں جس پر دسمبر سے اسرائیل نے قبضہ کر رکھا ہے۔ جب شام کے صدر بشارالاسد کی اقتدار سے بے دخلی ہوئی تو اسرائیل کے وزیراعظم نے کہا تھا کہ وہ اس غیر فوجی علاقے بفر زون اور کے ملحقہ علاقوں کا غیر معینہ مدت تک قبضہ لے رہے ہیں۔
ہماری ٹیم سات افراد پر مشتمل تھی۔ میں برطانوی شہری، دو بی بی سی کے عراقی اور چار شامی صحافی شامل تھے جن میں سے تین فری لائنسر تھے جبکہ ایک بی بی سی کے کیمرہ مین تھے۔
ہم ایک اقوام متحدہ کی آبزرور فورس کی پوسٹ پر فلم بنا رہے تھے، یہ جگہ الفرید قصبے کے قریب واقع ہے۔ ہمیں ایک اقوام متحدہ کے اہلکار نے بتایا کہ اسرائیلی افواج نے ہماری شناخت سے متعلق جانچ پڑتال کی اور انھیں یہ بتایا گیا کہ ہم بی بی سی والے ہیں۔
اس کے بعد ہم قنيطرہ شہر کی طرف نکل گئے جو 1974 میں اسرائیل اور شام کے درمیان معاہدے سے بفر زون کے اندر ہی واقع ہے۔
اس شہر سے تقریباً 200 میٹر دور ایک بغیر سکیورٹی گارڈ والی چیک پوائنٹ نے سڑک کو بلاک کر رکھا تھا۔ اس چیک پوائنٹ کے ایک طرف ہم نے مارکوا ٹینکس دیکھے جن میں سے ایک پر اسرائیلی جھنڈا لہرا رہا تھا۔ ایک قریبی ٹاور سے دو اسرائیلی فوجی ہمیں دیکھ رہے تھے۔
ان میں سے ایک ہمیں اپنی بائینوکولرز سے دیکھ رہا تھا۔ میرے ایک ساتھی نے بی بی سی کا کارڈ اوپر کیا تاکہ وہ شناخت کر سکیں۔
اس کے بعد میری ٹیم کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کی بی بی سی نے اسرائیلی فوج سے شکایت کی۔ مگر ابھی تک اس بارے میں اسرائیلی فوج کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوسکا ہے۔
جب ہم نے فلم بنانا شروع کی تو ایک منٹ کے بعد ہی چیک پوائنٹ کے دوسری طرف سے ایک سفید رنگ کی کار ہماری طرف آئی۔
،تصویر کا ذریعہAFP
چار اسرائیلی فوجی اس کار سے باہر نکلے اور ہمیں اپنے گھیرے میں لے لیا۔ انھوں نے اپنی رائفلیں ہمارے سر پر رکھیں اور ہمیں حکم دیا کہ ہم اپنا کیمرا سڑک کے ایک طرف رکھ دیں۔ میں نے انھیں یہ بتانے کی کوشش کی کہ ہم بی بی سی سے وابستہ صحافی ہیں مگر غیرمتوقع طور پر صورتحال مزید بگڑ گئی۔
میں بی بی سی لندن میں اپنے ساتھیوں تک میسج بھیجنے میں کامیاب ہوا۔ اس سے پہلے کہ ہماری فون اور دیگر آلات ہم سے لیے گئے تو میں نے اس پیغام میں لکھا کہ ہمیں اسرائیلی فوج نے روک لیا ہے۔
فوجیوں گاڑیوں میں اس جگہ پر مزید اسرائیلی فوجی بھی آ گئے اور ہماری کار کی جامع تلاشی لی گئی۔
فوجی ہمیں ایک رکاوٹ کے ذریعے قنیطرہ شہر میں لے گئے اور کراسنگ پوائنٹ پر رک گئے جو قنیطرہ کو مقبوضہ گولان سے جدا کرتی ہے۔ وہاں فوجیوں نے فوٹیج کا جائزہ لینا شروع کر دیا۔ جب ہم اپنی گاڑی میں بیٹھے تو ایک فنی نے ایک میٹر دور سے اپنی رائفل میرے سر پر رکھ دی۔
