یہ صفحہ اب مزید اپ ڈیٹ نہیں کیا جا رہا!
ایران اور اسرائیل کے درمیان حملوں کے تبادلے اور مشرقِ وسطیٰ کی بدلتی صورتحال پر بی بی سی اردو کی لائیو کوریج جاری ہے، اس کے بعد کی خبروں کے لیے میں ہمارے نئے لائیو پیج پر آئیے۔
ہم آپ کو بہترین آن لائن تجربہ دینے کے لیے کوکیز استعمال کرتے ہیں۔ برائے مہربانی ہمیں بتائیں کہ آپ ان تمام کوکیز کے استعمال سے متفق ہیں
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر اسرائیل اور ایران کے درمیان ’مکمل جنگ بندی ‘ کا اعلان کیا ہے۔ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ جنگ بندی کا آغاز ’اب سے تقریباً چھ گھنٹے بعد‘ ہو جائے گا جب ہر ملک نے اپنی فوجی کارروائیاں ’ختم‘ کر دیں گے۔ اسرائیل اور ایران نے ابھی تک جنگ بندی کی تصدیق نہیں کی ہے۔
ایران اور اسرائیل کے درمیان حملوں کے تبادلے اور مشرقِ وسطیٰ کی بدلتی صورتحال پر بی بی سی اردو کی لائیو کوریج جاری ہے، اس کے بعد کی خبروں کے لیے میں ہمارے نئے لائیو پیج پر آئیے۔
ایران کے وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ اگر اسرائیل اپنی غیر قانونی جارحیت بند کر دیتا ہے تو ایران کا اس کے بعد اپنا ردعمل جاری رکھنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
عراقچی نے کہا کہ اسرائیل کو مقامی وقت کے مطابق صبح چار بجے تک اپنی کارروائیاں روک دینی چاہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ایران نے بارہا واضح کیا ہے کہ اسرائیل نے ایران کے خلاف جنگ شروع کی ہے، اس نے نہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ابھی تک جنگ بندی یا فوجی کارروائیوں کے خاتمے پر کوئی معاہدہ نہیں ہوا ہے۔
’تاہم اگر اسرائیلی حکومت ایرانی عوام کے خلاف اپنی غیر قانونی جارحیت تہران کے وقت کے مطابق صبح 4 بجے کے بعد بند کر دے، ہمارا اس کے بعد اپنا ردعمل جاری رکھنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔‘
’ہماری فوجی کارروائیوں کے خاتمے کے بارے میں حتمی فیصلہ بعد میں کیا جائے گا۔‘
امریکی میڈیا سے بات کرنے والے مذاکرات میں شامل حکام کے مطابق قطری وزیر اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن الثانی نے اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ بندی کو یقینی بنانے میں مدد کی۔
نامعلوم عہدیداروں نے کہا کہ قطر میں العدید ایئربیس پر ایرانی بمباری کے بعد ایرانی حکام سے فون پر بات کرنے کے بعد قطر امریکی تجویز میں شامل ہوا۔
امریکہ کے صدر ٹرمپ کی جانب سے جنگ بندی کے اعلان کے بعد تیل کی قیمتوں میں کمی کا سلسلہ جاری ہے۔
عالمی بینچ مارک برینٹ کروڈ مزید 4 فیصد کم ہو کر 68 ڈالر فی بیرل پر آ گیا ہے۔
اس سے پہلے پیر کے ٹریڈنگ سیشن میں سات فیصد کی کمی ہوئی تھی۔
تیل کی قیمتیں اب 12 جون سے کم ہیں جب اسرائیل نے پہلی بار ایران پر حملہ کیا تھا۔
ایشیا کی سٹاک مارکیٹیں بھی مشرق وسطی میں تازہ ترین پیش رفت پر مثبت ردعمل دے رہی ہیں، جاپان، جنوبی کوریا اور آسٹریلیا کے انڈیکس میں اضافہ ہوا ہے۔
ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کی تہران کی طرف سے کوئی باضابطہ تصدیق نہیں ہوئی ہے، جس کا اعلان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کی صبح سویرے کیا ہے۔
سی این این نے اطلاع دی ہے کہ ایک سینیئر ایرانی اہلکار نے نیٹ ورک کو بتایا کہ ملک کو جنگ بندی کی کوئی تجویز موصول نہیں ہوئی ہے۔
نامعلوم اہلکار نے کہا کہ امریکی اور اسرائیلی رہنماؤں کے بیانات ’دھوکہ‘ ہیں جس کا مقصد ایران پر مسلسل حملوں کو جواز بنانا ہے۔
