معاشی ترقی میں انڈیا کو پچھاڑنے والا بنگلہ دیش آئی ایم ایف سے مدد مانگنے پر کیوں مجبور ہوا؟

بی بی سی اردو  |  Feb 01, 2023

Getty Images

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے بورڈ نے بنگلہ دیش کے لیے 4.7 بلین ڈالر کے امدادی پروگرام کی منظوری دے دی ہے جس کے بعد بنگلہ دیش آئی ایم ایف کی کئی نئی سہولیات سے فائدہ اٹھانے والا پہلا ملک بن گیا ہے۔

لیکن بنگلہ دیش کسی زمانے میں جنوبی ایشیا میں سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی معیشت تھا اور صرف دو ہی سال قبل بنگلہ دیش نے جی ڈی پی کے معاملے میں انڈیا کو مات دی تھی۔

پھر بنگلہ دیش معاشی بدحالی کا شکار کیوں ہوا کہ اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے اسے آئی ایم ایف سے قرض مانگنا پڑا؟

واضح رہے کہ ایک وقت تھا کہ بنگلہ دیش اپنے زرمبادلہ کے ذخائر پر فخر کرتا تھا لیکن اب اسے ادائیگیوں کے توازن کے بحران کا سامنا ہے۔

ڈھاکہ یونیورسٹی میں اقتصادیات کے پروفیسر ڈاکٹر راشد المحمود تیتومیر کا خیال ہے کہ بنگلہ دیش کی معیشت کے زوال کی وجہ طویل عرصے سے معاشی تنزلی، اداروں کی کمزوری اور سیاسی مرکزیت ہے۔

Getty Images

پروفیسر رشید کا کہنا ہے کہ ’بنگلہ دیش کی معیشت کو ایک طرح سے خطرہ ہے اور اگر اس کا صحیح طریقے سے انتظام نہ کیا گیا تو وہ دباؤ میں آجائے گی، اگر موجودہ حالات کو درست طریقے سے نہ سنبھالا گیا تو یقیناً بنگلہ دیش کی معیشت مشکلات کا شکار ہو جائے گی۔‘

معیشت کی تین اکائیاں ہیں؛ گھریلو آمدن، صنعتی آمدن اور جکومتی آمدن۔ اس وقت بنگلہ دیش میں ان تینوں ہی کو مالی مدد کی ضرورت ہے۔

بین الاقوامی سطح پر دیکھا جائے تو ملک میں ادائیگیوں کے توازن کا بحران ہے اور ملک میں آئی ایم ایف کے بنگلہ دیش کو مجوزہ قرض پر بات ہو رہی ہے۔

روس یوکرین جنگ سے پہلے ہی بنگلہ دیش کے زرمبادلہ کے ذخائر گرنے لگے تھے۔ بین الاقوامی منڈی میں تیل کی قیمت میں اضافے سے بنگلہ دیش میں بھی مہنگائی بڑھی ہے۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ تمام وجوہات بنگلہ دیش میں معاشی بحران کا باعث بن رہی ہیں۔

پروفیسر رشید تیتومیر کہتے ہیں ’ابھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ بنگلہ دیش میں لوگوں کی گھریلو آمدن کم ہو رہی ہے، بنگلہ دیش میں زیادہ تر لوگ غیر رسمی شعبوں میں کام کر رہے ہیں اور یہاں کوئی مضبوط سماجی تحفظ کا نظام نہیں ہے۔‘

کورونا کی وبا کے دوران بنگلہ دیش میں لوگوں کی آمدن کم ہو گئی اور انھوں نے اخراجات کے لیے قرض لینا شروع کر دیا۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی نے گھرانوں کی معیشت کو تباہ کر دیا اور یہ بحران مزید گہرا ہو گیا۔

ملک میں نئے غریب پیدا ہوئے

بنگلہ دیش کا محنت کش طبقہ اس کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی رہا ہے لیکن تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی نے ملک میں نئے غریب پیدا کر دیے ہیں۔

یہ وہ لوگ ہیں جو اب تک اپنی آمدنی سے اپنا خاندان چلاتے تھے لیکن مہنگائی کی وجہ سے انھیں اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے قرضہ لینا پڑتا ہے۔

گزشتہ سال کی گئی ایک تحقیق کے مطابق بنگلہ دیش کی آبادی میں کل 3 کروڑ 9 لاکھ افراد نئے غریب ہیں جو کل آبادی کا 18.54 فیصد ہیں۔

تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ بنگلہ دیش میں زیادہ تر گھرانوں نے اخراجات کو کم کرنے کے لیے خوراک کی خریداری میں کمی کی ہے۔

