آپ کو جلی ہوئی روٹی سے کیوں پرہیز کرنا چاہیے؟

بی بی سی اردو  |  Apr 10, 2024

Getty Images

اس بات کا امکان زیادہ ہے کہ ابھی تک کھانا کھانے اور پکانے کے حوالے سے آپ کی کچھ عادتیں ایسی ہوں جو آپ نے اپنے بڑوں سے تب سیکھی تھیں جب آپ بچے تھے اور شاید آپ کو علم ہی نہ ہو کہ یہ عادت آپ کو کہاں سے پڑی۔ مثلاً شاید آپ کبھی بھی اپنے چاقو سے کھانا نہیں چاٹتے یا آپ بدروحوں سے بچنے کے لیے اپنے کندھے پر نمک بھی پھینکتے ہوں۔

ان میں سے بہت سی عجیب و غریب باتیں شاید توہم پرستی سے زیادہ کچھ نہیں لیکن ان میں سے ایک عادت ایسی بھی ہے جس پر شاید کچھ عشروں پہلے تک ہم بلا سوچے سمجے عمل کرتے رہے ہوں لیکن اس کی بنیاد اصل میں ایک سائنسی نظریہ تھا جس کے بارے میں اُن دنوں ہم نہیں جاتے تھے۔

یہ سائنسی نظریہ سنہ 2002 میں سٹاک ہوم یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے دریافت کیا تھا کہ اپنی روٹی یا ڈبل روٹی کے جلے ہوئے ٹکڑوں کو کھرچنا دراصل دانشمندانہ عمل ہو سکتا ہے۔

اس تحقیق میں شامل محققین کو پہلی مرتبہ یہ معلوم ہوا تھا کہ جب ہم آلو، روٹی، بسکٹ، اناج اور کافی سمیت کچھ کھانوں کو 120 ڈگری سینٹی گریڈ (248 فارن ہائیٹ) سے زیادہ گرم کرتے ہیں تو ان میں ایکریلامائڈ نامی مادہ بن جاتا ہے اور ان اشیا میں شاملشکر اور ایک امینو ایسڈ ایسپیراگین کے درمیان ایک کیمیائی عمل شروع ہو جاتا ہے۔

اس کیمیائی عمل کو ’میلارڈ ریئکشن ‘ کہا جاتا ہے جس میں روٹی وغیرہ کا رنگ بھورا (براؤن) ہو جاتا ہے اور اس کا ذائقہ بدل جاتا ہے لیکن سائنسدانوں کو معلوم ہوا ہے کہ اگر جانوروں کی خوراک میں ایکریلامائڈکی مقدار بہت زیادہ ہو جائے تو یہ کینسر کا سبب بن سکتا ہے۔

یورپ میں انسانی خوراک کے نگران ادارے ’یورپین فوڈ سیفٹی اتھارٹی‘ کے مطابق ایکریلامائڈ کی زیادتی سے انسانوں میں بھی سرطان یا کینسر کا خطرہ بڑھ سکتا ہے، خاص طور پر بچوں میں اس کا امکان ز یادہ ہو سکتا ہے لیکن جو سائنسدان اس حوالے سے تحقیق کر رہے ہیں، انھیں ابھی تک کوئی حتمی نتائج نہیں دکھائی دیے ہیں۔

لبنان کی بیروت عرب یونیورسٹی کی پروفیسر فاطمہ صالح کہتی ہیں کہ ’ایکریلامائڈ کو کیسنر پیدا کرنے والے ممکنہ اجزا (کارسینوجن)‘ کی فہرست میں شامل کیے تقریباً 30 برس ہو گئے ہیں لیکن ابھی تک اس حوالے سے متضاد شواہد سامنے آ رہے ہیں تاہم ہو سکتا ہے کہ ہم اس حوالے سےتحقیق جاری رکھیں تو ہمیں ایکریلامائڈ کو انسانوں میں کیسنر پیدا کرنے والے اجزا کی فہرست میں شامل کرنے کے لیے بھی کافی اعداد و شمار مل جائیں۔‘

Getty Images

تاہم سائنسدانوں کو یقین ہے کہ ایکریلامائڈ انسانوں کے لیے زیریلا مادہ ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ اعصابی نظام کو متاثر کرسکتا ہے۔

اس کی صحیح وجہ ابھی تک مکمل طور پر سمجھ نہیں آئی لیکن ایک نظریہ یہ ہے کہ ایکریلامائڈ ہمارے اعصابی نظام کے خلیات کے اندر موجود پروٹین پر حملہ کرتا ہے یا اس نظام کو خراب کرتا ہے جو ہمیں سوزش سے بچاتا ہے۔

