سائبر غلاموں کی فوج: تھائی لینڈ سے سرمایہ کاری کے پیغامات کیسے امیروں کو دیوالیہ بنانے کا باعث بنتے ہیں؟

بی بی سی اردو  |  Apr 13, 2024

BBC

انتباہ: اس کہانی میں جنسی تشدد سمیت تشدد کی تفصیلات شامل ہیں جو کچھ قارئین کے لیے پریشان کن ہو سکتی ہیں۔

’انھوں نے میرے کپڑے اتارے، مجھے کرسی پر بٹھایا اور میری ٹانگ پر بجلی کے جھٹکے لگائے۔ میں نے سوچا کہ یہ میری زندگی کا اخری وقت ہے۔‘

روی، فرضی نام، آئی ٹی میں ملازمت کے لیے تھائی لینڈ گئے تھے، لیکن بنکاک میں ایک بلند و بالا دفتر کی عمارت کے بجائے سری لنکا سے تعلق رکھنے والے 24 سالہ روی نے خود کو میانمار کے ایک اداس احاطے میں پھنسا ہوا پایا۔

انھیں تھائی لینڈ کے سرحدی شہر ’مائے سوت‘ کے قریب اغوا کر کے دریا کی دوسری طرف فروخت کر دیا گیا تھا۔ وہ انسانی سمگلنگ کی بھینٹ چڑھنے والے ایک اور شخص بن گئے۔

ان کا کہنا ہے کہ انھیں آن لائن سکیمز میں مصروف چینی بولنے والے مجرم گروہوں کے ذریعے چلائے جانے والے بہت سے کیمپوں میں سے ایک میں فروخت کیا گیا تھا۔

وہ روی جیسے سمگل شدہ لوگوں کو ان سکیمز میں طویل عرصے تک کام کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ وہ جعلی آن لائن شناخت کا استعمال کرتے ہوئے خواتین کا روپ دھارتے ہیں اور امریکہ اور یورپ میں تنہائی کا شکار مردوں کو دھوکہ دیتے ہیں۔

اگر انھیں کوئی کمزور ہدف مل جاتا ہے، تو وہ انھیں جعلی تجارتی پلیٹ فارمز میں بڑی رقم کی سرمایہ کاری کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور منافع کی فوری واپسی کا وعدہ کیا جاتا ہے۔

یہ’سائبرنیٹک‘ غلاموں کے کیمپ ہیں۔ روی میواڈی کے جنگل میں واقع ایک پناہ گاہ میں لائے گئے ہیں، یہ میانمار کا ایک ایسا علاقہ ہے جو اس ملک پر حکمرانی کرنے والی فوجی حکومت کے کنٹرول سے باہر واقع ہے۔

انٹرپول کے مطابق ایشیا، مشرقی افریقہ، جنوبی امریکہ اور مغربی یورپ کے ہزاروں نوجوان مرد و خواتین کو کمپیوٹر سے متعلق نوکریوں کے جھوٹے وعدوں کے ذریعے سائبر جرائم کے ان کیمپوں میں کام کرنے کا لالچ دیا جاتا ہے۔

جو لوگ احکامات پر عمل کرنے سے انکار کرتے ہیں انھیں مارا پیٹا جاتا ہے، تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے یا مبینہ طور پر ان کا ریپ کیا جاتا ہے۔

روی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں نے ان کی بات نہ ماننے پر ایک سیل میں 16 دن گزارے۔ انھوں نے مجھے صرف سگریٹ کے بٹوں اور راکھ میں ملا ہوا پانی پینے کے لیے دیا۔‘

’جب میں سیل میں تھا تو پانچویں یا چھٹے دن، دو لڑکیوں کو قریبی سیل میں لایا گیا۔ 17 مردوں نے میری آنکھوں کے سامنے ان کا ریپ کیا۔‘

’لڑکیوں میں سے ایک فلپائنی شہری تھی۔ مجھے دوسری متاثرہ لڑکی کے بارے میں درست معلومات نہیں ہیں۔‘

