جوہری ہتھیاروں کا مخالف وہ ملک جس نے کبھی خود بھی ایٹم بم بنانے کی کوشش کی تھی

بی بی سی اردو  |  Apr 22, 2024

دوسری عالمی جنگ کے بعد کے برسوں میں غیر جانبدار اور امن پسند سویڈن نے اپنا ایٹمی بم بنانے کے منصوبے پر کام شروع کیا۔

سنہ 1814 کے بعد سے سویڈن نے کوئی جنگ نہیں لڑی تھی لیکن دوسری عالمی جنگ کے بیس سال سے زیادہ کا عرصہ گزر جانے کے بعد شمالی یورپ کے اس غیر جانبدار ملک نے اپنے ملک کی فوج کو ایٹمی ہتھیار سے مسلح کرنے کے منصوبے پر کام شروع کیا مگر حکومت نے ایک لمبی عوامی بحث کے بعد سنہ 1968 میں اسے بند کر دیا۔

سویڈین نے اس کے بعد دنیا کے ان منفرد ممالک کے گروپ میں شمولیت اختیار کی جنھوں نے اپنے جوہری پروگرام بند کیے تھے اور دنیا کو دکھایا کہ جوہری اسلحے کی تخفیف ممکن ہے۔ ان ممالک میں سویڈن سمیت جنوبی افریقہ اور یوکرین شامل ہیں۔

سویڈن کا جوہری پروگرام، ان سیاست دانوں کے لیے، جو ملک کے جوہری مخالف دستاویزات جلا دینا چاہتے تھے، بہت ’بے چینی ‘ کا باعث تھا جب تک صحافی کرسٹر لارسن نے سنہ 1985 میں سچ کو سامنے لایا اور اس قومکو اپنی خفیہ جوہری تاریخ کا سامنا کرنے پر مجبور کیا۔

اس پروگرام کے گرد رازداری کے پردے نے اس بارے میں قیاس آرائیوں کو ہوا دی کہ اب بھی سویڈن کے پاس اپنا جوہری ہتھیار بنانے کا خفیہ پلان موجود ہے۔

کئی دہائیوں کے بعد سویڈین اب اپنی 200 سالہ غیر جانبداری ختم کر رہا ہے اور روس کے یوکرین پر حملے کے بعد نیٹو کے جوہری اسلحہ رکھنے والے ممالک کے اتحاد کا حصہ بن رہا ہے۔

تو ایسا کیا تھا کہ اس سے پہلے سویڈین جوہری ہتھیار بنانا چاہتا تھا اور اس وقت وہ رک کیوں گیا تھا؟

ارسوک، سٹاک ہوم کے نواح میں موجود علاقہ ہے، وہاں ایک سکول کی بڑی سی عمارت ہے جو ایک خفیہ ریسرچ انسٹیٹیوٹ لگتی ہے کیونکہ حقیقت میں ایک زمانے میں ایسا ہی تھا۔

یہ عمارت دراصل ماضی میں سویڈش نیشنل ڈیفینس ریسرچ انسٹیٹیوٹ (ایف او اے) کا ہیڈ کوارٹر تھی۔ ایف او اے سویڈن کے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کی بچی ہوئی نشانیوں میں سے ایک ہے۔

Getty Imagesسویڈن کا آزاد جوہری پروگرام جزوی طور پر یو ایس ایس آر کے جوہری ہتھیاروں کی پیداوار سے متاثر ہوا تھا

اس انتہائی خود مختار قوم کے سپریم ملٹری کمانڈر نے ملک کے نئے ادارے ایف او اے سے کہا کہ وہ اس حوالے سے ایک خفیہ رپورٹ مرتب کرے کہ کیا سویڈن اپنا ایٹم بم بنا سکتا ہے۔ سنہ 1945 میں اس رپورٹ کے بننے کے دو ہفتے بعدہیروشیما اور ناگا ساکی، جاپان کے دونوں شہروں کی تباہ کن تصاویر سٹاک ہوم پہنچ گئیں۔