ان سائنسدانوں کے مطابق انھوں نے ایکریلامائڈ کے زہریلے اثرات کو مجموعی طور پر دیکھا، جس کا مطلب یہ ہے کہ طویل عرصے تک ایکریلامائڈ کی تھوڑی مقدار کا استعمال بھی اعضا کو متاثر کرنے کے خطرے کو بڑھا سکتا ہے۔

سویڈن کے کیرولنسکا انسٹیٹیوٹ میں دل اور غذائی وبائی امراض کی ماہر اسسٹنٹ پروفیسر فیڈریکا لگوزی کا کہنا ہے کہ خاص طور پر جانوروں کے مطالعے سے حاصل ہونے والے شواہد سے پتا چلتا ہے کہ طویل عرصے تکایکریلامائڈوالی خوراک استعمال کرنے سے یاد داشت کی خرابی (ڈیمنشیا) جیسے اعصابی امراض کا خطرہ بھی بڑھ سکتا ہے اور یہ چیز بچوں کی اعصابی نشوونما کو بھی متاثر کر سکتی ہے۔

پروفسیرلگوزی کہتی ہیں کہ ’کیونکہ اس کا مالیکیولی وزن کم ہوتا ہے اور یہ پانی میں گھل جاتا ہے، اس لیے ایکریلامائڈ بچہ دانی سمیت تمام انسانی ٹشوز سے گزرتا ہے۔ پروفیسر لگوزی کی تحقیق میں بچوں میں پیدائش کے وقت کم وزن، سر کے دائرے اور نوزائیدہ بچوں کی لمبائی اور ایکریلامائڈکے درمیان تعلق دیکھا گیا ہے۔

Getty Images

اگرچہ انسانوں میں کینسر کے خطرے کو بڑھانے میں ایکریلامائڈ کے کردار کے پیچھے کارفرما ممکنہ کیمیائی عمل کے بارے میں ابھی تک معلوماتنہیں تاہم اس حوالے سے نیدرلینڈز کی ماسٹرچٹ یونیورسٹی میں وبائی امراض کے ایسوسی ایٹ پروفیسر لیو شوٹن کا ایک نظریہ موجود ہے۔

سویڈن کے ماہرین کی سنہ 2002 کی تحقیق کے بعد ’ڈچ فوڈ اتھارٹی‘ نے جن سائنسدانوں سے رابطہ کیا تھا، لیو شوٹن بھی ان ماہرینِ سرطان میں شامل تھے۔ اس کے بعد مسٹر شوٹن اور ان کے ساتھیوں نے ایک سروے کے ذریعے یہ اندازہ لگانے کی کوشش کی کہ لوگ کتنا ایکریلامائڈ استعمال کرتے ہیں۔

ان کے جائزے کے مطابق ہالینڈ کی عمر رسیدہ آبادی میں کم اور زیادہ ایکریلائڈ استعمال کرنے والوں کا تعین ملک کی ایک پروڈکٹ سے کیا جا سکتا ہے، جسے ’اونٹبجٹکوک‘ کہا جاتا ہے۔

اسے ہم ناشتے والا کیک بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس کیک میں چونکہ بیکنگ سوڈا کی مقدار زیادہ ہوتی ہے، اس لیے اس میں ایکریلامائڈ کی مقدار بھی بہت زیادہ ہوتی ہے۔

سویڈش ماہرین نے تمباکو نوشی کرنے والے افراد میں ایکریلامائڈ اور ان میں تمام اقسام کے کینسر کے درمیان تعلق پر بھی تحقیق کی، جس سے معلوم ہوا کہ زیادہ ایکریلامائڈ استعمال کرنے والی تمباکو نوش خواتین میں بچہ دانی کے سرطان کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

بعد کی تحقیق میں ماہرین نے یہ بھی دریافت کیا کہ ایکریلامائڈ اور گردے کے کیسنر میں بھی تھوڑا بہت تعلق پایا جاتا ہے۔

Getty Images

تاہم ابھی تک ان نتائج کی کسی دوسری تحقیق میں تصدیق ہونا باقی ہے۔ اس تحقیق کے قریب ترین مطالعہ میں امریکہ میں پاپولیشن سٹڈی یا آبادی کا ایک جائزہ ہے جس کے نتائج 2012 میں شائع کیے گئے تھے۔

اس جائزے میں دیکھا گیا کہ مینو پاز کے بعد کی عمر کی ایکریلامائڈ زیادہ استعمال کرنے والی ایسی خواتین بھی جو تمباکو نوشی نہیں کرتیں، ان میں بھی بچہ دانی کے کیسنر کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ اس کی دیگر وجوہات بھی ہو سکتی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ جو افراد زیاد ایکریلامائڈ کھاتے ہیں ان کا طرز زندگی بھی ایسا ہو کہ ان میں سرطان کا خطرہ زیادہ ہو جاتا ہو۔

