یہ صفحہ مزید اپ ڈیٹ نہیں کیا جا رہا ہے!
بی بی سی اردو کی لائیو پیج کوریج جاری ہے تاہم یہ صفحہ مزید اپ ڈیٹ نہیں کیا جا رہا ہے۔
26 جون کی خبریں جاننے کے لیے یہاں کلک کریں
ہم آپ کو بہترین آن لائن تجربہ دینے کے لیے کوکیز استعمال کرتے ہیں۔ برائے مہربانی ہمیں بتائیں کہ آپ ان تمام کوکیز کے استعمال سے متفق ہیں
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ہم اگلے ہفتے ایران سے بات کریں گے اور شاید کوئی معاہدہ بھی ہو جائے۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ’میرے لیے معاہدہ ضروری نہیں اور مجھے فرق نہیں پڑتا کہ معاہدہ ہو یا نہ ہو۔‘
پیشکش: منزہ انوار
بی بی سی اردو کی لائیو پیج کوریج جاری ہے تاہم یہ صفحہ مزید اپ ڈیٹ نہیں کیا جا رہا ہے۔
26 جون کی خبریں جاننے کے لیے یہاں کلک کریں
،تصویر کا ذریعہGetty Images
اسرائیل کی انٹیلی جنس ایجنسی موساد کے سربراہ ڈیوڈ برنا نے ایران کے ساتھ حالیہ 12 روزہ جنگ کے دوران ’مشترکہ کارروائیوں‘ میں مدد کرنے پر امریکی سینٹرل انٹیلیجنس ایجنسی سی آئی اے کا شکریہ ادا کیا ہے۔
جنگ بندی کے دوسرے دن اسرائیلی میڈیا پر نشر ہونے والی ایک ویڈیو میں ڈیوڈ بارنا نے ’اسرائیل کی سلامتی، طاقت اور مستقبل کے لیے تیاری‘ میں کام کرنے پر اپنے افسران کا شکریہ ادا کیا۔
برنا، جو شاذ و نادر ہی تبصرہ کرتے ہیں، نے مزید کہا: ’میں مشترکہ کارروائی اور کامیابی کے ساتھ انجام پانے والے آپریشن کے لیے اپنے اہم پارٹنر سی آئی اے کے ساتھ ساتھ اس تنظیم کے ڈائریکٹر کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جس نے درست فیصلے کرنے میں موساد کا ساتھ دیا۔‘
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگرچہ ایران پر حملے میں اسرائیل کو سی آئی اے کی مدد کی حد واضح نہیں ہے، لیکن ان حملوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیلی انٹیلیجنس سروسز ایرانی حکومت میں دراندازی کرنے میں کتنی کامیاب رہی ہیں۔
موساد کے سربراہ نے اپنے ویڈیو بیان میں کہا، ’ہم ان تمام ایرانی اقدامات (بشمول) منصوبوں پر اپنی آنکھیں کھلی رکھیں گے جن کے بارے میں ہم تفصیل جانتے ہیں، اور ہم وہاں موجود رہیں گے جیسا کہ ہم ہمیشہ سے رہے ہیں۔‘
،تصویر کا ذریعہReuters
ایران نے تین کرد قیدیوں جن میں ادریس علی، آزاد شجاعی (دونوں کا تعلق سردشت کاؤنٹی سے ہے) اور رسول احمد رسول (جن کا علق سلیمانیہ، کردستان ریجن سے ہے) شامل ہیں، کو اسرائیل کے لیے جاسوسی کے الزام میں خفیہ طور پر ارمیا کی مرکزی جیل میں پھانسی دے دی ہے۔ ان پر ایران کے ممتاز ایٹمی سائنسدان محسن فخری زادہ کے قتل میں سہولت کاری کا الزام تھا۔
ایرانی عدالتی خبررساں ادارے ’میزان‘ کے مطابق، ان افراد کو فخری زادہ کے قتل میں استعمال ہونے والے سامان کو ایران منتقل کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
اسرائیل نے محسن فخری زادہ کو 2020 میں ایک پیچیدہ اور غیر معمولی حملے میں ہلاک کیا تھا۔ برطانوی ہفت روزہ ’جیوش کرانیکل‘ نے اس حملے کے بارے میں گمنام ذرائع کے حوالے سے رپورٹ کیا تھا کہ فخری زادہ کو ایک جدید مشین گن سے نشانہ بنایا گیا جو ایک ٹن سے زیادہ وزنی تھی۔ اس مشین گن کے پرزہ جات ایران میں خفیہ طور پر سمگل کیے گئے اور آٹھ ماہ کے عرصے میں موساد ایجنٹوں نے اندرون ایران اسے اسمبل کیا۔
تہران میں سیکیورٹی نوعیت کے مقدمات پر کام کرنے والے ایک وکیل نے بی بی سی کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اگرچہ ان تینوں افراد پر لگائے گئے الزامات درست بھی ہوں، تب بھی اس بات کا امکان نہایت کم ہے کہ وہ جانتے ہوں کہ وہ کس مقصد کے لیے یہ سامان منتقل کر رہے تھے۔