BBCسمگلنگ کا شکار کون ہیں؟

اقوام متحدہ کے تخمینے کے مطابق صرف سنہ 2023 میں میانمار میں ایک لاکھ 20 ہزار سے زیادہ افراد اور کمبوڈیا میں مزید ایک لاکھ افراد کو ان سمیت دیگر آن لائن فراڈ میں کام کرنے پر مجبور کیا گیا تھا جن میں غیر قانونی جوئے سے لے کر کرپٹو کرنسی کی سکیمز شامل تھیں۔

گذشتہ سال انٹرپول کی ایک رپورٹ میں لاؤس، فلپائن، ملائیشیا، تھائی لینڈ اور کچھ حد تک ویتنام میں آن لائن دھندے کے مزید مرکز ملے۔

انٹرپول کے ایک ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ رجحان علاقائی مسئلے سے عالمی سلامتی کے لیے خطرہ بن گیا ہے۔ زیادہ سے زیادہ ممالک ان سکیمز کے مراکز، ٹرانزٹ روٹس یا متاثرین کے لیے نقطۂ آغاز بن رہے ہیں۔

اس ماہ کے شروع میں انڈین حکومت نے اعلان کیا تھا کہ اس نے اب تک اپنے 250 شہریوں کو بچایا ہے جنھیں کمبوڈیا میں فروخت کیا گیا تھا، جبکہ مارچ میں چین نے اپنے سینکڑوں شہریوں کو میانمار میں سکیم یا دھوکہ دہی کے مراکز سے واپس بھیج دیا تھا۔

بیجنگ میانمار کی فوجی حکومت اور مسلح گروپوں دونوں پر ان مراکز کو بند کرنے کے لیے دباؤ بڑھا رہا ہے۔ سری لنکا کے حکام جانتے ہیں کہ انھیں میانمار میں چار مختلف مقامات پر یرغمال بنائے گئے اپنے کم از کم 56 شہریوں کے بارے میں علم ہے۔

میانمار میں سری لنکا کے سفیر جنکا بندارا نے بی بی سی کو بتایا کہ ان میں سے آٹھ کو حال ہی میں مقامی حکام کی مدد سے بچایا گیا ہے۔

روزگار کی تلاش میں ہجرت کرنے والے ان جدید غلامی کیمپوں کو چلانے والوں کے لیے محنت کا مستقل ذریعہ فراہم کرتے ہیں۔

ہر سال لاکھوں جنوبی ایشیائی انجینئرز، ڈاکٹرز، نرسیں اور کمپیوٹر ماہرین کام کی تلاش میں بیرون ملک ہجرت کرتے ہیں۔

روی ایک کمپیوٹر ماہر ہیں، جو شدت سے سری لنکا سے نکلنے کا راستہ تلاش کر رہے تھے اور وہ جس معاشی بحران میں گرے ہوئے تھے جب انھیں معلوم ہوا کہ کوئی شخص بنکاک میں ڈیٹا بیس سسٹم میں معلومات درج کرنے کے لیے نوکریوں کی پیشکش کر رہا ہے۔

اس شخص اور دبئی میں ایک پارٹنر نے انھیں یقین دلایا کہ کمپنی انھیں 370,000 روپے (1,200 امریکی ڈالر) کی بنیادی تنخواہ ادا کرے گی۔

نوبیاہتا جوڑے کے طور پر، روی اور ان کی بیوی کو اب لگا کہ اس نئی نوکری کی مدد سے وہ اپنا گھر تعمیر کر سکیں گے، اس لیے انھوں نے مقامی ایجنٹ کو ادائیگی کے لیے مختلف لوگوں سے قرضے لیے۔

AFPتھائی لینڈ سے میانمار

سنہ 2023 کے اوائل میں روی کو سری لنکا کے ایک گروپ کے ساتھ بنکاک اور وہاں سے مغربی تھائی لینڈ کے شہر مائے سوت بھیج دیا گیا۔

روی نے کہا کہ ’وہ ہمیں ایک ہوٹل میں لے گئے، لیکن جلد ہی انھوں نے ہمیں دو مسلح افراد کے حوالے کر دیا۔ وہ ہمیں ایک دریا کے پار میانمار لے گئے۔‘

