امت شاہ: خاموش، با رعب اور دانشمند سیاستدان جنھیں مودی کے عروج کا اصل منصوبہ ساز کہا جاتا ہے

بی بی سی اردو  |  May 05, 2024

Getty Images

نریندر مودی کو جون میں پتہ چل جائے گا کہ آیا لگاتار تیسری بار وہ انڈیا کے وزیر اعظم کی حیثیت سے کامیابی حاصل کر پائے ہیں یا نہیں۔ ایک دہائی تک اقتدار میں رہنے کے بعد وہ ہر جگہ دکھائی دیتے ہیں لیکن اکثر ان کے ساتھ ایک خاموش سیاست دان نظر آتے ہیں، جنھیں انڈیا کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے غیر معمولی عروج کے منصوبہ ساز کے طور پر جانا جاتا ہے۔

امت شاہ، جنھیں اکثر انڈیا کا ’دوسرا سب سے طاقتور شخص‘ کہا جاتا ہے نہ صرف نریندر مودی کے پرانے دوست، ایک قابل اعتماد ساتھی ہیں بلکہ انھیں مودی کی انتخابی مہم کے پیچھے کار فرما دماغ بھی کہا جاتا ہیں۔

امت بھائی کے نام سے مشہورایک سخت گیر ہندو قوم پرست امت شاہ نے بی جے پی کے لیے متعدد انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے۔ ان کے پاس وزیر اعظم کی سٹار پاور کی کمی ہے اور وہ زیادہ سماجی طور پر سرگرم نہیں ہیں۔ لیکن وہ ایک بہترین آرگنائزر اور انتخابی مہم کے حکمت عملی ساز ہیں، ایک ہوشیار سیاست دان ہیں اورنریندر مودی کی طرح ایک انتہائی قدامت پست شخصیت ہیں۔

ان کے حامی انھیں ’ہندو عقیدے کے عظیم محافظ‘ کے طور پر دیکھتے ہیں، لیکن جو لوگ ان کی نفی کرنے کی ہمت کرتے ہیں ان کے لیے وہ ایک خوفناک دشمن ہیں۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ انڈیا کی کچھ متنازع قانون سازی کے پیچھے کا محرکوہ ہی ہیں، جیسا کہ کئی دہائیوں سے بے جے پی کے سیاسی منشور میں شامل کشمیر کی خودمختار حیثیت کوختم کرنا، اور شہریت کا نیا قانون لانا جسے مسلمانوں کے ساتھ انتہائی امتیازی سلوک قرار دیا گیا ہے۔

ان کے چند دوست اور ساتھی جو انھیں سکول کے دنوں اور ابتدائی کیریئر سے جانتے ہیں نے بی بی سی بات کی ہے۔ان میں سے کچھ لوگ ان کی ابتدائی زندگی کے بارے میں ایسی باتیں جانتے ہیں جو اب تک کم ہی لوگ جانتے ہیں۔ انھوں نے ان کی غیر معمولی کامیابی کا راز بتایا اور ان کی گہری وفاداری، پارٹی کارکنوں سے محبت اور سخت محنت کی عادت کے بارے میں بتایا ہے۔

Getty Imagesماہر حکمت عملی ساز

امت شاہ نے ایک دہائی قبل پہلی بار قومی سطح کی سیاست میں اس وقت توجہ حاصل کی تھی جب انھوں نے انڈیا کی انتخابی لحاظ سے انتہائی اہم ریاست میں بی جے پی کے لیے ایک قابل ذکر فتح سمیٹی تھی۔

برسوں سے بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیے ریاست اتر پردیش میں کامیابی حاصل کرنے کو ناممکن سمجھا جاتا رہا ہے، لیکن 2014 کے عام انتخابات میں پارٹی نے اپنی 80 میں سے 71 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔

ایک وکیل اور سابق بی جے پی سیاست دان یتین اوزا کہتے ہیں ’شاہ کے پاس بھگوان کا تحفہ ہے، چانکیہ سے بھی زیادہ تیز دماغ۔‘

یتین نے امت شاہ کے ساتھ کئی دہائیوں تک کام کیا۔ اس لیے وہ ان کا موازنہ دو ہزار سال پہلے برصغیر کی پہلی سلطنت کو وسعت دینے کے پیچھے حکمت عملی بنانے والے چانکیہ سے کرتے ہیں۔ چونکہ امت شاہ کے دوست اور حریف سبھی اس بات سے متفق ہیں اس لیے انتخابات کے وقت ان کی صلاحیتوں کا شاندار استعمال کیا جاتا ہے۔

