پادیاپا: وہ انسان دوست جنگلی ہاتھی جس کی شہرت اس کے لیے عذاب بن گئی

بی بی سی اردو  |  Feb 06, 2023

پادیاپا انڈیا کی جنوبی ریاست کیرالہ کی مشہور شخصیت ہے۔

یہ جنگلی ہاتھی جو ریاست کے سرسبز جنگلوں کا مکین ہے اپنے کانوں، دو بڑے نوکیلے دانتوں اور دوستانہ رویے کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔

پادیاپا کا ریاست کے لوگوں سے گہرا تعلق دہائیوں پرانا ہے۔

مقامی قصبے منار کے رہائشی اسے ایک نرم دل دیو کہتے ہیں جس نے کبھی کسی کو نقصان نہیں پہنچایا اگرچہ کہ اکثر وہ لوگوں کے گھروں سے کھانا چرا لیتا ہے۔

اس کا نام 1999 کی ایک بلاک بسٹر فلم کی وجہ سے پڑا جس کی شاندار کہانی خاندانی عزت اور دھوکے کے گرد گھومتی تھی۔ اس فلم میں رجنی کانتھ نے کام کیا تھا۔

یہ نرم دل دیو سیاحوں میں بھی مقبول ہے جن کی اکثریت اس قصبے میں صرف اس کے ساتھ تصویر کھنچوانے آتی ہے۔

تاہم گذشہ چند ماہ سے، 50 سالہ پادیاپا نے ایک بدتمیز لڑکے کا روپ دھار لیا ہے۔

مقامی افراد کا کہنا ہے کہ پادیاپا جو کبھی قصبے کے آس پاس آرام سے ٹہلتا تھا اب انسانوں کے گرد تنگ ہونا شروع ہو گیا ہے۔

جنوری میں ایک رپورٹ کے مطابق پادیاپا نے ایک ٹرک اور ٹک ٹک کی سکرین توڑ دی جس کے بعد ایک قریبی کھیت میں گھس کر اس نے فصل تباہ کر دی۔

یہ ایک واقعہ نہیں بلکہ ایسے کئی واقعات ہو چکے ہیں جس میں پادیاپا نے تشدد آمیز رویہ دکھایا ہے اور اسی وجہ سے اس کے رویے کی تبدیلی کے بارے میں تشویش پیدا ہو رہی ہے۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ایسا اس وجہ سے ہوا رہا ہے کیوں کہ وہ ’مستھ‘ ہو چکا ہے یعنی ایسے فیز میں داخل ہو چکا ہے جب مرد ہاتھی میں تولیدی غدود بڑھ جاتے ہیں جن کی وجہ سے ان میں غصہ بھی بڑھ جاتا ہے۔

تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ انسانوں کی پادیاپا کے قدرتی ماحول میں بڑھتی ہوئی مداخلت ہے۔

ڈاکٹر ایاسا بین الاقوامی یونین برائے قدرتی تحفظ کے ایشیا ایلیفینٹ سپیشلسٹ گروپ کے رکن ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ہاتھی مستھ ہو کر بھی پرتشدد نہیں ہوتے جب تک ان کو چھیڑا نہ جائے۔

ان کا ماننا ہے کہ پادیاپا کو ایسا ماحول درکار ہے جہاں وہ بنا کسی روک ٹوک آرام سے گھوم سکے اور کھا پی سکے۔

انڈیا میں کم ہوتے ہوئے قدرتی ماحول میں انسانوں اور جانوروں کے درمیان ٹکراؤ کے واقعات بڑھ رہے ہیں جن میں جانور خوراک کی تلاش میں انسانی آبادیوں میں گھس آتے ہیں۔

کیرالہ میں 2018 سے 2022 کے درمیان ہاتھی اپنے ریوڑ سے الگ ہو کر ایک سو پانچ لوگوں کو ہلاک کر چکے ہیں۔

جنوری میں جب ریاستی فاریسٹ حکام نے ایسے ہی ایک بد مست ہاتھی کو پکڑا تو ان کو معلوم ہوا کہ اس کے جسم پر ایک درجن سے زیادہ چھروں کے نشان تھے۔

مقامی افراد کا کہنا ہے کہ یہ جنگل ان کی فصلوں میں کئی ماہ سے اودھم مچائے ہوئے تھا اور اس نے ایک شخص کو ہلاک بھی کیا تھا۔

تاہم پادیاپا کے پڑوسیوں کا کہنا ہے کہ وہ مختلف ہے۔

لالیتا مانی منار قصبے کی رہائشی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پادیاپا تین بار ان کے گھر آیا اور اس نے کیلے اور بانس کھائے۔

ایک بار، وہ بتاتی ہیں کہ، پادیاپا نے ان کے کھیت سے دس کیلے کے درخت اکھیڑ لیے اور پھر وہیں کھڑا ہو کر پھل کھانے لگا جس کے بعد آرام سے وہ چلا گیا۔

