ریاضی کا فارمولا جو بتاتا ہے کہ پیسہ ہمیں کس حد تک خوشی دیتا ہے

بی بی سی اردو  |  Feb 05, 2023

Getty Images

ایسا لگتا ہے کہ زیادہ پیسے کا مطلب زیادہ خوشی ہے۔ تاہم ایک بار جب بنیادی ضروریات پوری ہو جائیں تو چیزیں حیران کن طور پر بدل سکتی ہیں۔

آمدنی، قرض اور نقصان کے ساتھ ہمارا جذباتی تعلق پیچیدہ اور اہمیت کا حامل ہے۔

یقیناً اس میں کوئی شک نہیں کہ پیسہ بڑی طاقت رکھتا ہے اور لوگوں کے فیصلوں اور طرز عمل پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔

اور یہ کہ یہ مسائل کو حل کرنے کا ایک مؤثر طریقہ ہے، خاص طور پر بحران کے وقت میں یہ بہت مددگار ثابت ہوتا ہے۔

آکسفورڈ یونیورسٹی میں معاشیات اور رویے کے علوم کے پروفیسر جان ایمانوئل ڈی نیو کا ماننا ہے کہ پیسہ ’لوگوں کو ایک مہذب زندگی گزارنے کے قابل بناتا ہے۔‘

لیکن تحقیق کے مطابق آپ جتنا امیر ہوتے جاتے ہیں پیسہ خوشی پر زیادہ فرق نہیں ڈالتا۔

ڈی نیو نے وضاحت کی کہ زیادہ آمدنی اور زیادہ خوشی کے درمیان تعلق ’لوگارتھمک‘ ہے۔

ایسا نہیں تھا کہ ہم نے ان کی بات پر یقین نہیں کیا تھا لیکن ہم نے ان سے کچھ اور وضاحت کرنے کو کہا۔

اگر آپ کی سالانہ آمدنی دوگنی ہو جاتی ہے، کہہ لیں، 20 ہزار ڈالر سے 40 ہزار ڈالر تو آپ خوش ہوں گے ۔

اب اس میں حیرت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

لیکن اگر آپ اپنی خوشی اور تندرستی میں اسی سطح کے اضافے کا دوبارہ تجربہ کرنا چاہتے ہیں، تو مزید 20 ہزار کافی نہیں ہوں گے۔ یہ آپ کو خوش کرے گا، لیکن زیادہ نہیں۔

اسی جذباتی انعام کو دوبارہ محسوس کرنے کے لیے آپ کو اپنی آمدنی کو دوبارہ دوگنا کرنے کی ضرورت ہوگی۔

اس لیے اگر 40 ہزار ڈالر نے آپ کو خوش کیا، اسی حد تک خوشی کا دوبارہ تجربہ کرنے کے لیے آپ اپنی آمدنی کو دوگنا کرکے 80 ہزار ڈالر اور پھر دوبارہ 160 ہزار ڈالر تک لے جائیں۔ اور پھر اس سلسلے کو جاری رکھیں۔

Getty Images

یہ بھی پڑھیے

ہمارا دماغ ہمیں غریب کیسے بناتا ہے اور اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے

دنیا کے ’سب سے خوش انسان‘ کی خوشی کا راز آخر کیا ہے؟

کیا خوشی کو تلاش کرنے اور اچھا سوچنے سے واقعی خوشی مل سکتی ہے؟

لامحدود دولت کا حصول

پیسے اور خوشی کے درمیان منطقی تعلق کے باوجود، ایک انتباہ ہے۔

تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ آپ اپنی تنخواہ کو دوگنا کرنے کی کوشش میں مسلسل وقت ضائع کر سکتے ہیں، کم از کم ایک حد سے زیادہ، جس سے آپ کو اندازہ ہو سکتا ہے کہ برطانیہ کے لیے 120 ہزار پاؤنڈ رقم تقریباً 150 ہزار ڈالر کے برابر بن جاتی ہے۔

بہت سے لوگ آمدنی کی اس سطح تک نہیں پہنچ پاتے ہیں لیکن وہ لوگ جو اس تک پہنچ جاتے ہیں جسے پروفیسر ڈی نیو ’ایک سطح مرتفع‘ کہتے ہیں، جس کے اوپر ’وہ مزید رقم اور زیادہ زندگی کی تسکین کے درمیان اعدادوشمار کے لحاظ سے اہم تعلق کا پتا نہیں لگا سکیں گے۔‘

اور سادہ سی بات یہ ہے کہ خوشی خریدنا اتنا آسان نہیں ہے۔

اگرچہ یہ بات ناقابل تردید ہے کہ لوگوں کو اپنی بنیادی ضروریات (خوراک، رہائش، صحت وغیرہ) کو پورا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد کئی عوامل ہیں جو آمدنی سے بڑھ کر فلاح و بہبود میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

’ایکشن فار ہیپی نیس چیریٹی‘ کے ڈائریکٹر مارک ولیمسن نے ان میں سے کچھ کی نشاندہی کی:

کمیونٹی میں اچھے تعلقات استوار کریں (خاندان، دوست، ساتھی کارکن)’خود سے بڑی‘ چیز کا حصہ بنناچیلنجنگ یا ناقابل انتظام ہنگامی حالات کے لیے لچکخود مختاری (زندگی کے انتخاب پر کنٹرول)

کچھ ممالک میں ان عوامل کا پتا ملک کی مجموعی پیداوار جی ڈی پی سے لگایا جاتا ہے۔

ملکی سطح پر دنیا میں خوشی کے بارے میں اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مصنفین میں سے ایک، ڈی نیو نے اس پر روشنی ڈالی کہ ایک زیادہ مساوی معاشرہ باشندوں کی اوسط فلاح و بہبود یا زندگی سے اطمینان کو بلند رکھنے کا ایک اہم عنصر ہے۔

رپورٹ میں سویڈن، ڈنمارک اور ناروے مسلسل درجہ بندی میں سب سے اوپر نظر آتے ہیں اور پروفیسر نے اشارہ کیا کہ اس کی وجہ دیگر چیزوں کے علاوہ یہ حقیقت ہے کہ فلاحی ریاستیں ’ایک قسم کی نفسیاتی سلامتی‘ فراہم کرتی ہیں جہاں عوام کا حکومتی مالیاتی منصوبوں پر اعتماد ہوتا ہے۔

ایک آخری تجسس

پیسے کے بارے میں ایک اور دلچسپ نفسیاتی بات یہ ہے کہ ہم پیسہ کمانے سے زیادہ اس کے کھو جانے سے نفرت کرتے ہیں۔

نقصان سے بچنا، جیسا کہ رویے کی معاشیات میں جانا جاتا ہے، کئی مطالعات میں ناپا گیا ہے۔

پروفیسر ڈی نیو کا کہنا ہے کہ تحقیق کے مطابق: ’آمدنی میں کمی یا قوت خرید کے مقابلے میں خوشحالی دو گنا زیادہ حساس ہوتی ہے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More