سویڈن شاید ایک غیر جانبدار ملک رہا ہو لیکن اس قوم کے لیڈر مسلح غیر جانبداری پر یقین رکھتے ہیں۔ یعنی کہ غیر جانبداری کی قیمت ایک مضبوط فوج ہے اور اس ملک کی قیادت اس بات کو سمجھتی ہے کہ اس غیر جانبداری کو مستقبل میں بھی قائم رکھنے کے لیے شاید اسے ٹیکٹیکل ایٹم بم کی جنگی میدانوں میں ضرورت پڑے۔

اس ملک کی لمبی ساحلی پٹی اور تھوڑی سے آبادی نے اسے سوویت یونین جیسے مخالفین کے لیے آسان شکار بنا دیا تھا۔

شمالی یورپ کے اس ملک کے پاس یورینیم کے اپنے ذخائر ہیں۔ یہ ایک خوشحال ملک ہے جہاں انفراسٹرکچر بہت عمدہ ہے۔

دوسری عالمی جنگ کے وقت ایٹم بم بنانے کا منصوبہ اس وقت اتنی غیر معمولی بات نہیں تھی جتنی کہ آج لگتی ہے۔

ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم گرنے کے تین برس بعد سنہ 1948 میں ایف او اے نے دی سویڈش لائن کی بنیاد رکھی۔ اس کا مقصد سویڈن کے لیے بیرونی مدد کے بغیر پولٹونیئم سے ایٹم بم بنانا تھا۔

ان کا منصوبہ یہ تھا کہ پلوٹونیئم کو سویڈن کے یورینیم کے ذریعے ہیوی واٹر میں جوہری ری ایکٹر کے ذریعے فیوزن کے عمل سے حاصل کیا جائے گا۔

سویڈن نے اس پروگرام کو صیغہ راز میں ہی جاری رکھا، ہائی گریڈ یورینیئم کی سپلائی نہ ہونے کی وجہ سے اور امریکہ سے معلومات کا تبادلہ نہ کرنے کے باعث سویڈش سائنس دانوں پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ اس مہنگے کام کو آہستہ آہستہ اور بالکل نئے سرے سے شروع کریں۔

یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ جوہری پروگرام کو ضرورت کے تحت اور اس کی اصلیت کو چھپانے کے لیے سویلین پروگرام کے ساتھجوڑ دیا جائے۔

کتاب ’دا کی ٹو نیوکلیئر ریسٹرینٹ‘ (The Key to Nuclear Restraint)کے مصنف تھامس جونر کہتے ہیں کہ ’ہمارے پاس ویپنز گریڈ پلوٹونیئم کو بنانے کے لیے ہر چیز موجود تھی۔ ‘

جونٹر کہتے ہیں کہ منصوبے میں دو ری ایکٹر بنانے شامل تھے۔ ایک جنوبی سٹاک ہوم میں ون اوگیسٹا، بھاری پانی کا ری ایکٹر اور دوسرا شہر کے باہر نورکوپنگ میں جس کا نام تھا مارونکن لیکن اسے پیداوار میں کبھی بھی نہیں لایا گیا اور اس وقت خیال یہ تھا کہ100 ٹیکٹیکل ہتھیار بھی بنائے جائیں گے۔

’ہم درست طور پر جانتے تھے کہ اس کو کیسا ہونا چاہیے۔ ہمارے پاس سوائے ری پروسیسنگ کی سہولت اور ہتھیار بردار نظام کے سب کچھ تھا۔‘

ان منصوبوں کے بارے میں کوئی بھی عوامی سطح پر بحث و مباحثہ نہیں ہوا تھا۔ یہ پیشرفت بس تھوڑے سے سیاست دانوں، اعلیٰ عہدے پر فائز فوجی افسروں، سائنس دانوں اور غالباً سویت جاسوسوں کو معلوم تھی۔