انھوں نے 2014کی کامیابی کے بعد 2017اور 2022 میں تاریخی ریاستی اسمبلی انتخابات میں کامیابی کی بنیاد رکھی۔ اور 2019 کے عام انتخابات میں انھوں نے پارٹی کو دوسری اور پہلے سے بھی بڑی کامیابی دلائی۔

یتین اوزا کا کہنا ہے کہ وہ شروع سے ہی جانتے تھے کہ کسی دن امت شاہ اس کی قیادت کریں گے۔

’میں نے ان میں وہ چمک دیکھی، ان میں وہ سیاسی چالاکی دیکھی۔ میں نے دیکھا کہ ایک گھوڑا بڑی دوڑ جیتنے جا رہا ہے۔‘

احمد آباد میں بی جے پی کونسلر دیونگ دانی، جو امت شاہ کو 30 سال سے زیادہ عرصے سے جانتے ہیں کا کہنا ہے کہ ان کی ترجیح ہمیشہ اپنے امیدوار کی جیت کو یقینی بنانا رہی ہے۔

’چاہے وہ گاؤں کی کونسل ہو یا پارلیمنٹ، کوئی بھی الیکشن بہت چھوٹا نہیں ہوتا۔ امت بھائی کے لیے ہر جنگ جیتنا ضروری ہے۔ یہ مودی اور شاہ کی وجہ سے ہے کہ بی جے پی 1984 کے انتخابات میں دو سیٹوں سے 2019 میں 303 سیٹوں پر پہنچ گئی۔

ایک طالب علم سیاست داں سے اقتدار کے اعلیٰ عہدوں تک ان کا قابل ذکر سفر مکمل دکھائی دیتا تھا۔

وہ جگہ جہاں سے یہ سب شروع ہوا

امت شاہ 22 اکتوبر 1964 کو ریاست گجرات کے ایک چھوٹے سے قصبے مانسہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد، انل چندر، پی وی سی پائپ بنانے کا ایک چھوٹا سا کاروبار کرتے تھے اور ان کی ماں کُسم بین ایک گھریلو خاتون تھیں۔

ان کے بچپن کے دوست سدھیر درجی نے امت شاہ کے ’اپنے آبائی علاقے سے مضبوط تعلق‘ اور ان کے باقاعدگی سے مانسہ آنے کے بارے میں بتایا۔

انھوں نے ہمیں امت شاہ کی وہ آبائی جگہ دکھائی جہاں امت شاہ رہتے تھے، دوستوں کے ساتھ کرکٹ اور کنچےکھیلتے تھے۔ جب وہ 16 سال کے تھے تو ان کے والدین گجرات کے سب سے بڑے شہر احمد آباد چلے گئے۔

ہمیں امت شاہ کے چچا کے گھر سے ان کے آبائی گھر لے جایا گیا جو ایک کشادہ اورمتوسط طبقے کی رہائش گاہ ہے۔

قریبی پرائمری سکول جہاں یہ دونوں لڑکے پڑھتے تھے، کھیل کا میدان، کلاس روم، کھلونوں کی الماری اور سکول کی گھنٹی نصف صدی میں تبدیل نہیں ہوئی ہے۔

درجی بتاتے ہیں کہ بچپن میں امت شاہ کا رویہ بہت نرم مزاج تھا اور دوسرے طالب علم اکثر ان کے ساتھ بدسلوکی کرتے اور ان کی سلیٹ توڑ دیتے یا لنچ چھین لیا کرتے تھے۔ان کے مطابق امت شاہ اور انھیں بھی باقاعدگی سے پرنسپل کے دفتر میں بُرا برتاؤ کرنے پر طلب کیا جاتا تھا۔

Getty Images’ایک گاڑی کے دو پہیے‘

امت شاہ کی نریندر مودی سے پہلی ملاقات 1982 میں احمد آباد میں ہوئی تھی جب وہ دائیں بازو کی ہندو راشٹریہ سویم سیوک سنگھ(آر ایس ایس) میں شامل ہوئے تھے۔

اس وقت آر ایس ایس پرچارک نریندر مودی نے اپنے نوجوان ساتھی کو بی جے پی کی سٹوڈنٹ ونگ اے بی وی پی میں شامل ہونے کا مشورہ دیا تھا۔ دونوں نے فوری طور پر ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات استوار کیے اور جیسے جیسے مودی اپنی صفوں میں آگے بڑھے، شاہ نے بھی ایسا ہی کیا۔