اہلکار نے مزید کہا، ’اس وقت دشمن ایران کے خلاف جارحیت شروع کر رہا ہے اور ایران اپنے جوابی حملوں کو تیز کرنے والا ہے، وہ اپنے دشمنوں کے جھوٹ پر کان دھرنے والا نہیں ہے۔‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر اسرائیل اور ایران کے درمیان ’مکمل جنگ بندی ‘ کا اعلان کیا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ جنگ بندی کا آغاز ’اب سے تقریبا چھ گھنٹے بعد‘ ہو جائے گا جب ہر ملک نے اپنی فوجی کارروائیاں ’ختم‘ کر دیں گے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ’جنگ باضابطہ طور پر ختم ہو جائے گی۔‘
اسرائیل اور ایران نے ابھی تک جنگ بندی کی تصدیق نہیں کی ہے۔
صدر ٹرمپ نے جنگ بندی کا اعلان کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ’اس مفروضے پر کہ سب کچھ ویسے ہی کام کرنا چاہیے، جو وہ کرے گا، میں دونوں ممالک کو مبارکباد دینا چاہتا ہوں۔‘
امریکی صدر نے اسرائیل اور ایران کے درمیان حالیہ تنازعے کو ’ 12 روزہ جنگ‘ قرار دیا ہے۔
ٹرمپ نے سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ ’یہ ایک ایسی جنگ ہے جو سالوں تک جاری رہ سکتی تھی اور پورے مشرق وسطیٰ کو تباہ کر سکتی تھی لیکن ایسا نہیں ہوا اور کبھی نہیں ہوگا‘۔
،تصویر کا ذریعہSocial Media
امریکی صدر کی جانب سے جنگ بندی کے اعلان کے باوجود اس وقت ایران کے دارالحکومت تہران اور قریبی شہر کرج اور شمالی شہر رشت میں لوگوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے زور دار دھماکوں کی آوازیں سنی ہیں۔
دریں اثنا، ایرانی ذرائع ابلاغ نے اطلاع دی ہے کہ دھماکوں کے بعد تہران میں فضائی دفاع کو فعال کر دیا گیا ہے۔
اسرائیلی دفاعی افواج )آئی ڈی ای) نے ایران کے دارالحکومت تہران کے ضلع سات کو خالی کرنے کا حکم جاری کیا ہے، جو ایرانی دارالحکومت کے مرکزی علاقے میں واقع ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج اس علاقے میں کارروائی کرے گی جیسا کہ اس نے حالیہ دنوں میں ایران بھر میں ایرانی حکومت کے فوجی ڈھانچے پر حملوں کے دوران کیں۔
اسرائیل کی جانب سے ایران میں حملوں کے آغاز کے بعد سے تہران کے مختلف علاقوں کے لیے انخلا کے متعدد احکامات جاری کیے جا چکے ہیں۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فطر میں العدید فضائی اڈے پر ایرانی میزائل حملے کے بعد اپنے پہلے بیان میں کہا ہے کہ ایران نے 14 میزائل فائر کیے تھے جن میں سے 13 کو مار گرایا گیا۔
ٹرتھ سوشل پر اپنی ایک پوسٹ میں ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ایک ایرانی میزائل کو ’آزاد‘ چھوڑ دیا گیا تھا کیونکہ اس سے کوئی خطرہ نہیں تھا۔
’ایران نے سرکاری طور پر اپنے جوہری مراکز کے خاتمے پر انتہائی کمزور ردِ عمل دیا ہے جس کی ہمیں توقع بھی تھی اور ہم نے اسے روک لیا۔‘
امریکی صدر کے مطابق ایرانی حملے میں کسی امریکی کو کوئی نقصان نہیں ہوا۔
ٹرمپ نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ ’میں (حملے کی) پیشگی اطلاع دینے پر ایران کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جس کے سبب نہ ہی کسی جان کا ضیاع ہوا اور نہ کوئی زخمی ہوا۔‘
’شاید اب ایران خطے میں امن اور ہم آہنگی کی طرف بڑھ سکتا ہے اور میں ایسا کرنے کے لیے اسرائیل کی بھی حوصلہ افزائی کروں گا۔‘
اپنی ایک اور پوسٹ میں امریکی صدر نے قطر کے امیر کا بھی ’خطے میں امن کے حصول‘ میں کردار ادا کرنے پر شکریہ ادا کیا ہے۔
انھوں نے لکھا کہ العدید بیس پر حملے میں نہ ہی کوئی امریکی ہلاک ہوا اور نہ ہی کوئی قطری شہری زخمی یا ہلاک ہوا۔