یہ بھی پڑھیے’ہمیں لگا دنیا ختم ہونے والی ہے‘: امریکہ کے پہلے جوہری تجربے کے متاثرین جنھیں دنیا سے چھپایا گیاایٹم بم بنا کر ’جہانوں کے غارت گر‘ کہلانے والے اوپنہائمر کا فخر پچھتاوے میں کیسے بدلا؟’پراجیکٹ آئلیرو‘: جب سپین ایٹمی طاقت بننے کے قریب پہنچ کر بھی خالی ہاتھ رہ گیا

یہ راز داری بھی سنہ 1954 میں اس وقت ختم ہو گئی جب سویڈش کمانڈر ان چیف نلز سویڈلنڈ نے اس پروگرام کے وجود کو آشکار کیا اور یہ توجیہ پیش کی کہ سوویت حملے کو روکنے کے لیے ان ہتھیاروں کی ضرورت ہے۔

اپریل 1957 میں امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے اندازا لگایا کہ اگلے پانچ برس میں سویڈن اپنے جوہری ہتھیار بنانے کے قابل ہو جائے گا کیونکہ اس نے مناسب مقدار میں اپنا ری ایکٹر پروگرام تیار کر لیا ہے۔

جلد ہی یہ اندازہ کم کر کے چار سال تک بتایا گیا۔

اس وقت سویڈش وزیراعظم ٹیگ ایرلینڈر تھے۔ ان کا تعلق فزکس کے شعبے سے رہا تھا اور انھوں نے اس بات کی یقین دہانی کروائی کہ وہ مسلسل بنیادوں پر دنیا کے بڑے طبیعات کے ماہرین سے ایٹم بم کے بارے میں بات کریں گے جن میں نوبیل انعام یافتہ نیلز بوہر بھی شامل ہیں۔

ڈینش ماہر طبعیات جنھوں نے جوہریطبیعات میں ابتدا میں شاندار کردار ادا کیا اور پھر جرمنی کے زیر قبضہ ڈنمارک میں دوسری عالمی جنگ کے دوران پہلا ایٹم بم بنانے کے لیے مین ہٹن پراجیکٹ میں شمولیت اختیار کی۔

جتنا زیادہ وزیراعظم نے بات کی اتنا ہی زیادہ پھر وہ جوہری پروگرام کے لیے اپنی حمایت دینے میں ہچکچانے لگے۔اس کے نتائج کو دیکھتے ہوئے وہ مسلسل اس حوالے سے اپنے فیصلے کو تب تک موخر کرتے رہے جب ہتھیاروں کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے نتائج سامنے نہیں آ گئے۔

ایما روزینگرن بین الاقوامی امور پر سٹاک ہوم یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کی محقق ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ جوہری صلاحیت کے حصول کے خلاف سب سے طاقتور آواز انگا تھورسن کی سربراہی میں دی فیڈریشن آف سوشل ڈیموکریٹک ویمن کی تھی۔

سوشل ڈیموکریٹک سے منسلک خواتین بہت ابتدا میں ہی سامنے آئیں اور انھوں نےان مختلف وجوہات پر بحث کی جن کی وجہ سے سویڈن کو جوہری ہتھیار نہیں حاصل کرنے چاہیے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’تحفظ فراہم کرنے کی بجائے یہ ہتھیار حقیقت میں شاید سویڈن کو نشانہ بنائیں۔ اس لیے یہ سکیورٹی بڑھانے کی بجائے اسے کم کر دے گا۔‘

’انھوں نے جوہری ہتھیاروں کے انسانیت کے لیے نتائج و اثرات کے حوالے سے بھی بحث کی اور کہا کہ یہ مکمل طور پر غیر اخلاقی ہو گا۔ چنانچہ سویڈن جیسا پرامن ملک جوہری ہتھیاروں سے ہونے والے نقصانات میں حصہ دار نہیں بن سکتا۔

روزینگرن کا کہنا ہے کہ ’انھیں یہ کہہ کر نکال دیا گیا کہ وہ ایک جذباتی خاتون ہیں جنھیں ان چیزوں کے بارے میں نہیں کہنا چاہیے جن کی وہ سمجھ بوجھ نہیں رکھتیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’اور دفاعی پالیسی اس وقت ایک ایسی چیز تھی جس کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا تھا کہ مرد ہی اسے سنبھالنے کے اہل ہیں۔‘