اس کے بعد انھیں چینی بولنے والے شخص کے زیر انتظام کیمپ میں لے جایا گیا، اور انھیں تصاویر نہ لینے کا حکم دیا گیا۔

انھوں نے کہا کہ ’ہم خوفزدہ تھے۔ تقریباً چالیس نوجوان مردوں اور عورتوں کو، جن میں سری لنکن، پاکستان، انڈیا، بنگلہ دیش اور افریقی ممالک کے لوگ شامل تھے، کیمپ میں زبردستی حراست میں لیے گئے تھے۔‘

جیسا کہ روی کو یاد ہے، اونچی دیواروں اور خاردار تاروں نے ان کمپاؤنڈز سے فرار کو تقریباً ناممکن بنا رکھا ہے، جن کے داخلی راستوں پر مسلح افراد 24 گھنٹے پہرہ دیتے تھے۔

انھیں اور دیگر کو دن میں 22 گھنٹے تک کام کرنے پر مجبور کیا گیا اور انھیں مہینے میں صرف ایک دن کی چھٹی دی گئی۔ ان سے توقع کی جاتی تھی کہ وہ ایک ماہ میں کم از کم تین مردوں کو دھوکہ دیں گے۔

حکم نہ ماننے والوں کو مارا پیٹا جاتا ہے اور ان پر تشدد کیا جاتا ہے۔

مغربی انڈیا کے ایک علاقے مہاراشٹر سے تعلق رکھنے والے 21 سالہ نیل وجے نے یہی کیا، جسے اگست 2022 میں پانچ دیگر انڈین مردوں اور دو فلپائنی خواتین کے ساتھ میانمار میں فروخت کیا گیا تھا۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی والدہ کے بچپن کے دوست نے ان سے بنکاک میں ٹیلی مارکیٹ کی نوکری کا وعدہ کیا تھا اور ان سے نوکری دلانے کے لیے انھوں نے 150,000 انڈین روپے یعنی 1,800 امریکی ڈالر کا کمیشن لیا تھا۔

نیل نے کے مطابق ’چینی بولنے والے لوگوں کی طرف سے چلائی جانے والی کئی کمپنیاں تھیں۔ وہ سب سکیمرز تھے۔ انھوں نے ہمیں ان کمپنیوں کو فروخت کیا۔‘

’جب ہم اس جگہ پہنچے تو میری امید ختم ہوگئی۔ اگر میری ماں انھیں تاوان نہ دیتی تو وہ دوسروں کی طرح مجھے بھی تشدد کا نشانہ بناتے۔‘

نیل کے خاندان نے اس سکینڈل میں حصہ لینے سے انکار کرنے کے بعد ان کی آزادی کے بدلے گینگ کو چھ لاکھ انڈین روپے تقریباً 7,190 ڈالر ادا کیے۔

رہائی سے قبل انھوں نے احکامات بجا نہ لانے والوں پر تشدد کا بھی مشاہدہ کیا۔

ان کی رہائی کے بعد تھائی حکام نے ان کی انڈیا واپسی میں مدد کی، جہاں ان کے خاندان نے انھیں بھرتی کرنے والے مقامی ایجنٹوں کے خلاف قانونی کارروائی کی ہے۔

تھائی حکام متاثرین کی وطن واپسی میں مدد کے لیے دوسرے ممالک کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ تاہم تھائی لینڈ کی وزارت انصاف کے ایک سینیئر اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ بچائے جانے والوں کی تعداد کم ہے۔

تھائی لینڈ میں سپیشل انویسٹی گیشن ڈپارٹمنٹ کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل پیا رکساکول نے کہا کہ ’ہمیں دنیا کے ساتھ بات چیت کرنے اور لوگوں کو ان جرائم پیشہ گروہوں کے بارے میں آگاہ کرنے کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ ان گروہوں کے ہتھے نہ چڑھ سکیں۔‘