پروفیسر رشید تیتومیر کہتے ہیں ’بنگلہ دیش کی معیشت کا ڈھانچہ ایسا ہے کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی نے ملک میں نئے غریبوں کا طبقہ پیدا کر دیا ہے۔ اگر وبا سے پہلے کی سطح سے موازنہ کیا جائے تو اب ملک میں نئے غریب پیدا ہو چکے ہیں۔‘

Getty Images

’ان لوگوں کی آمدنی اتنی نہیں بڑھی جتنی مہنگائی بڑھی ہے۔ جس کی وجہ سے ان کے پاس پیسے نہیں ہوتے اور انھیں اخراجات پورے کرنے کے لیے قرض لینا پڑتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ متوسط طبقے کی ایک بڑی آبادی اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے کریڈٹ کارڈز پر انحصار کرنے لگی ہے۔‘

لیکن قرضوں کا یہ بحران صرف عام لوگوں تک محدود نہیں ہے۔ حکومت کو بھی اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے قرضہ لینا پڑتا ہے۔

اگر ریاستی سطح پر دیکھا جائے تو حکومت نے ریکارڈ سطح پر قرضے لیے ہیں۔ حکومت نے رواں مالی سال میں ایک کھرب ٹکا قرضہ لیا ہے۔

’حکومت کو قرضہ لینا پڑتا ہے‘

پروفیسر تیتومیر کہتے ہیں ’بنگلہ دیش کی جی ڈی پی اور ٹیکس کا تناسب جنوبی ایشیا میں سب سے کم ہے۔ یہ بنگلہ دیش کی معیشت کا بنیادی مسئلہ ہے۔ افغانستان کے بعد بنگلہ دیش میں جی ڈی پی-ٹیکس کا تناسب سب سے کم ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ مہنگائی کی وجہ سے لوگوں کی وقت خرید میں کمی آئی ہے جس سے حکومت کی آمدنی میں کمی آئی۔

’جی ڈی پی ٹیکس کا تناسب جو پہلے ہی کم تھا مزید گر گیا۔ ایسے میں حکومت کے پاس مرکزی بینک سے قرض لینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا۔ حکومت قرض لے رہی ہے، لیکن وہ بہت سے منصوبوں کے لیے فنڈز فراہم کرنے کے قابل نہیں ہے۔‘

Getty Images

بنگلہ دیش کی بگڑتی ہوئی معاشی حالت کی ایک وجہ یہ ہے کہ بنگلہ دیش کی معیشت کھپت پر مبنی ہے لیکن مہنگائی بڑھنے سے عوام کی قوت خرید کم ہوئی اور جی ڈی پی گرنے لگی۔

پروفیسر تیتومیر کہتے ہیں کہ ’بنگلہ دیش کی معیشت کی ترقی کھپت پر مبنی رہی ہے۔ کھپت پر مبنی اقتصادی ترقی پائیدار نہیں ہے۔ مہاجر مزدوروں (جن میں خواتین کی تعداد بہت زیادہ ہے) نے بنگلہ دیش کی اقتصادی ترقی میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔‘

’جب محنت کش طبقے کی آمدنی بڑھی تو اخراجات بھی بڑھے اور اس سے معاشی ترقی متاثر ہوئی۔ لیکن کھپت پر منحصر اقتصادی ترقی کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ اس سے مانگ بڑھتی رہتی ہے۔‘

وہ مزید بتاتے ہیں کہ ’یہ بنگلہ دیش کی معیشت کا بنیادی مسئلہ ہے۔ کھپت پر مبنی معیشت میں درآمدات کی طلب بڑھتی رہتی ہے، ایسی صورت حال میں جب بیرونی منڈی میں قیمتیں بڑھ جاتی ہیں تو اس کا براہ راست اثر ادائیگیوں پر پڑتا ہے۔ بنگلہ دیش میں ایسا ہی ہوا ہے۔‘

اگر بنگلہ دیش اپنی پیداواری صلاحیت میں سرمایہ کاری کرتا تو وہ کسی حد تک خود کو بیرونی عوامل سے بچا لیتا۔

Getty Images

کورونا کی وبا اور پھر روس یوکرین جنگ جیسے بیرونی عوامل نے بنگلہ دیش کی معیشت کو براہ راست متاثر کیا اور یہی وجہ ہے کہ بنگلہ دیش کی معیشت جو کبھی تیزی سے ترقی کر رہی تھی، اب مشکلات کا شکار نظر آتی ہے۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بنگلہ دیش میں معیشت کے انتظام میں بھی مسئلہ ہے۔ 1971 سے لے کر 2017 تک حکومتوں نے جتنا قرضہ لیا، موجودہ حکومت نے پچھلے پانچ سالوں میں اتنا قرضہ لے لیا۔

