گھریلو صارفین کے سولر پینل لگانے سے عام عوام پر مہنگی بجلی کا بوجھ کیسے پڑ رہا ہے؟

بی بی سی اردو  |  Apr 28, 2024

Getty Images

پاکستان میں حالیہ برسوں میں بجلی کے نرخوں میں بے تحاشا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے اور بجلی کے بیس ٹیرف میں مختلف سلیبز میں نوے سے سو فیصد اضافہ ہوا ہے۔

بجلی کے بیس ٹیرف میں اضافے کے ساتھ ہر مہینے فیول ایڈ جسٹمنٹ سرچارجکی مد میں بھی صارفین پر بوجھ ڈالا جا رہا ہے جس کی وجہ پاکستان میں ابھی بھی مہنگے ذرائع سے بجلی کی پیداوار ہے اور اس کے ساتھ بجلی بنانے والی نجی کمپنیوں کے ساتھ کیے گئے مہنگے معاہدے ہیں۔

ان معاہدوں کے تحت ملک میں بجلی کی کھپت نہ ہونے کے باوجود حکومت کو ان کمپنیوں کو اس اضافی بجلی کی پیداوار کی ادائیگی کرنی پڑتی ہے جو حکومت نے استعمال ہی نہیں کی اور اسے کیپسٹی پیمنٹ کہا جاتا ہے۔ اس ادائیگی کا بوجھ بھی بلوں میںصارفین پر ڈالا جاتا ہے۔

بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمت کی وجہ سے گذشتہ چند برسوں کے دوران ملک میں سولر پینل کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کے رجحان میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

حالیہ کچھ عرصے میں پاکستان کے مختلف علاقوں میں سورج کی روشنی سے بجلی پیدا کرنے والے سولر پینلز کی مانگ میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا جس میں گھریلو صارفین سے لے کر زراعت کے شعبے میں ٹیوب ویل اور صنعتیں شامل ہیں جو سولر پینل کے ذریعے بجلی پیدا کر رہی ہیں۔

مگر ان افراد کو پریشانی اس وقت لاحق ہوئی جب گذشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایسی خبریں سامنے آئیں جن میں کہا گیا کہ حکومت سولر پینل کے ذریعے بجلی پیدا کرنے والے افراد پر ٹیکس لگانے جا رہی ہے۔

ان خبروں میں دعویٰ کیا گیا کہ حکومت کی جانب سے ایسے گھریلو اور کمرشل صارفین پر ٹیکس عائد کیا جائے گا جو سولر پینل کے ذریعے اپنی بجلی خود پید ا کر رہے ہیں اور یہ ٹیکس دو ہزار روپے فی کلو واٹ ہوگا۔ ان خبروں میں کہا گیا کہ پاکستان کے پاور ڈویژن کی جانب سے یہ سمری تیار کر کے حکومت کو بھیجی گئی ہے۔

تاہم ایسی خبروں کی حکومت کی جانب سے تردید کی گئی ہے۔ پاور ڈویژن کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق سولر پاور پر فکسڈ ٹیکس لگانے کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں۔

Getty Images

پاور ڈویژن نے اپنے جاری اعلامیے میں کہا کہ سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی یا پاور ڈویژن نے حکومت کو ایسی کوئی سمری نہیں بھیجی ہے۔

اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ ’یہ بات درست ہے کہ نیٹ میٹرنگ کا موجودہ نظام شمسی توانائی میں غیر صحت مندانہ سرمایہ کاری کو فروغ دے رہا ہے کیونکہ صاحبِ ثروت لوگ بے تحاشہ سولر پینل لگا رہے ہیں۔ جس کے نتیجے میں گھریلو اور صنعتی صارفین سمیت حکومت کو بھی سبسڈی کی شکل میں ایک روپے 90 پیسے کا بوجھ برادشت کرنا پڑ رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں تقریباً ڈھائی سے تین کروڑ غریب صارفین متاثر ہو رہے ہیں۔ اور اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو اگلے دو برسوں میں ان ڈھائی سے تین کروڑ غریب صارفین کے بلوں میں کم از کم تین روپے 35پیسے فی یونٹ کا مزید اضافہ ہو جائے گا۔