ان کا کہنا تھا: ’یہ سوچنا بھی مشکل ہے کہ موساد نے ان لوگوں کو بتا دیا ہو کہ وہ ایک اہم ایرانی جوہری سائنسدان کے قتل کے لیے ہتھیار لے جا رہے ہیں۔ اگر انھوں نے واقعی یہ سامان منتقل کیا بھی ہو تو یہ غالباً ان کے علم کے بغیر کیا گیا ہو گا۔ ہوسکتا ہے سامان شراب کی بوتلوں یا کسی اور تجارتی چیز کے ساتھ چھپایا گیا ہو۔ وہ محض کولبر (سرحدی باربردار) تھے۔‘
یہ پہلا موقع نہیں کہ ایران میں جوہری سائنسدانوں کے قتل میں ملوث ہونے کے الزام میں افراد کو سزائیں دی گئی ہوں۔ تقریباً بارہ سال قبل، ایران کی وزارتِ انٹیلی جنس نے چار ایٹمی سائنسدانوں کے قتل میں ملوث 13 افراد کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ 2012 میں سرکاری ٹی وی پر نشر ہونے والے ایک پروگرام ٹیرر کلب میں ان ملزمان کے اعترافات نشر کیے گئے، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ شاید وہ دباؤ یا تشدد کے نتیجے میں لیے گئے تھے۔
ان میں شامل ایک شخص مزیار ابراہیمی، جو بعد ازاں سزائے موت سے بچ گئے، نے 2019 میں بی بی سی فارسی کی ایک دستاویزی فلم میں دعویٰ کیا کہ ان سے انتہائی سخت تشدد کے بعد کیمرے کے سامنے جھوٹے اعترافات کروائے گئے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ وزارتِ انٹیلی جنس نے مکمل سکرپٹ تیار کر کے انھیں اس کا حصہ بنایا تاکہ سرکاری بیانیے کو تقویت دی جا سکے۔
،تصویر کا ذریعہEPA-EFE/Shutterstock
ایران نے پاسداران انقلاب کے خاتم الانبیا سینٹرل ہیڈ کوارٹر کے کمانڈر علی شادمانی کی ہلاکت کی سرکاری طور پر تصدیق کر دی ہے۔
ایران کے سرکاری میڈیا ارنا نے صدر دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا ہے کہ شادمانی گزشتہ ہفتے اسرائیلی حملوں کے بعد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہو گئے۔
اسرائیل کی دفاعی افواج نے 17 جون کو ایک بیان میں اعلان کیا تھا کہ شادمانی کو خفیہ اطلاعات کے بعد نشانہ بنایا گیا۔
شادمانی ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے معاون تھے اور ملک کے ’جنگ کے وقت کے چیف آف سٹاف‘ کے طور پر جانے جاتے تھے۔
انھیں 13 جون کو اسرائیلی فضائی حملوں کے بعد خاتم الانبیا سینٹرل ہیڈ کوارٹر کا کمانڈر مقرر کیا گیا تھا جس میں ان کے پیشرو غلام علی رشید ہلاک ہوگئے تھے۔
،تصویر کا ذریعہEPA
جنگ بندی کے دوسرے دن گرمیوں کی ایک روشن اور تپتی دوپہر میں، تہران میں زندگی آہستہ آہستہ معمول کی طرف لوٹ رہی ہے۔
اونچے پلوں اور درختوں سے گھری سڑکوں پر ٹریفک واپس آنا شروع ہو گئی ہے لیکن بہت سی دکانیں، کیفے اور سرکاری دفاتر اب بھی بند ہیں۔
ہماری جتنے ایرانیوں سے ملاقات ہوئی، وہ سب کے سب جنگ بندی پر بے حد سکون کا اظہار کر رہے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی انھیں کچھ شک بھی ہے کہ یہ سکون کب تک برقرار رہے گا۔
اس پھیلے ہوئے شہر میں گذشتہ دو ہفتوں کے حملوں نے لوگوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔۔۔ اسرائیلی اور امریکی بمباری کی شدت سے نہیں بلکہ اس لیے بھی کہ یہ حملے پہلی مرتبہ رہائشی علاقوں میں یا ان کے قریب ہوئے۔
حکام نے انٹرنیٹ کو جنگ سے پہلے والی حالت پر بحال کر دیا ہے۔ وہ سوشل میڈیا ایپس جو حکومت نے پابندی سے آزاد چھوڑ رکھی ہیں یا جن تک عوام مختلف وی پی اینز کے ذریعے رسائی حاصل کرتے ہیں، ان پر پوسٹوں کی بھرمار ہے۔۔۔ کچھ ایرانی اپنے رہنماؤں کو اسرائیل اور مغرب کے خلاف مزاحمت پر سراہ رہے ہیں تو کچھ انٹرنیٹ پر لگائی گئی پابندیوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
