اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات پر متضاد بیانات، پی ٹی آئی کی حکمت عملی یا اندرونی تقسیم؟

اردو نیوز  |  Apr 28, 2024

پاکستان تحریک انصاف موجودہ حکومت کے ساتھ بات چیت کرنے سے تو انکار کر رہی ہے تاہم دوسری جانب پی ٹی آئی رہنما فوج کے ساتھ جلد مذاکرات شروع کرنے کے بیانات دے رہے ہیں۔

پی ٹی آئی کے سینیئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر شہریار آفریدی ایک مقامی نجی ٹی وی چینل سے گفتگو میں یہ کہہ چکے ہیں کہ پی ٹی آئی کے فوج کے ساتھ جلد مذاکرات ہوں گے۔

پاکستان تحریک انصاف نے شہریار آفریدی کے اس بیان سے اظہار لاتعلقی کرتے ہوئے اِسے اُن کی ذاتی رائے یا معلومات قرار دیا ہے تاہم یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کے معاملے پر پی ٹی آئی میں کوئی تقسیم ہے یا یہ سیاسی حکمت عملی ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کے سینیئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر شہریار خان آفریدی نے نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کے دوران یہ دعویٰ کیا تھا کہ اُن کے بہت جلد فوج سے مذاکرات شروع ہوں گے۔

شہریار خان آفریدی نے حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ موجودہ حکومت کے پاس ہمارے ساتھ مذاکرات کا کوئی اختیار نہیں۔ یہ مسترد شدہ لوگ ہیں ہم سے کیا بات کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’پی ٹی آئی صرف آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے مذاکرات کرنا چاہتی ہے۔ پاکستان کے مستقبل کے لیے فوج سے مذاکرات چاہتے ہیں، فوج سے مذاکرات ہوں گے اور بہت جلد ہوں گے۔‘

تحریک انصاف کے چیئرمین رؤف حسن نے شہریار آفریدی کے بیان سے لاتعلقی کا اظہار کیا تھا (فوٹو: پی ٹی آئی سوشل میڈیا)انہوں نے کہا تھا کہ بانی پی ٹی آئی کی شروع دن سے مذاکرات کی خواہش تھی لیکن اس کے باوجود دوسری طرف سے جواب نہیں آیا۔

اس بیان کے  بعد پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی ترجمان رؤف حسن نے شہریار آفریدی کے بیان کو اُن کی ذاتی رائے اور معلومات قرار دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’شہریار خان آفریدی کا بیان پارٹی پالیسی نہیں، اسٹیبلشمنٹ سے صرف آئینی کردار سے متعلق بات ہو گی۔‘

ان کے مطابق ’ہم سیاسی جماعتوں سے بات چیت کے مخالف نہیں ہیں۔ عمران خان کی واضح ہدایت ہے کہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور ایم کیو ایم سے بات نہیں ہو گی کیونکہ انہوں نے تحریک انصاف کا مینڈیٹ چرایا ہے۔‘

’پی ٹی آئی میں تقسیم نہیں، یہ حکمت عملی ہے‘سینیئر تجزیہ کار رسول بخش رئیس نے اُردو نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ ’بظاہر یہ تاثر ملتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کو لے کر پاکستان تحریک انصاف میں کوئی تقسیم ہے لیکن حقیقت سے ذرا مختلف معلوم ہوتی ہے۔‘

رسول بخش رئیس کے مطابق ’سیاسی جماعتیں ہمیشہ کسی ایسے معاملے پر واضح پالیسی کے ساتھ نہیں چلتیں۔ پی ٹی آئی بھی اسی حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ پارٹی کے اندر اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کے معاملے پر کوئی تقسیم نہیں ہے۔ یہ اُن کی سیاسی حکمت عملی ہے۔ تاکہ اسٹیبلشمنٹ یہ سوچنے پر مجبور ہو جائے کہ آخر یہ چاہتے کیا ہیں۔‘

رسول بخش رئیس کے خیال میں یہ بات تو واضح ہے کہ پاکستان تحریک انصاف فوج سے ہی مذاکرات چاہتی ہے۔ پی ٹی آئی مقتدر حلقوں کو کہ باور کروانا چاہتی ہے کہ ہم عوامی نمائندہ جماعت ہیں اور عوام اور ریاستی اداروں کے درمیان لڑائی میں کسی کی جیت نہیں ہو گی۔

عرفان صدیقی کی جانب سے مذاکرات کی دعوت پر شبلی فراز نے کہا تھا کہ مذاکرات کس کے کہنے پر کیے جائیں (فوٹو: سکرین شاٹ)رسول بخش رئیس کے خیال میں پاکستان تحریک انصاف تصادم کی نہیں بلکہ مفاہمت کی سیاست چاہتی ہے مگر یہ مفاہمت وہ نواز شریف یا آصف علی زرداری کے ساتھ نہیں، فوج کے ساتھ کرنا چاہتی ہے۔

سینیئر تجزیہ کار ضیغم خان سمجھتے ہیں کہ عمران خان شروع دن سے ہی فوج کے ساتھ مذاکرات کے حامی ہیں تاہم پی ٹی آئی بطور سیاسی جماعت اس بات کا کھلے عام اظہار نہیں کرتی۔

اُردو نیوز سے گفتگو میں ضیغم خان نے بتایا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد سے ہی فوج کے ساتھ مذاکرات کے بیانات دیتے آئے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ حکومت کے پاس ان کے ساتھ مذاکرات کا اختیار نہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی میں اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کے متعلق مختلف بیانات سننے کو ملتے رہے ہیں۔ پی ٹی آئی رہنما علی محمد خان نے ایک مرتبہ کہا کہ اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کا پیغام آیا ہے جبکہ پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت نے ایسا کوئی پیغام آنے کی تردید کی۔

ضیغم خان کے مطابق ’پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی یہ حکمت عملی رہی ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے کسی ایک موقف پر نہیں کھڑی ہوتیں کیونہ وقت آنے پر اُنہیں اسٹیبلشمنٹ کے قریب یا اُن سے دوری بھی اختیار کرنا پڑ سکتی ہے۔‘

ضیغم خان کا کہنا ہے کہ ’پی ٹی آئی مذاکرات حکومت سے نہیں بلکہ فوج کے ساتھ کرنا چاہتی ہے‘ (فوٹو: اے ایف پی)’اس وقت پی ٹی آئی بھی اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات پر پچ کے دونوں اطراف کھیل رہی ہے۔ وہ مذاکرات کرنا تو چاہتی ہے مگر اس کا سر عام اظہار بھی نہیں کر سکتی۔‘

ضیغم خان کا کہنا تھا کہ سینیٹر عرفان صدیقی کی جانب سے جب پی ٹی آئی کو مذاکرات کی دعوت دی گئی تو تب بھی پی ٹی آئی رہنما شبلی فراز نے مذاکرات کے ایجنڈے پر سوال کیا تھا کہ آیا مذاکرات کس کے کہنے پر کیے جائیں گے۔

’الغرض پاکستان تحریک انصاف کو یہ معلوم ہے کہ اُن پر عائد مقدمات کا خاتمہ، انتخابات میں دھاندلی کے الزامات پر تحقیقات اور عمران خان کی رہائی جیسے معاملات پر موجودہ حکومت کے پاس اختیارات نہیں۔ اسی لیے وہ اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کی بات کرتی ہے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More