ٹرتھ سوشل پر اپنے تیسرے پیغام میں امریکی صدر نے لکھا کہ ’یہ اب امن کا وقت ہے۔‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کا کہنا ہے کہ ایران نے کسی کو نقصان نہیں پہنچایا اور وہ کسی بھی صورت میں کسی کی جارحیت قبول نہیں کرے گا۔
سماجی رابطے کے سائٹ ایکس پر ایک بیان میں آیت اللہ خامنہ ای کا کہنا ہے کہ ’ایران کسی کی جارحیت کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کرے گا اور یہی ایرانی قوم کی منطق ہے۔‘
پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف نے اسلام آباد میں قطر اور سعودی عرب کے سفیروں علی مبارک علی عیسیٰ الخاطر اور نواف بن سعید المالکی سے ٹیلیفون پر گفتگو کے دوران امریکی فضائی اڈے پر ایرانی میزائل حملوں کی اطلاعات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
وزیرِ اعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ شہباز شریف نے قطر کے سفیر سے گفتگو کے دوران قطری حکومت اور عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا اور کشیدگی میں کمی اور خطے میں امن بحال کرنے کی کوششوں پر زور دیا۔
وزیرِ اعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے ایک اور بیان میں کہا گیا ہے کہ شہباز شریف نے سعودی عرب کے سفیر نواف بن سعید المالکی کے ساتھ گفتگو کے دوران کہا کہ ’پاکستان امن کی کوششوں کو تیز کرنے کے لیے سعودی عرب کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔‘
قطر میں امریکہ کے العدید ہوائی اڈے پر ایران کا میزائل حملہ پہلی نظر میں ایک بڑی کشیدگی دکھائی دیا جس سے خلیجی عرب ریاستوں کو وسیع تر اور خطے بھر میں پھیلنے والے تنازعے میں دھکیلے جانے کا خطرہ تھا۔
یہ معاملہ اب بھی یہاں سے بڑھ سکتا ہے اور قطر غصے میں ہے اور اسے اپنی خودمختاری کی کھلی خلاف ورزی قرار دے رہا ہے۔
قطری خاص طور پر اس لیے ناراض ہیں کیونکہ انھوں نے ایران پر اسرائیل کے حملے کی مذمت کی تھی اور سفارتکاری کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کے تاریخی طور پر تہران کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں اور دونوں ملک پانی میں ایک بڑے سمندری گیس فیلڈ میں شراکت دار ہیں۔
یہ حملہ واضح طور پر ایران کی طرف سے ایک سوچا سمجھا اور کوریوگراف کیا گیا رد عمل تھا۔ ابھی تک کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی ہے اور مبینہ طور پر اس حملے کی پیشگی اطلاع دی گئی تھی، جیسا کہ ایران نے 2020 میں قدس فورس کے کمانڈر قاسم سلیمانی کے امریکے کے ہاتھوں قتل کے جواب میں کیا تھا۔
چھ میزائل اگرچہ اب بھی خطرناک ہیں تاہم یہ ان میزائلوں اور ڈرونز کے برابر نہیں ہیں جنہیں ایران شاید اب بھی داغنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
لہٰذا اس کارروائی کا مقصد ایران کی جانب سے امریکی حملے کا بدلہ لینے کے وعدے کو پورا کرنا ہو سکتا ہے لیکن یہ اتنا بڑا نہیں کہ اس سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے تباہ کن جوابی کارروائی کا آغاز ہو۔
گیند اب صدر ٹرمپ کے کورٹ میں ہے۔ اگر وہ صورتحال کو یہیں چھوڑنے کا انتخاب کرتے ہیں تو آج کی رات ممکنہ طور پر امریکہ اور ایران کے تنازعے میں اہم ہوگی۔
یہاں تک کہ امریکہ اور ایران کے درمیان جوہری مذاکرات کو مزید آگے بڑھانے کا موقع بھی مل سکتا ہے۔
لیکن ٹرمپ کے خیالات کچھ اور بھی ہو سکتے ہیں۔ اگر وہ فیصلہ کرتے ہیں کہ اس کا جواب دینے کی ضرورت ہے تو اس سے خلیج میں ماحول بہت گرما جائے۔
