ہمایوں: جب ایک ’شکست خوردہ‘ مغل شہنشاہ کی موت سیڑھیوں پر پاؤں پھسلنے سے ہوئی

بی بی سی اردو  |  Jan 29, 2023

Getty Images

مغل بادشاہ ہمایوں کے بارے میں یہ کہانی مشہور ہے کہ ایک دفعہ وہ بہت بیمار ہو گئے۔ ان کی حالت دن بدن خراب ہوتی جا رہی تھی۔

ان کے والد اور انڈیا میں مغل سلطنت کے بانی ظہیر الدین محمد بابر نے ان کے بستر کے تین چکر لگائے اور دعا کی کہ اے خدا اگر جان کے بدلے جان دی جا سکتی ہے تو میں اپنے بیٹے ہمایوں کی جان کے بدلے میں اپنی جان دوں گا۔

ہمایوں کی بہن گلبدین ہمایوں کی سوانح عمری میں لکھتی ہیں کہ ’اسی دن سے بابر کی حالت خراب ہونے لگی اور ہمایوں ٹھیک ہونے لگے۔ بابر بستر سے لگ گئے۔ جب ایسا لگا کہ اب وہ زندہ نہیں رہیں گے تو ہمایوں کو سنبھل سے بلایا گیا۔

ہمایوں اپنے والد کی وفات سے چار دن پہلے آگرہ پہنچے۔ بابر نے اپنے تمام جرنیلوں کو جمع کیا اور کہا کہ ہمایوں ان کا وارث ہو گا۔

’تمہیں اس کا بھی اسی طرح خیال رکھنا ہے جس طرح تم نے میرا خیال رکھا ہے۔ ہمایوں کے لیے یہ درس دیا تھا کہ وہ اپنی رعایا اور بھائیوں کا خیال رکھے اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرے۔‘

ابراہیم لودھی کے خلاف بابر کی مہم میں حصہ

ہمایوں 6 مارچ سنہ 1508 کو کابل میں پیدا ہوئے۔ جب وہ ہندوستان کے تخت پر بیٹھے تو ان کی عمر صرف 27 سال تھی۔

اس عمر میں ہی انھوں نے وہ تمام اچھی اور بری خوبیاں دکھائیں جو آخر دم تک ان کے ساتھ رہیں اور جس کی وجہ سے کبھی کامیابی ملی اور کبھی سخت مایوسی۔

12 سال کی عمر میں بابر نے ہمایوں کو بدخشاں کا گورنر بنا دیا۔ 17 سال کی عمر میں ہمایوں نے ہندوستان کی مہم میں اپنے والد کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر جنگ لڑی۔

بابر نے اپنی سوانح عمری ’بابرنامہ‘ میں لکھا ہے کہ ’میں نے ہمایوں کو حصار فیروزہ کے گورنر کی قیادت میں ابراہیم لودھی کی آگے آنے والی فوج کا سامنا کرنے کے لیے بھیجا تھا۔ جب اس نے لودھی کے سپاہیوں کو شکست دی تو میں نے ہمایوں کو حصار فیروزہ جاگیر کے طور پر دے دی۔

’پانی پت میں فتح کے بعد میں نے اسے آگرہ پر قبضہ کرنے کے لیے بھیجا۔ وہاں گوالیار کے بادشاہ کے خاندان نے اسے ایک بڑا ہیرا دیا جس کی قیمت سے پوری دنیا کے لوگوں کو ڈھائی دن کا پیٹ بھرا جا سکتا تھا۔ جب میں آگرے پہنچا تو میرے بیٹے نے مجھے وہ ہیرا دکھایا لیکن میں نے وہ ہیرا اسے واپس کر دیا۔‘

سلطنت کو مستحکم کرنے کی خواہش

بابر کی موت کے وقت مغل حکومت اس قدر غیر محفوظ محسوس کر رہی تھی کہ ان کی موت کا معاملہ تین دن تک بیرونی دنیا سے پوشیدہ رکھا گیا۔ 30 دسمبر 1530 کو ہمایوں ہندوستان کے تخت پر بیٹھے۔

