حماس کے حملے پر مستعفی ہونے والے اسرائیلی ملٹری انٹیلیجنس کے سربراہ میجر جنرل اہارون ہالیوا کون ہیں؟

بی بی سی اردو  |  Apr 23, 2024

اسرائیلی فوج کے انٹیلیجنس سربراہ میجر جنرل اہارون ہالیوا نے سات اکتوبر کو حماس کا حملہ روکنے کی ناکامی کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا ہے اور اسرائیلی دفاعی فورسز (آئی ڈی ایف) کا کہنا ہے کہ میجر جنرل اہارون ہالیوا اپنے جانشین کے انتخاب کے بعد ریٹائر ہو جائیں گے۔

ایک خط میں ان کا کہنا تھا کہ اسرائیلی انٹیلیجنس پر ’جس کام کے لیے اعتماد ظاہر کیا گیا وہ اسے نبھانے میں ناکام رہی۔‘

حماس کے حملے کے بعد پہلی بار اسرائیلی فوج کے کسی سینیئر عہدیدار نے استعفی دیا ہے۔

اسرائیلی فوج اور انٹیلیجنس کے اہلکاروں نے حماس کے ممکنہ حملے کے حوالے سے وارننگز کو نظر انداز کیا۔

یاد رہے کہ حماس کے مسلح جنگجوؤں نے سات اکتوبر کو غزہ کی سرحد عبور کر کے اسرائیلی کمیونٹی، فوجی اڈے اور میوزک فیسٹیول پر حملہ کیا تھا۔

اس حملے میں 1200 اسرائیلی اور غیر ملکی افراد (جن میں اکثریت عام شہریوں کی تھی) ہلاک ہوئے۔ اسرائیلی حکام کے مطابق حماس نے 253 افراد کو یرغمال بنایا۔

اس کے جواب میں اسرائیل نے غزہ میں زمینی و فضائی جنگ کا آغاز کیا جس کا مقصد حماس کا ’نام و نشان مٹانا‘ اور یرغمالیوں کو آزاد کرانا تھا۔

غزہ میں اب تک 34 ہزار سے زیادہ شہری ہلاک ہوئے ہیں جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ یہ اعداد و شمار حماس کے زیرِ انتظام فلسطینی وزارت صحت کے فراہم کردہ ہیں۔

اہارون ہالیوا کون ہیں؟

میجر جنرل اہارون ہالیوا کے والدین مراکش سے اسرائیل منتقل ہوئے تھے۔ خود اہارون 1967 میں حیفا میں پیدا ہوئے تھے اور 1985 میں اسرائیلی فوج میں شامل ہو گئے۔

اہارون ہالیوا نے حیفہ یونیورسٹی سے سوشل سائنسز میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ اپنے عسکری کیریئر کے آغاز میں اہارون نے اسرائیلی پیراٹروپر بریگیڈ میں رضاکارانہ طور پر شمولیت اختیار کی تاہم بعد میں وہ انفنٹری کا حصہ بن گئے۔

1988 میں جنوبی لبنان میں اسرائیلی فوج نے کارروائی کی تو اہارون 202 پیراشوٹ بٹالین میں پلاٹون کمانڈر تھے۔

اسرائیلی فوج میں ملٹری انٹیلیجنس کے سربراہ بننے سے قبل اہارون آئی ڈی ایف آفیسرز سکول، پیراشوٹ بریگیڈ اور 98 پیراشوٹ ڈویژن کے کمانڈر بھی رہ چکے ہیں۔

اس کے علاوہ وہ آپریشنز ڈائریکٹوریٹ، ٹیکنالوجی اینڈ لاجسٹکس ڈائریکٹوریٹ کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔

نومبر 2017 میں اہارون ایک تنازع کا شکار ہوئے جب انھوں نے ایک جگہ تورات کے سبق پر پابندی لگا دی اور سینکڑوں فوجیوں نے ان کے خلاف فوج کے چیف آف سٹاف کے سامنے احتجاج کیا۔

اہارون ہالیوا کو اکتوبر 2021 میں ملٹری انٹیلیجنس کے سربراہ کے طور پر تعینات کیا گیا تھا۔

سات اکتوبر اور انٹیلیجنس کی ناکامیReuters

سات اکتوبر کو میجر جنرل اہارون ہالیوا چھٹی منا رہے تھے اور اطلاعات کے مطابق ان کو صبح تین بجے غزہ سے ممکنہ حملے کے بارے میں بتایا گیا تھا تاہم اسرائیلی فوج کی اعلی سطح پر ان اطلاعات کے بارے میں مشاورت میں وہ شریک نہیں تھے۔

بعد میں اہارون ہالیوا کے حوالے سے یہ بیان منسوب کیا گیا جس کے مطابق انھوں نے اپنے قریبی ذرائع کو بتایا کہ اگر وہ اس مشاورت میں شریک ہوتے تو کہتے کہ ان کے مطابق حماس تربیت میں مصروف ہے اور یہ معاملہ صبح ہونے کے بعد دیکھا جا سکتا ہے۔

اہارون نے کہا کہ ان کی تجویز سے سات اکتوبر کو ہونے والی کارروائی پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔

17 اکتوبر کو اہارون نے ایک خط میں لکھا کہ ’ہم اپنے سب سے اہم مشن میں ناکام ہو گئے ہیں اور بطور سربراہ ملٹری انٹیلیجنس میں اس کی مکمل ذمہ داری قبول کرتا ہوں۔‘

اسی ماہ انھوں نے یہ بھی کہا کہ گزشتہ 11 دن میں ’اپنے تمام دوروں میں میں نے اس بات پر زور دیا کہ جنگ کا آغاز انٹیلیجنس کی ناکامی تھی اور ہم حملے کے بارے میں خبردار نہیں کر سکے۔‘

اس وقت اہارون اسرائیلی فوج کی اندرونی تحقیقات کا حصہ ہیں جن میں سات اکتوبر کے حملے سے قبل کمزوریوں کی چھان بین کی جا رہی ہے۔ یہ تحیقیقات جون میں اسرائیلی فوج کے چیف آف سٹاف کو دی جائیں گی۔

دسمبر میں ایک اسرائیلی چینل نے بتایا تھا کہ حماس کے حملے سے تین ماہ قبل ملٹری انٹیلیجنس کے ایک اجلاس میں ایک فوجی افسر نے کہا تھا کہ ’ہم نہیں جانتے کہ غزہ کی پٹی میں موجود حماس کیا کرنے والی ہے اور فیلڈ میں موجود کمانڈرز کو احتیاطی تدابیر لینا ہوں گی۔‘

رپورٹ کے مطابق اجلاس کے بارے میں میجر جنرل اہارون کو مطلع کیا گیا جنھوں نے انٹیلیجنس اکھٹا کرنے کا حکم دیا۔

اسی بارے میںغزہ جنگ: عالمی طاقتوں کی بھرپور حمایت اور چھ ماہ کی طویل جنگ کے بعد کیا اسرائیل حماس کا نام و نشان مٹا سکا؟اسرائیل ایران تنازع: سیٹیلائٹ سے حاصل تصاویر میں اصفہان کی ایئر بیس پر کتنا نقصان دیکھا جا سکتا ہے؟اصفہان: شاندار محلات اور دیدہ زیب مساجد والے شہر کو نشانہ بنانا اتنی اہمیت کا حامل کیوں ہے؟اسرائیل اور ایران میں سے عسکری اعتبار سے زیادہ طاقتور کون ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More