ایس ایس کے ایف میں شامل خواتین نے جلد ہی دوسرے گروپس میں شمولیت اختیار کر لی جیسا کہ جوہری پروگرام کے خلاف موجود ایکشن گروپ اے ایم ایس اے اور اس کے بعد عومی رائے بدلنے لگی۔

یہ تبدیلی تھی جس میں فوج کی وہ حمایت ان ہتھیاروں کے لیے ختم ہو گئی تھی جو انھوں نے کبھی حاصل کی تھی۔

سویڈن کی فوج، فضائیہ اور بحریہ نے یہ جان لیا تھا کہ وہ کس قدر مہنگے تھے اور ان کی ادائیگی کے لیے انھیں اپنی تینوں سروسز سے کٹوتی کرنی پڑے گی۔

یہاںدیگر شعبوں میں دونوں ملکوں کے درمیان بڑھتے ہوئے دفاعی تعاون جس میں سویڈش فضاؤں میں امریکی بمباروں کے لیے جگہ بنانا بھی شامل ہے

سویڈش جوہری منصوبوں پر امریکہ کا منفی رویہ بھی اہم ہے۔

سویڈش فوسرز اور سویلین نیوکلئیر پاور پروگرام اب امریکی ٹیکنالوجی پر انحصار کرنے لگا تھا جیسے کہ میزائل سسٹم، سویلین نیوکلئیر ری ایکٹر کے ڈیزائن کے لیے، ڈیٹا کے لیے حتیٰ کہ جوہری توانائی کے لیے بھی اور اس کی وجہ سے ہی اصل میں سویڈن کے لیے اپنے جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش مشکل ہو گئی تھی اور ایک وقت ایسا بھی آیا جب سویڈن نے امریکہ کے جوہری ہتھیاروں کو خریدنے کے لیے بھی دیکھنا شروع کیا۔

Getty Imagesسویڈن کے جوہری ہتھیار اس کے لینسن (دائیں) اور ڈریکن جنگجو طیاروں کے ذریعے پہنچائے گئے ہوں گے

سویڈش اشرافیہ میں یہ خیال بڑھ رہا تھا کہ ان کے ملک کو اپنے جوہری ہتھیاروں کو بنانے کی ضرورت نہیں کیونکہ ان کا ملک امریکہ کی جوہری چھتری کے اندر تھا اگرچہ وہ اصل میں نیٹو کا ممبر نہیں تھا۔

جونٹر کہتے ہیں کہ ’اس پر زور دینا بہت ضروری ہے کہ وہاں کوئی بھی باضابطہ یا رسمی معاہدہ نہیں تھا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ میں نے وزیراعظم کی ڈائری پڑھی اور اس میں انھوں نے ایسا کچھ بھی کہیں بھی نہیں لکھا کیونکہاس طرح کے کسی معاہدے پر دستخط کرنادونوں میں سے کسی کے لیے بھی بہت مشکل ہوتا ۔‘

انھیں جو ملا وہ امریکہ کے پالیسی دستاویزات تھے جن میں یہ درج تھا کہ امریکہ سوویت جارحیت کے نتیجے میں نیٹو یا اقوام متحدہ کی جانب سے سویڈین کی مدد کے لیے آنے کی تیاری کرے گا۔

روزینگرن کا کہنا ہے کہ ’مگر اس قسم کی معلومات کا مطلب دراصل کچھ ہونا ہے، اس کو کوئی رسمی شکل دینا ہو گی۔‘

لیکن جونٹر کی تحقیق میں اس قسم کے کسی بھی معاہدے کے شواہد نہیں ملتے۔

1960 کی دہائی میں جب سویڈش سیاست دان اور سفارت کار ایلوا میرڈل نے جوہری ہتیھاروں کے پھیلاؤ کو روکنے کی کوششوں میں بہت زیادہ شمولیت اختیار کی تو اس سے سویڈن کے اپنے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کے خلاف جاری مہم کو تقویت ملی، یہ بھی ہوا کہ ملک کے جوہری پروگرام کے اصل منصوبے کے حامی بھی یہ چاہنے لگے کہ تحقیق کو تو آگے بڑھایا جائے لیکن پیداوار کو روک دیا جائے۔