ایس ایم برک اپنی کتاب ’اکبر دی گریٹسٹ مغل‘ میں لکھتے ہیں: ’ہمایوں نے گھڑ سواری اور تیر اندازی میں مہارت حاصل کی تھی، لیکن ان میں اپنی فتح کو مستحکم کرنے کی قوت ارادی کی کمی تھی۔ ان کے پاس قائدانہ کرشمے کی بھی کمی تھی اور کئی بار ان کے ساتھیوں نے انھیں اس وقت چھوڑ دیا جب انھیں ان کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔ لیکن ہمایوں میں بھی رکاوٹوں کے دوران ہمت نہ ہارنے کی خوبی تھی جس کی وجہ سے وہ بالآخر اپنا کھویا ہوا تخت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔'

شہنشاہ کے طور پر اپنی پہلی مہم میں ہمایوں نے 1531 میں جون پور کے قریب محمود لودھی کو شکست دی تھی۔ 1534 میں انھیں شیر شاہ کی بڑھتی ہوئی طاقت کو کچلنے کے لیے مشرق جانا پڑا۔ لیکن اس سے پہلے کہ وہ وہاں پہنچ پاتے انھیں بہادر شاہ کی دھمکی سے نمٹنے کے لیے واپس لوٹنا پڑا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شیر شاہ کی طاقت پہلے سے زیادہ بڑھ گئی۔ 1534-35 میں ہمایوں نے مالوا اور گجرات پر فتح حاصل کی۔

چوسہ کی جنگ میں ہمایوں کی شکست

مارچ 1537 میں ہمایوں ایک بار پھر شیر شاہ کو کنٹرول کرنے کے لیے مشرق کی طرف بڑھا۔ اس نے بنگال کے دارالحکومت گوڑ پر بھی قبضہ کر لیا۔ اس زمانے کے مشہور مؤرخ جوہر آفتابچی اپنی کتاب تذکرہ الواقعات میں لکھتے ہیں کہ ’گوڑ پر قبضہ کرنے کے بعد ہمایوں نے اپنے آپ کو اپنے حرم میں قید کر لیا اور زیادہ دیر تک اس سے باہر نہ نکلا۔ تب تک شیر شاہ نے بنارس اور جونپور پر قبضہ کر لیا تھا اور ہمایوں کے دارالحکومت واپس آنے کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کر دیں۔‘

وہ لکھتے ہیں کہ ’7 جون 1539 کو چوسہ کی جنگ میں ہمایوں کو شکست ہوئی۔ ہمایوں نے خود اس لڑائی میں حصہ لیا اور ایک تیر اس کے بازو پر بھی لگا۔ جب اس نے اپنے سپاہیوں کو آگے بڑھنے کا حکم دیا تو کسی سپاہی نے ان کے حکم کی تعمیل نہ کی۔

’ہمایوں کو جان بچانے کے لیے بھاگنا پڑا۔ گنگا پار کرتے وقت ان کا گھوڑا دریا کے تیز دھارے میں بہہ گیا۔ ایک بھشتی نے اپنی مشک دے کر ہمایوں کو ڈوبنے سے بچایا۔ بعد میں ہمایوں نے بھشتی کو آدھے دن کے لیے اپنے تخت پر بٹھا کر اس کا بدلہ چکا دیا۔‘

Getty Imagesشیر شاہ سوریقنوج میں بھی شکست کا سامنا

اگلے سال، ہمایوں اپنی شکست کا بدلہ لینے کے لیے نکلے، لیکن ان کے بہت سے ساتھیوں نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا اور انھیں ایک بار پھر 17 مئی 1540 کو قنوج میں شیر شاہ سوری کے ہاتھوں شکست ہوئی، جب کہ ہمایوں کی فوجوں کی تعداد شیر شاہ سے زیادہ تھی۔