اس کے باوجود ان کے دل میں اس جانور کے لیے صرف پیار ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ غریب جانور صرف اس وقت آتا ہے جب بھوکا ہوتا ہے اور کوئی نقصان نہیں پہنچاتا۔

پادیاپا اکثر اسی قصبے کے آس پاس پایا جاتا ہے اگرچہ کہ وہ دیگر علاقوں میں بھی کبھی کبھار پایا جاتا ہے۔

ہدلی رنجیتھ جنگی حیات کے فوٹوگرافر ہیں جو 2014 سے پادیاپا کی نقل و حرکت کا جائزہ لے رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک شاندار جانور ہے جس کا بایاں دانت دائیں دانت سے تھوڑا سا لمبا ہے۔

رنجیتھ دو ماہ میں ایک بار ضرور اسے دیکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں محفوظ فاصلے سے اس کی تصویر بناتا ہوں۔ ’وہ مجھے نظر انداز کرتا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ تصویر بنوانے کے لیے پوز بناتا ہے۔‘

ایسی ہی کہانیوں نے پادیاپا کو ایک مقامی سیلبرٹی بنا دیا ہے۔

اگر وہ سڑک پار کر رہا ہو گا تو لوگ گاڑیاں روک کر اسے راستہ دیتے ہیں۔ سیاح اس کے ساتھ سیلفیاں لیتے ہیں اور دکان دار کہتے ہیں کہ ان کو برا نہیں لگتا جب کبھی کبھار وہ ان کی دکان پر ہلہ بولتا ہے کیوں کہ اس کی وجہ سے بہت سے خریدار آتے ہیں۔

ونود واٹیکاٹ، جو مقامی طور پر سیاحت کو فروغ دینے کی کوششوں کا حصہ ہیں، کہتے ہیں کہ پادیاپا ہمارا برینڈ ایمبیسیڈر ہے۔

اور یہی وجہ ہے کہ اس کے رویے کی اچانک تبدیلی نے سب کو حیران کر دیا ہے۔

دسمبر میں پادیاپا نے اس وقت دو سائیکل سواروں کو کچل دیا جب چند سیاحوں نے اس کا راستہ روکنے کی کوشش کی۔ یہ لوگ بظاہر اس کی تصویر بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔

اپریل میں پادیاپا نے ایک بس پر حملہ کیا جس میں پچاس لوگ سوار تھے اور اس کی ونڈ سکرین کو نقصان پہنچایا۔

پادیاپا کے مداحوں کا ماننا ہے کہ یہ رویہ انسانوں کی ایسی حرکات کی وجہ سے ہے جن سے وہ تنگ ہوتا ہے۔

رنجیتھ نے ایک واقعہ یاد کیا جب گذشتہ سال پادیاپا ایک سڑک پار کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ایک بس ڈرائیور نے اسے راستہ دینے کے بجائے تیزی سے اس کے آگے سے گزرنے کی کوشش کی۔

وہ بتاتے ہیں کہ پادیاپا کو یہ اچھا نہیں لگا اور اس نے اپنے دانت بس میں گھسا دیے اور اس کی ونڈ سکرین ٹوٹ گئی۔

سریش پلراج منار میں کام کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اکثر لوگ ہارن بجا کر پاداپا کو تنگ کرتے ہیں۔

دسمبر میں حکام نے ایک شخص کے خلاف مقدمہ بھی درج کیا جس نے ہارن بجا کر پادیاپا کو چائے کے باغ سے ڈرا کر بھگانے کی کوشش کی۔

ماہرین کا خیال ہے کہ علاقے میں بڑھتی ہوئی سیاحت بھی ایک وجہ ہو سکتی ہے جس سے یہ ہاتھی تنگ ہو رہا ہے۔

دو دہائیوں سے پادیاپا کا جائزہ لینے والے ماہر وائلڈ لائف جیمز کہتے ہیں کہ پادیاپا کے رویے میں کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ سب جنگلی ہاتھی بے چین ہوتے ہیں جب ان کے پاس جا کر کوئی تصویر کھِینچنے کی کوشش کرے۔

’وہ اس لیے حملہ کرتے ہیں کیوں کہ ان کو خطرہ محسوس ہوتا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ آپ پر حملہ کریں گے۔‘

تاہم پادیاپا اس وقت میڈیا کی توجہ حاصل کیے ہوئے ہے۔

ایک اخبار نے اپنے اداریے میں لکھا کہ پادیاپا ہمیشہ سے ہی جنگل کا ہاتھی تھا جس سے عزت اور احتیاط سے برتاؤ کرنا چاہیے۔

مزید خبریں

تازہ ترین خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More