انسانی سمگلر اکثر بنکاک کو ایک علاقائی مرکز کے طور پر استعمال کرتے ہیں کیونکہ انڈیا اور سری لنکا سمیت کئی ممالک کے لوگ ملک میں پہنچنے پر ویزا حاصل کرکے تھائی لینڈ میں داخل ہوسکتے ہیں۔

سکیم کیسے کرتے ہیں؟

روی نے انکشاف کیا کہ انھیں خاص طور پر مغربی ممالک میں امیر مردوں کو نشانہ بنانے اور چوری شدہ فون نمبرز، سوشل میڈیا اور میسجنگ پلیٹ فارمز کا استعمال کرتے ہوئے ان کے ساتھ رومانوی تعلقات استوار کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔

انھوں نے متاثرین سے براہ راست رابطہ کیا، عام طور پر انھیں یہ یقین دلایا کہ پہلا پیغام، اکثر صرف ایک سادہ ’ہیلو‘ کی صورت میں بھیجا جاتا ہے کہ جیسے وہ غلطی سے بھیجا گیا ہو۔

روی کا کہنا ہے کہ کچھ لوگ ایسے پیغامات کو نظر انداز کر دیتے ہیں، لیکن تنہائی کا شکار افراد یا جو لوگ جنسی تعلقات کی خواہش رکھتے ہیں وہ اکثر اس دام میں پھنس جاتے ہیں۔

جب انھوں نے ایسا کیا تو کیمپ میں موجود نوجوان خواتین کے ایک گروپ کو ٹارگٹ کو مزید متوجہ کرنے کے لیے واضح تصاویر لینے پر مجبور کیا گیا۔

صرف چند دنوں میں سیکڑوں پیغامات کے تبادلے کے بعد دھوکہ دہی کرنے والے ان افراد کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے اور انھیں جعلی آن لائن سرمایہ کاری پلیٹ فارمز پر بڑی رقم جمع کرنے پر آمادہ کیا۔

ان جعلی درخواستوں نے پھر ان مبینہ سرمایہ کاری سے ہونے والے منافع کے بارے میں غلط معلومات ظاہر کیں۔

’اگر کوئی شخص ایک لاکھ ڈالر منتقل کرتا ہے، تو ہم پچاس ہزار ڈالر واپس کرتے ہیں۔ یہ کہتے ہوئے کہ یہ ان کا منافع ہے۔‘

روی کے مطابق ’اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اب وہ ڈیڑھ لاکھ ڈالر کے مالک بن چکے ہیں ، لیکن حقیقت میں وہ ایک لاکھ ڈالر کی اپنی ابتدائی رقم کا نصف کے ہی مالک ہوتے ہیں جو انھیں واپس مل چکی ہوتی ہے، باقی نصف ہمارے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔‘

ان کے مطابق جب سکیمرز متاثرین سے وہ سب کچھ لے لیتے ہیں جو وہ لے سکتے ہیں تو پھر پیغام رسانی کے اکاؤنٹس اور سوشل میڈیا پروفائلز غائب ہو جاتے ہیں۔

اس سرگرمی کے پیمانے کا اندازہ لگانا مشکل ہے، لیکن یو ایس فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن کی سنہ 2023 کی انٹرنیٹ کرائم رپورٹ سے پتا چلا ہے کہ امریکہ میں اس طرح کے 17 ہزارسے زیادہ گھپلے ہوئے ہیں اور ان میں لوٹی جانے والی رقم 652 ملین امریکی ڈالر بنتی ہے۔

یہ بھی پڑھیےسنگاپور کے ہوٹل کا کمرہ اور جرمن فوجی افسر کی معمولی غلطی: جاسوسوں نے حساس گفتگو کیسے ریکارڈ کی؟خود کشی کے لیے زہر بیچنے والا شخص، جس نے آن لائن فورم کے ذریعے سمندر پار مہلک کیمیکل پہنچایا چینی ٹیک فرم کا برطانیہ اور پاکستان سمیت کئی ممالک کا ڈیٹا ہیک کرنے کا دعویٰجسمانی اور نفسیاتی نقصان

