غزہ جنگ: امریکہ کی بڑی یونیورسٹیوں میں ’فلسطین کی آزادی‘ کی گونج، بات یہاں تک کیسے پہنچی؟

بی بی سی اردو  |  Apr 23, 2024

Getty Images

امریکہ کی ایلیٹ یونیورسٹیوں میں غزہ کی جنگ پر احتجاجی مظاہرے شدت اختیار کر گئے ہیں جبکہ حکام کی جانب سے مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔

پیر کی شب پولیس نے نیو یارک یونیورسٹی (این وائے یو) میں خیمے لگانے والے طلبہ کے خلاف کارروائی کی اور کئی افراد کو حراست میں لیا۔

پیر کو اس سے قبل ییل میں درجنوں طلبہ کو گرفتار کیا گیا جبکہ کولمبیا یونیورسٹی میں کلاسز منسوخ کرنی پڑیں۔

وائٹ ہاؤس نے مبینہ ’یہود مخالف‘ واقعات کے اس رجحان کی مذمت کی ہے۔ اس کا اشارہ یونیورسٹی کیمپسز میں غزہ جنگ کے خلاف احتجاجی مظاہروں کی طرف تھا۔

سات اکتوبر کو حماس نے اسرائیل پر حملہ کیا۔ اس کے جواب میں غزہ میں اسرائیل کی فضائی اور زمینی جنگ جاری ہے۔ اس وقت سے امریکی کیمپسز میں اسرائیل-غزہ جنگ اور اظہار رائے کی آزادی پر شدید بحث اور احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔

Getty Images

امریکہ میں طلبہ کا کہنا ہے کہ یونیورسٹیوں میں یہود مخالف اور اسلام مخالف واقعات بڑھے ہیں۔

جب پیر کو صدر جو بائیڈن سے طلبہ کی ریلیوں کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے ’یہود مخالف مظاہروں‘ کی مذمت کی۔ انھوں نے ان کی بھی مذمت کی ’جو یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ فلسطینیوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔‘

گذشتہ ہفتے نیو یارک شہر کی پولیس نے کولمبیا یونیورسٹی سے 100 سے زیادہ مظاہرین کو گرفتار کیا۔ اس کے بعد سے یہ احتجاجی تحریک توجہ کا مرکز بن گئی ہے اور ریلیوں میں اضافہ ہوا ہے۔

نیو یارک یونیورسٹی اور ییل کے علاوہ برکلی کی یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، ایم آئی ٹی، یونیورسٹی آف مشیگن، ایمرسن کالج اور ٹفٹس میں خیمے لگائے گئے ہیں۔

باقی مظاہرین کی طرح نیو یارک یونیورسٹی کے طلبہ نے مطالبہ کیا کہ انھیں اُن ہتھیار بنانے والوں اور ’اسرائیلی قبضے کی حمایتی کمپنیوں کے بارے میں بتایا جائے جو ادارے کی مالی معاونت اور فنڈنگ کرتی ہیں۔‘

الیہاندرو تینون نامی ایک طالبعلم نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ امریکہ ایک ’نازک موڑ سے گزر رہا ہے‘۔ انھوں نے ان مظاہروں کو تاریخی اعتبار سے ویتنام جنگ اور جنوبی افریقہ میں نسلی پرستی سے جوڑا۔ ان واقعات پر بھی طلبہ کی جانب سے تحریکیں چلائی گئی تھیں۔

Getty Images

مظاہرین میں شریک ایک شخص نے سی بی ایس نیوز کو بتایا کہ ’ہم فلسطین کے ساتھ کھڑے ہیں اور ہم اِن لوگوں کو آزادی چاہتے ہیں۔‘

دریں اثنا سڑک کنارے اسرائیلی پرچم لہراتے ہوئے ایک شخص نے کہا کہ ’تاریخ کا ایک پہلو یہاں اور دوسرا وہاں ہے۔ صحیح پہلو یہیں ہے۔‘

نیو یارک یونیورسٹی نے کہا کہ اس کے بزنس سکول کے باہر 50 لوگ خیمے لگانے میں ملوث تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان مظاہروں کی اجازت نہیں دی گئی تھی اور اس سے کلاسز میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔

پولیس نے پیر کی شب انھیں گرفتار کرنا شروع کیا مگر اب تک یہ نہیں بتایا کہ کتنے لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔

کچھ گھنٹوں بعد ییل یونیورسٹی سے قریب 50 مظاہرین کو گرفتار کیا گیا۔ حکام کا کہنا ہے کہ سینکڑوں لوگ جمع ہوئے تھے اور پیچھے ہٹنے سے انکار کر رہے تھے۔

پیر کو کولمبیا یونیورسٹی کی سربراہ ڈاکٹر نعمت شفیق نے طلبہ کو کیمپس سے دور رہنے کی ہدایت دی اور اس کی وجہ ’نفرت انگیز رویے‘ سے جڑے واقعات کو قرار دیا۔ ادارے نے طلبہ کے لیے ورچوئل کلاسز کا اہتمام کیا۔

ڈاکٹر شفیق نے کہا کہ یونیورسٹی میں تناؤ کا ’اِن افراد کی جانب سے فائدہ اٹھایا گیا جو کولمبیا سے منسلک نہیں بلکہ اپنے خاص ایجنڈے پر کیمپس آئے تھے۔‘