جوہر آفتابچی لکھتے ہیں ’افغان فوجی ہمایوں کی آنکھوں کے سامنے ان کا توپ خانہ لوٹ رہے تھے۔ پھر ہمایوں نے ایک پرانے ہاتھی کو دیکھا جو کبھی ان کے والد کے پاس ہوا کرتا تھا۔ وہ اس ہاتھی پر بیٹھ گئے لیکن تبھی انھیں محسوس ہوا کہ ہاتھی کا مہاوت اسے دشمن کے کیمپ کی طرف لے جا رہا ہے۔

’صحن میں چھپے ایک خواجہ سرا نے ہمایوں سے سرگوشی کی کہ وہ اپنی تلوار سے مہاوت کا سر قلم کر دے۔ لیکن ہمایوں ہاتھی پر سوار ہونا نہیں جانتا تھا اور مہاوت کے بغیر وہ آگے نہیں بڑھ سکتا تھا۔ لیکن خواجہ سرا نے انھیں بتایا کہ وہ چھوٹے ہاتھی پر سوار ہونا جانتا ہے اور وہ انھیں کسی محفوظ مقام پر لے جائے گا۔ ہمایوں نے اپنی تلوار سے مہاوت کا سر قلم کر دیا۔‘

ابوالفضل نے اکبرنامہ میں بھی یہ واقعہ نقل کیا ہے لیکن انھوں نے کسی خواجہ سرا کا ذکر نہیں کیا۔ حیدر مرزا دوغلت اپنی کتاب تاریخ رشیدی میں لکھتے ہیں: ’اس دن سترہ ہزار سپاہی ہمایوں کے ساتھ لڑ رہے تھے۔ لیکن جب وہ بھاگا تو وہ اکیلا تھا، نہ سر پر ٹوپی تھی اور نہ پاؤں میں جوتے تھے۔‘

بھائیوں کے ساتھ اختلافات

ہمایوں نے ادھار  کےگھوڑے پر قنوج سے آگرے کا سفر کیا لیکن شکست کی خبر ان سے پہلے ہی پہنچ چکی تھی۔ جوہر لکھتے ہیں کہ ’تقریباً 3000 دیہاتیوں نے ہمایوں کو آگرے کے آدھے راستے بھان گاؤں کے قریب روکا۔

’یہ دیہاتی شکست خوردہ فوج سے لوٹ مار میں مہارت رکھتے تھے۔ ہمایوں نے ان گاؤں والوں سے نمٹنے کے لیے اپنے بھائی ہندال اور عسکری سے مدد مانگی، لیکن وہ آپس میں لڑنے لگے۔ کسی طرح ہمایوں ان گاؤں والوں سے پیچھا چھڑا کر آگرہ پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔‘

تاہم جولائی 1540 میں اپنے والد کی وفات کے 10 سال بعد ہمایوں کو آگرہ بھی چھوڑنا پڑا۔

جب ہمایوں آگرہ سے بھاگنے لگا تو شیر شاہ نے اپنے راجپوت سپہ سالار بہم دت گوڑ کو ایک بڑی فوج کے ساتھ اس کا پیچھا کرنے کے لیے بھیجا۔

یہ بھی پڑھیے

شہنشاہ اکبر کی ’آیا‘ ماہم انگہ: مغل سلطنت کی طاقتور ترین خاتون

ماہ چوچک بیگم: مغل بادشاہ اکبر کے لیے ’دردِ سر‘ ثابت ہونے والی سوتیلی ماں

عباس سروانی لکھتے ہیں کہ گوڑ کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ ہمایوں سے لڑنے کے بجائے اس کا پیچھا کرے۔ ہمایوں کا پیچھا کرنے کا مقصد اسے پکڑنا نہیں تھا بلکہ اسے ہندوستان سے بھگانا تھا۔ ہندال اور عسکری دونوں نے شیر شاہ کے خلاف پہلی مہم میں ہمایوں کا ساتھ دیا تھا، لیکن گوڑ میں ہندال نے انھیں چھوڑ کر آگرہ واپس آنے کا فیصلہ کیا تھا۔