یہ ایک ایسی بحث ہے جو جاری رہے گی کیونکہ ایران اس وقت دنیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔
ہم نے ابھی ابھی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ہیگ میں نیٹو سمٹ کی نیوز کانفرنس میں میڈیا کے سوالات کے جواب دیتے سنا۔
اہم نکات کا خلاصہ یہ ہے:
ٹرمپ سے پوچھا گیا کہ کیا وہ ایران کے جوہری ٹھکانوں پر امریکی حملے کے اثرات کے بارے میں اسرائیلی انٹیلی جنس پر انحصار کر رہے ہیں؟
انھوں نے جواب دیا کہ ایران نے بھی حملے سے متعلق اسی طرح کا بیان دیا ہے اور مزید انٹیلیجنس بھی حاصل کی گئی ہے، ساتھ ہی ان لوگوں سے بھی بات کی گئی ہے جنھوں نے جائے وقوعہ کو دیکھا ہے۔
ٹرمپ نے کہا ’وہ جگہ تباہ ہو چکی ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ جو بھی جوہری مواد وہاں تھا، وہ وہیں تھا اور وہ اسے نکال کر نہیں لے جا سکے۔‘
،تصویر کا ذریعہReuters
ٹرمپ سے جب خفیہ ادارے کی رپورٹ لیک ہونے پر سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا ’انھوں نے جو رپورٹ پیش کی وہ مکمل ہی نہیں تھی۔ وہ صرف اندازے ہی لگا سکتے ہیں۔‘
پھر انھوں نے دفاعی وزیر پیٹ ہیگسیتھ کو بات کرنے کا موقع دیا جنھوں نے امریکی میڈیا پر تنقید کرتے ہوئے کہا ’میڈیا نے رپورٹ کو گھما پھرا کر اس طرح پیش کیا تاکہ ٹرمپ کو برا دکھایا جا سکے۔‘
انھوں نے مزید کہا ’جنھوں نے یہ بم بالکل درست جگہوں پر گرائے، وہ جانتے ہیں اصل میں کیا ہوا تھا۔‘
ٹرمپ سے جب پوچھا گیا کہ کیا امریکہ ایران پر پابندیاں ختم کرنے کا سوچ رہا ہے، تو انھوں نے جواب دیا ’ایران نے ابھی جنگ لڑی ہے اور بہادری سے لڑی ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا ’اگر وہ تیل بیچنا چاہتے ہیں تو بیچیں، چین اگر چاہے تو ایران سے تیل خرید سکتا ہے۔‘
ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ ’ایران کو اپنی معیشت سنبھالنے کے لیے پیسے کی ضرورت ہوگی۔‘
،تصویر کا ذریعہReuters
ٹرمپ نے کہا ہے کہ امریکہ اگلے ہفتے ایران سے بات کرے گا۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ ایران کے ساتھ اب کیا ہونے والا ہے اور کیا ایران نے امریکی حملے سے پہلے اپنا نیوکلیئر مواد کہیں اور منتقل کر لیا تھا، ٹرمپ نے کہا: ’بالکل الٹا، ان کے پاس وقت ہی نہیں تھا۔‘ انھوں نے مزید کہا ’یہ مواد بہت بھاری ہوتا ہے اور اسے منتقل کرنا بہت مشکل ہے۔‘ ان کے مطابق ایران کی نیوکلیئر صلاحیت اب ’ختم ہو چکی ہے۔‘
اس کے بعد وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا کہ صدر ٹرمپ اُن لوگوں سے بات کرنے کے لیے تیار ہیں جو امن چاہتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ بات چیت کا انحصار اس بات پر ہے کہ آیا ایران سنجیدگی سے مذاکرات کرنا چاہتا ہے یا نہیں۔
ٹرمپ نے کہا ’ہم آئندہ ہفتے ایران سے بات کریں گے، شاید کوئی معاہدہ بھی ہو جائے۔‘ لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا:’میرے لیے معاہدہ ضروری نہیں۔ انھوں نے جنگ لڑ لی، اب واپس اپنی دنیا میں جا رہے ہیں۔ مجھے فرق نہیں پڑتا کہ معاہدہ ہو یا نہ ہو۔‘
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نیٹو سمٹ میں خطاب کر رہے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے خطاب کا آغاز اسرائیل ایران کشیدگی پر بات کرتے ہوئے کیا اور ایران کے نیوکلیئر پروگرام پر کیے گئے ’بڑے اور انتہائی درست حملے‘ کو سراہا۔
انھوں نے کہا ’دنیا کی کوئی اور فوج ایسا نہیں کر سکتی تھی اور اب امریکی طاقت کے اس ناقابلِ یقین مظاہرے نے امن کی راہ ہموار کر دی ہے۔‘
ٹرمپ نے مزید کہا ’سب ختم ہو چکا ہے، ہمیں نہیں لگتا کہ یہ دونوں دوبارہ ایک دوسرے پر حملہ کریں گے۔‘