دوحہ کے پُرانے ایئرپورٹ کے قریب رہائش پزیر ایک پاکستانی شہری نے بی بی سی اردو کو بتایا ہے کہ انھوں نے اپنے گھر میں باہر سے آنے والے دھماکوں کی آوازیں سنی تھیں۔
انھوں نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’جب ہم باہر نکلے تو ہم نے دیکھا کہ آسمان پر روشنی ہو رہی تھی اور قطر کا فضائی دفاعی نظام میزائلوں کو انٹرسیپٹ کر رہا تھا۔‘
’ہمارے علاقے میں سب لوگ اپنے گھروں کے اندر ہیں، کوئی باہر نہیں نکل رہا اور سڑکوں پر سنّاٹا ہو چکا ہے۔‘
پاکستانی شہری کا مزید کہنا تھا کہ ’لوگ ڈرے ہوئے تھے کہ میزائل آ رہے ہیں اور جا رہے ہیں۔ یہاں سب کچھ بند ہے اور کچھ نہیں کُھلا ہوا۔‘
قطر میں امریکہ کی العدید ایئربیس پر حملے کے بعد سعودی عرب نے ایک بیان میں ’قطر کے خلاف ایرانی جارحیت‘ کی پُرزور مذمت کی ہے۔
پیر کو سعودی عرب کی وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے ’سعودی عرب برادر ملک قطر کے خلاف ایرانی جارحیت کی پرزور مذمت کرتا ہے جو کہ بین الاقوامی قوانین اور اچھے پڑوسی ہونے کے اصولوں کی سنگین خلاف ورزی ہے۔‘
’یہ ناقابلِ قبول ہے اور کسی بھی حالات میں اس کا جواز نہیں بنتا۔‘
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ سعودی عرب قطر کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتا ہے اور اس کے تمام تر اقدامات کی حمایت کے لیے اپنے تمام وسائل بروئے کار لائے گا۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
امریکہ کے صدر، وزیر دفاع اور چیئر مین جوائنٹ چیفس اس وقت وائٹ ہاؤس کے سیچوایشن روم میں ہیں اور ایسے میں قطر سے حملے کے اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔
جب سے اسرائیل نے ایران پر حملوں کا آغاز کیا ہے 10 روز سے امریکہ میں قومی سلامتی کونسل کی میٹنگ تقریباً روزانہ ہوتی ہے۔
تشویش کا مرکز العدید ایئربیس ہے جو خطے میں امریکہ کا سب سے بڑا اڈہ اور سینٹرل کمانڈ کا فارورڈ ہیڈکوارٹر ہے جو پورے مشرق وسطیٰ کا احاطہ کرتا ہے۔
چند روز قبل سیٹلائٹ سے لی گئی تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایران کی جوہری تنصیبات پر ہفتے کے اختتام پر ہونے والے حملوں سے قبل درجنوں طیاروں کو پارکنگ سے ہٹایا گیا تھا۔
مئی میں ڈونلڈ ٹرمپ نے خطے کے اپنے دورے کے حصے کے طور پر اس اڈے کا دورہ کیا تھا۔
ایک تقریر کے دوران انھوں نے فوجی اہلکاروں سے کہا تھا کہ ’صدر کی حیثیت سے، میری ترجیح تنازعات کو ختم کرنا ہے نہ کہ انھیں شروع کرنا۔ لیکن اگر ضرورت پڑی تو میں امریکہ یا ہمارے شراکت داروں کے دفاع کے لیے امریکی طاقت استعمال کرنے سے کبھی نہیں ہچکچاؤں گا۔‘
سنیچر کو کیے جانے والے حملوں کے بعد صدر ٹرمپ نے کہا کہ ایران کی طرف سے کسی بھی جوابی کارروائی کا ’کہیں زیادہ طاقت کے ذریعے جواب دیا جائے گا۔‘
اگرچہ اب تک ایسا لگتا ہے کہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ہےلیکن امریکی صدر جوابی حملہ کرنے اور یہ ثابت کرنے کے لیے بہت زیادہ دباؤ محسوس کریں گے کہ ان کی دھمکیاں کھوکھلی نہیں ہیں۔
پینٹاگون نے تصدیق کی ہے کہ قطر میں اس کی العدید ایئر بیس پر ایران نے قلیل اور درمیانے فاصلے تک مار کرنے میزائلوں سے حملہ کیا ہے۔
وزارتِ دفاع کے ایک افسر کے مطابق حملے میں کسی کے زخمی یا ہلاک ہونے کی اطلاع موصول نہیں ہوئی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ وزارتِ دفاع کے حکام صورتحال کی نگرانی کر رہے ہیں اور ’مزید معلومات دستیاب ہونے پر شیئر کریں گے۔‘
،تصویر کا ذریعہReuters
خبر رساں ادارے روئٹرز کی جانب سے فراہم کی گئی ان تصاویر میں قطر کے آسمان پر روشنیاں دیکھی جا سکتی ہیں جو ایران کے حملے کے بعد سامنے آئی ہیں۔