اعلامیے کے مطابق 2017 کی نیٹ میٹرنگ پالیسی کا مقصد سسٹم میں متبادل توانائی کو فروغ دینا تھا۔ 2017 کے بعد اب ایک ایسا مرحلہ آیا ہے کہ اس سولرائزیشن میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے جس کو متوازن کرنے کی ضرورت ہے۔

پاور ڈویژن کے اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا کہ 2017 کی پالیسی میں وقت کے ساتھ ساتھ نرخ اور قواعد و ضوابط میں ترامیم اور اضافے کی ضرورت تھی جوکہ بدقسمتی سے روبہ عمل نہ ہوسکی۔

پاورڈویژن نے کہا ہے کہ وہ اس پورے نظام کا بڑی باریک بینی سے جائزہ لے رہا ہے اور ایسی تجاویز اور ترامیم پر غور کر رہا ہے جن سے غریب آبادی کو مزید بوجھ سے بچایا جاسکے اور ساتھ ہی ساتھ ڈیڑھ سے دو لاکھ نیٹ میٹرنگ والے صارفین کی سرمایہ کاری کا تحفظ کیا جائے۔

آئی پی پی سے معاہدوں میں حکومت کی کیا مجبوری ہے؟

پاکستان میں مختلف ذرائع سے بجلی پیدا کی جاتی ہے جن میں حکومتی تحویل میں چلنے والے واپڈا کے ڈیموں سے پانی کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کے علاوہ زیادہ بجلی انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پی ) سے پیدا کی جاتی ہے جو نجی شعبے میں کام کرتے ہیں۔

حکومت کے ان کمپنیوں سے معاہدوں کے مطابق یہ کمپنیاں جو بجلی پیدا کرتی ہیں اس کے استعمال ہونے پر تو ادائیگی کی جاتی ہے لیکن اگر یہ بجلی استعمال نہ بھی ہو تو بھی حکومت ان کمپنیوں کو ادائیگی کرنے کی پابند ہے جسے کیپسٹی چارجز کہتے ہیں۔

توانائی شعبے کے ماہر راؤ عامر نے بی بی سی اردو کو اس سلسلے میں بتایا ان بجلی کمپنیوں سے حکومت کے معاہدوں کی مثال کچھ ایسے ہے کہ حکومت نے بجلی کے کارخانے کرایے پر لیے ہیں جنھیں استعمال کرنے یا نہ کرنے، دونوں صورت میں حکومت کو کرایہ ادا کرنا ہے۔

پاکستان میں کیپسٹی چارجز کا بجلی کی قیمت میں ایک بہت بڑا حصہ ہے۔ ملک میں بجلی کے شعبے کے نگران ادارے نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا)کی موجودہ مالی سال کے لیے جو انرجی پرچیز پرائس طے کی گئی ہے اس کے مطابق حکومت 20.60 روپے فی کلو واٹ بجلی خریدے گی جس میں صرف کیپسٹی چارجز 14.09 روپے فی کلو واٹ ہے۔

نیپرا کی دستاویز کے مطابق حکومت کو اس سال بجلی کی خریداری پر تقریباً 2900 ارب روپے خرچ کرنے ہیں جس میں 1950 روپے اسے کیپسٹی چارجز کی صورت میں ادا کرنے ہیں۔

راؤ عامر نے مزید بتایا کہ حکومت کی جانب سے کیپسٹی چارجز کی صورت میں بڑی رقم ادا کی جا رہی ہے اور یہ رقم اور زیادہ ہوتی اگر تحریک انصاف کی حکومت میں نوے کی دہائی کے پاور پلانٹس کے کیپسٹی چارجز کو ڈالر کی قیمت 160 روپے پر فکس نہ کی جاتی۔

انھوں نے کہا اس وقت ڈالر کی قیمت 280 روپے اور اگر یہ پلانٹس بھی اس پر کیپسٹی چارجز لیتے تو یہ رقم مزید بڑھ جانی تھی۔ انھوں نے کہا کہ یہ پلانٹس سی پیک اور 2017 کے بعد لگے اور ان کی کیپسٹی پیمنٹ اگلے 20-25 سال تک حکومت کو ادا کرنی پڑے گی۔

Getty Imagesسولر کے رجحان سے بجلی کیوں مہنگی ہو رہی ہے؟

پاکستان میں سولر انرجی کا رجحان بڑھا تو اس کے بعد حکومتی اداروں کی جانب سے کہا گیا کہ ملک میں سولر انرجی کے استعمال سے عام صارفین کے لیے بجلی مہنگی ہو رہی ہے۔