صدر نے دعویٰ کیا کہ امریکہ نے ایران کو نیوکلیئر ہتھیار حاصل کرنے سے روک دیا ہے اور ہم نے دوبارہ دنیا پر واضح کر دیا ہے کہ امریکہ اپنے دشمنوں کو روکنے کی طاقت رکھتا ہے۔
،تصویر کا ذریعہMAXAR
ایران کا کہنا ہے کہ حالیہ اسرائیلی اور امریکی حملوں سے اس کی جوہری تنصیبات کو ’شدید نقصان‘ پہنچا ہے۔
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل باغائی نے امریکی اور اسرائیلی حملوں کے بعد ایران کی جوہری تنصیبات کی حالت کے بارے میں الجزیرہ کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا ’جی ہاں، ہماری جوہری تنصیبات کو شدید نقصان پہنچا ہے کیونکہ (ان تنصیبات) کو بار بار حملوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔‘
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ وہ نقصان کے بارے میں مزید تفصیلات فراہم نہیں کرسکتے ہیں ’کیونکہ یہ ایک تکنیکی مسئلہ ہے‘ اور اس بات پر زور دیا کہ ایران کی جوہری توانائی کی تنظیم اور دیگر متعلقہ ادارے اس معاملے کی تحقیقات کر رہے ہیں۔
پینٹاگون کی ایک لیک ہونے والی دستاویز کے مطابق ایران کی جوہری تنصیبات پر حالیہ امریکی حملوں نے انھیں تباہ نہیں کیا اور صرف نقصان پہنچایا جس کی وجہ سے پروگرام سست ہوا۔
لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کئی بار اس رپورٹ کی درستگی پر سوالیہ نشان لگاتے ہوئے کہا ہے ’اگر آپ اس سے پہلے اور بعد کی تصاویر دیکھیں تو وہاں موجود ہر چیز سیاہ اور جلی ہوئی ہے، مجھے یقین ہے کہ یہ مکمل تباہی تھی۔‘
اس سے قبل یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ کایا کالس نے ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکی حملے کی کامیابی پر شکوک کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ نقصان کی حد ابھی واضح نہیں ہے۔
انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل رافیل گروسی نے کہا ہے کہ ان کی ’اولین ترجیح‘ ایران کی جوہری تنصیبات پر معائنہ کاروں کی واپسی ہے تاکہ دیگر چیزوں کے علاوہ، امریکی اور اسرائیلی فوجی حملوں کے اثرات کا جائزہ لیا جا سکے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ایرانی حملوں کے نتیجے میں خاص طور پر پچھلے کچھ دنوں میں اسرائیل کو بہت سخت نقصان پہنچا اور بیلسٹک میزائلوں نے بہت سی عمارتیں تباہ کیں۔
ٹرمپ، نیٹو کے سیکریٹری جنرل مارک روٹے کے ہمراہ نیدرلینڈز میں نیٹو سربراہی اجلاس کے دوسرے روز پریس کانفرنس میں سوالات کے جواب دے رہے تھے۔
صحافی نے ان سے پوچھا کہ ایرانی وزیر خارجہ کے اس بیان پر آپ کا کیا ردِعمل ہے کہ وہ اب بھی جوہری مواد کی افزودگی کرنا چاہتے ہیں؟
ٹرمپ کا کہنا تھا ’مجھے نہیں معلوم کہ انھوں نے واقعی ایسا کہا ہے یا نہیں۔ لیکن اس وقت وہ کسی چیز کی افزودگی نہیں کرنا چاہتے۔ وہ خود کو سنبھالنا چاہتے ہیں اور ہم انھیں ایسا نہیں کرنے دیں گے، دفاعی حوالے سے ہم اس کی اجازت نہیں دیں گے۔‘
’میرا خیال ہے کہ ایران کے ساتھ ہمارا کچھ نہ کچھ تعلق قائم ہو جائے گا۔ پچھلے چار دنوں میں انھوں نے جنگ بندی پر اتفاق کیا۔ یہ ایک بالکل متوازن معاہدہ تھا۔ دونوں نے کہا کہ بس اب بہت ہو گیا۔‘
ٹرمپ کا مزید کہنا تھا کہ ’نہیں، وہ جوہری مواد کی افزودگی نہیں کریں گے۔ ان کی ایسی کوئی نیت نہیں ہے۔ ذرا تصور کریں کہ یہ سب کچھ ہونے کے بعد وہ کہیں ’چلو اب بم بناتے ہیں؟‘ وہ بم نہیں بنائیں گے اور نہ ہی کچھ افزودہ کریں گے۔‘
’ہمیں یقین ہے کہ سب کچھ وہیں نیچے ہے۔ اسے نکالنا بہت مشکل اور خطرناک ہے۔ یہ ایسا نہیں جیسے قالین اٹھا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ رکھ دیا جائے۔‘