اس جائزے کے علاوہ ایکریلامائڈ اور سرطان کے درمیان تعلق کے حوالے سے جو بھی تحقیق ہوئی، اس میں ان دونوں کے درمیان کوئی واضح تعلق نہیں پایا گیا یا اگر تھا بھی تو بہت کمزور لیکن یہ بھی واضح نہیں کہ مسٹر شوٹن اور ان کی ٹیم نے جو نتائج اخذ کیے تھے وہ غلط تھے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دیگر ماہرین نے جو تحقیق کی اس میں ایکریلامائڈ کے استعمال کو صحیح طرح نہ ماپا گیا ہو۔

مسٹر شوٹن کہتے ہیں کہ یہ بھی ممکن ہے کہ ایکریلامائڈ اور کیسنر کے درمیان ممکنہ تعلق میں ہارمونز کا بھی کوئی کردار ہو کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ خواتین میں کینسر، خاص طور پر بچہ دانی کے سرطان کا تعلق ہارمونز سے بھی ہوتا ہے۔

مسٹر شوٹن کا کہنا تھا کہ ایکریلامائڈ ایسٹوجن اور پروجسٹرون جیسے ہارمونز پر بھی اثر ہو سکتا ہے اور شاید خواتین میں سرطان کے خطرے کا تعلق ان ہارمونز سے بھی بنتا ہو۔

اس بات کو اس تحقیق سے بھی تقویت ملتی ہے کہ چوہوں میں ایکریلامائڈ کے زیادہ استعمال اور چوہوں کی میمری گلینڈز، خصیوں اور پیشاب کی نالیکے کینسر میں تعلق دیکھا گیا۔ اس تحقیق سے بھی یہ لگتا ہے کہ شاید ایکریلامائڈ انسانوں میں بھی گلینڈز یا غدودوں کے راستے کیسنر پیدا کر سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیےکوئلوں پر پکنے والی ’کھوبا روٹی‘ جو ’مہاراجاؤں کی سرزمین‘ کی پہچان ہےدیسی خوراک کی واپسی: برسوں تک دادی کی روٹیوں پر ناک چڑھانے کے بعد میں نے اُنھیں کیوں اپنایا؟سان فرانسسکو کی لذیذ ’خمیری روٹی‘ جس کے چرچے پوری دنیا میں ہیں

سنہ 2020 میں عالمی ادارۂ صحت کے ماہرین کی ایک کمیٹی نے کہا تھا کہ ایکریلامائڈ اور کیسنر کے درمیان ممکنہ تعلق پر تحقیق کے لیے طویل مدتی مطالعے کی ضرورت ہے تاہم ادارے نے انسانی خوراک میں ایکریلامائڈ کی مقدار کو کم کرنے کوششوں کی حمایت کی تھی۔

لیکن اس حوالے سے ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہماری خوراک میں ایکریلامائڈ کی مقدار کی درست پیمائش کیسے کی جائے۔

پروفیسر لزوگی کے بقول ’یہ چیز ثابت پو چکی ہے کہ ایکرالامائڈایک زیریلا مادہ ہے اور یہ جانوروں میں سرطان پیدا کر سکتا ہے لیکن انسانوں میں کینسر اور ایکرالامائڈ کے درمیان تعلق ابھی تک واضح نہیں۔ اکثر ماہرین جب اس حوالے سے تحقیق کرتے ہیں تو وہ سوالنامے استعمال کرتے ہیں جن کے جواب میں ضروری نہیں کہ لوگ درست معلومات فراہم کرتے ہوں۔‘

اگرچہ مسٹر شوٹن کو یقین ہے کہ انھوں نے اپنی تحقیق میں ایکریلامائڈ کی مقدار کی پیمائش بالکل درست کی تھی لیکن تمام ماہرین ان کے اس دعوے سے اتفاق نہیں کرتے۔

مسٹر شوٹن کہتے ہیں کہ ایکریلامائڈ کی پیمائش کا دوسرا طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ پیشاب اور خون کا ٹیسٹ کریں لیکن اس طریقے میں بھی ابھی تک کوئی حتمی نتائج سامنے نہیں آئے۔

Getty Images

اسی لیے پروفیسر لزوگی کہتی ہیں کہ ہمیں طویل مدتی تحقیق کی ضرورت ہے جہاں ہم ایک عرصے تک بائیو مارکرز کا استعمال کریں اور خون میں ایکریلامائڈ کی مقدار کی پیمائش کرتے رہیں۔