Getty Images اسرائیل غزہ جنگ: مشرق وسطیٰ کے تنازعے میں امریکی سفارت کاری کتنی کامیاب ہو سکتی ہے؟ایران نے اپنے سابقہ اتحادی اسرائیل پر حملہ کیوں کیا؟

نیو یارک یونیورسٹی کے حکام نے کہا کہ یہاں بھی بغیر کسی تعلق کے مظاہرین نے کیمپس کا رُخ کیا۔

پیر کو انھوں نے یہود مخالف واقعات کی اطلاع دی۔ یہ یہودی تہوار پاس اوور کا پہلا دن تھا۔

آن لائن ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کولمبیا کے قریب بعض طلبہ حماس کے اسرائیل پر حملے کی حمایت ظاہر کر رہے ہیں۔ بعض ویڈیوز میں ’ہم چھین کے لیں گے آزادی‘ اور ’فلسطین کی آزادی‘ کے نعرے لگائے جا رہے ہیں۔

کانگریس کی ڈیموکریٹ رکن کیتھی میننگ نے پیر کو کولمبیا کا دورہ کیا اور کہا کہ مظاہرین اسرائیل کی تباہی کا مطالبہ کرتے پائے گئے ہیں۔

کولمبیا یونیورسٹی میں یہودی گروہ حباد نے کہا کہ یہودی طلبہ کو ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جبکہ یونیورسٹی سے منسلک ربی نے یہودی طلبہ کو صورتحال بہتر ہونے تک کیمپس سے دور رہنے کی ہدایت دی۔

مظاہرین کے گروہوں نے یہود مخالف رویے کی مذمت کی ہے اور کہا کہ ان کی تنقید صرف اسرائیلی ریاست اور اس کے حامیوں تک محدود ہے۔

Getty Images

کولمبیا میں فلسطین کی حمایت کرنے والے گروہ نے کہا کہ وہ نفرت پر مبنی رویوں کو مسترد کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نفرت پھیلانے والے افراد ان کی نمائندگی نہیں کرتے۔

ایک بیان میں ڈاکٹر شفیق نے کہا کہ انھوں نے کولمبیا میں ایک ورکنگ گروپ بنایا ہے تاکہ ’اس بحران سے نکلا جاسکے۔‘

گذشتہ ہفتے وہ کانگریس کی کمیٹی کے سامنے پیش ہوئی تھیں تاکہ یہود مخالف تاثرات پر جوابدہ ہوسکیں۔ انھیں ہر طرف سے دباؤ کا سامنا ہے۔ حالیہ مظاہروں پر ان کے خلاف قرارداد بھی منظور ہوسکتی ہے۔

وفاقی سطح پر بعض قانون دانوں نے ایک خط میں ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے کیونکہ وہ ’جتھے بنانے والے طلبہ کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام رہیں اور مشتعل افراد نے یہودی طلبہ کے خلاف دہشتگردی پر اکسایا ہے۔‘ ڈیموکریٹس نے کولمبیا میں یہودی طلبہ کے تحفظ کا مطالبہ کیا ہے۔

Getty Images

یونیورسٹی کے اپنے عملے نے احتجاج سے نہ نمٹ پانے پر تنقید کی ہے۔ پیر کی شام کو بی بی سی کو بھیجے گئے ایک بیان میں کولمبیا کے نائٹ فرسٹ امینڈمنٹ انسٹی ٹیوٹ نے ’احتجاج سے نمٹنے کے لیے بہتر لائحہ عمل‘ کا مطالبہ کیا اور کہا کہ بیرونی حکام کی مدد صرف اس وقت لی جانے چاہیے جب لوگوں یا املاک کو خطرہ ہو۔

سات اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر حملے میں تقریباً 1,200 اسرائیلی اور غیر ملکی (زیادہ تر عام شہری) مارے گئے اور 253 دیگر کو یرغمال بنا کر غزہ واپس لے جایا گیا۔

اسرائیل نے جواب میں غزہ میں اپنی اب تک کی سب سے شدید جنگ شروع کی۔ اس کا مقصد حماس کو تباہ کرنا اور یرغمالیوں کو رہا کرنا تھا۔

حماس کے زیر انتظام علاقے کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ غزہ میں 34,000 سے زیادہ فلسطینی - جن میں زیادہ تر بچے اور خواتین ہیں – ہلاک ہوئے ہیں۔

ایک گیلپ سروے کے مطابق حالیہ جنگ کے بعد امریکہ میں رائے میں تبدیلی آئی ہے اور اکثر شہری اب غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں کی حمایت نہیں کرتے۔

Getty Imagesمسلم ممالک میں جاری بائیکاٹ مہم نے میکڈونلڈز کو کیسے متاثر کیاایران نے اپنے سابقہ اتحادی اسرائیل پر حملہ کیوں کیا؟ اسرائیل غزہ جنگ: مشرق وسطیٰ کے تنازعے میں امریکی سفارت کاری کتنی کامیاب ہو سکتی ہے؟غزہ جنگ: اسرائیل کے لیے ایف 35 طیاروں سمیت دیگر امریکی ہتھیاروں کی منظوری کیا ظاہر کرتی ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More