ان کے حامی انھیں ’گاڑی کے دو پہیے‘قرار دیتے ہیں اور ان کا موازنہ ہندو داستان رامائن کے بھائیوں رام اور لکشمن سے کرتے ہیں۔

سال 2000 کی دہائی کے اوائل میں گجرات میں ٹائمز آف انڈیا کے مدیر رہنے والے سینئر صحافی کنگ شوک ناگ کہتے ہیں کہ یہ دونوں بہترین ساتھی ہیں، نریندر مودی وہ چہرہ ہیں جنھیں عوامی سطح پر پذیرائی ملی جبکہ امت شاہ ایک ’شرمیلے شخص‘ ہیں جو سرخیوں سے دور رہتے ہیں۔

انھوں نے پردے کے پیچھے کام کیا، اپنی جڑیں مضبوط کیں، دوستوں اور حامیوں کا دل جیتا اور انتخابات میں حریفوں اور مخالفین کو شکست دی۔

ناگ کہتے ہیں کہ ’شاہ کی اہمیت کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ مودی کے لیے ہر کام آسان بنا سکتے ہیں، وہ بہت سے ایسے کام کر سکتے ہیں جو مودی نہیں کر سکتے۔ وہ مودی کے لیے کارگر ہیں، وہ ایک ایسے روڈ رولر ہیں کی طرح ہیں ان کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرتے ہیں۔‘

ان کے بہت سے ناقدین ان کے بارے میں کھل کر بات نہیں کرنا چاہتےکیونکہ ان کے بقول وہ واقعی امت شاہ سے ڈرتے ہیں۔ کچھ بیوروکریٹس کا کہنا ہے کہ وہ ان کی ’خوفناک نظروں، پتھریلی آنکھوں اور سپاٹ چہرے‘ سے خوف کھاتے ہیں۔

Getty Imagesیہ بھی پڑھیےمودی، امت شاہ کی حکمتِ عملی جس نے اتر پردیش میں بی جے پی کو مضبوط کیاامت شاہ: جنھوں نے مودی کو سپرسٹار بنایا’50 ہزار سے 80 کروڑ ایک سال میں'گجرات میں اپنی سیاسی صلاحیتوں کو نکھارا

امت شاہ نے اپنی سیاست کا آغاز آبائی ریاست گجرات سے کیا اورآنے والے برسوں میں انھوں نے خود کو نریندر مودی کے دائیں بازو کے طور پر ثابت کیا

آر ڈی دیسائی جو ان کے قریبی ساتھی ہیں اور انھیں1987 سے جانتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ’وہ ٹیلنٹ کو پہچاننے میں اچھے ہیں اور ان کے خیال میں نوجوانوں کی حمایت کرتے ہیں۔ لیکن سیاست میں آنے کے بعد ڈیڑھ دہائی سے زیادہ عرصے تک انھوں نے ایک بھی الیکشن یہ کہتے ہوئے نہیں لڑا کہ مجھے پہلے تنظیم بنانی ہے۔‘

’امت شاہ ہمیشہ طویل کھیل کھیلتے ہیں‘ ان کی شخصیت کی اس خصوصیت کے ان کے تمام ساتھی معترف ہیں۔

وہ پہلی بار 1997 میں گجرات اسمبلی کے لیے منتخب ہوئے تھے جب نریندر مودی نے انھیں سرکھیج حلقہ سے امیدوار کے طور پر نامزد کیا تھا۔ انھوں نے1998، 2002 اور 2007 میں اس نشست پر کامیابی حاصل کی اور 2008 میں سیٹ تحلیل ہونے کے بعد وہ قریبی علاقے ناران پورہ چلے گئے۔

انھوں نے 2014 کے عام انتخابات میں حصہ نہیں لیا تھا لیکن 2019 میں گاندھی نگر سے رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے تھے اور رواں سال بھی وہیں سے انتخابات میں کھڑے ہیں۔

فروری 2002 میں گجرات میں ہونے والے مذہبی فسادات اور اس کے نتائج نے مودی اور شاہ کے تعلقات کو مزید مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان فسادات میں ایک ہزار سے زائد افراد مارے گئے جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔

مودی، جو اس وقت گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے، انھیں قتل عام کو روکنے کے لیے مناسب اقدامات نہ کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ انھوں نے مذہبی فسادات میں کسی بھی غلط کام سے انکار کیا تھا اور بعدازاں عدالتوں نے بھی انھیں بری کر دیا تھا۔

فسادات کے چند ماہ بعد جب بی جے پی نے گجرات میں ریاستی انتخابات میں کامیابی حاصل کی تو امت شاہ کو کابینہ میں ایک درجن سے زائد وزاراتوں کا قلمدان سونپ دیا گیا۔شاہ کی وزارت داخلہ کو رپورٹ کرنے والی ریاستی پولیس اور استغاثہ کو سپریم کورٹ نے فسادات کے کچھ معاملوں میں ناقص جانچ کے لیے تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

انڈیا کی سپریم کورٹ نے اسے ’انصاف کی خلاف ورزی‘ قرار دیتے ہوئے دو ہائی پروفائل مقدمات کی سماعت گجرات سے باہر منتقل کر دی۔ گجرات حکومت نے عدالت میں یہ بھی تسلیم کیا کہ مقدمات درج کرنے میں ریاستی پولیس اور گواہوں کے ثبوت ریکارڈ کرنے میں استغاثہ کی طرف سے کوتاہیاں ہوئی ہیں۔

کئی سالوں سے امت شاہ پران فسادات میں کردار ادا کرنے کا الزام لگایا جاتا رہا ہے اور وہ اس کی تردید کرتے ہیں مگر ان پر عائد الزامات سے متعلق کبھی صحیح طریقے سے تفتیش نہیں کی گئی۔

سینئر صحافی راجیو شاہ، جو سرکھیج میں ایک اپارٹمنٹ کے مالک ہیں، انھوں نے ٹائمز آف انڈیا میں لکھا کہ جب انھوں نے ان سے فسادات کے بعد علاقے میں امن بحال کرنے کے لیے کام کرنے کے لیے کہا، تو امت شاہ نے ان سے پوچھا کہ کیا ان کا گھر ہندو اکثریتی علگاقے میں ہے یا مسلم اکثریتی علاقے میں؟

’جب میں نے انھیں جگہ بتائی، تو انھوں نے جواب دیا،’پریشان نہ ہوں۔ آپ کو کچھ نہیں ہوگا. جو بھی واقعات ہوں گے وہ دوسری طرف ہوں گے۔‘

بی بی سی نے اس بارے میں امت شاہ کے دفتر سے رابطہ کیا لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔

Getty Images2002 میں تین دن تک ہندو ہجوم نے گجرات میں ہنگامہ آرائی کی قتل کے الزامات اور جیل میں وقت

امت شاہ کی زندگی میں سنہ 2008 میں اس وقت اتار چڑھاؤ آیا جب ان پر 2005 میں ایک مسلمان شہری سہراب الدین شیخ اور ان کی بیوی کوثر بی کے ماورائے عدالت قتل کا الزام لگایا گیا۔

امت شاہ نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ ’سیاسی بنیاد پر بنائے گئے مقدمات‘ ہیں لیکن انھیں 2010 میں قتل اور اغوا کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ یہ سب ان کے لیے انتہائی نامناسب وقت پر ہوا کیونکہ اس وقت انھیں وزیر اعلیٰ کے طور پر نریندر مودی کا جانشین سمجھا جا رہا تھا۔ لیکن انھیں ریاستی وزیر داخلہ کے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا اور تین مہینے سے زیادہ جیل میں گزارے۔

جب امت شاہ کو ضمانت پر رہا کیا گیا تو عدالت نے انھیں گواہوں پر اثر انداز ہونے سے روکنے کے لیے گجرات چھوڑنے کا حکم دیا۔

گذشتہ دسمبر میں انھوں نے اپنے جیل میں گزرے وقت کو یاد کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ایک مشکل دور تھا اور کس طرح وہ ’وزیر جیل خاناجات سے پانچ منٹ میں قیدی بن گئے تھے۔‘

1988 میں آر ایس ایس میں امت شاہ سے پہلی بار ملنےوالے ہتیش باروٹ کا کہنا ہے کہ ’یہ خدا کا امتحان تھا جس میں وہ اول آئے۔ ان کا اس کیس سے کوئی لینا دینا نہیں تھا، یہ جعلی تھا‘