ان کا کہنا تھا ’ہم نے زبردست کامیابی حاصل کی۔ یہ سب کے لیے ایک فتح تھی، ایران کے لیے بھی۔ ان کے پاس تیل ہے، وہ ذہین لوگ ہیں اور وہ دوبارہ اُبھر سکتے ہیں۔‘
ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’ایرانی حملوں کے نتیجے میں اسرائیل کو بہت سخت نقصان پہنچا، خاص طور پر پچھلے کچھ دنوں میں۔ بیلسٹک میزائلوں نے بہت سی عمارتیں تباہ کر دیں۔ بنیامین نیتن یاہو کو خود پر فخر ہونا چاہیے۔ لیکن ایران اب طویل عرصے تک بم نہیں بنائے گا۔‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
بی بی سی کی چیف بین الاقوامی نامہ نگار لیز ڈوسیٹ کے مطابق اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ بندی کے بعد تہران میں زندگی معمول کی جانب لوٹ رہی ہے۔
لیز ڈوسیٹ نے بی بی سی کے لیے ایران کے دارلحکومت تہران سے رپورٹ کرتے ہوئے بتایا کہ ایران میں کُچھ دن کے وقفے کے بعد انٹرنیلا بھی بحال ہو رہا ہے اور اس شہر میں جہاں سے متعدد لوگ محفوظ مقامات کی جانب منتقل ہو گئے تھے اب وہ اپنے واپسی کے لیے بس اس بات کا انتظار کر رہے کہ کیا واقعی یہ جنگ بندی قائم رہے گی یہ نہیں۔
اُنھوں نے مزید بتایا کہ تہران میں اب بھی متعدد سرکاری اور نجی دفاتر کے علاوہ تجارتی مراکز میں سے بھی 50 فیصد اب بھی بند ہیں۔
لیز ڈوسیٹ کا کہنا تھا کہ انٹرنیٹ کے بحال ہوتے ہیں جہاں سوشل میڈیا پر لوگ جنگ بندی پر خوشی کا اظہار کر رہے ہیں تو وہیں کُچھ لوگ حکومتی اقدامات پر تنقید بھی کر رہے ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ بہت سے لوگ اب بھی اس جنگ بندی پر خدشات کا اظہار کر رہے ہیں کہ آخر یہ کب تک موئثر رہے گی۔
لیز ڈوسیٹ کو ایران میں رپورٹنگ کی اجازت اس شرط پر دی جا رہی ہے کہ ان کی کوئی بھی رپورٹ بی بی سی کی فارسی سروس پر شائع نہیں ہو گی۔ ایرانی حکام کے اس اصول کا اطلاق ایران میں کام کرنے والی تمام بین الاقوامی میڈیا ایجنسیوں پر ہوتا ہے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
،تصویر کا ذریعہGetty Images
فردو وہ مقام ہے کہ جس کے بارے میں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اس مقام کی سب سے زیادہ جاسوسی کی جاتی ہے۔
مغربی انٹیلی جنس نے پہلی بار 2009 میں یہ بات عام کی تھی کہ یہ ایک خفیہ جوہری تنصیب ہے اور اب امریکی حملوں سے ہونے والے نقصانات کو سمجھنا اس بات کا تعین کرنے میں اہم ہوگا کہ یہ تنازعہ آگے کہاں تک جائے گا۔
پروگرام کو تباہ کرنے یا نقصان پہنچانے کا کیا مطلب ہے اور اس بارے میں آپ کو کیسے پتہ چلتا ہے؟
بی بی سی کے سکیورٹی تجزیہ کار گورڈن کوریرا کے مطابق دھول اور زمین پر پڑ جانے والے گڑھوں کی سیٹلائٹ سے لی جانے والی تصاویر سے اس بارے میں بہت کم پتہ چل رہا ہے کہ زیر زمین آخر ہوا کیا۔
یہ ممکنہ طور پر اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اگرچہ امریکہ نے متعدد بموں کا استعمال کیا تھا لیکن ایرانیوں نے انھیں مرکزی ہال تک پہنچنے اور اندر موجود مشینری کو تباہ کرنے سے روکنے کے لئے کافی مضبوط کنکریٹ کا استعمال کیا۔
یہ پہلا موقع تھا جب ان بموں کو آپریشنل طور پر استعمال کیا گیا ہے جس سے غیر یقینی صورتحال میں اضافہ ہوا ہے۔ نقصان کی ایک واضح تصویر تیار کرنے کے لئے مزید کام کرنے کی ضرورت ہوگی۔
اس میں سیسمک ڈیٹیکٹرز سے لے کر زیر زمین دھماکوں کی گہرائی اور شدت کا تجزیہ کرنے والے، تابکاری کی تلاش کے لیے سراغ لگانے والے اور لیڈار جیسے سینسرز شامل ہیں جو ہوائی جہاز یا ڈرون سے لیزر کا استعمال کرتے ہوئے پہاڑ کے اندر دیکھنے کی کوشش کرنے کے لیے تھری ڈی نقشے فراہم کرسکتے ہیں۔