وہاں ہندال نے ہمایوں کی غیر موجودگی میں اقتدار سنبھالا اور وہاں اس کے نام پر خطبہ پڑھا گیا۔ ہمایوں نے شیرشاہ سے لڑنے کے لیے اپنے بھائیوں کے سامنے اتحاد کی تجویز پیش کی، لیکن ان کے بھائی کامران نے اسے قبول نہیں کیا۔ وہ اپنے سپاہیوں کے ساتھ لاہور روانہ ہو گیا۔

گلبدن بیگم لکھتی ہیں: ’ہمایوں نے لاہور سے شیر شاہ کو پیغام بھیجا، میں تمھارے لیے پورا ہندوستان چھوڑ آیا ہوں۔ کم از کم مجھے لاہور میں رہنے دو۔ شیر شاہ کا جواب تھا کہ میں تمہارے لیے کابل چھوڑ آیا ہوں۔ تم وہاں کیوں نہیں جاتے ہمایوں نے اگلے 15 سال تخت دہلی سے دور ایران، سندھ اور افغانستان میں گزارے۔

Getty Imagesہندوستان پر حملہ

شیر شاہ مئی 1545 میں ایک دھماکے میں مارا گیا۔ 1553 میں اس کے بیٹے کی موت کے بعد سلطنت بکھرنے لگی۔ 1554 میں کابل سے خبریں آنے لگیں کہ سلیم شاہ سوری کا انتقال ہو گیا اور اس کے بیٹے کو اس کے چچا نے قتل کر دیا ہے۔ اسی لیے ہمایوں نے ہندوستان پر حملہ کرنے اور اپنی کھوئی ہوئی سلطنت دوبارہ حاصل کرنے کا ارادہ کیا۔

جب ہمایوں نے نومبر کے وسط میں کابل سے ہندوستان کی طرف کوچ کیا تو اس کے پاس تین ہزار سپاہی تھے۔ جب ہمایوں نے ہندوستان پر حملہ کرنے کی مہم کے دوران دسمبر 1554 میں دریائے سندھ کو عبور کیا، سوری خاندان کے تین دعویدار تھے۔ ان میں سب سے نمایاں سکندر شاہ تھا جس کے پاس دہلی سے پنجاب کے روہتاس تک کنٹرول تھا۔ ہمایوں نے اس مہم میں حصہ لینے کے لیے بیرم خان کو قندھار سے بلایا تھا۔ ان کا 12 سالہ بیٹا اکبر بھی ساتھ تھا۔

جب ہمایوں 24 فروری 1555 کو لاہور میں داخل ہوا تو اسے کسی قسم کی مخالفت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اکبر نے سرہند کی لڑائی میں ایک ڈویژن کی قیادت کی۔ سکندر شاہ میدان جنگ سے بھاگ کر پنجاب کے جنگلوں میں چھپ گیا۔ ہمایوں کی فوج 23 جولائی 1555 کو دہلی میں داخل ہوئی۔ لیکن قسمت نے دیر تک اس کا ساتھ نہ دیا۔

سیڑھیوں سے پھسلنا

24 جنوری 1556 کو ہمایوں نے گلاب کے پانی کا آرڈر دے کر افیون کی آخری خوراک لی۔ دوپہر میں ان کی ملاقات کچھ لوگوں سے ہوئی جو حج سے واپس آئے تھے۔

انھوں نے انھیں سرخ پتھر سے بنی اپنی لائبریری میں ملنے کی دعوت دی جو چھت پر تھی۔ چھت پر ملاقات کی ایک اور وجہ تھی تاکہ ملحقہ مسجد میں جمعہ کی نماز کے لیے جمع ہونے والے لوگ اپنے شہنشاہ کی جھلک دیکھ سکیں۔