اس کے اکاؤنٹ کے مطابق روی کا کہنا ہے کہ اسے ایک مہینے کے بعد کسی دوسرے گینگ کو فروخت کر دیا گیا کیونکہ وہ ’کمپنی‘ جس کے لیے وہ شروع میں کام کرتے تھے دیوالیہ ہو گئی تھی۔ یہ آخری بار نہیں ہے۔ انھوں نے میانمار میں گزارے چھ ماہ میں تین مختلف گروہوں کے لیے ایک جبری مزدور کے طور پر کام کیا۔

جب وہ اپنے نئے مالکوں کے ہتھے چڑھ گئے تو انھوں نے انھیں بتایا کہ وہ اب لوگوں کو دھوکہ نہیں دینا چاہتے اور واپس سری لنکا جانا چاہتی ہیں۔

انھوں نے انھیں جانے نہیں دیا اور ایک دن ان کی ٹیم کے لیڈر سے تصادم ہوا، جس کی وجہ سے انھیں سزا دی گئی۔ وہ انھیں ایک سیل میں لے گئے جہاں 16 دن تک انھیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

آخر کار گینگ لیڈر ان سے ملنے آیا اور انھیں سافٹ ویئر کے تجربے کی وجہ سے دوبارہ کام کرنے کا ’ایک آخری موقع‘ دیا۔

ان کے مطابق ’میرے پاس کوئی چارہ نہیں تھا؛ تب تک میرا آدھا جسم مفلوج ہو چکا تھا۔‘

مزید چار ماہ تک روی نے وی پی این مصنوعی ذہانت کی ایپلی کیشنز اور سکیم کے لیے استعمال ہونے والے تھری ڈی ویڈیو کیمروں کا استعمال کرتے ہوئے فیس بک اکاؤنٹس کا انتظام کیا۔

اپنی بیمار والدہ کی عیادت کے لیے سری لنکا واپس جانے کی ان کی درخواستوں کو مسترد کر دیا گیا۔

آخر کار گینگ لیڈر روی کو جانے دینے پر مشروط راضی ہو گئے۔ اب روی کو دریا پار کر کے تھائی لینڈ میں داخل ہونے کے لیے آٹھ لاکھ روپے جو تقریباً 2650 ڈالر بنتے ہیں ادا کیے۔

روی کے والدین نے رقم ادھار لی، جس کے لیے انھوں نے اپنا مکان بطورگروی رکھوا دیا، اور رقم گینگ کو بھیج دی۔ آخر کار روی مائے سوت سے واپس انڈیا آنے میں کامیاب ہو گئے۔

مگر کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔

جب روی ویزا نہ ہونے کی وجہ سے ہوائی اڈے پر 20,000 تھائی باہت یعنی تقریباً 550 امریکی ڈالر کا جرمانہ کیا گیا تو ان کے والدین کو ایک اور بار قرض لینا پڑا۔

انھوں نے کہا کہ ’جب میں سری لنکا پہنچا تو مجھ پر 1,850,000 روپے یعنی تقریباً 6100 ڈالر کا قرض چڑھ چکا تھا۔

اگرچہ وہ اب گھر واپس آ چکے ہیں مگر ان کے مطابق اب وہ بمشکل اپنی بیوی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر انھیں دیکھتے ہیں۔

روی کے مطابق ’اس قرض کی ادائیگی کے لیے میں دن رات ایک ورکشاپ میں کام کرتا ہوں۔‘

فیس بک کی مارکیٹ پلیس پر دھوکے بازوں کے چکرا دینے والے حربوں سے کیسے بچا جائے؟چینی شہریوں پر لاکھوں امریکی اکاؤنٹس ہیک کرنے کا الزام: ’امریکی اہلکار اور ان کے پارٹنر نشانہ بنے‘آواز کی نقل کے ذریعے آن لائن فراڈ کیسے ہوتا ہے اور اس سے کیسے بچ سکتے ہیں؟’سائبر فلیشنگ‘: برطانیہ میں 15 برس کی لڑکی کو اپنے عضو تناسل کی تصویر بھیجنے والے کو قید کی سزا
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More