اس حملے نے یقینی طور پر ایران کے پروگرام کو روک دیا ہوگا۔ لیکن کتنا یا کتنے وقت کے لیے؟ یہ بات اس پر منحصر ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کے حملوں کے بعد ایرانی جوہری تنصیبات میں اب بچا کیا ہے؟ واضح طور اس سب کے لیے اعداد و شمار جمع کرنے کی بجائے بس تخمینہ لگایا جا رہا ہے۔
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کا کہنا ہے کہ یہ واضح نہیں کہ ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکی حملے کامیاب تھے یا قانونی۔
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کاجا کلاس نے کہا کہ ’جو بھی طاقت کا استعمال کرتا ہے اسے یہ جواز پیش کرنا چاہیے کہ یہ کارروائی بین الاقوامی قانون کے دائرہ کار میں کی گئی تھی۔‘
جب ان سے براہ راست پوچھا گیا کہ کیا یہ حملے قانونی تھے، تو انھوں نے کہا کہ ’100 فیصد نہیں۔‘
کاجا کلاس نے کہا کہ ان کا خیال ہے کہ امریکی حملوں نے ایران کے جوہری پروگرام کو پس پشت ڈال دیا ہے لیکن ایران کی ’جوہری معلومات‘ کو تباہ نہیں کیا ہے اور اس لیے سفارتی حل ضروری ہے۔‘
کاجا کلاس نے بی بی سی کو بتایا کہ مغرب کے پاس ایران کے ساتھ حل کرنے کے لیے دیگر اہم مسائل ہیں، جیسے کہ ان کا میزائل پروگرام، یوکرین کی جنگ میں روس کی حمایت اور ایران میں یورپی شہریوں کی حراست۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
اسرائیل اور ایران کے درمیان تنازع میں امریکہ نے ایران میں تین جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا۔ آئیے ایک نظر اس بات پر ڈالتے ہیں کہ اب تک اس بارے میں کس نے کیا کہا ہے:
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فضائی حملوں کے اثرات سے متعلق کہا ہے کہ ان حملوں نے ایران کے جوہری پروگرام کو ’دہائیوں‘ پیچھے دھکیل دیا ہے۔
یہ ایک لیک ہونے والی انٹیلی جنس رپورٹ کے بعد ہوا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ امریکی حملوں نے ایران کی جوہری تنصیبات کو تباہ نہیں کیا۔
دوسری جانب ایران میں، ملک کے سرکاری نشریاتی ادارے کے ڈپٹی پولیٹیکل ڈائریکٹر حسن عابدینی نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکہ کی جانب سے نشانہ بنائے گئے تین مقامات کو ’کچھ عرصہ پہلے‘ خالی کرا لیا گیا تھا اور ایران کو ’کوئی بڑا دھچکا نہیں لگا کیونکہ مواد پہلے ہی نکال لیا گیا تھا۔‘
اسرائیل نے بھی ایرانی جوہری تنصیبات پر اپنے حملے کیے ہیں اور اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ ان کا ملک ایران کے جوہری عزائم کو روکنے کے ساتھ ساتھ اس کے میزائل ہتھیاروں کو تباہ کرنے میں بھی کامیاب رہا ہے۔
بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے سربراہ رافیل گروسی کا کہنا ہے کہ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ایران اپنے جوہری پروگرام کے لیے صنعتی صلاحیت اور تکنیکی معلومات رکھتا ہے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
یورینیم ایک بھاری قدرتی دھات ہے جو چٹانوں، مٹی اور یہاں تک کہ سمندر کے پانی میں بھی پائی جاتی ہے۔ اگرچہ یہ زمین کی تہہ بھی میں وسیع پیمانے پر پائی جاتی ہے لیکن اسے صرف چند مقامات سے ہی نکالا جا سکتا ہے۔
یہ دھات قازقستان، کینیڈا، آسٹریلیا، اور افریقہ کے کچھ حصوں میں بڑے پیمانے پر موجود ہے۔ ایران کے پاس بھی یورینیم کے اپنے ذخائر ہیں جسے وہ اپنے صوبے یزد میں صغند اور صوبہ ہرمزگان میں گچین جیسے علاقوں میں موجود کانوں سے نکالتا ہے۔