پروفیسر تیتومیر کہتے ہیں ’اس کا مطلب ہے کہ خود معیشت کے انتظام میں مسئلہ ہے۔ ادارہ جاتی سطح پر مسائل ہیں، جن کو فوری طور پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔‘

مہنگائی کی وجہ سے بنگلہ دیش کے زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی تیزی سے کمی واقع ہوئی ہے۔

دسمبر 2022 میں بنگلہ دیش کے زرمبادلہ کے ذخائر 30 ارب ڈالر تھے۔ جبکہ جنوری 2022 میں یہ 44.9 بلین ڈالر تھا۔

یعنی بنگلہ دیش کے زرمبادلہ کے ذخائر مسلسل گر رہے ہیں۔

پروفیسر تیتومیر کہتے ہیں ’دنیا میں شاید ہی کہیں ایسا ہو کہ مرکزی بینک کے باہر ایک روشن بورڈ لگا ہو جس میں زرمبادلہ کے ذخائر کی پوزیشن کا اعلان کیا جاتا ہو۔ لیکن بنگلہ دیش میں ایسا ہی تھا، مرکزی بینک کے باہر ایک روشن بورڈ پر ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر ظاہر کیے جاتے تھے۔‘

لیکن اب ملک میں زرمبادلہ کے ذخائر کا بحران ہے۔ اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ بنگلہ دیش کی معیشت میں بیرونی جھٹکوں کو جذب کرنے کی صلاحیت نہیں، یا یہ صلاحیت تیار نہیں ہوئی تھی۔

Getty Images

ماہرین کے مطابق بنگلہ دیش میں پیدا ہونے والے معاشی بحران کی جڑ ادائیگیوں کے توازن کا بحران ہے۔ صرف بنگلہ دیش ہی نہیں دنیا کے کئی دوسرے ممالک بھی اس بحران کا سامنا کر رہے ہیں۔

دلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے پروفیسر اور معاشی امور کے ماہر پروفیسر ارون کمار کہتے ہیں کہ کورونا کی وبا اور یوکرین کی جنگ سے دنیا کی معیشتوں کو جھٹکا لگا۔ اس میں انڈیا بھی شامل ہے۔

’اشیا کی قیمتوں میں اضافے سے کئی ممالک کا توازن ادائیگی بگڑ گیا۔ سری لنکا اس کی ایک مثال ہے۔ جس کی وجہ سے وہاں شدید معاشی بحران پیدا ہو گیا ہے۔ ایسا لگتا تھا کہ اس صورت حال میں بنگلہ دیش نہیں آئے گا۔ لیکن اب ادائیگی کے توازن کا مسئلہ ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ خام تیل اور دیگر چیزوں کی قیمتوں میں اضافے سے ممالک کے درآمدی بل بڑھ گئے اور بنگلہ دیش بھی متاثر ہوا۔

’جب کسی ملک کی ادائیگی کا توازن بگڑتا ہے تو اس کا اثر براہ راست ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر پر پڑتا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر کم ہوں تو قرضوں کی صورتحال بھی خراب ہو جاتی ہے، ملک کو قرضوں کی قسطیں ادا کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ بنگلہ دیش کو اب اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے قرض لینا پڑتا ہے۔‘

اکتوبر 2020 میں یہ اندازے سامنے آئے تھے کہ بنگلہ دیش فی کس جی ڈی پی کے لحاظ سے 2021 میں انڈیا کو پیچھے چھوڑ دے گا۔

EPA

جولائی 2021 میں بنگلہ دیش نے جی ڈی پی کی شرح نمو کے لحاظ سے انڈیا کو پیچھے چھوڑ دیا تھا۔

تاہم، انڈیا اور بنگلہ دیش کی معیشتوں میں بہت بڑا فرق ہے اور دونوں کے درمیان موازنہ مناسب نہیں ہے۔

بنگلہ دیش کی جی ڈی پی 1960 میں 4 بلین ڈالر تھی۔ سال 2021 میں یہ ہندسہ 416 بلین ڈالر تک پہنچ گیا تھا۔ یعنی 50 سالوں میں بنگلہ دیش کی معیشت میں 100 گنا سے زیادہ اضافہ ہوا لیکن کورونا کی وبا اور یوکرین کی جنگ کا بنگلہ دیش کی معیشت پر براہ راست اثر پڑا۔

پروفیسر ارون کمار کہتے ہیں کہ ’بنگلہ دیش کی معیشت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی تھی، لیکن پہلے وبا اور یوکرین کی جنگ نے اسے متاثر کیا۔ بڑی معیشتیں ایسے عوامل سے کم متاثر ہوتی ہیں، لیکن چھوٹی معیشتیں زیادہ تیزی سے متاثر ہوتی ہیں۔‘