دو گھنٹے سے زیادہ کے بعد ایک فوجی نے مجھے گاڑی سے باہر نکلنے اور موبائل فون پر بات کرنے کو کہا۔
میں نہیں جانتا تھا کہ لائن پر موجود شخص کون ہے۔ وہ ٹوٹی پھوٹی عربی بولتا تھا۔ انھوں نے سوال کیا کہ ہم اسرائیلی فوجی مقامات کی فلم کیوں بنا رہے ہیں۔
میں نے اسے بتایا کہ میں بی بی سی کا برطانوی صحافی ہوں اور اسے ہمارے کام کی نوعیت سمجھائی۔ میں اپنی گاڑی کی طرف واپس آیا مگر رائفل کا نشانہ ابھی دوبارہ میرے سر پر تھا۔
ایک گھنٹے کے انتظار کے بعد ایک اور گاڑی آ گئی۔ سکیورٹی اہلکاروں کا ایک گروپ آنکھوں پر پٹی اور پلاسٹک کی زپ باندھے گاڑی سے باہر نکلا اور مجھے پہلے باہر نکلنے کو کہا۔
لیڈ آفیسر، جو روانی سے فلسطینی عربی بولتا تھا، میرا ہاتھ پکڑ کر کراسنگ پوائنٹ پر ایک کمرے کی طرف لے گیا جو پہلے شامی فوج استعمال کرتے تھے۔ فرش پر ٹوٹے ہوئے شیشے اور کوڑے کا ڈھیر بکھرا ہوا تھا۔ اس نے مجھے بتایا کہ وہ میری ٹیم کے برعکس میرے ساتھ امتیازی سلوک کریں گے اور یہ کہ مجھے نہ ہتھکڑی لگائی گئی اور نہ آنکھوں پر پٹی باندھی گئی۔
میں صدمے میں تھا۔ میں نے پوچھا کہ جب وہ جانتے تھے کہ ہم بی بی سی کا عملہ ہیں تو وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں۔ اس نے کہا کہ وہ ہمیں جلدی سے باہر نکالنے میں مدد کرنا چاہتے ہیں اور ہمیں ان کی ہدایات پر عمل کرنا ہوگا۔
کچھ ہی لمحوں بعد ایک اور افسر اندر داخل ہوا اور مجھ سے کہا کہ میرے زیر جامہ کے علاوہ تمام کپڑے اتار دوں۔ میں نے شروع میں انکار کیا، لیکن انھوں نے اصرار کیا اور مجھے دھمکیاں دیں، اس لیے میں نے تعمیل کی۔
اس نے میرے انڈرویئر کا بھی معائنہ کیا، آگے اور پیچھے دونوں طرف دیکھا، میرے کپڑوں کی تلاشی لی، پھر مجھے کہا کہ انھیں دوبارہ پہن لو اور مجھ سے پوچھ گچھ شروع کر دی۔ بشمول میرے بچوں اور ان کی عمروں کے بارے میں ذاتی سوالات تک پوچھے۔
جب آخرکار انھوں نے مجھے کمرے سے باہر جانے دیا تو میں نے اپنی ٹیم کے ارکان کی آنکھوں پر پٹی باندھے خوفناک منظر دیکھا۔
میں نے افسر سے انھیں رہا کرنے کی التجا کی، اور اس نے پوچھ گچھ کے بعد ایسا کرنے کا وعدہ کیا۔ انھیں ایک ایک کرکے ایک ہی کمرے میں پٹی کی تلاشی اور پوچھ گچھ کے لیے لے جایا گیا۔
وہ ہاتھ بندھے ہوئے لیکن آنکھوں پر پٹی باندھ کر واپس آئے۔ ٹیم کی پوچھ گچھ دو گھنٹے سے زائد جاری رہی، اس دوران ہمارے تمام فونز اور لیپ ٹاپس کی جانچ پڑتال کی گئی اور بہت سی تصاویر بشمول ذاتی تصاویر کو ڈیلیٹ کر دیا گیا۔