امریکہ میں ہونے والی ایک حالیہ تحقیق میں ایکریلامائڈ کی پیمائش کے لیے بائیو مارکز کا استعمال کیا گیا۔ اگرچہ 2022 کی ایک تحقیق میں ایک عشرے کے اعدادوشمار میں دیکھا گیا کہ ایکریلامائڈ اور کینسر سے ہونے والی اموات میں تعلق موجود تھا لیکن اس تحقیق سے بھی حتمی طور پر معلوم نہیں ہوا کہ ایکریلامائڈ سے کس قسم کے کینسر کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

کوئی حتمی نتیجہ نہ سامنے آنے کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ چونکہ بہت سے لوگ بہت زیادہ فرائی کیے ہوئے چِپس کھاتے ہیں، اس لیے ہو سکتا ہے کہ ایسے لوگوں میں ایکریلامائڈ کو برداشت کرنے کی صلاحیت زیادہ ہو جاتی ہو۔

پرفیسر لزوگی کی تحقیق میں خواتین میں کینسر کے خطرے اور ایکریلامائڈ کے درمیان کوئی تعلق نہیں دیکھا گیا۔ وہ کہتی ہیں کہ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ جانوروں کی نسبت انسانی جسم میں خود کو مرمت کرنے کی صلاحیت زیاد ہوتی ہے یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انسانی خوراک پر تحقیق میں ایکریلامائڈ کی پیمائش درست نہ کی گئی ہو۔

وہ کہتی ہیں کہ ’اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ہم خالص ایکریلامائڈ نہیں کھاتے بلکہ یہ مادہ بعض اوقات ہماری خوراک میں شامل ہو جاتا ہے۔

اگرچہ ہمارے پاس اس حوالے سے کوئی حتمی تحقیق موجود نہیں، جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ ایکریلامائڈ کھانے سے ہمیں کیسنر کا خطرہ ہو سکتا ہے تاہم مختلف ممالک میں انسانی خوراک میں ایکریلامائڈ کی مقدار کم کرنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

گندم میں ایکریلامائڈ کی ممکنہ مقدار کو کم کرنے کے حوالے سے کاشتکاروں کی رہنمائی کرنے والے ماہر نائجل ہیلفوڈ کہتے ہیں کہ یورپی یونین آج کل انسانی خوراک میں ایکریلامائڈ کی زیادہ سے زیادہ مقدار کا تعین کر رہی ہے، جس سے انسانی خوراک کی خرید و فروخت پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

’ایکریلامائڈ مقدار ہماری ایسی بہت سے خوراک کو متاثر کر سکتی ہے جو ہم اجناس سے حاصل کرتے ہیں، اسی لیے یورپی یونین کے نئے اقدامات خوراک کی صنعت پر بہت اثر انداز ہو سکتے ہیں۔‘

فاطمہ صالح بتاتی ہیں کہ ہم گھر پر کھانا پکاتے ہوئے بھی ایکریلامائڈ کی مقدار پر نظر رکھ سکتے ہیں۔ ان کا مشورہ یہ ہے کہ مثلاً چِپس بناتے وقت اگر ہم کٹے ہوئے آلوؤں کو دس منٹ تک پانی میں پڑا رہنے دیں تو ان میں ایکریلامائڈ پیدا ہونے کے امکانات تقریباً 90 فیصد کم ہو جاتے ہیں۔

پروفیسر لزوگی کے بقول حالیہ عرصے میں ایکریلامائڈ کے ممکنہ برے اثرات کے حوالے سے کی جانے والی تحقیق میں سائنسدانوں کی دلچسپی میں اضافہ ہو چکا ہے۔

یہ ایک طویل عمل ہو گا لیکن امید ہے کہ اگلے چند برس میں یہ واضح ہو جائے گا کہ ایکریلامائڈ اور سرطان میں کوئی تعلق ہے بھی یا نہیں۔اس وقت تک شاید یہ عادت بری نہیں ہو گی کہ ہم روٹی یا ٹوسٹ کے جلے ہوئے حصوں کو کھرچ کر اتار دیں۔

’لگتا ہے بچپن لوٹ آیا۔۔۔ آدھا بَن میرا اور آدھا میرے ابا کا‘’روٹی نہیں ہے تو کیک کھا لیں‘ جیسے اقوال جو تاریخی شخصیات سے غلط منسوب کیے جاتے ہیںباجرے کی روٹی کھانے والے کتے میں ایسا کیا ہے کہ اسے مودی کے حفاظتی دستے میں شامل کیا جا رہا ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More