رہائی کے فورا بعد دہلی میں ان سے ملنے آنے والےدیسائی کہتے ہیں کہ’امت شاہ نے مشکل حالات کو اپنے لیے ایل موقع میں بدل دیا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’میں اس وقت کا استعمال دہلی میں اپنے قدم جمانے اور کانگریس پارٹی کو اقتدار سے بے دخل کرنے اور مودی کو تخت پر بٹھانے کے لیے کروں گا۔‘

نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے چھ ماہ بعد دسمبر 2014 میں عدالت نے امت شاہ کو بری کر دیا تھا۔

جج ایم بی گوساوی نے کہا کہ انھوں نے قبول کیا ہے کہ ان کے خلاف لگائے گئے الزامات سیاسی محرکات پر مبنی ہیں۔ اگرچہ وفاقی پولیس نے جولائی 2010 میں اپنی چارج شیٹ میں شاہ پر تحقیقات میں مداخلت کا الزام لگایا تھا، لیکن انھوں نے ان کی بریت کے خلاف کبھی اپیل نہیں کی، جس کی وجہ سے یہ الزام لگایا گیا کہ وہ بی جے پی کے اقتدار میں آنے سے متاثر تھے لیکن پارٹی اس الزام سے انکار کرتی ہے۔

امت شاہ کی بریت بھی ایک ناپسندیدہ تنازع میں گھری ہوئی تھی۔ چند روز قبل ان کے کیس کی سماعت کرنے والے جج کو دل کا دورہ پڑا تھا۔ اہل خانہ نے الزام لگایا کہ ان کی موت مشکوک تھی اور انھیں رشوت دینے کی کوشش کی گئی تھی۔ ان میں سے کچھ بھی ثابت نہیں ہوا اور سپریم کورٹ نے تحقیقات کے مطالبے کو مسترد کردیا۔

امت شاہ کے دفتر نے ان کے خاندان کے الزامات کے بارے میں بی بی سی کے سوالات کا جواب نہیں دیا۔

Getty Images29 اکتوبر 2010 کو احمد آباد کی سابرمتی جیل سے رہائی کے بعد گھر پہنچنے پر امت شاہ اپنی اہلیہ سونل شاہ کے ساتھ’ہم اور وہ‘

اپنے لیڈر اور سرپرست کی طرح امت شاہ نے بھی اکثر ان ’تاریخی غلطیوں‘ کو درست کرنے کے بارے میں بات کی ہے جو 1947 میں انڈیا کے آزاد ہونے کے بعد شروع ہوئی تھیں۔

کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنا اور متنازع شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) متعارف کروانا، جو پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے غیر مسلم مذہبی اقلیتوں کو انڈیا کی شہریت حاصل کرنے کی اجازت دیتا ہے ’ان غلطیوں کو درست کرنے‘ کی کوشش تھی۔

اس قانون سازی کی عالمی سطح پر مذمت کی گئی اور یہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے انڈیا کی سب سے بڑی مذہبی اقلیت مسلمانوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں سنہ 2014کے بعد سے اضافہ ہو رہا ہے۔

سنہ 2019 میں انسانی حقوق کے کارکنوں اور امریکی سٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے غیر قانونی مسلم تارکین وطن کو ’دیمک‘ قرار دینے اور انھیں خلیج بنگال میں پھینکنے کی دھمکی دینے پر امت شاہ کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

انتخابی ریلیوں میں وہ باقاعدگی سے ’ہم اور وہ‘ کے بارے میں بات کرتے ہیں جہاں’ وہ‘ سے مراد مسلمان ہیں۔

کچھ تجزیہ کار ان کی سخت زبان کو انتخابی مہم کے طور پر دیکھتے ہیں، لیکن اوزا کا خیال ہے کہ وہ ذاتی طور پر سخت عقائد رکھتے ہیں۔

’میں واقعی نہیں جانتا کہ کیوں لیکن میں نے انھیں اس دن دیکھا جب میں ان سے پہلی بار ملا تھا اور آج تک ان کا غصہ، ان کا تعصب، مسلمانوں کے تئیں ان کا عدم اطمینان ایک جیسا ہی رہا ہے۔ ان کی نفرت اور عدم قبولیت کی پالیسی وہی اور بہت مضبوط اور سخت ہے۔‘

امت شاہ کے دفتر نے اس بارے میں ہمارے سوالوں کا جواب نہیں دیا لیکن ان کے بچپن کے دوست سدھیر درجی اس سے متفق نہیں ہیں۔