لیکن یورینیم اپنی قدرتی حالت میں توانائی کی پیداوار اور ہتھیار بنانے کے لیے استعمال نہیں ہو سکتی کیونکہ اس کا 99 فیصد حصہ یورینیم 238 پر مشتمل ہوتا ہے جو کہ جوہری ری ایکشن پیدا کرنے کے قابل نہیں ہوتی۔ لیکن اس میں موجود یورینیم 235 ایسا نایاب آئسوٹوپ ہے جو کہ انتہائی قیمتی ہے لیکن یہ صرف یورینیم دھات کا صفر اعشاریہ سات فیصد حصہ ہی ہوتا ہے۔
جب یورینیم 235 میں موجود ایٹم جُدا ہوتے ہیں تو ان میں سے توانائی کا اخراج ہوتا ہے۔ جوہری پاور پلانٹس میں اس توانائی کو استعمال کر کے بجلی پیدا کی جاتی ہے، لیکن ایک جوہری بم میں اس کا ری ایکشن بہت تیز ہوتا ہے، بے قابو ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں بڑے دھماکے ہوتے ہیں۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
افزودگی کیا ہے اور اس کی عام سطح کتنی ہوتی ہیں؟
بجلی اور ہتھیار دونوں ہی کی تیاری کے دوران یورینیم 235 کی مقدار بڑھانے کے لیے کام کیا جاتا ہے اور اسی عمل کو افزودگی کہتے ہیں۔ یورینیم کی سطح اور افزودہ شدہ مقدار ہی اس بات کا تعیّن کرتی ہے کہ اسے پُرامن مقاصد کے لیے استعمال کیا جانا ہے یا پھر عسکری مقاصد کے لیے۔
یورینیم کو افزودہ کرنے کے لیے سینٹری فیوجز کا استعمال کیا جاتا ہے جو گیس کی شکل میں یورینیم سے یورینیم 235 اور یورینیم 238 کو علیحدہ کرتے ہیں۔
یورینیم کی افزودگی کے موضوع پر جن سطحوں کا ذکر آتا ہے انھیں مختلف کٹیگریز میں تقسیم کیا جاتا ہے:
قدرتی یورینیم: اس میں صرف صفر اعشاریہ سات فیصد یورینیم 235 موجود ہوتی ہے جو کہ توانائی کی پیداوار یا بم بنانے کے لیے ناکافی ہے۔
کم افزودہ یورینیم: یہ قدرتی یورینیم کا پانچ فیصد ہوتی ہے جسے سویلین نیوکلیئر پاور پلانٹس میں استعمال کیا جاتا ہے۔ تین اعشاریہ 67 فیصد یورینیم کی حد 2015 میں ایران کے ساتھ جوہری معاہدے میں طے کی گئی تھی۔
درمیانے درجے کی افزودہ یورینیم: اس کی 20 فیصد مقدار کا استعمال ریسرچ ری ایکٹرز میں ہوتا ہے۔ یورینیم کی اس قسم کا استعمال میڈیکل آئسوٹوپس کی تیاری، سائنسی تجربات کرنے اور انڈسٹریل مشینری کی تیاری میں ہوتا ہے۔
انتہائی افزودہ یورینیم: 60 فیصد سے زیادہ افزودہ یورینیم ہتھیار بنانے کے قابل ہونے کے قریب تر سمجھے جاتی ہے اور ایران کے پاس اس کا وسیع ذخیرہ موجود ہے جس کے سبب مغرب اور آئی اے ای اے کو تشویش ہے اور عمومی طور پر اسے ہتھیار بنانے کی تیاری سمجھا جاتا ہے۔
ہتھیار بنانے کے قابل یورینیم: 90 فیصد افزودہ شدہ یورینیم کو ہتھیار بنانے کے قابل سمجھا جاتا ہے۔ آئی اے ای اے سمجھتی ہے کہ 25 کلوگرام 90 فیصد افزودہ یورینیم ایک جوہری ہتھیار بنانے کے لیے کافی ہوتی ہے۔
یورینیم جتنی زیادہ افزودہ ہوگی جوہری ہتھیار بنانے کا خطرناک سفر مزید کم ہوتا جائے گا۔
،تصویر کا ذریعہMaxar Technologies
بی بی سی ویریفائی کو چند نئی سیٹلائٹ تصاویر موصول ہوئی ہیں کہ جن میں ایران کے اصفہان، فردو اور نطنز میں جوہری تنصیبات کو دکھایا گیا ہے۔
یہ وہ مقامات تھے جنھیں امریکی فوج نے گزشتہ ہفتے کے آخر میں بی ٹو بمبار طیاروں اور کروز میزائلوں کا استعمال کرتے ہوئے نشانہ بنایا تھا اور اسرائیلی فضائی حملوں میں بھی انھیں نشانہ بنایا گیا تھا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اصرار کیا ہے کہ امریکی حملے نے تنصیبات کو ’مکمل طور پر تباہ‘ کردیا ہے۔
میکسر ٹیکنالوجیز کی جانب سے جاری کردہ ہائی ریزولوشن سیٹلائٹ تصاویر میں زمین کے نیچے اور اوپر کی عمارتوں اور ان تک پہنچنے کے لیے استعمال کی جانے والی سڑکوں اور سرنگوں کو پہنچنے والے نقصان کو دکھایا گیا ہے۔
بی بی سی کی ٹیم نے نقصان کی حد کو سمجھنے کے لئے تصاویر کا تجزیہ لینا شروع کردیا ہے۔
،تصویر کا ذریعہMaxar Technologies