ملکی سطح پر عوامی رائے میں تبدیلی دیکھی گئی۔

سنہ 1957 میں 40 فیصد عوام نے اس کی حمایت کی کہ ملک جوہری ہتھیار بنائے، 36 فیصد نے اس کی مخالفت کی جبکہ 24 فیصد اس حوالے سے یقینی طور پر کوئی رائے دینے سے قاصر تھے لیکن آٹھ برس بعد ملک میں فقط 17 فیصد لوگوں نے جوہری پروگرام کی حمایت کی اور 69 فیصد نے اس کی مخالفت کی جبکہ 14 فیصد ایسے تھے جواس حوالے سے واضح رائے نہیں رکھتے تھے۔

اس لیے جب سنہ 1966 میں سویڈن نے جوہری ہتھیاروں کی پیداوار کا منصوبہ روکا تو یہ کوئی حیران کن بات نہیں تھی اور نہ ہی تب جب اس نے سنہ 1968 میں این پی ٹی جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے پر دستخط کیے اور اس ملک کی پارلیمان نے سارے پروگرام کو ختم کرنے کے لیے ووٹ دیا، چاہے وہ ستر کی دہائی میں ہونے والی محدود تحقیق ہی کیوں نہ تھی۔

جونٹر اس بات پر روشنی ڈالتے ہیں کہ آج کی دنیا کے لیے سویڈن کا تجربہ سیکھنے کے لیے ایک سبق ہے۔ ’ایک سبق تو یہ ہے کہ جوہری ہتھیار بنانا اتنا بھی آسان نہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’اگر کسی ملک کے پاس پہلے سے اس کے لیے انفراسٹرکچر موجود ہو تب بھی یہ بہت پیچیدہ کام ہے۔‘

اس کا مطلب یہ ہے کہ جو ملک یہ چاہتا ہے کہ اس کے پاس جوہری ہتھیار ہوں اسے شاید ان ممالک کے ساتھ جو ٹینکالوجی کے شعبے میں اس زیادہ ترقی یافتہ ہوں ان کے ساتھ تعاون کرنا ہو گا اور اس سے محتاجی والی صورتحالپیدا ہو گی۔

روزینگرن کا کہنا ہے کہ اب اس صورتحال میں عوامی سطح پر بحث کے لیے بھی ضروری وقت دیے جانے کی اہمیت ہوتی ہے تاکہ شہری یہ سمجھ سکیں کہ اگر ان کا ملک جوہری ہتیھار بناتا ہے تو اس کا مطلب کیا ہے۔

جونٹر نے سنہ 2019 میں فزکس ٹوڈے میں لکھا ’محض اس لیے کہ اس میں سیکھنے کو سبق ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ سیاسی رہنما اپنا رویہ بدل لیں گے‘

وہ کہتے ہیں کہ بدقسمتی سے، امریکہ کا ایران سے جوہری معاہدے کو ختم کرنا یہ بتاتا ہے کہ صدر ٹرمپ اور ان کے مشیروں نے اس (پہلے) سبق سے کچھ نہیں سیکھا۔‘

جونٹر کہتے ہیں کہ سنہ 2012 میں سویڈن نے اپنے جوہری پروگرام کے لیے آخری افزورہ پلوٹونیئم کو امریکہ کو منتقل کیا لیکن جہاں تک ہم جانتے ہیں کہ پروگرام ختم ہو گیا۔

ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملے: ’تین دن اور تین رات شہر جلتا رہا‘’ہمیں لگا دنیا ختم ہونے والی ہے‘: امریکہ کے پہلے جوہری تجربے کے متاثرین جنھیں دنیا سے چھپایا گیاوہ نظام جو ایٹمی جنگ کے ممکنہ خطرے کا اندازہ لگاتا ہے
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More