ایران کے سرکاری میڈیا کے مطابق ایرانی فوج نے تصدیق کی ہے کہ اس نے قطر میں امریکی فضائی اڈے پر میزائل داغے ہیں جبکہ قطرکی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ اس کے فضائی دفاع نے اس حملے کو کامیابی سے ناکام بنا دیا ہے۔
یہ واضح نہیں ہے کہ نیچے دی گئی تصاویر اصل میں کس چیز کی ہیں لیکن قطر نے اس سے پہلے حملے کے خدشے کے پیش نظر اپنی فضائی حدود کو بند کردیا تھا۔
،تصویر کا ذریعہReuters
العدید ایئر بیس قطر کے دارالحکومت دوحہ کے قریب واقع ہے۔ یہاں مشرق وسطیٰ میں امریکی سینٹرل کمانڈ کے فضائی آپریشنز کا ہیڈکوارٹر ہے۔ اس اڈے پر قریب آٹھ ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں۔
اس اڈے پر برطانوی فوج بھی باری باری تعینات ہوتی ہے۔ اسے بعض اوقات ابو نخلہ ایئرپورٹ کہا جاتا ہے۔
قطر نے سنہ 2000 میں امریکہ کو العدید ایئر بیس تک رسائی دی تھی۔ لندن میں قائم انٹیلیجنس فرم گرے ڈائنیمکس کے مطابق یہ ایئر بیس 2001 میں امریکہ کے زیرِ انتظام آئی تھی۔ دسمبر 2002 میں دوحہ اور واشنگٹن نے باقاعدہ ایک معاہدے کے ذریعے العدید ایئر بیس پر امریکی فوج کی موجودگی تسلیم کی تھی۔
سنہ 2024 میں سی این این نے اطلاع دی تھی کہ امریکہ نے قطر میں عسکری موجودگی کو مزید 10 سال کی توسیع دی ہے۔
بحرین کی وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ سائرن بجائے جا رہے ہیں۔ انھوں نے شہریوں پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے ’قریبی محفوظ مقام‘ پر منتقل ہو جائیں۔
ایکس پر پوسٹوں کی ایک سیریز میں، وزارت نے کہا ہے کہ رہائشیوں کو ’خطرہ ختم ہونے تک‘ کسی عمارت یا چیز محفوظ مقام کے نیچے پناہ لینی چاہیے۔ تاہم انھوں نے خطرے کی وضاحت نہیں کی۔
وزراتِ داخلہ نے پوسٹوں میں شہریوں سے کہا گیا ہے کہ وہ ’محتاط رہیں‘ اور ’زوردار دھماکے کی صورت میں‘ احتیاط برتیں۔
ایران کی سپریم نیشنل سکیورٹی کونسل کا کہنا ہے کہ ایران کی فوج نے قطر میں جس امریکی فوجی اڈے کو نشانہ بنایا ہے وہ شہری اور رہائشی علاقوں سے بہت دور تھا۔
ایرانی سرکاری خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق ایران کی سپریم سکیورٹی کونسل کے سیکریٹریٹ سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’اس اقدام سے ہمارے دوست اور برادر ملک قطر اور اس کے معزز لوگوں کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔‘
’ایران قطر کے ساتھ گرمجوشی اور تاریخی تعلقات کو برقرار رکھنے کے لیے پُر عزم ہے۔‘
امریکہ کی العدید بیس پر حملے کے حوالے سے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’اس کامیاب آپریشن میں استعمال ہونے والے میزائلوں کی تعداد ان بموں کے برابر تھی جو امریکہ نے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے میں استعمال کیے تھے۔‘
امریکہ میں وائٹ ہاؤس نے تصدیق کی ہے کہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل ڈین کین اور وزیر دفاع پیٹ ہیگسیتھ اس وقت وائٹ ہاؤس میں موجود ہیں۔
یہ دونوں افراد امریکی دفاعی اسٹیبلشمنٹ میں اعلیٰ ترین سویلین اور فوجی رہنما ہیں اور صدر ٹرمپ کو فوج کے کمانڈر ان چیف کی حیثیت سے رپورٹ کرتے ہیں۔
یہ واضح نہیں ہے کہ قومی سلامتی کونسل کا اجلاس طے شدہ وقت پر شروع ہوا ہے یا نہیں۔
وائٹ ہاؤس میں حالات قدرے افراتفری کا شکار ہیں کیونکہ درجنوں صحافی صدر کی نقل و حرکت اور خلیج میں ایرانی آپریشن یا ممکنہ امریکی ردعمل کے بارے میں مزید تفصیلات حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