’وہ کبھی بھی مسلمانوں کے خلاف کچھ نہیں کہیں گے اور نہ ہی کریں گے۔ ان کا مقصد سب کو مل کر آگے لے جانا ہے۔‘

تاہم ان کے حلقے میں واقع گجرات کی سب سے بڑی مسلم بستی جوہاپورہ کے رہائشیوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے رکن پارلیمنٹ نے انھیں نظر انداز کیا ہے۔ ہم نے اس بارے میں بھی امت شاہکے دفتر سے رابطہ کیا لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔

Getty Imagesکانگریس پارٹی کے کارکن جے امیت شاہ کے خلاف بدعنوانی کے الزامات پر احتجاج کر رہے ہیں، 2017 میں پی ایم مودی، امیت شاہ اور جے شاہ کے پتلے جلا رہے ہیں بدعنوانی کے الزامات

نریندر مودی اور امت شاہ اکثر اپنے حریفوں پر بدعنوانی کا الزام لگاتے رہتے ہیں، لیکن 2017 میں بی جے پی کو امت شاہ کے اکلوتے بیٹے اور بزنس مین جے امت شاہ کا دفاع اس وقت کرنا پڑا جب ایک نیوز پورٹل دی وائر نے ان پر کرپشن کا الزام عائد کیا تھا کہ امت شاہ کے دور حکومت میں ان کے بیٹے کے کاروبار میں کئی ہزار گنا اضافہ ہوا۔

شاہ جونیئر اور ان کے والد نے اس بات سے انکار کیا کہ بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ان کے کاروبار میں 16,000 گنا اضافہ ہوا ہے۔

انھوں نے اس رپورٹ کو جھوٹا، توہین آمیز اور ہتک آمیز قرار دیا اور دی وائر پر مقدمہ دائر کیا۔یہ معاملہ ابھی تک حل نہیں ہوا ہے۔

حزب اختلاف کے رہنماؤں نے امت شاہ پر جنوری 2021 میں اقربا پروری کا الزام بھی لگایا تھا جب ان کے بیٹے کو انڈیا کے کرکٹ کنٹرول بورڈ کا سکریٹری مقرر کیا گیا تھا۔

امت شاہ نے اپنے بیٹے کا دفاع کیا جبکہ وزیر اعظم مودی خاموش ہیں۔ اور کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ وہ مودی کے لیے کتنے اہم ہیں۔

انڈیا کے مستقبل کے وزیر اعظم؟Getty Images

انڈین وزیر اعظم نریندر مودی 73 برس کے ہیں اور وہ صحت مند ہیں۔ لہٰذا اس بات کا امکان نہیں کہ جلد ہی اس اعلیٰ عہدے کے لیے جگہ خالی ہو گی۔ لیکن جب بھی یہ سوال اٹھتا ہے کہ مودی کے بعد کون؟ تو امت شاہ کا نام سامنے آ تا ہے۔

جبکہ وزیر داخلہ امت شاہ کی عمر 60 سال ہے تاہم حالیہ برسوں میں انھیں صحت سے متعلق کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اگر وہ وزیر اعظم بننے کا کوئی ارادہ رکھتے بھی ہیں تو انھوں نے کبھی اس کا اظہار نہیں کیا۔

’وہ مودی کے دائیں ہاتھ اور کمانڈر ان چیف ہیں۔ مودی ان پر پورا بھروسہ کرتے ہیں اور یہ ایک بات ہے کہ شاہ کبھی بھی انھیں پار کرنے کی کوشش نہیں کریں گے۔ ‘

اوزا کہتے ہیں کہ ہمیشہ سے امت شاہ کے لیے یہ ہے کہ ’اگر مودی نہیں، تو کوئی اور نہیں۔‘

مودی کے نئے وزیر:پڑوسیوں اور اقلیتوں کے لیے کیا پیغامامت شاہ کے دورۂ کشمیر سے توقعات اور خدشاتانڈین کرکٹ بورڈ: کیا جے شاہ کا عروج سورو گنگولی کے زوال کا باعث بنا؟مودی، امت شاہ کی حکمتِ عملی جس نے اتر پردیش میں بی جے پی کو مضبوط کیا’50 ہزار سے 80 کروڑ ایک سال میں'امت شاہ: جنھوں نے مودی کو سپرسٹار بنایاعشرت جہاں کیس:’امت شاہ کے خلاف ٹھوس شواہد نہیں‘’علم تھا لوگ ناراض ہوں گے، پُرتشدد ہونے کا اندازہ نہیں تھا‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More