ہم میکسر ٹیکنالوجیز کی سیٹلائٹ تصاویر دیکھ رہے ہیں جو منگل 24 جون کو لی گئی تھیں جس دن ایران اور اسرائیل نے امریکی ثالثی میں جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا۔
ان تصاویر میں ایران کے اصفہان نیوکلیئر ٹیکنالوجی سینٹر کی سرنگ کے داخلی راستوں کے قریب اس سے قبل ہونے والے نقصان کو دکھایا گیا ہے۔
سیٹلائٹ سے لی گئی دیگر تصاویر سے شمال مشرقی تہران کی ایک یونیورسٹی کو ہونے والے نقصان کا پتہ چلتا ہے جس کا تعلق جوہری پروگرام سے ہے۔ ہم دارالحکومت کے مغرب میں ایک بڑے ہوائی اڈے سے متصل علاقے میں بھی نقصان دیکھ سکتے ہیں۔
سیٹلائٹ تصاویر خاص طور پر ایران اور اسرائیل کے درمیان 12 روزہ جنگ سے ہونے والے نقصان کا تجزیہ کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں کیونکہ بی بی سی کو ایران میں آزادانہ طور پر کام کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
،تصویر کا ذریعہMaxar Technologies/BBC
اصفہان نیوکلیئر ٹیکنالوجی سینٹر، جو اصفہان شہر کے جنوب مشرق میں واقع ہے، ایران کا اہم جوہری تحقیقی مرکز ہے۔ اس میں یورینیم کی منتقلی کی ایک تنصیب بھی ہے جہاں قدرتی یورینیم کو مواد میں تبدیل کیا جاتا ہے جسے نطنز اور فردو کی تنصیبات میں افزودہ کیا جاسکتا ہے۔
اس کمپلیکس کو اسرائیل نے کم از کم دو بار نشانہ بنایا تھا۔ اس کے بعد 22 جون کو امریکہ نے اسے نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں پورے کمپلیکس میں زیادہ وسیع پیمانے پر نقصان ہوا اور جھلسنے کے متعدد نشانات نظر آئے۔
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے ایران پر امریکی حملوں کے اثرات کا دفاع کرتے ہوئے بظاہر اصفہان میں یورینیم کی منتقلی کی تنصیب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’آپ مواد کو تبدیل کرنے والی تنصیب کے بغیر جوہری ہتھیار نہیں بنا سکتے ہیں، ہم یہ بھی نہیں ڈھونڈ سکتے کہ یہ کہاں ہے، نقشے پر کہاں ہوا کرتا تھا کیونکہ یہ سب کچھ ابھی سیاہ (جل چُکا ہے اور تباہ ہو چُکا ہے) ہو گیا ہے۔۔۔ اسے مٹا دیا گیا۔‘
سائٹ اب بھی تازہ ترین میکسر تصویر میں آسانی سے نظر آتی ہے لیکن یہ مواد کی تبدیلی والی سائٹ کے آس پاس کی عمارتوں کی ایک بڑی تعداد کو بڑے پیمانے پر تباہی کو بھی دکھا رہا ہے۔
،تصویر کا ذریعہScreengrab of Khamenei on National TV
یہ کل کی بات ہے جب صدر سمیت کچھ اعلی ایرانی عہدیداروں اور اداروں نے ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کی تصدیق کی تھی۔
تاہم ملک کی سب سے طاقتور شخصیت یعنی ایران کے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کی جانب سے ابھی تک عوامی سطح پر اس بات کا اعتراف نہیں کیا گیا ہے۔
عام طور پر ریاستی معاملات پر حتمی فیصلہ رہبرِ اعلیٰ کے پاس ہوتا ہے اور ایران کے اندر اور باہر نظریں اس بات پر مرکوز رہتی ہیں کہ وہ جنگ بندی پر تبصرہ کب کریں گے۔
اطلاعات کے مطابق رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای نے وسطی تہران میں اپنی معمول کی رہائش گاہ چھوڑ دی ہے اور اب وہ ایک محفوظ بنکر میں پناہ لیے ہوئے ہیں، لیکن ایران کی جانب سے اس کی تصدیق نہیں کی گئی ہے۔
وہ آخری بار 18 جون کو سرکاری ٹیلی ویژن پر ایک پہلے سے ریکارڈ شدہ پیغام میں نظر آئے تھے، جس میں انھوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے تہران کے ’غیر مشروط ہتھیار ڈالنے‘ کے مطالبے کو مسترد کردیا تھا۔
اگرچہ ایکس پر ان کے سرکاری اکاؤنٹس جنگ بندی سے پہلے فعال تھے لیکن 13 جون کو ایران پر اسرائیل کے حملے کے بعد سے انھیں عوامی سطح پر نہیں دیکھا گیا ہے۔
تازہ ترین تصاویر میں انھیں 11 جون کو ایرانی پارلیمنٹ کے ارکان کے ساتھ ملاقات کے دوران دکھایا گیا ہے۔