پاکستان میں مالی سال 2023 میں سولر انرجی کا مجموعی بجلی کی پیداوار میں حصہ 0.8 فیصد رہا جب کہ پن بجلی 28.6 فیصد، نیوکلیئر 18.6 فیصد، آر ایل این جی 17.1 فیصد، کوئلہ 16 فیصد، گیس 11 فیصد اور فرنس آئل کا حصہ چار فیصد رہا۔

توانائی کے ماہرین کے مطابق سولر انرجی کو زیادہ تر وہ افراد اپنا رہے ہیں جو استطاعات رکھتے ہیں اور بنیادی مسئلہ نیٹ میٹرنگ ہے جس میں حکومت کو سولر انرجی کے ذریعے بجلی بنانے والے صارفین سے بجلی خریدنا پڑتی ہے۔

راؤ عامر کہتے ہیں کہ ایک اور مسئلہ جو حکومت کو سولر پینلز استعمال کرنے والے ایسے صارفین سے درپیش ہے وہ یہ ہے کہ عموماً یہ اچھے علاقوں میں رہتے ہیں جہاں بجلی کی ترسیل کا نظام بہتر اور لائن لاسز بھی کم ہوتے ہیں اور ماہانہ پانچ سے سات سو یونٹس استعمال کرنے والے ان صارفین سے بجلی کی بلوں کی ریکوری بھی آسان تھی۔

وہ کہتے ہیں کہ اب نیشنل گرڈ پر جو صارفین بچتے ہیں ان کی بجلی کی کھپت بھی کم ہے اور وہاں سے بجلی کے بلوں کی مد میں ریکوری بھی کم ہے۔ اس کی مثال دیتے ہوئے وہ کہتے ہی ہیں کہ یہ ایسے ہی ہے کہ ایک وین کی دس سواریوں میں سے تین نے اپنی گاڑی خرید لی اور اب وین کا کرایہ باقی سات لوگوں کو برداشت کرنا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ حکومت کو کیپسٹی چارجز تو دینے ہیں لیکن جب امیر طبقہ لاکھوں روپے کا سولر پینل لگا کر بجلی خود پیدا کر لے گا اور اسے نیٹ میٹرنگ سے حکومت کو بھی بیچے گا تو لازمی طور پر حکومت پر بوجھ پڑے گا کیونکہ بجءی استعمال ہو یا نہ ہو اسے بجلی کمپنیوں کو پیسے تو پورے دینے ہیں۔

Getty Imagesپاکستان میں سولر انرجی کا رجحان کتنا بڑھا ہے؟

پاکستان میں حالیہ برسوں کے دوران سولر انرجی کے استعمال کے بڑھتے رجحان کو دیکھا گیا ہے۔

اس بارے میں توانائی کے شعبے کے ماہر ریونیوبل فرسٹ میں پروگرام منیجر مصطفیٰ امجد نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ پاکستان میں سولر انرجی ایک نئی پیش رفت ہے جس میں اس وقت زیادہ اضافہ دیکھا گیا جب ملک میں بجلی قیمتوں میں زیادہ اضافہ ہوا۔

انھوں نے کہا ٹیکس کی جو بات کی گئی ہے وہ دراصل میں نیٹ میٹرنگ پر ٹیکس ہے یعنی جب سولر پینل سے بجلی بنا کر اسے حکومت کو بیچا جاتا ہے ۔انھوں نے کہا نیٹ میٹرنگ والے سولر پینل امیر افراد ہی لگا سکتے ہیں کیونکہ اس کی لاگت بہت زیادہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک میں کتنے افراد سولر پینل استعمال کرتے ہیں اس کے بارے میں فی الحال کوئی سرکاری اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔

پاکستان میں بجلی کے بلوں سے تنگ افراد کے لیے سورج امید کی کرن، مگر اس پر کتنا خرچہ آتا ہے؟گھروں میں سستی بجلی فراہم کرنے والے سولر پینلز کو ری سائیکل کرنا کیوں ضروری ہے؟مودی کا ایک کروڑ گھروں کے لیے سولر سسٹم لگانے کا اعلان: انڈیا میں سولر پاکستان سے تقریباً 33 فیصد سستا کیسے ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More