ملاقات کے بعد ہمایوں نے اپنے ریاضی دان کو اس بات کی تصدیق کے لیے بلایا کہ اس دن زہرہ آسمان پر نظر آئے گا، تاکہ وہ اس مبارک موقع پر کچھ لوگوں کی ترقی کے احکامات جاری کر سکیں۔

گلبدن بیگم ہمایوں کی سوانح عمری میں لکھتی ہیں کہ ’اس دن بہت سردی تھی اور تیز ہوا چل رہی تھی۔ ہمایوں سیڑھیاں اترنے لگا۔ وہ ابھی دوسری منزل پر ہی پہنچا تھا کہ قریبی مسجد سے اذان کی آواز آئی، ’اللہ ہو اکبر‘۔ ہمایوں ایک مذہبی شخص تھا۔ جیسے ہی اس کے کانوں میں اذان کی آواز پڑی وہ جھک گیا اور سجدے میں بیٹھنے کی کوشش کی۔

’اس لیے ان کی ٹانگ ان کے جامے کے گھیر میں پھنس گئی۔ ان کا پاؤں پھسل گیا اور شہنشاہ سیڑھیوں سے گر پڑے۔ دوڑتے ہوئے ان کے معاونین نے انھیں پکڑنے کی کوشش کی، لیکن کامیاب نہیں ہوئے۔ وہ سب بھاگتے ہوئے نیچے پہنچے تو ہمایوں زمین پر پڑے تھے۔ ان کے سر پر گہری چوٹ تھی اور دائیں کان سے خون رواں تھا۔‘

ہمایوں نے پھر آنکھ نہیں کھولی۔ سلطان زینے سے گرنے کے تین دن بعد فوت ہو گئے۔

Getty Imagesہمایوں کو کتابوں کا شوق تھا

ہمایوں کی قیادت کرنے کی صلاحیت ہمیشہ سوالوں میں رہتی تھی، لیکن ان میں دوسری خوبیاں تھیں۔ انھیں پڑھے لکھے لوگوں اور شاعروں کی صحبت بہت پسند تھی۔ جنوب میں اپنی انتخابی مہم کے دوران وہ بہت سی نایاب کتابیں اپنے ساتھ لے گئے تھے۔

ابوالفضل لکھتے ہیں کہ ’اشتر گاؤں میں فتح کے بعد، ہمایوں کو اس وقت بہت خوشی ہوئی جب انھیں کپچک کے قریب شکست کے دوران اپنی کچھ کھوئی ہوئی کتابیں ملیں۔ ایران میں قیام کے دوران ان کی ٹیم میں ہمیشہ ایک لائبریرین موجود تھا۔ جہاں بھی شاہی کیمپ ہوتا تھا وہاں لائبریرین کی موجودگی ضروری تھی۔‘

ہمایوں کو علم نجوم پر بڑا یقین تھا۔ وہ ہر روز سیاروں کے رنگ کے مطابق کپڑے پہنتے تھے۔

بدایونی اپنی کتاب ’منتخب التواریخ‘ میں لکھتے ہیں کہ ’چلنا شروع کرنے سے پہلے ہمایوں اپنا دایاں قدم اٹھاتے تھے۔ اگر کوئی شخص بایاں قدم رکھ کر ان کے کمرے میں داخل ہوتا تو وہ اسے باہر نکال دیتے اور دائیں قدم سے دوبارہ اندر آنے کو کہتے۔‘

ہمایوں کی فطرت اور فن میں دلچسپی اس حد تک تھی کہ ایک بار جب ایک خوبصورت پرندہ سندھ میں ان کے خیمے میں داخل ہوا تو انھوں نے خیمے کا دروازہ بند کر کے ایک مصور کو بلایا کہ اس پرندے کی تصویر بنوائی اور اس کے بعد پرندے کو آزاد کر دیا۔

مزید خبریں

تازہ ترین خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More