بنگلہ دیش کپڑے کی برآمدات سے ادائیگی کا توازن برقرار رکھتا تھا۔ یہ زیادہ تر یورپی ممالک اور ترقی یافتہ ممالک میں کپڑے بھیجتا ہے۔ لیکن وبائی امراض اور جنگ نے ان منڈیوں کو بھی متاثر کیا اور بنگلہ دیش کی ملبوسات کی برآمدات میں کمی آئی۔

پروفیسر ارون کمار کہتے ہیں کہ ’دنیا میں ایک طرح کی سرد جنگ بھی چل رہی ہے۔ ایک طرف مغربی ممالک ہیں اور دوسری طرف روس، چین اور ایران جیسے ممالک ہیں۔ اس سرد جنگ نے مارکیٹ کو بھی متاثر کیا ہے۔ اس کا براہ راست اثر بنگلہ دیش جیسی چھوٹی معیشتوں پر پڑ رہا ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

پاکستان نے انڈیا اور بنگلہ دیش پر ٹیکسٹائل برآمدات میں برتری حاصل کرنے کا سنہری موقع کیسے گنوایا

بنگلہ دیش: پاکستان اور انڈیا کے لیے ’ماڈل معیشت‘ نے آئی ایم ایف سے مدد کیوں مانگی؟

بنگلہ دیش کی 50ویں سالگرہ: کیا معاشی ترقی کی دوڑ میں ملک نے جمہوری روایات کو پیچھے چھوڑ دیا؟

کیا بھارت بنگلہ دیش کی مدد کرے گا؟

بنگلہ دیش کی بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال کے درمیان یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا بنگلہ دیش سری لنکا کے راستے پر گامزن ہے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو کیا انڈیا بنگلہ دیش کی مدد کے لیے آگے آئے گا؟

بنگلورو میں کرائسٹ چرچ یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر اور انڈیا-بنگلہ دیش تعلقات کےماہر ڈاکٹر راجیب کہتے ہیں کہ ’بنگلہ دیش کی معیشت اب اتنی خراب نہیں ہے کہ اس کا سری لنکا کی معیشت سے موازنہ کیا جائے۔ بنگلہ دیش دو سال تک سب سے تیزی سے ترقی کر رہا تھا۔‘

بنگلہ دیش کے انڈیا کے ساتھ تعلقات گزشتہ سالوں کے مقابلے میں بہتر ہوئے ہیں۔

بنگلہ دیش انڈیا کے سب سے بڑے تجارتی شراکت داروں میں سے ایک ہے اور انڈیا کے کئی شعبے بنگلہ دیش پر منحصر ہیں۔

ڈاکٹر راجیب کہتے ہیں ’آج کل عالمی سپلائی چین کا دور ہے۔ کچھ مصنوعات کے کچھ حصے بنگلہ دیش میں اور کچھ انڈیا میں بنتے ہیں، اس لیے انڈیا اور بنگلہ دیش کی معیشتیں ایک دوسرے پر منحصر ہیں۔ اگر بنگلہ دیش کی معاشی حالت بہت اگر یہ بگڑتا ہے تو اس کا اثر انڈیا کے کچھ شعبوں پر بھی پڑ سکتا ہے۔‘

تجزیہ کار بنگلہ دیش کی بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال کو انڈیا کے لیے جنوبی ایشیا میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے ایک موقع کے طور پر بھی دیکھتے ہیں۔

ڈاکٹر راجیب کہتے ہیں ’اس کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ اگر بنگلہ دیش کی معیشت خراب ہوتی ہے، تو انڈیا کو جنوبی ایشیا میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کا موقع مل سکتا ہے جس طرح سری لنکا میں چین کا اثر و رسوخ بڑھ رہا تھا اور پھر انڈیا نے مدد کی اور اپنا اثر و رسوخ بڑھایا۔ اسی طرح اگر انڈیا چاہے تو بنگلہ دیش میں بھی ایسا کر سکتا ہے۔‘

کسی بھی ملک کے بگڑتے ہوئے معاشی حالات وہاں کی سیاست کو بھی متاثر کرتے ہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پچھلی دہائیوں میں بنگلہ دیش میں بنیاد پرست عناصر بھی مضبوط ہوئے ہیں، اگر وہاں کی معاشی حالت خراب ہوئی تو یہ بنیاد پرست عناصر مزید مضبوط ہو سکتے ہیں، جو بنگلہ دیش کے لیے بہت اچھی علامت نہیں ہوگی۔

ان کا کہنا ہے کہ اگر بنگلہ دیش کی معاشی حالت خراب ہوتی ہے تو انڈیا کو مدد کے لیے آگے آنا چاہیے تاکہ وہاں بنیاد پرستی کو بڑھنے سے روکا جا سکے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More