افسر نے کہا اگر ہم شام کی طرف سے دوبارہ سرحد پر پہنچ گئے تو پھر ہمیں سنگین نتائج کی دھمکی دی اور کہا کہ وہ ہمارے بارے میں سب کچھ جانتے ہیں اور اگر کوئی چھپی ہوئی یا ڈیلیٹ نہ کی گئی تصویر شائع ہوئی تو وہ ہمارا تعاقب کریں گے۔
ہماری حراست کے تقریباً سات گھنٹے بعد ہمیں دو گاڑیوں کے ذریعے، ایک ہماری کار کے آگے اور دوسری ہمارے پیچھے، قنيطرہ سے باہر تقریباً 2 کلومیٹر دور دیہی علاقے میں لے جایا گیا۔ وہیں گاڑیاں رک گئیں اور گاڑیوں کے جانے سے پہلے ہمارے فون والا ایک بیگ ہماری طرف پھینکا گیا۔
بغیر سگنل کے اندھیرے علاقے میں جہاں نہ انٹرنیٹ اور نہ ہی کوئی اندازہ تھا کہ ہم کہاں ہیں، ہم گاڑی چلاتے رہے جب تک کہ ہم ایک چھوٹے سے گاؤں تک نہ پہنچے۔
بچوں کے ایک گروپ نے ہمیں ہائی وے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے خبردار کیا کہ غلط موڑ اسرائیلی فوجیوں کی طرف سے فائرنگ کا سبب بن سکتا ہے۔ دس منٹ بعد ہمیں سڑک مل گئی۔ اس کے 45 منٹ بعد ہم دمشق میں تھے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
دنیا میں کرکٹ کے سب سے بڑے ٹورنامنٹ آئی پی ایل کی چیمپیئن وراٹ کوہلی کی ٹیم رائل چیلنجرز بنگلور کے اعزام میں بنگلورو کے چناسوامی سٹیڈیم میں استقبالیہ کی تقریب کے باہر بھگدڑ مچنے سے کم از کم 10 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔
یہ لوگ رائل چیلنجرز بنگلور کی جیت کا جشن منانے کے لیے جمع ہوئے تھے۔ 18 سال میں پہلی بار آئی پی ایل ٹرافی جیتنے والی ٹیم کے استقبال کے لیے بدھ کو لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ ان میں نوجوان، خواتین، بچے اور بوڑھے شامل تھے۔
ایک سینیئر پولیس افسر نے بی بی سی ہندی کو بتایا کہ چناسوامی سٹیڈیم کے گیٹ پر بھگدڑ میں تقریباً 10 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ پولیس افسر کا کہنا تھا کہ ’جب یہ واقعہ پیش آیا تو سٹیڈیم کے دروازے نہیں کھلے تھے لیکن بہت سے لوگوں نے چھوٹے دروازے سے اندر داخل ہونے کی کوشش کی جس سے بھگدڑ مچ گئی۔‘
تصویروں میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پولیس بے قابو ہجوم پر قابو پانے کے لیے لاٹھی چارج کر رہی ہے۔
کرناٹک کے نائب وزیر اعلیٰ ڈی کے شیوکمار نے ایکس پر لکھا کہ ’یہ لوگ آر سی بی کی آئی پی ایل جیت کا جشن دیکھنے آئے تھے۔ لیکن اس سانحہ نے ہمیں گہرا دکھ اور صدمہ پہنچایا ہے۔‘
انھوں نے مرنے والوں کے اہل خانہ سے تعزیت کا اظہار کیا ہے۔
ان کے مطابق ’ہمیں جیت پر فخر ہے لیکن یہ کسی کی جان سے بڑا نہیں ہو سکتا۔ میں ہر ایک سے ان کی حفاظت کا خیال رکھنے کی اپیل کرتا ہوں۔‘ انھوں نے کہا کہ وہ ابھی ہسپتال نہیں جا رہے ہیں تاکہ ڈاکٹرز بغیر کسی رکاوٹ کے زخمیوں کا علاج کر سکیں۔